خدا کی طرف سے تکلیف کی اجازت کا وقت ختم ہونے والا ہے
خدا کی طرف سے تکلیف کی اجازت کا وقت ختم ہونے والا ہے
آپ جہاں کہیں بھی نگاہ دوڑائیں آپ کو مصیبتزدہ لوگ نظر آتے ہیں۔ بعض لوگ تو خود اس کے ذمہدار ہوتے ہیں۔ انہیں جنسی بیماریاں لگ جاتی ہیں یا پھر منشیات، الکحل کے غلط استعمال یا تمباکونوشی کے اثرات کا تجربہ کرتے ہیں۔ یا شاید انہیں کھانے کی ناقص عادات کی وجہ سے صحت کے مسائل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم، زیادہتر تکلیف ایسے عناصر یا واقعات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو عام انسان کے قابو سے باہر ہیں: مثلاً جنگ، نسلیاتی تشدد، جرائم، غربت، قحط اور بیماری۔ ایک دوسری قسم کی تکلیف بڑھاپا اور موت ہے جس پر انسان بنیادی طور پر قابو نہیں پا سکتا۔
بائبل ہمیں یقیندہانی کراتی ہے کہ ”خدا محبت ہے۔“ (۱-یوحنا ۴:۸) اگر ایسا ہے تو پھر ایک پُرمحبت خدا نے صدیوں سے اس تکلیف کو جاری رہنے کی اجازت کیوں دے رکھی ہے؟ وہ کب اس صورتحال کو تبدیل کریگا؟ ان سوالات کے جواب کیلئے، ہمیں انسان کی بابت خدا کے مقصد کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملیگی کہ خدا نے تکلیف کی اجازت کیوں دی ہے اور وہ اس سلسلے میں کیا کرنے والا ہے۔
آزاد مرضی کی بخشش
خدا نے پہلے انسانی جوڑے کو خلق کرتے وقت محض ایک جسم اور دماغ سے زیادہ کچھ پیدا کِیا تھا۔ علاوہازیں، خدا نے آدم اور حوا کو ذہن کے بغیر روبوٹس نہیں بنایا تھا۔ اس نے انہیں آزاد مرضی کی صلاحیت سے نوازا تھا۔ نیز یہ بخشش واقعی عمدہ تھی کیونکہ ”خدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔“ (پیدایش ۱:۳۱) جیہاں، ”اُسکی صنعت کامل ہے۔“ (استثنا ۳۲:۴) ہم سب اس آزاد مرضی کی بخشش کی قدر کرتے ہیں کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے تمام خیالات اور کام ہمیں کسی بات کے انتخاب کے بغیر بتائے جائیں۔
تاہم، کیا اس آزاد مرضی کی عمدہ بخشش کو کسی حد کے بغیر عمل میں لایا جانا تھا؟ خدا کا کلام ابتدائی مسیحیوں کو دی گئی ہدایات میں اسکا جواب دیتا ہے: ”اپنے آپ کو آزاد جانو مگر اِس آزادی کو بدی کا پردہ نہ بناؤ بلکہ اپنے آپکو خدا کے بندے جانو۔“ (۱-پطرس ۲:۱۶) سب کی بھلائی کے لئے حدود کا ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا آزاد مرضی کو قاعدے قانون کے مطابق استعمال میں لانا تھا۔ بصورتِدیگر بدنظمی پھیل جاتی۔
کس کا قانون؟
کس کے قانون نے آزادی کی مناسب حدود کا تعیّن کرنا تھا؟ اس سوال کے جواب میں ہی وہ بنیادی وجہ موجود ہے کہ خدا نے تکلیف کی اجازت کیوں دی ہے۔ چونکہ خدا نے انسانوں کو خلق کِیا ہے، اس لئے وہی بہتر طور پر جانتا ہے کہ اُن کی اپنی اور دوسروں کی بھلائی کے لئے کون سے قوانین کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ بائبل اسے یوں بیان کرتی ہے: ”مَیں ہی [یہوواہ] تیرا خدا ہوں جو تجھے مفید تعلیم دیتا ہوں اور تجھے اُس راہ میں جس میں تجھے جانا ہے لے چلتا ہوں۔“—یسعیاہ ۴۸:۱۷۔
واضح طور پر، ایک اہم نکتہ یہ ہے: انسان خدا سے خودمختار خلق نہیں ہوئے تھے۔ خدا نے انہیں اس طریقے سے بنایا ہے کہ انکی کامیابی اور خوشی کا انحصار اسکے راست قوانین کی فرمانبرداری کرنے پر ہے۔ خدا کے نبی یرمیاہ نے بیان کِیا: ”اَے [یہوواہ]! مَیں جانتا ہوں کہ انسان کی راہ اُسکے اختیار میں نہیں۔ انسان اپنی روش میں اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔“—یرمیاہ ۱۰:۲۳۔
خدا نے نسلِانسانی کو کششِثقل جیسے طبیعیاتی قوانین کا پابند بنایا۔ اسی طرح، اُس نے انسانوں کو اخلاقی قوانین کا بھی پابند بنایا جو ایک منظم معاشرہ قائم کرنے کیلئے ترتیب دئے گئے ہیں۔ لہٰذا، خدا کا کلام موزوں طور پر نصیحت کرتا ہے: ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔“—امثال ۳:۵۔
لہٰذا، انسانی خاندان خدا کی حکمرانی کے بغیر خود اپنی راہنمائی کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ اُس سے خودمختار ہونے کی کوشش میں لوگ سماجی، معاشی، سیاسی اور مذہبی نظاموں کو ترتیب دیتے ہیں جو ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں اور یوں ”ایک شخص دوسرے پر حکومت کر کے اپنے اُوپر بلا لاتا ہے۔“—واعظ ۸:۹۔
معاملات کیسے بگڑ گئے؟
خدا نے ہمارے پہلے والدین، آدم اور حوا کو ایک کامل آغاز بخشا۔ وہ کامل جسم اور دماغ کے مالک تھے اور ایک فردوسنما باغ انکا گھر تھا۔ اگر انہوں نے خدا کی حکمرانی کی تابعداری کی ہوتی تو وہ کامل اور خوش رہے ہوتے۔ کچھ عرصے بعد، انہوں نے فردوسی زمین پر ایک کامل، پُرمسرت انسانی خاندان کے والدین بن جانا تھا۔ نسلِانسانی کیلئے خدا کا مقصد یہی تھا۔—پیدایش ۱:۲۷-۲۹؛ ۲:۱۵۔
تاہم، ہمارے ابتدائی آباؤاجداد نے اپنی آزاد مرضی کا غلط استعمال کِیا۔ اُنکی غلطفہمی تھی کہ وہ خدا سے خودمختار ہو کر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنی آزاد مرضی سے، انہوں نے خدا کے قوانین کی حدود پار کیں۔ (پیدایش باب ۳) خدا کی حکمرانی کو رد کرنے کی وجہ سے وہ اُنکی کاملیت کو برقرار رکھنے کا پابند نہیں تھا۔ ’وہ اُسکے ساتھ برُی طرح سے پیش آئے، اُسکے فرزند نہ رہے اور یہ اُنکا اپنا عیب تھا۔‘—استثنا ۳۲:۵۔
جس وقت سے آدم اور حوا نے خدا کی نافرمانی کی اُسی دن سے وہ جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہونے لگے۔ یہوواہ ہی زندگی کا سرچشمہ ہے۔ (زبور ۳۶:۹) لہٰذا پہلا انسانی جوڑا خود کو یہوواہ سے الگ کرنے کے باعث ناکامل بن گیا اور انجامکار مر گیا۔ (پیدایش ۳:۱۹) توارثی قوانین کی مطابقت میں، اُنکی اولاد کو صرف وہی مل سکتا تھا جو انکے والدین کے پاس تھا۔ چنانچہ وہ کیا تھا؟ وہ ناکاملیت اور موت تھی۔ لہٰذا پولس رسول نے تحریر کِیا: ”ایک آدمی [آدم] کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اسلئے کہ سب نے گُناہ کِیا۔“—رومیوں ۵:۱۲۔
حاکمیت کا اہم مسئلہ
جب آدم اور حوا نے خدا کے خلاف بغاوت کی تو درحقیقت انہوں نے اُسکی حاکمیت یعنی حکمرانی کرنے کے اُسکے حق کو چیلنج کِیا تھا۔ یہوواہ انکو تباہ کرکے کسی اَور جوڑے کو خلق کر سکتا تھا لیکن یہ بات اس مسئلے کا حل نہیں تھی کہ لوگوں کیلئے کس کی حاکمیت جائز اور بہترین ہے۔ اگر انسانوں کو اپنے خیالات کے مطابق معاشروں کو اُستوار کرنے کا وقت دیا جاتا تو وہ بغیر کسی شکوشُبہ کے یہ ظاہر کرتے کہ خدا سے خودمختار حکمرانی کامیاب ہو سکتی تھی یا نہیں۔
انسانی تاریخ کے ہزاروں سال ہمیں کیا بتاتے ہیں؟ ان تمام صدیوں کے دوران، لوگوں نے کئی قسم کے سماجی، معاشی، سیاسی اور مذہبی نظام آزمائے ہیں۔ تاہم، بُرائی اور تکلیف کم نہیں ہوئی۔ درحقیقت، ’بُرے آدمی‘ خاص طور پر ہمارے زمانہ میں ’بگڑتے‘ چلے جا رہے ہیں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۳۔
بیسویں صدی نے سائنسی اور صنعتی کامرانیوں کی انتہا کو چُھو لیا تھا۔ تاہم اس نے نسلِانسانی کی پوری تاریخ میں سب سے زیادہ تکلیف کو بھی دیکھا تھا۔ چنانچہ طبّی ترقی سے قطعنظر خدا کا قانون ہمیشہ صادق آتا ہے: زندگی کے سرچشمے، خدا سے جدا ہو کر انسان بیمار ہوتے، بوڑھے ہوتے اور مر جاتے ہیں۔ یہ بات واضح طور پر ثابت ہو گئی ہے کہ انسان ’اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا‘!
خدا کی حاکمیت کی توثیق
خدا سے خودمختاری کے اس افسوسناک تجربے نے ہمیشہہمیشہ کے لئے یہ ثابت کر دیا ہے کہ خدا سے جدا انسانی حکمرانی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ صرف خدا کی حکمرانی خوشی، اتحاد، صحت اور زندگی بخش سکتی ہے۔ علاوہازیں، یہوواہ خدا کا قابلِاعتماد کلام، بائبل مُقدس ظاہر کرتا ہے کہ ہم خدا سے خودمختار انسانی حکومت کے ”اخیر زمانہ“ میں رہتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) یہوواہ کی طرف سے اس حکومت، بُرائی اور تکلیف کی اجازت کا وقت ختم ہونے والا ہے۔
خدا بہت جلد انسانی معاملات میں مداخلت کریگا۔ صحائف ہمیں بتاتے ہیں: ”اُن بادشاہوں [موجودہ انسانی حکومتیں] کے ایّام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت [آسمان میں] برپا کریگا جو تاابد نیست نہ ہوگی اور اُسکی حکومت کسی دوسری قوم کے حوالہ نہ کی جائیگی [انسان پھر کبھی زمین پر حکمرانی نہیں کرینگے] بلکہ وہ اِن تمام مملکتوں [موجودہ حکومتیں] کو ٹکڑےٹکڑے اور نیست کریگی اور وہی ابد تک قائم رہیگی۔“—دانیایل ۲:۴۴۔
متی ۲۴:۱۴۔
بائبل کا موضوع آسمانی بادشاہت کے ذریعے، یہوواہ خدا کی حاکمیت کی سربلندی ہے۔ یسوع نے اسے اپنی تعلیم کی بنیاد بنایا۔ اُس نے بیان کِیا: ”بادشاہی کی اِس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہو گی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“—جب خدا کی حکمرانی انسانی حکمرانی کی جگہ لے لیتی ہے تو کون زندہ بچینگے اور کون نہیں؟ امثال ۲:۲۱، ۲۲ میں ہمیں یقیندہانی کرائی گئی ہے: ”راستباز [خدا کی حکمرانی کی تائید کرنے والے] مُلک میں بسینگے اور کامل اُس میں آباد رہیں گے۔ لیکن شریر [خدا کی حکمرانی کی مخالفت کرنے والے] زمین پر سے کاٹ ڈالے جائینگے۔“ خدائی الہام پانے والے زبورنویس نے گیت گایا: ”تھوڑی دیر میں شریر نابود ہو جائیگا۔ . . . لیکن حلیم مُلک کے وارث ہونگے اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہینگے۔ صادق زمین کے وارث ہونگے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔“—زبور ۳۷:۱۰، ۱۱، ۲۹۔
ایک شاندار نئی دُنیا
خدا کی بادشاہت کی حکمرانی کے تحت، اس نظامالعمل کے خاتمے سے بچنے والوں کو بُرائی اور تکلیف سے پاک زمین پر لیجایا جائیگا۔ نسلِانسانی کو خداداد ہدایات فراہم کی جائیں گی اور وقت آنے پر ”جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین [یہوواہ] کے عرفان سے معمور ہوگی۔“ (یسعیاہ ۱۱:۹) اس تقویتبخش اور مفید تعلیم کے نتیجے میں حقیقت میں ایک پُرامن اور متحد انسانی معاشرہ وجود میں آئیگا۔ لہٰذا، پھر جنگ، قتل، تشدد، عصمتدری، چوری یا کوئی اَور جُرم بھی نہیں ہوگا۔
خدا کی نئی دُنیا میں رہنے والے فرمانبردار انسانوں کے لئے شاندار جسمانی فوائد کی بھی بہتات ہوگی۔ خدائی حکمرانی کے خلاف بغاوت کے تمام بُرے اثرات مٹا دئے جائیں گے۔ ناکاملیت، بیماری، بڑھاپا اور موت سب گئی گزری باتیں ہونگی۔ بائبل ہمیں یقیندہانی کراتی ہے: ”وہاں کے باشندوں میں بھی کوئی نہ کہیگا کہ مَیں بیمار ہوں۔“ اس کے علاوہ، صحائف وعدہ کرتے ہیں: ”اُس وقت اندھوں کی آنکھیں وا کی جائیں گی اور بہروں کے کان کھولے جائیں گے۔ تب لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھرینگے اور گونگے کی زبان گائیگی۔“ (یسعیاہ ۳۳:۲۴؛ ۳۵:۵، ۶) ابد تک ہر روز اچھی صحت سے مسرور ہونا کسقدر ہیجانخیز تجربہ ہوگا!
خدا کی پُرمحبت راہنمائی کے تحت، نئی دُنیا کے باشندے پوری زمین کو فردوس بنانے کیلئے اپنی توانائی اور مہارتوں کو بروئےکار لائیں گے۔ غربت، بھوک اور بےخانمائی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گی کیونکہ یسعیاہ کی پیشینگوئی بیان کرتی ہے: ”وہ گھر بنائینگے اور اُن میں بسینگے۔ وہ تاکستان لگائینگے اور اُن کے میوے کھائینگے۔ نہ کہ وہ بنائیں اور دوسرا بسے۔ وہ لگائیں اور دوسرا کھائے۔“ (یسعیاہ ۶۵:۲۱، ۲۲) واقعی، ”ہر ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھیگا اور اُنکو کوئی نہ ڈرائے گا۔“—میکاہ ۴:۴۔
زمین خدا اور فرمانبردار انسانوں کی پُرمحبت نگہداشت سے فائدہ اُٹھائیگی۔ ہمارے پاس یہ صحیفائی یقیندہانیاں ہیں: ”بیابان اور ویرانہ شادمان ہونگے اور دشت خوشی کریگا اور نرگس کی مانند شگفتہ ہوگا۔ . . . بیابان میں پانی اور دشت میں ندیاں پھوٹ نکلینگی۔“ یسعیاہ ۳۵:۱، ۶) ”زمین میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اناج کی افراط ہوگی۔“—زبور ۷۲:۱۶۔
(اُن مرنے والے اربوں لوگوں کی بابت کیا ہے؟ جو لوگ خدا کی یاد میں ہیں انہیں زندہ کِیا جائیگا کیونکہ ”راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔“ (اعمال ۲۴:۱۵) جیہاں، مُردے زندگی پائینگے۔ اُنہیں خدا کی حکمرانی کی بابت شاندار سچائیاں سکھائی جائینگی اور فردوس میں ہمیشہ زندہ رہنے کا موقع بخشا جائیگا۔—یوحنا ۵:۲۸، ۲۹۔
یہوواہ خدا ان طریقوں سے تکلیف، بیماری اور موت کی افسوسناک حالتوں کی مکمل طور پر تلافی کر دیگا جس نے نسلِانسانی کو ہزاروں سالوں سے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ بیماری نہ رہیگی! معذوریاں نہ ہونگی! موت کا خاتمہ ہو جائیگا! خدا ”اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔ اِسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی [رہینگی]۔“—مکاشفہ ۲۱:۳، ۴۔
اس طرح خدا تکلیف کا خاتمہ کریگا۔ وہ اس بدکار دُنیا کو تباہ کرکے ایک بالکل نیا نظامالعمل لائیگا جہاں ”راستبازی بسی رہیگی۔“ (۲-پطرس ۳:۱۳) یہ خوشخبری کتنی شاندار ہے! ہمیں اُس نئی دُنیا کی اشد ضرورت ہے۔ نیز ہمیں اَور زیادہ دیر تک اس کے آنے کا انتظار نہیں کرنا پڑیگا۔ ہم بائبل پیشینگوئیوں کی تکمیل کے ذریعے یہ جانتے ہیں کہ نئی دُنیا بہت جلد آنے والی ہے اور خدا کی طرف سے تکلیف کی اجازت کا وقت ختم ہونے والا ہے۔—متی ۲۴:۳-۱۴۔
[صفحہ ۸ پر بکس]
انسانی حکمرانی کی ناکامی
انسانی حکمرانی کی بابت سابقہ جرمن چانسلر ہلمٹ شمٹ نے بیان کِیا: ”ہم انسانوں نے . . . دُنیا پر ہمیشہ جزوی لحاظ سے حکومت کی ہے اور بیشتر وقت بہت بُری طرح کی ہے۔ . . . ہم نے کبھی بھی مکمل امن کیساتھ حکومت نہیں کی۔“ ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ ۱۹۹۹ نے بیان کِیا: ”تمام ممالک معاشرتی ہلچل، بڑھتے ہوئے جُرم اور گھروں میں بڑھتے ہوئے تشدد کی وجہ سے معاشرتی ساخت کے روبہتنزل ہونے کی رپورٹ دیتے ہیں۔ . . . عالمگیر خطرات بڑھتے جا رہے ہیں اور ان پر قابو پانے کی قومی صلاحیتوں پر سبقت لے جا رہے ہیں اور بینالاقوامی اقدام کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔“
[صفحہ ۸ پر تصویریں]
وہ یقیناً ”سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہینگے۔“ —زبور ۳۷:۱۱
[صفحہ ۵ پر تصویروں کے حوالہجات]
,Third from top, mother and child: FAO photo/B. Imevbore; bottom
explosion: U.S. National Archives photo