مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

غم کے باوجود شادمان اور شکرگزار

غم کے باوجود شادمان اور شکرگزار

میری کہانی میری زبانی

غم کے باوجود شادمان اور شکرگزار

از نینسی ای.‏ پورٹر

یہ ریاستہائےمتحدہ کے جنوب‌مشرقی ساحل سے دُور،‏ بہاماز جزائر میں جون ۵،‏ ۱۹۴۷ کی ایک گرم شام تھی۔‏ ایک امیگریشن افسر غیرمتوقع طور پر مجھ سے اور میرے شوہر،‏ جارج سے ملنے کے لئے آیا۔‏ اُس نے ہمیں ایک خط تھمایا جسکے مطابق جزائر میں ہماری موجودگی ناگوار گزر رہی تھی اسلئے ہمیں ”‏فوری طور پر وہاں سے نکل جانے“‏ کا حکم دیا گیا تھا۔‏

ہم بہاماز کے سب سے بڑے شہر،‏ ناسو میں آنے والے یہوواہ کے گواہوں کے پہلے مشنری تھے۔‏ نیو یارک کے شمال میں مشنری سکول آف گلئیڈ کی آٹھویں کلاس سے گریجویشن کے بعد ہمیں اس علاقے میں تعینات کِیا گیا تھا۔‏ تین ماہ کے مختصر سے عرصے کے دوران ہمارے کس کام کی وجہ سے سخت مخالفت ہو رہی تھی؟‏ تاہم،‏ مَیں ۵۰ سال سے بھی زائد عرصہ بعد یہاں کیوں ہوں؟‏

خدمتگزاری کی تربیت

میرے والد ہیری کل‌نر نے میری طرزِزندگی پر گہرا اثر ڈالا تھا۔‏ یہوواہ کا گواہ بننے کیلئے انکی کئی قربانیوں نے میرے لئے ایک عمدہ نمونہ قائم کِیا۔‏ خراب صحت کے باوجود وہ ہر ہفتے کے آخر پر منادی میں حصہ لینے کی کوشش کرتے اور بادشاہتی مفادات کو اوّل درجہ دیتے تھے۔‏ (‏متی ۶:‏۳۳‏)‏ ہماری مالی حالت اچھی نہیں تھی لیکن ۱۹۳۰ کے دہے میں لتھ‌برج،‏ البرٹا،‏ کینیڈا میں اُنکی جوتوں کی دُکان روحانی کارگزاری کا مرکز تھی۔‏ میری ابتدائی یادیں ہمارے گھر پر آنے اور اپنے تجربات سنانے والے یہوواہ کے گواہوں کے کُل‌وقتی خادموں یعنی پائنیروں سے تعلق رکھتی ہیں۔‏

مَیں نے ۱۹۴۳ میں فورٹ میک‌لیوڈ اور کلیرس‌ہوم،‏ البرٹا میں پائنیر خدمت شروع کر دی۔‏ اُس وقت تک،‏ دوسری عالمی جنگ کے دوران مخالفوں کی غلط افواہوں کی وجہ سے کینیڈا میں ہمارے منادی کے کام پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔‏ ہمارا علاقہ ۱۰۰ کلومیٹر تک محیط تھا تاہم جوان اور تندرست‌وتوانا ہونے کے باعث ہمیں سائیکلوں پر اس علاقے کی چھوٹی‌چھوٹی بستیوں تک پہنچنا مشکل نہیں لگتا تھا۔‏ مجھے اس وقت کے دوران گلئیڈ کے کچھ گریجویٹس سے بات‌چیت کرنے کا موقع ملا اور اُنکے تجربات سنکر میرے اندر بھی مشنری بننے کی خواہش پیدا ہوئی۔‏

مَیں نے ۱۹۴۵ میں جارج پورٹر سے شادی کر لی جس کا تعلق سسکاچیوان،‏ کینیڈا سے تھا۔‏ اسکے والدین ۱۹۱۶ سے سرگرم گواہ تھے اور اُس نے بھی کُل‌وقتی خدمت اختیار کر رکھی تھی۔‏ ہماری پہلی تفویض کینیڈا،‏ وانکور کے شمال میں خوبصورت لائن ویلی میں تھی۔‏ ہمیں کچھ ہی عرصے بعد گلئیڈ آنے کی دعوت دی گئی۔‏

مَیں نے کئی سالوں کے دوران بہتیری مذہبی سیمنریوں سے تربیت‌یافتہ اشخاص سے بات‌چیت کرکے دیکھا ہے کہ اُنکی مذہبی تربیت نے خدا اور اُس کے کلام،‏ بائبل پر اُن کے ایمان کو کھوکھلا کر دیا ہے۔‏ اس کے برعکس،‏ ہماری گلئیڈ کی تعلیم نے ہماری سوچنے کی صلاحیت کو فروغ دیا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس نے یہوواہ خدا اور اُسکے کلام پر ہمارے ایمان کو مضبوط کِیا۔‏ ہمارے ہم‌جماعتوں کو چین،‏ سنگاپور،‏ انڈیا،‏ افریقہ کے ممالک،‏ جنوبی امریکہ اور دیگر علاقوں میں تعینات کِیا گیا۔‏ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ہم کتنے خوش ہوئے تھے جب ہمیں یہ پتہ چلا کہ ہمیں بہاماز کے استوائی جزائر میں بھیجا جا رہا ہے۔‏

ہم رہنے کے قابل کیسے ہوئے

ہمارے ہم‌جماعتوں کے سفر کے برعکس،‏ بہاماز تک ہمارا سفر کم تھا۔‏ ہم جلد ہی موسمِ‌گرما کے دنوں،‏ نیلے آسمانوں،‏ نیلے پانیوں،‏ رنگین عمارتوں اور بیشمار سائیکلوں کے نظاروں سے محظوظ ہونے لگے۔‏ تاہم ابتدائی یادوں میں سے،‏ زیادہ اثرآفرین یاد ہماری کشتی کا انتظار کرنے والے پانچ گواہوں کے چھوٹے سے گروہ سے وابستہ ہے۔‏ ہم نے جلد ہی یہ جان لیا کہ یہاں کی ثقافت ہماری ثقافت سے بہت مختلف ہے جسکے ہم عادی تھے۔‏ مثال کے طور پر،‏ میرے شوہر سے کہا گیا کہ وہ مجھے دوسروں کے سامنے جان کہنے سے گریز کرے کیونکہ بہاماز میں یہ اصطلاح عام طور پر ازدواجی بندھن کے بغیر رہنے والے جوڑے استعمال کرتے تھے۔‏

کچھ ہی دیر بعد،‏ پادریوں نے لوگوں کیساتھ ہمارے میل‌جول کو مبیّنہ خطرہ محسوس کرتے ہوئے ہم پر کمیونسٹ ہونے کا غلط الزام لگایا۔‏ نتیجتاً ہمیں مُلک چھوڑنے کا حکم ملا۔‏ تاہم جزائر میں ۲۰ سے بھی کم گواہوں نے ہمارے وہاں رہنے کی اجازت کیلئے فوراً ایک درخواست پر ہزاروں لوگوں کے دستخط حاصل کر لئے۔‏ لہٰذا،‏ بےدخلی کا حکم منسوخ ہو گیا۔‏

نئے علاقے میں

خدا سے محبت رکھنے والے دلوں میں بائبل سچائی جلد جڑ پکڑنے لگی،‏ اسلئے مزید گلئیڈ مشنریوں کو بہاماز بھیجا گیا۔‏ بعدازاں،‏ ۱۹۵۰ میں ایک برانچ دفتر قائم کِیا گیا۔‏ دس سال بعد،‏ نیو یارک،‏ بروکلن ہیڈکوارٹرز سٹاف کے رُکن ملٹن ہینشل نے بہاماز کا دورہ کِیا اور مشنریوں سے پوچھا کیا کوئی بہاماز کے ایک دوسرے جزیرے میں منادی کا کام شروع کرنے کے لئے تیار ہے۔‏ جارج اور مَیں نے رضاکارانہ خدمت پیش کی اور یوں لانگ آئی‌لینڈ میں ہم نے ۱۱ سال کا عرصہ گزارا۔‏

بہاماز کئی جزیروں پر مشتمل ہے اور ان میں سے یہ جزیرہ ۱۴۰ کلومیٹر لمبا اور ۶ کلومیٹر چوڑا ہے اور اُس زمانہ میں وہاں کوئی خاص شہری آبادی نہیں تھی۔‏ یہاں کے دارالحکومت،‏ کلارنس ٹاؤن میں تقریباً ۵۰ گھر تھے۔‏ زندگی بہت سادہ تھی—‏بجلی،‏ پانی اور گھروں میں کھانا پکانے اور نلکوں کی سہولیات میسر نہیں تھیں۔‏ لہٰذا ہمیں خود کو اس دُورافتادہ جزیرے کی زندگی کے مطابق ڈھالنا پڑا۔‏ یہاں صحت‌عامہ پر بات‌چیت کرنا لوگوں کا پسندیدہ موضوع تھا۔‏ ہم نے دوسروں کی خیروعافیت پوچھتے وقت اس سوال سے گریز کرنا سیکھ لیا،‏ ”‏آج آپ کیسے ہیں؟‏“‏ کیونکہ جواب اکثر ایک شخص کی صحت کی تفصیلات پر مشتمل ہوتا تھا۔‏

ہم اکثر باورچی‌خانوں میں گواہی دیتے تھے کیونکہ لوگ عموماً گھر سے باہر واقع،‏ چھتر والے باورچی‌خانوں میں ملتے تھے جہاں لکڑیوں کے چولھے جلائے جاتے تھے۔‏ ان بستیوں میں زیادہ‌تر غریب مگر بہت مہربان کسان یا ماہی‌گیر رہتے تھے۔‏ ان میں سے بہتیرے مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ توہم‌پرست بھی تھے۔‏ عام طور پر غیرمتوقع واقعات شگون سمجھے جاتے تھے۔‏

پادری لوگوں کے گھروں میں زبردستی گھس کر ہماری پیش‌کردہ بائبل مطبوعات کو پھاڑنے میں کوئی ندامت محسوس نہیں کرتے تھے۔‏ یوں وہ کچدِلوں کو خوفزدہ کرتے تھے مگر سب ان کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتے تھے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک ۷۰ سالہ دلیر خاتون ان کی دھمکیوں میں نہیں آئی تھی۔‏ وہ ذاتی طور پر بائبل کی سمجھ حاصل کرنا چاہتی تھی اور انجام‌کار وہ بھی کئی دوسرے لوگوں کیساتھ گواہ بن گئی۔‏ جب ہم نے لوگوں میں مزید دلچسپی دیکھی تو کئی مرتبہ انہیں اتوار کے اجلاسوں پر حاضر ہونے میں مدد دینے کے لئے جارج کو گاڑی میں ۳۰۰ کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا تھا۔‏

شروع میں جب وہاں کوئی بھی گواہ نہیں تھے تو جارج اور مَیں اپنی روحانیت برقرار رکھنے کے لئے تمام مسیحی اجلاس باقاعدگی سے منعقد کِیا کرتے تھے۔‏ اس کے علاوہ ہم ہر سوموار کی شام مینارِنگہبانی کے مطالعے اور بائبل پڑھائی کے باقاعدہ پروگرام پر عمل کرتے تھے۔‏ ہمیں جونہی مینارِنگہبانی اور جاگو!‏ کے شمارے ملتے تو ہم اُنہیں پڑھ لیا کرتے تھے۔‏

جب ہم لانگ آئی‌لینڈ میں تھے تو میرے والد کی وفات ہو گئی۔‏ سن ۱۹۶۳ کے موسمِ‌گرما میں،‏ ہم نے ماں کیلئے اپنے قریب رہنے کا بندوبست کِیا۔‏ عمررسیدہ ہونے کے باوجود اُس نے اپنے ماحول سے کافی حد تک مطابقت پیدا کر لی اور ۱۹۷۱ میں اپنی موت تک لانگ آئی‌لینڈ میں رہی۔‏ آج لانگ آئی‌لینڈ میں ایک کلیسیا اور ایک بالکل نیا کنگڈم ہال موجود ہے۔‏

ایک دل‌شکن چیلنج

جارج کو ۱۹۸۰ میں پتہ چلا کہ اُسکی صحت بگڑ رہی ہے۔‏ یوں میری زندگی کا سب سے تلخ تجربہ شروع ہوا جس کے دوران مَیں نے اپنے عزیز شوہر،‏ ساتھی کارکن اور ہمدرد کو الزیمیز بیماری کا شکار ہوتے ہوئے دیکھا۔‏ اُسکی پوری شخصیت بدل گئی۔‏ سن ۱۹۸۷ میں اُسکی موت کے تقریباً چار سال پہلے کا آخری مرحلہ سب سے زیادہ مایوس‌کُن تھا۔‏ وہ جہانتک ممکن ہوتا میرے ساتھ خدمتگزاری اور اجلاسوں پر جاتا تھا اور ایسا کرنے کیلئے اُس کی کوشش دیکھ کر مَیں کئی مرتبہ رو پڑتی تھی۔‏ اُسکی موت کے بعد،‏ ہمارے مسیحی بھائیوں کی محبت واقعی تسلی‌بخش رہی ہے مگر اسکے باوجود مَیں اُسکی کمی شدت سے محسوس کرتی ہوں۔‏

جارج کیساتھ میری شادی کا سب سے انمول پہلو ہماری خوشگوار اور باقاعدہ بات‌چیت تھی۔‏ اب جارج کی موت کے بعد،‏ مَیں یہوواہ کی بہت زیادہ شکرگزار ہوں کہ وہ اپنے خادموں کو ”‏بِلاناغہ دُعا“‏ کرنے،‏ ”‏دُعا کرنے میں مشغول“‏ رہنے اور ”‏ہر وقت ہر طرح سے .‏ .‏ .‏ دُعا“‏ کرنے کے موقع کو استعمال کرنے کی دعوت دیتا ہے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۷؛‏ رومیوں ۱۲:‏۱۲؛‏ افسیوں ۶:‏۱۸‏)‏ یہ بات بہت تسلی‌بخش ہے کہ یہوواہ ہماری فلاح‌وبہبود کی فکر رکھتا ہے۔‏ مَیں واقعی زبورنویس کی طرح محسوس کرتی ہوں جس نے گیت گایا:‏ ”‏یہوواہ مبارک ہو جو ہر روز ہمارا بوجھ اُٹھاتا ہے۔‏“‏ (‏زبور ۶۸:‏۱۹‏)‏ یسوع کی نصیحت کے مطابق،‏ کل کی فکر نہ کرنا،‏ اپنی حدود کو تسلیم کرنا اور ہر دن پر ملنے والی برکات کیلئے شکرگزار ہونا واقعی زندگی بسر کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔‏—‏متی ۶:‏۳۴‏۔‏

خدمتگزاری کی پُرمسرت برکات

مسیحی خدمتگزاری میں مصروف رہنے سے مجھے اپنے ماضی کی بابت حد سے زیادہ سوچنے سے گریز کرنے میں مدد ملی ہے۔‏ یوں مَیں افسردگی کا باعث بننے والے جذبات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئی ہوں۔‏ دوسروں کو بائبل سچائی کی تعلیم دینا خوشی کا ایک خاص ذریعہ رہا ہے۔‏ اِس سے ایک باضابطہ روحانی معمول قائم ہو جاتا ہے جو میری زندگی کو منظم اور مستحکم رکھتا ہے۔‏—‏فلپیوں ۳:‏۱۶‏۔‏

ایک بار مجھے ایک خاتون نے ٹیلی‌فون کِیا جسے مَیں نے کوئی ۴۷ سال پہلے بادشاہتی پیغام سنایا تھا۔‏ وہ ۱۹۴۷ میں بہاماز آنے کے بعد ہمارے پہلے بائبل طالبعلموں میں سے ایک شخص کی بیٹی تھی۔‏ اُسکے ماں باپ،‏ تمام بہن‌بھائی اور اُنکے بیشتر بچے بھی یہوواہ کے گواہ بن گئے تھے۔‏ درحقیقت اس عورت کے خاندان میں ۶۰ سے زیادہ افراد گواہ ہیں۔‏ لیکن اُس نے خود بائبل سچائی قبول نہیں کی تھی۔‏ تاہم اب وہ بالآخر یہوواہ خدا کی خادمہ بننے کیلئے تیار تھی۔‏ جب جارج اور مَیں بہاماز آئے تو اُس وقت صرف چند گواہ تھے مگر اب اُنکی تعداد ۱۴۰۰ سے زیادہ ہے جو واقعی بڑی خوشی کا باعث ہے!‏

بعض اوقات لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا مَیں بچوں کی کمی محسوس کرتی ہوں۔‏ یقیناً بچوں کا ہونا باعثِ‌برکت ہے۔‏ تاہم،‏ جو محبت میرے روحانی بچے اور اسباط میرے لئے ہمیشہ ظاہر کرتے ہیں اسکا تجربہ تمام حقیقی والدین شاید ہی کرتے ہوں۔‏ واقعی،‏ جو ”‏نیکی“‏ کرتے اور ”‏اچھے کاموں میں دولتمند“‏ بنتے ہیں وہ سب سے زیادہ پُرمسرت لوگ ہوتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۸‏)‏ اسی لئے،‏ جہانتک میری صحت اجازت دیتی ہے،‏ مَیں خدمتگزاری میں مصروف رہتی ہوں۔‏

ایک دن ایک ڈینٹسٹ کے آفس میں ایک نوجوان عورت میرے پاس آ کر کہنے لگی،‏ ”‏آپ مجھے نہیں جانتی مگر مَیں آپ کو جانتی ہوں اور مَیں آپ کو محض یہ بتانا چاہتی ہوں کہ مَیں آپ سے محبت کرتی ہوں۔‏“‏ پھر اُس نے بیان کِیا کہ وہ کیسے بائبل سے سچائی کی پہچان تک پہنچی اور ہم مشنریوں کے بہاماز آنے کیلئے کتنی شکرگزار تھی۔‏

ایک اَور موقع پر،‏ چھٹیوں سے واپس آنے کے بعد مجھے ناسو میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس میں جہاں مَیں اب رہتی ہوں،‏ اپنے دروازے کے آگے ایک گلاب کا پھول ملا۔‏ اس کے ساتھ ایک نوٹ بھی تھا:‏ ”‏ہم آپ کے گھر آنے سے خوش ہیں۔‏“‏ یہوواہ کے کلام،‏ تنظیم اور روح سے پیدا ہونے والے لوگوں کو دیکھ کر میرا دل شکرگزاری سے معمور ہو جاتا ہے اور مجھے اُس سے اَور بھی زیادہ محبت ہو جاتی ہے!‏ واقعی،‏ یہوواہ ہمارے اردگرد کے لوگوں کے ذریعے ہمیں سنبھالتا ہے۔‏

شکرگزاری سے معمور

میرے لئے زندگی ہمیشہ آسان نہیں رہی اور اُس کے کچھ پہلو اب بھی آسان نہیں ہیں۔‏ تاہم میرے پاس شکرگزاری کیلئے بہت کچھ ہے—‏خدمتگزاری کی خوشیاں،‏ بہتیرے مسیحی بھائی بہنوں کی محبت اور پیار،‏ یہوواہ کی تنظیم کی پُرشفقت فکرمندی،‏ بائبل کی دلکش سچائیاں،‏ اپنے مُتوَفی عزیزوں کے جی اُٹھنے کی اُمید اور یہوواہ کے ایک وفادار خادم کیساتھ شادی کے ۴۲ سال کی یادیں۔‏ شادی سے پہلے،‏ مَیں نے دُعا کی تھی کہ مَیں اپنے شوہر کیلئے ہمیشہ مددگار ثابت ہو سکوں تاکہ وہ اپنی کُل‌وقتی خدمت کو جاری رکھ سکے جس سے اُسے بہت محبت تھی۔‏ یہوواہ نے مہربانی سے میری دُعا سنی۔‏ لہٰذا مَیں یہوواہ کیلئے اپنی شکرگزاری کے اظہار میں ہمیشہ اُسکی وفادار رہنا چاہتی ہوں۔‏

بہاماز سیاحوں کیلئے ایک مقبول جگہ ہے جو یہاں کے استوائی نظاروں سے محظوظ ہونے کیلئے ہزاروں ڈالر خرچ کرتے ہیں۔‏ یہوواہ کی خدمت کرنے کا انتخاب کر کے اُسکی تنظیم کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مَیں نے خدا کی بادشاہتی خوشخبری کی منادی کرنے کیلئے ان جزائر کا مکمل احاطہ کرنے کا پُرمسرت تجربہ کِیا ہے۔‏ تاہم،‏ اہم بات یہ ہے کہ مَیں نے بہاماز کے مہربان لوگوں کی بیش‌قیمت محبت کا تجربہ کِیا ہے۔‏

مَیں اُن اشخاص کی ممنون ہوں جنہوں نے میرے والدین کو سچائی سے روشناس کرایا اور یوں میرے والدین نے بچپن ہی سے میرے دل‌ودماغ میں خدا کی بادشاہت کی پہلے تلاش کرتے رہنے کی مخلصانہ خواہش جاگزین کی۔‏ اسی طرح آج یہوواہ کے نوجوان خادم وسیع خدمتگزاری کے عظیم مواقع فراہم کرنے والے ’‏وسیع دروازہ‘‏ سے داخل ہو کر بہتیری برکات حاصل کر سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۶:‏۹‏)‏ آپ بھی ”‏خداوندوں کے خداوند،‏“‏ یہوواہ کی تمجید کیلئے اپنی زندگی صرف کرکے خوشی سے معمور ہونگے۔‏—‏استثنا ۱۰:‏۱۷؛‏ دانی‌ایل ۲:‏۴۷‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

۱۹۴۴ میں وکٹوریا،‏ بی.‏ سی.‏ میں سڑکوں پر منادی

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

مَیں نے اور جارج نے ۱۹۴۶ میں گلئیڈ سکول میں شرکت کی

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

۱۹۵۵ میں،‏ ناسو،‏ بہاماز میں مشنری ہوم کے سامنے جارج کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

ڈیڈمینز کائے مشنری ہوم میں،‏ جہاں ہم نے ۱۹۶۱ تا ۱۹۷۲ تک خدمت کی