انسانی تکلیف کا مسئلہ
انسانی تکلیف کا مسئلہ
”اَے خدا کیوں؟“ ایشیائےکوچک میں ایک تباہکُن زلزلے کے بعد ایک مشہور اخبار نے سرِورق پر یہ شہسُرخی لگائی۔ ساتھ میں ایک پریشانحال باپ کی تصویر بھی دی گئی تھی جو اپنے مسمار گھر سے اپنی زخمی بیٹی کو نکالکر اُٹھائے ہوئے تھا۔
جنگیں، قحط، وبائیں اور قدرتی آفات بےپناہ درد، آنسوؤں کے سیلاب اور انگنت اموات کا باعث بنی ہیں۔ اسکے علاوہ، عصمتدری، بچوں سے بدسلوکی اور دیگر جرائم کا نشانہ بننے والے لوگوں کی تکلیف نے بھی انسانی دُکھ میں اضافہ کِیا ہے۔ حادثات کی وجہ سے ہونے والے نقصانات اور اموات کی بڑی تعداد پر غور کریں۔ علاوہازیں اربوں لوگ بیماری، بڑھاپے اور اپنے عزیزوں کی موت کے باعث شدید کرب میں مبتلا ہیں۔
بیسویں صدی نے انتہائی تکلیف کا تجربہ کِیا ہے۔ دوسری جنگِعظیم میں، ۱۹۱۴ سے لیکر ۱۹۱۸ تک تقریباً دس ملین فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ بعض مؤرخین کے خیال میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد بھی اتنی ہی تھی۔ دوسری جنگِعظیم میں تقریباً ۵۰ ملین فوجی اور شہری مارے گئے جن میں لاکھوں نہتے عمررسیدہ مرد، عورتیں اور بچے شامل تھے۔ گزشتہ صدی کے دوران، کئی ملین لوگ نسلکُشی، انقلاب، نسلیاتی تشدد، بھوک اور افلاس کا شکار ہوئے ہیں۔ ہسٹوریکل اٹلس آف دی ٹونٹیتھ سنچری کے تخمینے کے مطابق، ۱۸۰ ملین سے زیادہ لوگ ایسے ”مصائب“ کی وجہ سے جاںبحق ہوئے ہیں۔
سپینش انفلوئنزا نے ۱۹۱۸،۱۹۱۹ میں ۲۰ ملین لوگوں کی جانیں لے لیں۔ گزشتہ دو عشروں میں تقریباً ۱۹ ملین لوگ ایڈز سے ہلاک ہوئے اور اس وقت بھی کوئی ۳۵ ملین لوگوں میں اس کا سبب بننے والا وائرس پایا جاتا ہے۔ لاکھوں والدین ایڈز سے مر گئے اور یوں اپنے بچوں کو یتیم چھوڑ گئے۔ لاتعداد نوزائیدہ بچے ایڈز سے مر رہے ہیں کیونکہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے جراثیم ان میں منتقل ہو گئے تھے۔
بچے دیگر طریقوں سے بھی مزید تکلیف کا نشانہ بنتے ہیں۔ سن ۱۹۹۵ کے اختتام پر بچوں کی امداد کیلئے اقوامِمتحدہ کے اِدارے (یونیسیف) سے فراہمکردہ معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے انگلینڈ کا مانچسٹر گارڈیئن ویکلی بیان کرتا ہے: ”گزشتہ عشرے کی جنگوں میں، ۲ ملین بچے ہلاک، ۴ سے ۵ ملین معذور، ۱۲ ملین بےگھر، ۱ ملین سے زائد یتیم یا والدین سے جُدا ہوگئے اور ۱۰ ملین نفسیاتی تکلیف کا نشانہ بنے ہیں۔“ اسکے علاوہ، پوری دُنیا میں ہر سال تخمیناً ۴۰ سے ۵۰ ملین اسقاطِحمل ہوتے ہیں!
مستقبل کی بابت کیا ہے؟
بہتیرے لوگ مستقبل کو بدشگونی خیال کرتے ہیں۔ سائنسدانوں کے ایک گروپ نے بیان کِیا: ”انسانی سرگرمیاں . . . اس موجودہ دُنیا کو اسقدر تبدیل کر سکتی ہیں کہ یہ زندگی برقرار رکھنے کے قابل نہ رہیگی جس سے ہم واقف ہیں۔“ انہوں نے مزید بیان کِیا: ”عین اس وقت بھی ہر پانچ میں سے ایک آدمی خوراک کی قلّت اور افلاس میں زندگی بسر کرتا ہے اور ہر دس میں سے ایک آدمی انتہائی ناقص غذا کے مسئلے سے دوچار ہے۔“ سائنسدانوں نے اس موقع پر ”تمام نوعِانسانی کو مستقبل کی بابت خبردار کِیا“ اور کہا: ”اگر انسانوں کو وسیع بدحالی اور اس کُرۂارض پر ہمارے گھر کو ناقابلِتلافی نقصان سے بچانا ہے تو زمین اور اس پر کی زندگی کی ہماری نگرانی میں بڑی تبدیلی کا تقاضا کِیا جاتا ہے۔“
خدا نے اسقدر تکلیف اور بُرائی کی اجازت کیوں دے رکھی ہے؟ وہ اس صورتحال کا تدارک کرنے کیلئے کیا مقصد رکھتا ہے؟ ایسا کب ہوگا؟
[صفحہ ۳ پر تصویروں کے حوالہجات]
;Top, wheelchair: UN/DPI Photo 186410C by P.S. Sudhakaran
,starving children: WHO/OXFAM; bottom, emaciated man: FAO middle
photo/B. Imevbore