حتمی فتح کی جانب رواںدواں!
حتمی فتح کی جانب رواںدواں!
”ایک سفید گھوڑا ہے اور اُسکا سوار کمان لئے ہوئے ہے۔ اُسے ایک تاج دیا گیا اور وہ فتح کرتا ہوا نکلا تاکہ اَور بھی فتح کرے۔“—مکاشفہ ۶:۲۔
۱. یوحنا نے رویا میں مستقبل کے کن واقعات کو دیکھا تھا؟
یوحنا رسول خدائی الہام سے کوئی ۸۰۰،۱ سال پہلے مستقبل کی بابت جاننے اور بطور بادشاہ مسیح کی تختنشینی کو بیان کرنے کے قابل ہوا تھا۔ یوحنا نے جو رویا دیکھی اُس پر یقین کرنے کیلئے اُسے ایمان کی ضرورت تھی۔ ہمارے پاس آجکل اِس بات کا واضح ثبوت موجود ہے کہ پیشینگوئی کے مطابق مسیح کو ۱۹۱۴ میں تختنشین کِیا گیا تھا۔ ایمان کی آنکھوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یسوع مسیح ”فتح کرتا ہوا نکلا [ہے] تاکہ اَور بھی فتح کرے۔“
۲. شیطان نے بادشاہت کے قیام پر کیسا ردِعمل دکھایا ہے اور یہ کس بات کا ثبوت ہے؟
مکاشفہ ۱۲:۷-۱۲) اُس کے غضب کے باعث دُنیا کے حالات اَور بھی زیادہ تشویشناک ہو گئے ہیں۔ انسانی معاشرہ شکستوریخت کا شکار ہے۔ یہوواہ کے گواہوں کے لئے یہ واضح ثبوت ہے کہ اُن کا بادشاہ ’اپنی فتح مکمل کرنے‘ کی جانب رواںدواں ہے۔
۲ بادشاہت کے قیام کے بعد، ابلیس کو آسمان سے نکال دیا گیا جس کی وجہ سے وہ اَور بھی شدت اور قہر کے ساتھ لڑا مگر اُسے کچھ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ (ایک نئے عالمی معاشرے کی تعمیر
۳، ۴. (ا) بادشاہت کے قیام کے وقت سے لیکر مسیحی کلیسیا میں کونسی تنظیمی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور یہ کیوں ضروری تھیں؟ (ب) یسعیاہ کی پیشینگوئی کے مطابق اِن تبدیلیوں کا کیا فائدہ ہوا ہے؟
۳ بادشاہت قائم ہو جانے کے بعد وہ وقت آیا جب بحالشُدہ مسیحی کلیسیا کو اضافی ذمہداریوں کے ساتھ پہلی صدی کی مسیحی کلیسیا کے اُصولوں کی مطابقت میں لانے کی ضرورت پڑی۔ اس بات کے پیشِنظر، دی واچٹاور نے ۱۹۳۸ میں جون ۱ اور ۱۵ کے شماروں میں مسیحی تنظیم کی کارکردگی کا جائزہ پیش کِیا۔ اس کے بعد پھر ۱۹۷۱ میں دسمبر ۱۵ کے شمارے نے مضمون بعنوان ”گورننگ باڈی لیگل کارپوریشن سے فرق“ میں زمانۂجدید کی گورننگ باڈی کی بابت مزید وضاحت فراہم کی۔ سن ۱۹۷۲ میں مقامی کلیسیاؤں کو مدد اور ہدایت فراہم کرنے کے لئے مجلسِبزرگان کی تقرری کی گئی۔
۴ کلیسیاؤں میں مناسب نگرانی کی بحالی سے مسیحی کلیسیا کو بہت زیادہ تقویت حاصل ہوئی۔ گورننگ باڈی نے بزرگوں کو عدالتی معاملات کے علاوہ دیگر فرائض کی انجامدہی کی تربیت دینے کے لئے جو انتظامات کئے وہ باعثِترقی ثابت ہوئے۔ خدا کی زمینی تنظیم میں تدریجی تبدیلیوں اور یسعیاہ ۶۰:۱۷ میں یہ پیشینگوئی کی گئی تھی: ”مَیں پیتل کے بدلے سونا لاؤنگا اور لوہے کے بدلے چاندی اور لکڑی کے بدلے پیتل اور پتھروں کے بدلے لوہا اور مَیں تیرے حاکموں کو سلامتی اور تیرے عاملوں کو صداقت بناؤنگا۔“ یہ مثبت تبدیلیاں الہٰی برکت کی عکاسی کرنے کے علاوہ گرمجوشی کیساتھ خدا کی بادشاہت کی علانیہ حمایت کرنے والے لوگوں کیلئے اُسکی خوشنودی کا ثبوت تھیں۔
ان کے مثبت نتائج کی بابت۵. (ا) اپنے لوگوں پر یہوواہ کی برکت کے لئے شیطان نے کیسا جوابیعمل دکھایا؟ (ب) فلپیوں ۱:۷ کی مطابقت میں، یہوواہ کے لوگوں نے شیطان کے غضب کیلئے کیسا جوابیعمل دکھایا ہے؟
۵ جب بادشاہت قائم ہو گئی تو خدا نے اپنے لوگوں کو پُرمحبت توجہ اور راہنمائی سے نوازا جسے شیطان نے ہرگز نظرانداز نہ کِیا۔ مثال کے طور پر، سن ۱۹۳۱ میں مسیحیوں کے اس چھوٹے سے گروہ نے اعلان کِیا کہ وہ محض بائبل طالبعلم نہیں ہیں۔ اُنہوں نے یہ واضح کر دیا کہ یسعیاہ ۴۳:۱۰ کی مطابقت میں وہ یہوواہ کے گواہ ہیں! یہ محض ایک اتفاق تھا یا حقیقت، بہرحال ابلیس نے دُنیابھر میں ایسی شدید اذیت برپا کر دی جس کی مثال نہیں ملتی۔ مذہبی آزادی کے لئے مشہور ریاستہائےمتحدہ، کینیڈا اور جرمنی جیسے ممالک میں بھی گواہوں کو پرستش کی آزادی کے لئے بارہا مقدمے لڑنے پڑے۔ سن ۱۹۸۸ تک یو.ایس. سپریم کورٹ میں یہوواہ کے گواہوں سے متعلق ۷۱ مقدموں کی سماعت ہو چکی تھی جن میں سے دو تہائی کا فیصلہ اُن کے حق میں ہوا تھا۔ آجکل پوری دُنیا میں، پہلی صدی کی طرح ”خوشخبری کی جوابدہی اور ثبوت میں“ قانونی مقدمے لڑے جا رہے ہیں۔—فلپیوں ۱:۷۔
۶. کیا پابندیاں اور رکاوٹیں یہوواہ کے لوگوں کو آگے بڑھنے سے روک پائیں؟ مثال سے واضح کریں۔
۶ دوسری عالمی جنگ چھڑنے سے پہلے، ۱۹۳۰ کی دہائی کے دوران آمرانہ حکومتوں نے جن میں جرمنی، سپین اور جاپان شامل ہیں، یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم، سن ۲۰۰۰ میں صرف اِن تین ممالک میں خدا کی بادشاہت کے سرگرم مُنادوں کی تعداد تقریباً ۰۰۰،۰۰،۵ تھی۔ یہ تعداد ۱۹۳۶ میں پوری دُنیا میں موجود گواہوں کی تعداد سے تقریباً دس گُنا زیادہ تھی! واضح طور پر، پابندیاں اور رکاوٹیں یہوواہ کے لوگوں کو اپنے فاتح بادشاہ، یسوع مسیح کی قیادت میں آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتیں۔
۷. سن ۱۹۵۸ میں کونسا نمایاں واقعہ پیش آیا اور اُس وقت سے لے کر کیا ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی ہے؟
۷ سن ۱۹۵۸ میں نیو یارک شہر میں منعقد ہونے والی یہوواہ کے گواہوں کی سب سے بڑی بینالاقوامی اسمبلی بعنوان ’الہٰی مرضی‘ آگے بڑھنے کا ایک شاندار اظہار تھی جس کی انتہائی حاضری ۹۲۲،۵۳،۲ تھی۔ سن ۱۹۷۰ تک یہوواہ کے گواہوں کا کام مشرقی جرمنی کے سوا اُن تین ممالک میں شروع ہو چکا تھا جنکا پہلے ذکر کِیا گیا ہے۔ لیکن سویت یونین کے وسیع علاقے اور وارسا معاہدے میں شامل تمام اتحادی ممالک میں گواہوں کے کام پر ابھی بھی پابندی تھی۔ تاہم، اب صورتحال فرق ہے۔ آجکل ان سابقہ کمیونسٹ ممالک میں نصف ملین سے بھی زیادہ سرگرم گواہ موجود ہیں۔
۸. اپنے لوگوں پر یہوواہ کی برکت کا نتیجہ کیا رہا ہے اور ۱۹۵۰ میں دی واچٹاور نے اس سلسلے میں کیا بیان کِیا؟
۸ ”پہلے [خدا کی] بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش“ کرنے کی وجہ سے یہوواہ کے گواہوں کو ترقی بخشی گئی ہے۔ (متی ۶:۳۳) یسعیاہ کی اس پیشینگوئی کی حقیقی تکمیل ہو چکی ہے: ”سب سے چھوٹا ایک ہزار ہو جائے گا اور سب سے حقیر ایک زبردست قوم۔ مَیں [یہوواہ] عین وقت پر یہ سب کچھ جلد کروں گا۔“ (یسعیاہ ۶۰:۲۲) تاہم ترقی ابھی جاری ہے۔ صرف گزشتہ دہائی کے دوران بادشاہتی حکومت کے گرمجوش حمایتیوں کی تعداد میں ۰۰۰،۵۰،۱۷ سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اشخاص رضاکارانہ طور پر ایک ایسے گروہ کا حصہ بن گئے ہیں جن کی بابت ۱۹۵۰ کے واچٹاور نے یہ بیان کِیا تھا: ”خدا اب ایک نئے عالمی معاشرے کو تشکیل دے رہا ہے۔ . . . یہ گروہ ہرمجدون سے بچ نکلے گا . . . یہ سب سے پہلے ’نئی دُنیا‘ میں داخل ہوگا اور خدائی اصولوں کے مطابق منظم اور تنظیمی طریقۂکار سے بخوبی واقف ہوگا۔“ مضمون نے آخر میں بیان کِیا: ”لہٰذا، مستحکم اور متحد ہو کر ایک نئے عالمی معاشرے کے طور پر آگے بڑھیں!“
۹. سالوں کے دوران یہوواہ کے گواہوں نے جو کام سیکھے ہیں وہ کیسے کارآمد ثابت ہوئے ہیں؟
۹ اس دوران ہر لمحہ بڑھنے والے اس نئے عالمی معاشرے نے جو علم اور مہارت حاصل کی ہے وہ نہ صرف زمانۂجدید کے لئے بلکہ ممکنہ طور پر ہرمجدون کے بعد بحالی کے کام کے لئے بھی بیشقیمت ثابت ہو گی۔ مثال کے طور پر، گواہوں نے بڑے بڑے کنونشن منظم کرنا، بحران کی صورت میں فوری مدد فراہم کرنا اور جلد تعمیرات کرنا سیکھ لیا ہے۔ ان کاموں کی وجہ سے بہتیرے لوگ یہوواہ کے گواہوں کی تعریف اور احترام کرتے ہیں۔
غلط تاثرات درست کرنا
۱۰، ۱۱. وضاحت کریں کہ یہوواہ کے گواہوں کی بابت غلط تاثرات کیسے درست ہو گئے ہیں۔
۱۰ ابھی بھی کچھ لوگ یہوواہ کے گواہوں پر انسانی معاشرے سے الگ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گواہ انتقالِخون، غیرجانبداری، تمباکونوشی اور اخلاقیات جیسے معاملات میں بائبل پر مبنی مؤقف اختیار کرتے ہیں۔ تاہم، اب عوام تسلیم کرنے لگے ہیں کہ گواہوں کا نقطۂنظر قابلِغور ہے۔ مثال کے طور پر، پولینڈ کی ایک ڈاکٹر نے یہوواہ کے گواہوں کی انتظامیہ کے دفتر میں فون کرکے کہا کہ ہسپتال میں اُس کی اور اُس کے ساتھیوں کی کئی گھنٹوں تک انتقالِخون کے موضوع پر بحث ہوئی۔ یہ بحث اُس دن پولش روزنامہ ڈیزائننک زاکوڈنی میں شائع ہونے والے مضمون کے باعث شروع ہوئی تھی۔ اس ڈاکٹر نے تسلیم کِیا، ”مجھے ذاتی طور پر طبّی پیشے میں خون کے بیحد استعمال پر سخت افسوس ہے۔ اس رُجحان میں تبدیلی آنی چاہئے اور مَیں خوش ہوں کہ کسی نے تو اس موضوع پر باتچیت شروع کی ہے۔ مَیں مزید معلومات حاصل کرنا چاہونگی۔“
۱۱ گزشتہ سال منعقد ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران، اسرائیل، ریاستہائےمتحدہ، کینیڈا اور یورپ کے طبّی ماہرین نے ایسی معلومات پر باتچیت کی جو خون کے بغیر مریضوں کا علاج کرنے میں ڈاکٹروں کی مدد کرنے کے لئے ترتیب دی گئی تھیں۔ سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں وضاحت کی گئی کہ عام رائے کے برعکس، انتقالِخون قبول کرنے والے مریضوں کی شرحِاموات درحقیقت انتقالِخون قبول نہ کرنے والے مریضوں سے زیادہ ہے۔ لہٰذا، گواہ ان مریضوں کی نسبت ہسپتال سے جلد رُخصت ہونے کے قابل تھے جنکے علاج میں خون استعمال کِیا گیا تھا اور نتیجتاً علاج کے اخراجات بھی کم ہو گئے تھے۔
۱۲. مثال سے واضح کریں کہ ممتاز شخصیات نے سیاسی غیرجانبداری کی بابت یہوواہ کے گواہوں کے مؤقف کو کیسے سراہا ہے۔
۱۲ دوسری عالمی جنگ سے پہلے اور اُس کے دوران نازی تشدد کے تحت یہوواہ کے گواہوں کی برداشت اور غیرجانبدارانہ مؤقف کی وجہ سے اُن کی بہت تعریف کی گئی ہے۔ یہوواہ کے گواہوں کی ویڈیو جیہوواز وِٹنسز سٹینڈ فرم اگینسٹ نازی اسالٹ پہلی بار نومبر ۶، ۱۹۹۶ میں مناسب طور پر جرمنی کے ریونزبروک مرکزِاسیران میں دکھائی گئی جسے کافی سراہا گیا اور گواہوں کی بابت حوصلہافزا بیانات دئے گئے۔ اپریل ۱۸، ۱۹۹۸ کو برگنبلزن کے بدنامِزمانہ مرکزِاسیران میں ایک ایسی ہی پیشکش کی افتتاحی تقریب کے دوران لوور سیکسنی میں سیاسی تعلیم کے مرکز کے منتظم، ڈاکٹر ولفگینگ شیل نے تسلیم کِیا: ”یہ واقعی تاریخ کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہوواہ کے گواہوں نے قومی اشتراکیت کو رد کرنے کے سلسلے میں دُنیائےمسیحیت سے کہیں زیادہ مضبوط عزم کا مظاہرہ کِیا تھا۔ . . . یہوواہ کے گواہوں کی تعلیمات اور مذہبی جوش کی بابت ہم چاہے کچھ بھی کہیں، نازی حکومت کے دوران اُن کی ثابتقدمی واقعی قابلِاحترام ہے۔“
۱۳، ۱۴. (ا) ایک غیرمتوقع شخص نے ابتدائی مسیحیوں کے حق میں کون سی دانشمندانہ بات کہی تھی؟ (ب)آجکل خدا کے لوگوں کے حق میں مثبت بیانات کی مثالیں پیش کریں۔
۱۳ متنازعہ معاملات میں جب ممتاز شخصیات کی رائے یا عدالتی فیصلے یہوواہ کے گواہوں کے حق میں ہوتے ہیں تو یہ تعصب ختم کرنے اور گواہوں کی بابت ایک انصافپسند نظریہ قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس سے اکثر ایسے لوگوں سے باتچیت کرنے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے جو پہلے سننے کے لئے تیار نہ تھے۔ لہٰذا، یہوواہ کے گواہ ایسے مثبت اقدام کو سراہتے اور اُن کی قدر کرتے ہیں۔ اس سے یقیناً ہمیں پہلی صدی کے دوران یروشلیم میں پیش آنے والا واقعہ یاد آتا ہے۔ جب یہودی صدرعدالت گرمجوش منادی کے باعث پہلی صدی کے مسیحیوں کو قتل کرنا چاہتی تھی تو ”شرع کا مُعلم اور سب لوگوں میں عزتدار،“ شخص گملیایل اُنہیں خبردار کرنے کو اُٹھا اور کہا: ”اَے اسرائیلیو! ان آدمیوں کے ساتھ جو کچھ کِیا چاہتے ہو ہوشیاری سے کرنا۔ . . . ان آدمیوں سے کنارہ کرو اور ان سے کچھ کام نہ رکھو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا سے بھی لڑنے والے ٹھہرو کیونکہ یہ تدبیر یا کام اگر آدمیوں کی طرف سے ہے تو آپ برباد ہو جائے گا۔ لیکن اگر خدا کی طرف سے ہے تو تم اِن لوگوں کو مغلوب نہ کر سکو گے۔“—اعمال ۵:۳۳-۳۹۔
۱۴ گملیایل کی طرح، ممتاز شخصیات نے حال ہی میں یہوواہ کے گواہوں کی مذہبی آزادی کے حق کی حمایت کی ہے۔ مثال کے طور پر، مذہب اور اعتقاد کی آزادی کی بینالاقوامی اکیڈمی کے سابقہ صدر نے یہ دلیل پیش کی: ”کسی بھی مذہب کے مذہبی حقوق پر محض اس لئے پابندی عائد نہیں کی جانی چاہئے کہ معاشرہ اس کے اعتقادات کو ناقابلِقبول یا غیرروایتی خیال کرتا ہے۔“ اس کے علاوہ، لپزگ یونیورسٹی میں مذہب کے سائنسی مطالعے کے پروفیسر نے نامنہاد مذہبی فرقوں کی تفتیش کے سلسلے میں جرمن کے حکومتی کمیشن سے ایک اہم سوال پوچھا: ”ہمیشہ رومن کیتھولک اور لوتھرن چرچ کو چھوڑ کر صرف مذہبی اقلیتوں کی تفتیش ہی کیوں کی جاتی ہے؟“ اس سوال کا جواب ہمیں ایک سابقہ جرمن افسر کے الفاظ میں ملتا ہے جس نے بالکل واضح طور پر تحریر کِیا: ”اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومتی کمیشن کے سیاسی مؤقف کے پیچھے چرچ کے متعصّب انتہاپسندوں کا ہی ہاتھ تھا۔“
ہم نجات کیلئے کس پر توکل کرتے ہیں؟
۱۵، ۱۶. (ا) گملیایل کی بات کا اثر محدود کیوں تھا؟ (ب) تین اَور بارسوخ اشخاص یسوع کی مدد کیوں نہیں کر پائے تھے؟
۱۵ گملیایل کا بیان اِس واضح حقیقت کو اُجاگر کرتا ہے کہ جس کام کو الہٰی حمایت حاصل ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہو سکتا۔ صدرعدالت کے سامنے اُس کا بیان ابتدائی مسیحیوں کے لئے یقیناً کارآمد ثابت ہوا مگر وہ یسوع کے الفاظ کی صداقت بھی نہیں بھولے تھے کہ اُس کے شاگرد ستائے جائیں گے۔ گملیایل کی بات نے مسیحیوں کو قتل کرنے کے لئے مذہبی پیشواؤں کے منصوبوں کو روک دیا لیکن اس سے اذیت کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا تھا کیونکہ ہم پڑھتے ہیں: ”اُنہوں نے اُس کی بات مانی اور رسولوں کو پاس بلا کر اُن کو پٹوایا اور یہ حکم دے کر چھوڑ دیا کہ یسوؔع کا نام لیکر بات نہ کرنا۔“—اعمال ۵:۴۰۔
۱۶ جب یسوع پر مقدمہ چل رہا تھا تو پُنطیُس پیلاطُس نے اُسے بیگناہ پا کر چھوڑ دینے کی کوشش کی۔ تاہم اُسے ناکامی ہوئی۔ (یوحنا ۱۸:۳۸، ۳۹؛ ۱۹:۴، ۶، ۱۲-۱۶) یہودی صدرعدالت کے دو رُکن، نیکدیمس اور ارمتیاہ کا یوسف چاہتے ہوئے بھی یسوع کے خلاف عدالتی کارروائی کو روک نہ سکے۔ (لوقا ۲۳:۵۰-۵۲؛ یوحنا ۷:۴۵-۵۲؛ ۱۹:۳۸-۴۰) انسانوں کا محرک خواہ کچھ بھی ہو وہ یہوواہ کے لوگوں کا دفاع کرنے سے ان کے لئے جو چھٹکارا حاصل کرتے ہیں وہ ہمیشہ محدود ثابت ہوتا ہے۔ دُنیا یسوع مسیح کی طرح اُس کے سچے پیروکاروں سے بھی نفرت کرتی رہے گی۔ اس لئے مکمل نجات صرف یہوواہ کی طرف سے مل سکتی ہے۔—اعمال ۲:۲۴۔
۱۷. یہوواہ کے گواہوں کا حقیقتپسندانہ نظریہ کیا ہے، تاہم خوشخبری کی منادی جاری رکھنے کے سلسلے میں اُنکا عزم کمزور کیوں نہیں ہوتا؟
۱۷ یہوواہ کے گواہ حقیقتپسند ہیں اس لئے وہ توقع کرتے ہیں کہ اذیت اسی طرح جاری رہیگی۔ مخالفت اُس وقت ختم ہوگی جب شیطان کا نظام مکمل طور پر شکست کھائے گا۔ تاہم، ناخوشگوار ہونے کے باوجود یہ اذیت گواہوں کو بادشاہت کی منادی کرنے کی تفویض کو پورا کرنے سے نہیں روک سکتی۔ کیا انکے کام کو روکنا ممکن ہے جبکہ انہیں الہٰی حمایت حاصل ہے؟ وہ اپنے دلیر راہنما، یسوع مسیح پر توکل کرتے ہیں جس نے اُن کے لئے کامل نمونہ چھوڑا ہے۔—اعمال ۵:۱۷-۲۱، ۲۷-۳۲۔
۱۸. مستقبل میں یہوواہ کے لوگوں کو کونسی مشکل پیش آئیگی لیکن وہ کس انجام کا یقین رکھتے ہیں؟
۱۸ شروع ہی سے سچے مذہب نے سخت مخالفت کا سامنا کِیا ہے۔ اب جلد ہی سچا مذہب جوج یعنی آسمان سے نکالے جانے کے بعد سے نہایت گھٹیا حالت میں پڑے ہوئے شیطان کی طرف سے سخت حملے کا نشانہ بنے گا۔ تاہم اس سے سچے پرستاروں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سچے مذہب کی فتح یقینی ہے۔ (حزقیایل ۳۸:۱۴-۱۶) ’ساری دُنیا کے بادشاہ‘ شیطان کی راہنمائی میں ”بّرہ سے لڑیں گے اور بّرہ اُن پر غالب آئے گا کیونکہ وہ خداوندوں کا خداوند اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔“ (مکاشفہ ۱۶:۱۴؛ ۱۷:۱۴) جیہاں، ہمارا بادشاہ حتمی فتح کی جانب رواںدواں ہے اور بہت جلد وہ ’اپنی فتح مکمل‘ کرے گا۔ اُس کے ساتھ ساتھ چلنا واقعی بہت بڑا شرف ہے کیونکہ کچھ ہی دیر بعد یہوواہ کے پرستاروں کی اس پُراعتماد بات سے پھر کوئی بھی اختلاف نہیں کر پائے گا کہ ”خدا ہماری طرف ہے“!—رومیوں ۸:۳۱؛ فلپیوں ۱:۲۷، ۲۸۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• یہوواہ نے بادشاہت کے قیام سے لیکر مسیحی کلیسیا کو مضبوط کرنے کیلئے کیا کِیا ہے؟
• شیطان نے مسیح کو اپنی فتح مکمل کرنے سے روکنے کی کیا کوشش کی ہے اور اس کے نتائج کیا رہے ہیں؟
• ہمیں اُن لوگوں کے مثبت عمل کی بابت کونسا متوازن نظریہ اپنانا چاہئے جو گواہ نہیں ہیں؟
• شیطان عنقریب کیا کرنے والا ہے اور اُسکا انجام کیا ہوگا؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
کنونشنیں یہوواہ کے لوگوں کی ترقی کا ثبوت ہیں
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
دوسری عالمی جنگ کے دوران گواہوں کی غیرجانبداری ابھی تک یہوواہ کی تمجید کا باعث بن رہی ہے