مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بیاہتا ساتھی کا انتخاب کرنے کیلئے الہٰی راہنمائی

بیاہتا ساتھی کا انتخاب کرنے کیلئے الہٰی راہنمائی

بیاہتا ساتھی کا انتخاب کرنے کیلئے الہٰی راہنمائی

‏”‏مَیں تجھے تعلیم دُونگا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہوگا تجھے بتاؤنگا۔‏ مَیں تجھے صلاح دُونگا۔‏ میری نظر تجھ پر ہوگی۔‏“‏—‏زبور ۳۲:‏۸‏۔‏

۱.‏ ایک کامیاب شادی کیلئے کونسے عناصر ضروری ہیں؟‏

ایک قلاباز بڑی مہارت سے اپنے جسم کو بل دیتا ہوا اپنے ورزشی جھولے سے ہوا میں قلابازیاں لگاتا ہے۔‏ پھر وہ اپنے بدن کو تیزی سے سیدھا کرکے اپنے بازو آگے بڑھاتا ہے اور دوسری طرف اُلٹا لٹکا ہوا ایک اَور قلاباز اُسے پکڑ لیتا ہے۔‏ ایک جوڑا برف کے فرش پر بڑی آسانی سے سکیٹنگ کر رہا ہے۔‏ اچانک،‏ آدمی اپنی ساتھی کو اُٹھا کر ہوا میں اُچھالتا ہے۔‏ وہ گھومتی ہے اور پھر سے فرش پر آکر اپنے ساتھی کے ساتھ خوبصورتی سے ایک پاؤں پر سکیٹنگ کرنے لگتی ہے۔‏ بظاہر یہ دونوں مظاہرے مشکل نظر نہیں آتے۔‏ تاہم،‏ کوئی بھی شخص مشق،‏ ایک قابل ساتھی اور بالخصوص درست راہنمائی اور تربیت کے بغیر ایسا کرنے کی کوشش نہیں کریگا۔‏ اسی طرح،‏ ایک کامیاب شادی بھی محض حسن‌اتفاق معلوم ہو سکتی ہے۔‏ تاہم،‏ اس کا انحصار بھی اچھے ساتھی،‏ مشترکہ کوشش اور خاصکر دانشمندانہ مشورت پر ہے۔‏ واقعی،‏ موزوں راہنمائی ضروری ہے۔‏

۲.‏ (‏ا)‏ کس نے اور کس مقصد کیلئے ازدواجی انتظام کا آغاز کِیا تھا؟‏ (‏ب)‏ شادی کے بعض انتظامات کیسے کئے گئے ہیں؟‏

۲ ایک غیرشادی‌شُدہ مرد یا عورت کے لئے بیاہتا ساتھی یعنی اپنے شریکِ‌حیات کی بابت سوچنا فطرتی بات ہے۔‏ جب سے یہوواہ خدا نے مرد اور عورت کی شادی کا آغاز کِیا ہے تب سے یہ ایک عام طرزِزندگی بن گئی ہے۔‏ لیکن پہلے مرد،‏ آدم نے اپنی بیوی کا انتخاب نہیں کِیا تھا۔‏ یہوواہ نے پُرمحبت طریقے سے خود اُسے بیوی دی تھی۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۸-‏۲۴‏)‏ پہلے جوڑے کو اولاد پیدا کرکے انجام‌کار زمین کو انسانوں سے معمور کرنا تھا۔‏ اس پہلے بندھن کے بعد،‏ عام طور پر دُلہے اور دُلہن کے والدین انکی رضامندی حاصل کرنے کے بعد شادی کے انتظامات کرتے تھے۔‏ (‏پیدایش ۲۱:‏۲۱؛‏ ۲۴:‏۲-‏۴،‏ ۵۸؛‏ ۳۸:‏۶؛‏ یشوع ۱۵:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ اگرچہ ابھی تک بعض ممالک اور ثقافتوں میں والدین کی طرف سے شادیاں طے کرنے کا رواج ہے توبھی بہتیرے اشخاص آجکل اپنے بیاہتا ساتھی کا انتخاب خود ہی کرتے ہیں۔‏

۳.‏ ایک بیاہتا ساتھی کا انتخاب کیسے کِیا جانا چاہئے؟‏

۳ ایک بیاہتا ساتھی کا انتخاب کیسے کِیا جانا چاہئے؟‏ بعض آنکھوں کو دلکش اور پُرکشش معلوم ہونے والی وضع‌قطع سے اثرپذیر ہوتے ہیں۔‏ بعض مادی فوائد کی تلاش کرتے ہیں یعنی کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جو انکی اچھی دیکھ‌بھال کرے گا اور ان کی ضروریات اور خواہشات پوری کرے گا۔‏ لیکن کیا ان میں سے کوئی بھی بات خوشحال اور اطمینان‌بخش رشتے پر منتج ہوگی؟‏ امثال ۳۱:‏۳۰ کہتی ہے:‏ ”‏حسن دھوکا اور جمال بےثبات ہے لیکن وہ عورت جو [‏یہوواہ]‏ سے ڈرتی ہے ستودہ ہوگی۔‏“‏ اس میں ایک اہم نقطہ پنہاں ہے:‏ بیاہتا ساتھی کا انتخاب کرتے وقت یہوواہ کو اپنے فیصلے میں ضرور شامل کریں۔‏

پُرمحبت خدائی راہنمائی

۴.‏ بیاہتا ساتھی کا انتخاب کرنے کے سلسلے میں خدا کونسی مدد فراہم کرتا ہے؟‏

۴ ہمارے شفیق آسمانی باپ،‏ یہوواہ نے تمام معاملات میں ہماری راہنمائی کیلئے اپنا تحریری کلام مہیا کِیا ہے۔‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں ہی [‏یہوواہ]‏ تیرا خدا ہوں جو تجھے مفید تعلیم دیتا ہوں اور تجھے اُس راہ میں جس میں تجھے جانا ہے لے چلتا ہوں۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۸:‏۱۷‏)‏ لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ بائبل میں بیاہتا ساتھی کا انتخاب کرنے کے سلسلے میں آزمودہ راہنمائی پائی جاتی ہے۔‏ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہماری شادیاں دائمی اور خوشحال ہوں۔‏ اسی وجہ سے اس نے ہمیں ان راہنما اصولوں کو سمجھنے اور انکا اطلاق کرنے کیلئے مدد فراہم کی ہے۔‏ کیا ہم اپنے شفیق خالق سے اسی بات کی توقع نہیں کرتے؟‏—‏زبور ۱۹:‏۸‏۔‏

۵.‏ شادی میں ابدی خوشی کیلئے کیا چیز نہایت اہم ہے؟‏

۵ جب یہوواہ نے ازدواجی انتظام کی بنیاد ڈالی تو اس کا مقصد اسے ابدی بندھن قرار دینا تھا۔‏ (‏مرقس ۱۰:‏۶-‏۱۲؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ اسی وجہ سے وہ ”‏طلاق سے بیزار“‏ ہے اور صرف ”‏حرامکاری“‏ کی بنیاد پر اس کی اجازت دیتا ہے۔‏ (‏ملاکی ۲:‏۱۳-‏۱۶؛‏ متی ۱۹:‏۹‏)‏ لہٰذا،‏ بیاہتا ساتھی کا انتخاب کرنا انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اسلئے اسے معمولی خیال نہیں کِیا جانا چاہئے۔‏ بہت ہی کم ایسے فیصلے ہوتے ہیں جن میں خوشی یا غمی کا اتنا زیادہ امکان پایا جاتا ہے۔‏ جس طرح اچھا انتخاب کسی شخص کی زندگی کو بہتر اور تسکین‌بخش بنا سکتا ہے اُسی طرح بُرا انتخاب نہ ختم ہونے والے غم کا باعث بن سکتا ہے۔‏ (‏امثال ۲۱:‏۱۹؛‏ ۲۶:‏۲۱‏)‏ خوشی کو برقرار رکھنے کیلئے،‏ دانشمندی سے انتخاب کرنا اور ایک ابدی عہدوپیمان کے لئے رضامند ہونا نہایت اہم ہے کیونکہ خدا نے شادی کو ایک ایسے باہمی رشتے کے طور پر قائم کِیا تھا جو موافقت اور تعاون سے فروغ پاتا ہے۔‏—‏متی ۱۹:‏۶‏۔‏

۶.‏ خاص طور پر نوجوان مردوزن کو ساتھی کا انتخاب کرتے وقت محتاط کیوں ہونا چاہئے،‏ اور وہ دانشمندانہ فیصلے کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۶ نوجوان مردوں اور عورتوں کو خاص طور پر احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کہ جسمانی کشش اور پُرزور محرکات ایک ساتھی کا انتخاب کرتے وقت ان کی عقل پر پردہ نہ ڈال دیں۔‏ واقعی،‏ صرف ایسے عناصر پر مبنی رشتہ جلد ہی حقارت اور نفرت میں بدل سکتا ہے۔‏ (‏۲-‏سموئیل ۱۳:‏۱۵‏)‏ اس کے برعکس،‏ جب ہم اپنے ساتھی اور خود کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں تو دائمی محبت پیدا کی جا سکتی ہے۔‏ ہمیں اس بات کو پہچاننے کی بھی ضرورت ہے کہ شاید ہمارا دل شروع میں ایسی چیز کی خواہش نہ کرے جو ہمارے لئے بہترین ہے۔‏ (‏یرمیاہ ۱۷:‏۹‏)‏ اسی وجہ سے بائبل میں پائی جانے والی الہٰی راہنمائی نہایت اہم ہے۔‏ اس سے یہ سمجھنے میں ہماری مدد ہوتی ہے کہ ہم زندگی میں دانشمندانہ فیصلے کیسے کر سکتے ہیں۔‏ زبورنویس کے مطابق یہوواہ یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں تجھے تعلیم دونگا اور جس راہ پر تجھے چلنا ہوگا تجھے بتاؤنگا۔‏ مَیں تجھے صلاح دونگا۔‏ میری نظر تجھ پر ہوگی۔‏“‏ (‏زبور ۳۲:‏۸؛‏ عبرانیوں ۴:‏۱۲‏)‏ شادی محبت اور رفاقت کی ہماری جبلّی خواہش کو آسودہ کرنے کے علاوہ پختگی اور فہم کا تقاضا کرنے والے چیلنج بھی پیش کر سکتی ہے۔‏

۷.‏ بعض ساتھی کا انتخاب کرنے کی بابت بائبل پر مبنی مشورت قبول کیوں نہیں کرتے اور ایسی روش کا انجام کیا ہو سکتا ہے؟‏

۷ ساتھی کا انتخاب کرتے وقت شادی کے بانی کی مشورت پر دھیان دینا عقلمندی ہے۔‏ تاہم،‏ والدین اور مسیحی بزرگوں کی طرف سے بائبل پر مبنی مشورت حاصل کرتے وقت ہم مزاحمت کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‏ ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں اچھی طرح نہیں سمجھتے اور اس طرح شدید جذباتی خواہشات ہمیں دل کے خیالات کی پیروی کرنے کیلئے مجبور کر سکتی ہیں۔‏ تاہم،‏ روزمرّہ زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرتے وقت،‏ ہم بھلائی کیلئے پیش کئے گئے دانشمندانہ مشورے پر دھیان نہ دینے کی وجہ سے پچھتا سکتے ہیں۔‏ (‏امثال ۲۳:‏۱۹؛‏ ۲۸:‏۲۶‏)‏ ہماری شادی میں شاید محبت نہ ہو۔‏ ہمیں بچوں کی دیکھ‌بھال اور شاید بےایمان ساتھی کیساتھ گزارا کرنے کی مشکل بھی پیش آ سکتی ہے۔‏ اگر انتہائی خوشی لانے والا انتظام انتہائی پریشانی کا باعث بن جائے تو یہ کتنے دُکھ کی بات ہوگی!‏

خدائی عقیدت—‏ایک کلیدی پہلو

۸.‏ خدائی عقیدت شادی کی پائیداری اور خوشی کیلئے کیسے مددگار ثابت ہوتی ہے؟‏

۸ یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ باہمی کشش کسی شادی کو مضبوط بنانے میں ضرور مفید ثابت ہوتی ہے۔‏ لیکن مشترکہ اقدار ایک ازدواجی بندھن کی پائیداری اور خوشی کیلئے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔‏ یہوواہ خدا کیلئے باہمی عقیدت پائیدار بندھن کو تشکیل دیتی اور کسی بھی دوسرے پہلو سے بڑھکر اتحاد کو فروغ دیتی ہے۔‏ (‏واعظ ۴:‏۱۲‏)‏ سچی پرستش کو اپنی زندگی کا محور بنانے والا ایک مسیحی جوڑا روحانی،‏ ذہنی اور اخلاقی طور پر متحد ہو جاتا ہے۔‏ وہ خدا کے کلام کا ملکر مطالعہ کرتے ہیں۔‏ وہ ملکر دُعا کرتے ہیں جو انکے دلوں کو یکسوئی عطا کرتی ہے۔‏ وہ اکٹھے مسیحی اجلاسوں میں جاتے اور میدانی خدمتگزاری میں اکٹھے کام کرتے ہیں۔‏ یہ سب کچھ روحانی بندھن قائم کرنے میں مدد کرتا ہے جو انہیں ایک دوسرے کی قربت میں لے آتا ہے۔‏ اس سے بھی بڑھکر یہ یہوواہ کی برکت پر منتج ہوتا ہے۔‏

۹.‏ ابرہام نے اضحاق کیلئے بیوی تلاش کرنے کے سلسلے میں کیا کِیا اور اسکا نتیجہ کیا ہوا؟‏

۹ اپنی خدائی عقیدت کی وجہ سے،‏ وفادار آبائی بزرگ ابرہام اپنے بیٹے اضحاق کیلئے بیوی کا انتخاب کرتے وقت خدا کی خوشنودی کا طالب ہوا۔‏ ابرہام نے اپنے گھر کے قابلِ‌اعتبار نوکر سے کہا:‏ ”‏مَیں تجھ سے [‏یہوواہ]‏ کی جو زمین‌وآسمان کا خدا ہے قسم لوں کہ تُو کنعانیوں کی بیٹیوں میں سے جن میں مَیں رہتا ہوں کسی کو میرے بیٹے سے نہیں بیاہیگا۔‏ بلکہ تُو میرے وطن میں میرے رشتہ‌داروں کے پاس جا کر میرے بیٹے اِضحاؔق کے لئے بیوی لائیگا۔‏ .‏ .‏ .‏ [‏یہوواہ]‏ تیرے آگے آگے اپنا فرشتہ بھیجیگا کہ تُو وہاں سے میرے بیٹے کے لئے بیوی لائے۔‏“‏ ربقہ ایک عمدہ بیوی ثابت ہوئی جس سے اضحاق انتہائی محبت کرتا تھا۔‏—‏پیدایش ۲۴:‏۳،‏ ۴،‏ ۷،‏ ۱۴-‏۲۱،‏ ۶۷‏۔‏

۱۰.‏ شوہروں اور بیویوں کیلئے کونسے صحیفائی فرائض ادا کرنا لازمی ہیں؟‏

۱۰ اگر ہم غیرشادی‌شُدہ مسیحی ہیں تو خدائی عقیدت ایسی خوبیاں پیدا کرنے میں ہماری مدد کریگی جو ہمیں شادی کے صحیفائی تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل بنائینگی۔‏ شوہروں اور بیویوں کے فرائض میں سے کچھ کا پولس رسول نے یوں ذکر کِیا:‏ ”‏اَے بیویو!‏ اپنے شوہروں کی ایسی تابع رہو جیسے خداوند کی۔‏ .‏ .‏ .‏ اَے شوہرو!‏ اپنی بیویوں سے محبت رکھو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کرکے اپنے آپ کو اُسکے واسطے موت کے حوالہ کر دیا۔‏ .‏ .‏ .‏ شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔‏ .‏ .‏ .‏ بہرحال تم میں سے بھی ہر ایک اپنی بیوی سے اپنی مانند محبت رکھے اور بیوی اس بات کا خیال رکھے کہ اپنے شوہر سے ڈرتی رہے۔‏“‏ (‏افسیوں ۵:‏۲۲-‏۳۳‏)‏ جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پولس کے الہامی الفاظ محبت اور احترام پر زور دیتے ہیں۔‏ اس مشورت پر عمل کرنے کیلئے یہوواہ کا مؤدبانہ خوف ہونا ضروری ہے۔‏ یہ اچھے اور بُرے وقت میں دلی عہدوپیمان پر قائم رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔‏ شادی کی بابت سوچنے والے مسیحیوں کو یہ ذمہ‌داری نبھانے کے لائق بھی ہونا چاہئے۔‏

شادی کب کریں

۱۱.‏ (‏ا)‏ شادی کرنے کے وقت کی بابت صحائف میں کیا مشورت پائی جاتی ہے؟‏ (‏ب)‏ کونسی مثال ۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۶ میں درج بائبل کی مشورت پر عمل کرنے کی حکمت کو ظاہر کرتی ہے؟‏

۱۱ اس بات کو جاننا اہم ہے کہ ہم شادی کیلئے کب تیار ہیں۔‏ ہر شخص کے معاملے میں چونکہ یہ بات مختلف ہوتی ہے اسلئے صحائف عمر کی کوئی حد مقرر نہیں کرتے۔‏ تاہم،‏ یہ اتنا ضرور بتاتے ہیں کہ ہمیں اُس وقت تک ضرور انتظار کرنا چاہئے جبتک ہماری ”‏جوانی ڈھل“‏ نہیں جاتی کیونکہ جوانی میں جنسی خواہشات واقعی عقل پر پردہ ڈال سکتی ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۶‏)‏ مشل بیان کرتی ہے کہ ”‏جب مَیں نے دیکھا کہ میرے بہت سے دوست نوعمری میں ہی معاشقے اور شادی کر رہے ہیں تو میرے لئے بعض‌اوقات اس مشورت کا اطلاق کرنا مشکل تھا۔‏ لیکن مَیں نے سوچا کہ یہ مشورت یہوواہ کی طرف سے ہے جو ہمیشہ ہمارے فائدے ہی کی بات کرتا ہے۔‏ چنانچہ شادی کے انتظار کے دوران مَیں یہوواہ کے ساتھ اپنے رشتے پر اور زندگی میں کچھ تجربہ حاصل کرنے پر توجہ مُرتکز رکھنے کے لائق ہوئی جسے جواں‌سالی میں حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔‏ کچھ سال بعد،‏ مَیں ذمہ‌داریاں نبھانے اور شادی میں اُٹھنے والے مسائل سے نپٹنے کیلئے اچھی طرح تیار تھی۔‏“‏

۱۲.‏ نوجوانی میں جلدبازی سے شادی نہ کرنا کیوں دانشمندانہ بات ہے؟‏

۱۲ کم‌عمری اور جلدبازی سے شادی کرنے والے اکثراوقات یہ دیکھتے ہیں کہ پختگی کو پہنچنے تک اُنکی ضروریات اور خواہشات بدل جاتی ہیں۔‏ انہیں بعد میں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ جو باتیں انہیں شروع میں دلکش لگتی تھیں اب وہ اتنی اہم نہیں ہیں۔‏ ایک نوجوان مسیحی لڑکی نے ۱۶ سال کی عمر میں شادی کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ اس کی نانی اور ماں کی شادی بھی اسی عمر میں ہوئی تھی۔‏ جس لڑکے کو وہ پسند کرتی تھی جب اُس نے اس کیساتھ شادی کرنے سے انکار کر دیا تو اس نے کسی اَور لڑکے کا انتخاب کر لیا جو شادی کرنے کیلئے تیار تھا۔‏ تاہم،‏ بعد میں اُس نے اپنے جلدبازی سے کئے گئے فیصلے پر گہرے افسوس کا اظہار کِیا۔‏

۱۳.‏ کم‌عمری میں شادی کرنے والوں میں اکثر کس چیز کی کمی ہوتی ہے؟‏

۱۳ شادی پر غور کرتے وقت،‏ اس سے متعلقہ تمام باتوں کی پُختہ سمجھ حاصل کرنا اہم ہے۔‏ کم‌عمری کی شادی نوجوان جوڑے کیلئے ایسے لاتعداد مسائل کھڑے کر سکتی ہے جنکا سامنا کرنے کیلئے وہ بالکل تیار نہیں ہوتا۔‏ ان میں شادی اور بچوں کی پرورش کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری تجربے اور پختگی کی کمی ہو سکتی ہے۔‏ شادی صرف اُسی وقت کی جانی چاہئے جب ہم جسمانی،‏ ذہنی اور روحانی طور پر ایک پائیدار بندھن کیلئے تیار ہیں۔‏

۱۴.‏ شادی میں پریشان‌کُن حالتوں کو سلجھانے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہے؟‏

۱۴ پولس نے لکھا کہ جو شادی کرنا چاہتے ہیں وہ ”‏جسمانی تکلیف پائینگے۔‏“‏ ‏(‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۲۸‏)‏ دو فرق شخصیات اور مختلف نظریات کے باعث مسائل ضرور پیدا ہونگے۔‏ انسانی ناکاملیت کی وجہ سے،‏ شادی کے انتظام میں اپنا صحیفائی کردار ادا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳؛‏ کلسیوں ۳:‏۱۸،‏ ۱۹؛‏ ططس ۲:‏۴،‏ ۵؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۱،‏ ۲،‏ ۷‏)‏ الہٰی راہنمائی حاصل کرنے اور اس پر عمل‌پیرا ہونے کیلئے پختگی اور روحانی توازن درکار ہوتا ہے تاکہ پریشان‌کُن حالتوں کو پُرمحبت طریقے سے سلجھایا جا سکے۔‏

۱۵.‏ والدین اپنے بچوں کو شادی کیلئے تیار کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟‏ وضاحت کریں۔‏

۱۵ والدین اپنے بچوں کو الہٰی راہنمائی پر چلنے کی اہمیت کو سمجھنے میں مدد دینے سے شادی کیلئے تیار کر سکتے ہیں۔‏ والدین صحائف اور مسیحی مطبوعات کے ماہرانہ استعمال سے اپنی اولاد کی یہ تعیّن کرنے میں مدد کر سکتے ہیں کہ آیا وہ یا انکے امکانی ساتھی شادی کے عہدوپیمان کرنے کیلئے تیار ہیں۔‏ * اٹھارہ سالہ بلاسم کے خیال میں اسے اپنی کلیسیا کے ایک نوجوان شخص سے محبت ہو گئی تھی جو ایک کُل‌وقتی پائنیر خادم تھا اور وہ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے۔‏ لیکن اُس کے والدین نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ وہ ابھی بہت چھوٹی ہے،‏ اُسے ایک سال انتظار کرنے کے لئے کہا۔‏ بلاسم نے بعدازاں لکھا:‏ ”‏مَیں نہایت شکرگزار ہوں کہ مَیں نے اس دانشمندانہ نصیحت پر دھیان دیا۔‏ ایک سال کے اندر اندر،‏ مَیں کچھ پُختہ ہوگئی اور دیکھا کہ اس آدمی میں وہ خوبیاں نہیں ہیں جو ایک اچھے بیاہتا ساتھی میں ہونی چاہئیں۔‏ بالآخر اُس نے تنظیم کو چھوڑ دیا اور مَیں اُس تباہی سے بچ گئی جو میری زندگی میں آ سکتی تھی۔‏ دانشمند والدین کتنی بڑی برکت ہیں جنکی بصیرت پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے!‏“‏

‏’‏صرف خداوند میں شادی کریں‘‏

۱۶.‏ (‏ا)‏ ’‏خداوند میں شادی‘‏ کرنے کے سلسلے میں مسیحیوں کی آزمائش کیسے ہو سکتی ہے؟‏ (‏ب)‏ جب کسی بےایمان سے شادی کرنے کی آزمائش ہو تو مسیحیوں کو کس بات پر غور کرنا چاہئے؟‏

۱۶ مسیحیوں کیلئے یہوواہ کی ہدایت بالکل واضح ہے:‏ ’‏صرف خداوند میں شادی کریں۔‏‘‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۹‏)‏ مسیحی والدین اور انکے بچوں کی اس سلسلے میں آزمائش ہو سکتی ہے۔‏ کیسے؟‏ نوجوان شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے کلیسیا میں ساتھیوں کی کمی ہے۔‏ کسی کلیسیا میں عورتوں کی نسبت آدمی کم ہو سکتے ہیں یا ہو سکتا ہے اس کلیسیا میں کوئی بھی موزوں نظر نہ آتا ہو۔‏ ایک نوجوان جو کلیسیا کا مخصوص‌شُدہ رُکن نہیں ہے وہ ایک نوجوان مسیحی عورت میں دلچسپی ظاہر کر سکتا ہے (‏صورتحال اُلٹ بھی ہو سکتی ہے)‏ جسکی وجہ سے یہوواہ کے قائم‌کردہ معیاروں سے مصالحت کرنے کا دباؤ ہو سکتا ہے۔‏ ایسے حالات کے پیشِ‌نظر،‏ ابرہام کے نمونے پر غور کرنا اچھا ہو سکتا ہے۔‏ اُس نے خدا کیساتھ اپنا عمدہ رشتہ برقرار رکھنے کیلئے اس بات کا خیال رکھا کہ اس کا بیٹا اضحاق یہوواہ کی سچی پرستار عورت سے شادی کرے۔‏ اضحاق نے بھی اپنے بیٹے یعقوب کے معاملے میں ایسا ہی کِیا۔‏ ان اشخاص کو اس سلسلے میں کافی کوشش کرنی پڑی مگر اس سے خدا خوش ہوا جسکے نتیجے میں اسکی برکت حاصل ہوئی۔‏—‏پیدایش ۲۸:‏۱-‏۴‏۔‏

۱۷.‏ ایک بےایمان سے شادی کرنا کیوں تباہ‌کُن ہو سکتا ہے اور ’‏خداوند میں شادی کرنے‘‏ کی سب سے اہم وجہ کیا ہے؟‏

۱۷ چند ہی معاملات میں،‏ بےایمان شخص واقعی ایک مسیحی بن گیا ہے۔‏ تاہم،‏ بےایمانوں کیساتھ شادیاں اکثراوقات تباہ‌کُن ثابت ہوئی ہیں۔‏ ناہموار جوئے میں جُتنے والے ایک جیسے اعتقادات،‏ معیار یا نصب‌العین میں شریک نہیں ہوتے ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۴‏)‏ اس سے رابطے اور ازدواجی خوشی پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک مسیحی عورت نے اس حقیقت پر اظہارِافسوس کِیا کہ ایک حوصلہ‌افزا اجلاس کے بعد،‏ اُسے گھر جا کر اپنے بےایمان ساتھی کیساتھ روحانی معاملات پر بات‌چیت کرنا مشکل لگتا تھا۔‏ بیشک،‏ اس سے بھی بڑھکر،‏ ’‏خداوند میں شادی کرنا‘‏ یہوواہ سے وفاداری کا معاملہ بھی ہے۔‏ جب ہم خدا کے کلام کے مطابق عمل کرتے ہیں تو ہمارے دل ہمیں ملامت نہیں کرتے کیونکہ ہم وہی کر رہے ہوتے ہیں ”‏جو کچھ وہ پسند کرتا ہے۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۳:‏۲۱،‏ ۲۲‏۔‏

۱۸.‏ شادی کرنے کی بابت سوچ‌بچار کرتے وقت،‏ کن اہم معاملات پر توجہ دی جانی چاہئے اور کیوں؟‏

۱۸ شادی پر غور کرتے وقت،‏ امکانی ساتھی کی پاکیزگی اور روحانیت اوّلین فکر ہونی چاہئے۔‏ خدا کی محبت اور اُس کیلئے مخلصانہ عقیدت کیساتھ مسیحی شخصیت جسمانی کشش سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔‏ الہٰی خوشنودی سے وہی لوگ استفادہ کرتے ہیں جو روحانی طور پر مضبوط بیاہتا ساتھی بننے کے فرض کو سمجھتے اور پورا کرتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ ایک جوڑے کی زبردست قوت کا راز خالق کیلئے باہمی عقیدت اور اس کی راہنمائی کی مکمل اطاعت میں پنہاں ہے۔‏ اس طرح سے یہوواہ کی تعظیم ہوتی ہے اور شادی ایک مضبوط روحانی بنیاد پر قائم رہتی ہے جو ایک پائیدار بندھن کیلئے معاون ثابت ہوگی۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 15 مینارِنگہبانی فروری ۱۵،‏ ۱۹۹۹،‏ صفحہ ۴-‏۸ کا مطالعہ کریں۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• ایک اچھا بیاہتا ساتھی منتخب کرنے کیلئے الہٰی ہدایت کی کیوں ضرورت ہے؟‏

‏• خدائی عقیدت شادی کے بندھن کو مضبوط بنانے میں کیسے مدد کریگی؟‏

‏• والدین اپنے بچوں کو شادی کیلئے کیسے تیار کر سکتے ہیں؟‏

‏• ’‏صرف خداوند میں شادی‘‏ کرنا کیوں اہم ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویریں]‏

اپنے بیاہتا ساتھی کے انتخاب میں خدا کی مشورت کا اطلاق کرنے سے بیحد خوشی حاصل ہو سکتی ہے

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویریں]‏

‏’‏صرف خداوند میں شادی کرنے‘‏ سے کثیر برکات حاصل ہو سکتی ہیں