سوالات از قارئین
سوالات از قارئین
اگر یہوواہ فدیے کی قربانی کے وسیلے گناہ معاف کرنے کیلئے تیار ہے توپھر مسیحیوں کیلئے کلیسیائی بزرگوں کے سامنے اعتراف کرنا کیوں ضروری ہے؟
داؤد اور بتسبع کے معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ داؤد کا گناہ اگرچہ بہت سنگین تھا لیکن پھربھی اُسکی سچی توبہ کے باعث یہوواہ نے اُسے معاف کِیا۔ جب ناتن نبی اس کے پاس آیا تو داؤد نے صاف طور پر اعتراف کِیا: ”مَیں نے [یہوواہ] کا گناہ کِیا۔“—۲-سموئیل ۱۲:۱۳۔
تاہم، یہوواہ گنہگار کے مخلصانہ اعتراف کو قبول کرتے ہوئے اُسے معاف کرنے کے علاوہ ایسا پُرمحبت بندوبست بھی کرتا ہے جس سے گنہگار کی روحانی بحالی میں مدد ہوتی ہے۔ داؤد کو ناتن نبی کے ذریعے مدد فراہم کی گئی تھی۔ آجکل، مسیحی کلیسیا میں روحانی طور پر پُختہ اشخاص یا بزرگ موجود ہیں۔ یعقوب شاگرد وضاحت کرتا ہے: ”اگر تم میں کوئی [روحانی طور پر] بیمار ہو تو کلیسیا کے بزرگوں کو بلائے اور وہ [یہوواہ] کے نام سے اُسکو تیل مل کر اُسکے لئے دُعا کریں۔ جو دُعا ایمان کے ساتھ ہوگی اُسکے باعث بیمار بچ جائیگا اور [یہوواہ] اُسے اُٹھا کھڑا کریگا اور اگر اُس نے گناہ کئے ہوں تو اُنکی بھی معافی ہو جائیگی۔“—یعقوب ۵:۱۴، ۱۵۔
تجربہکار بزرگ اُس دُکھ کو کم کرنے کیلئے بہت کچھ کر سکتے ہیں جو ایک تائب گنہگار محسوس کرتا ہے۔ وہ خطاکاروں کیساتھ اپنے برتاؤ میں یہوواہ کی نقل گلتیوں ۶:۱) تاہم اگر ایک شخص رضامندی کے ساتھ خود اپنے گناہوں کا اعتراف نہیں کرتا تو جیسے ناتن نبی کے داؤد کے پاس جانے سے اُس نے توبہ کی تھی اسی طرح بزرگوں کے اس خطاکار کے پاس جانے سے اُسے توبہ کرنے کی تحریک مل سکتی ہے۔ لہٰذا، بزرگوں کی مدد سے خطاکار دوبارہ گناہ کے خطرے میں پڑنے اور غیرتائب گنہگار بننے کے سنگین نتائج سے بچنے کے قابل ہوتا ہے۔—عبرانیوں ۱۰:۲۶-۳۱۔
کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ صورتحال سخت تنبیہ کا تقاضا کرے توبھی وہ سنگدل نہیں بننا چاہتے۔ اسکے برعکس، وہ مشفقانہ طور پر اس شخص کی فوری ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ خدا کے کلام کے ذریعے صبر کیساتھ قصوروار کی سوچ کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (یقیناً شرمندگی کا باعث بننے والے کاموں کا دوسروں کے سامنے اعتراف کرنا اور معافی مانگنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کیلئے باطنی قوت کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاہم، متبادل صورتحال پر غور کریں۔ کلیسیائی بزرگوں کے سامنے اپنے سنگین گناہ کا اعتراف کرنے میں ناکام ہونے والے ایک شخص نے بیان کِیا: ”میرا ضمیر مجھے مسلسل ملامت کرتا رہا۔ مَیں نے منادی کے کام میں اَور زیادہ حصہ لینے کی کوشش کی لیکن شرمندگی کا احساس برقرار رہا۔“ اس نے محسوس کِیا کہ دُعا میں خدا کے سامنے اعتراف کر لینا کافی ہے لیکن دراصل ایسا نہیں تھا کیونکہ اُسکے احساسات بالکل بادشاہ داؤد جیسے تھے۔ (زبور ۵۱:۸، ۱۱) پس، بزرگوں کے ذریعے فراہمکردہ یہوواہ کی پُرشفقت مدد کو قبول کرنا کتنا مفید ہے!