مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ پیسے کی بابت متوازن نظریہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟‏

آپ پیسے کی بابت متوازن نظریہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟‏

آپ پیسے کی بابت متوازن نظریہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟‏

زردوستی اور مادہ‌پرستی نہ تو کوئی نیا مسئلہ ہے اور نہ ہی بائبل اس معاملے میں خاموش ہے۔‏ یہ بڑا پُرانا مسئلہ ہے۔‏ خدا نے شریعت میں اسرائیلیوں کو حکم دیا تھا:‏ ”‏تُو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔‏ .‏ .‏ .‏ نہ اپنے پڑوسی کی کسی اَور چیز کا لالچ کرنا۔‏“‏—‏خروج ۲۰:‏۱۷‏۔‏

یسوع کے زمانے میں بھی زردوستی اور مال‌واسباب سے محبت بہت عام تھی۔‏ یسوع اور ایک ”‏دولتمند“‏ نوجوان کے درمیان ہونے والی گفتگو پر غور کریں۔‏ یسوع نے اُس سے کہا:‏ ”‏ابھی تک تجھ میں ایک بات کی کمی ہے۔‏ اپنا سب کچھ بیچ کر غریبوں کو بانٹ دے۔‏ تجھے آسمان پر خزانہ ملیگا اور آ کر میرے پیچھے ہو لے۔‏ یہ سُن کر وہ بہت غمگین ہؤا کیونکہ بڑا دولتمند تھا۔‏“‏—‏لوقا ۱۸:‏۱۸-‏۲۳‏۔‏

پیسے کی بابت متوازن نظریہ

تاہم،‏ یہ کہنا غلط ہوگا کہ بائبل پیسے اور اسکے بنیادی استعمال کی تردید کرتی ہے۔‏ بائبل واضح کرتی ہے کہ پیسہ غربت اور اس سے متعلقہ مسائل سے تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ لوگوں کو اپنی ضروریاتِ‌زندگی پوری کرنے کے قابل بناتا ہے۔‏ سلیمان بادشاہ نے لکھا:‏ ”‏حکمت ویسی ہی پناہ‌گاہ ہے جیسے روپیہ۔‏“‏ اُس نے مزید بیان کِیا:‏ ”‏ہنسنے کے لئے لوگ ضیافت کرتے ہیں اور مے جان کو خوش کرتی ہے اور روپیہ سے سب مقصد پورے ہوتے ہیں۔‏“‏—‏واعظ ۷:‏۱۲؛‏ ۱۰:‏۱۹‏۔‏

خدا پیسے کے مناسب استعمال کی اجازت دیتا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏ناراستی کی دولت سے اپنے لئے دوست پیدا کرو۔‏“‏ (‏لوقا ۱۶:‏۹‏)‏ اس میں خدا کی سچی پرستش کے فروغ کے لئے عطیات دینا شامل ہے کیونکہ ہم یقیناً خدا کو اپنا دوست بنانا چاہتے ہیں۔‏ سلیمان نے بھی اپنے باپ داؤد کے نمونے پر عمل کرتے ہوئے بھاری رقم کے علاوہ ڈھیروں قیمتی اشیا یہوواہ کی ہیکل کی تعمیر کے لئے دی تھیں۔‏ ایک اَور مسیحی حکم کا تعلق محتاجوں کی مالی امداد کرنے سے ہے۔‏ پولس رسول نے بیان کِیا کہ ”‏مُقدسوں کی احتیاجیں رفع کرو۔‏ مسافرپروری [‏”‏مہمان‌نوازی،‏“‏ این‌ڈبلیو‏]‏ میں لگے رہو۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۳‏)‏ اس کیلئے اکثر پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔‏ تاہم،‏ زر کی دوستی کی بابت کیا ہے؟‏

‏’‏چاندی سے محبت‘‏

پولس نے اپنے نوجوان ساتھی مسیحی تیمتھیس کے نام خط میں ”‏زر کی دوستی“‏—‏یا لفظی مفہوم میں ”‏چاندی سے محبت“‏—‏پر بڑی مفصل بحث کی۔‏ اس سلسلے میں پولس کی مشورت ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۶-‏۱۹ میں دیکھی جا سکتی ہے۔‏ اُس نے مال‌واسباب کا مکمل جائزہ لیتے ہوئے ”‏زر کی دوستی“‏ کا ذکر کِیا تھا۔‏ آجکل معاشرہ پیسے کو بہت اہمیت دیتا ہے اسلئے پولس کی الہامی باتوں کا بغور مطالعہ کرنا ہمارے لئے نہایت سودمند ثابت ہوگا۔‏ اس مطالعے کے سودمند ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ”‏حقیقی زندگی پر قبضہ“‏ کرنے کا راز آشکارا ہوتا ہے۔‏

پولس آگاہ کرتا ہے:‏ ”‏زر کی دوستی ہر قسم کی بُرائی کی جڑ ہے جسکی آرزو میں بعض نے ایمان سے گمراہ ہوکر اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے چھلنی کر لیا۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۰‏)‏ اس آیت میں اور نہ ہی کسی دوسرے صحیفے میں یہ کہا گیا ہے کہ پیسہ بذاتِ‌خود بُرا ہے۔‏ رسول یہ بھی نہیں کہتا کہ پیسہ ہی ”‏بُرائی“‏ کا بنیادی سبب یا ہر مسئلے کی جڑ ہے۔‏ اس کے برعکس،‏ پیسے سے محبت ہر قسم کی ”‏بُرائی“‏ کا سبب ہو سکتی ہے مگر یہ واحد سبب نہیں ہے۔‏

لالچ سے بچیں

یہ بات بھی قابلِ‌غور ہے کہ اگر صحائف میں پیسے کی مذمت نہیں کی گئی تو اس سے پولس کی آگاہی کو کم اہم خیال نہیں کِیا جانا چاہئے۔‏ پیسے سے پیار کرنے والے مسیحی ہر قسم کے مسائل میں بآسانی اُلجھ سکتے ہیں جن میں سے بدترین مسئلہ اپنے ایمان سے برگشتہ ہو جانا ہے۔‏ اس کی تصدیق پولس کی اِس بات سے بھی ہو جاتی ہے جو اُس نے کُلسّے کے مسیحیوں سے کہی تھی:‏ ”‏پس اپنے ان اعضا کو مُردہ کرو جو زمین پر ہیں یعنی .‏ .‏ .‏ بُری خواہش اور لالچ کو جو بُت‌پرستی کے برابر ہے۔‏“‏ (‏کلسیوں ۳:‏۵‏)‏ حرص،‏ لالچ یا ”‏زر کی دوستی“‏ بُت‌پرستی کے برابر کیسے ہو سکتی ہے؟‏ کیا عالیشان گھر،‏ نئی کار اور زیادہ آمدنی والی ملازمت کی خواہش کرنا غلط ہے؟‏ نہیں،‏ ان میں سے کوئی بھی چیز بذاتِ‌خود خراب نہیں ہے۔‏ لیکن سوال یہ ہے:‏ ان چیزوں کی خواہش کرنے والے شخص کا دلی رُجحان کیسا ہے اور کیا ان کی واقعی ضرورت بھی ہے؟‏

ایک عام خواہش اور لالچ میں فرق کو کسی چھوٹے سے کیمپ میں کھانا پکانے کیلئے جلائی گئی آگ اور پورے جنگل کو راکھ کا ڈھیر بنا دینے والی بھڑکتی ہوئی آگ سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے۔‏ ایک جائز خواہش مفید ہو سکتی اور ہمیں نفع‌بخش کام کرنے کی تحریک دے سکتی ہے۔‏ امثال ۱۶:‏۲۶ بیان کرتی ہے:‏ ”‏محنت کرنے والے کی خواہش اُس سے کام کراتی ہے کیونکہ اُس کا پیٹ اُس کو اُبھارتا ہے۔‏“‏ تاہم،‏ لالچ خطرناک اور تباہ‌کُن ہوتا ہے۔‏ لالچ دراصل بےلگام خواہش کا نام ہے۔‏

اصل مسئلہ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنا ہے۔‏ پس کیا ہم جو مال‌ومتاع جمع کرتے یا حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ہمارے تابع ہوگا یا ہم اُسکے تابع ہونگے؟‏ اسی لئے پولس کہتا ہے کہ ”‏لالچی .‏ .‏ .‏ بُت‌پرست کے برابر ہے۔‏“‏ (‏افسیوں ۵:‏۵‏)‏ درحقیقت کسی چیز کا لالچ کرنے کا مطلب اُس سے مغلوب ہو جانا یعنی اُسے اپنا آقا،‏ اپنا معبود بنا کر اُسکی خدمت کرنا ہے۔‏ اسکے برعکس،‏ خدا حکم دیتا ہے:‏ ”‏میرے حضور تُو غیرمعبودوں کو نہ ماننا۔‏“‏—‏خروج ۲۰:‏۳‏۔‏

لالچی ہونا یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہم اس بات پر اعتماد نہیں رکھتے کہ خدا تمام ضروریاتِ‌زندگی پوری کرنے کے سلسلے میں اپنا وعدہ پورا کرے گا۔‏ (‏متی ۶:‏۳۳‏)‏ لہٰذا،‏ لالچ خدا سے منحرف ہونے کے مترادف ہے۔‏ یوں،‏ یہ ”‏بُت‌پرستی“‏ بھی ہے۔‏ پس،‏ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ پولس نے بالکل صاف الفاظ میں اس سے خبردار کِیا تھا!‏

یسوع نے بھی بالکل واضح الفاظ میں لالچ سے خبردار کِیا تھا۔‏ اُس نے ہمیں ہر ایسی چیز کی آرزو کرنے سے بچنے کا حکم دیا جو ہمارے پاس نہیں ہے:‏ ”‏خبردار!‏ اپنےآپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھو کیونکہ کسی کی زندگی اُسکے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔‏“‏ (‏لوقا ۱۲:‏۱۵‏)‏ اس اقتباس اور یسوع کی مابعدی تمثیل کے مطابق،‏ لالچ اس احمقانہ نظریے پر مبنی ہے کہ کسی کی زندگی میں اُسکے مال کی کثرت ہی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔‏ اس میں پیسہ،‏ مرتبہ،‏ اقتدار یا انہی سے متعلقہ دیگر چیزیں شامل ہو سکتی ہیں۔‏ کسی بھی قابلِ‌حصول چیز کا لالچ کرنا ممکن ہے۔‏ اس کے پیچھے یہ سوچ ہو سکتی ہے کہ فلاں چیز حاصل کر لینے سے ہم مطمئن ہو جائینگے۔‏ لیکن بائبل اور انسانی تجربے کے مطابق،‏ صرف خدا ہی ہماری جائز ضروریات کو پورا کر سکتا ہے اور وہ یقیناً ایسا کریگا جیسا کہ یسوع نے بھی اپنے پیروکاروں کو یقین دلایا تھا۔‏—‏لوقا ۱۲:‏۲۲-‏۳۱‏۔‏

آجکل اشیائےصرف کی خریدوفروخت میں مستغرق معاشرہ لالچ پیدا کرنے میں بڑی مہارت رکھتا ہے۔‏ پوشیدہ مگر نہایت طاقتور ذرائع سے متاثر ہوکر بہتیرے یہ تسلیم کرنے لگتے ہیں کہ جوکچھ اُنکے پاس ہے وہ کافی نہیں ہے۔‏ اُنکے پاس زیادہ،‏ بڑی اور بہتر چیزیں ہونی چاہئیں۔‏ اگرچہ ہم اپنے اردگرد کی دُنیا کو بدلنے کی توقع تو نہیں کر سکتے توبھی ہم ذاتی طور پر اس رُجحان کی مزاحمت کیسے کر سکتے ہیں؟‏

قناعت بمقابلہ لالچ

پولس قناعت کا لالچ کے متبادل کے طور پر ذکر کرتا ہے۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏پس اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اسی پر قناعت کریں۔‏“‏ ‏(‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۸‏)‏ ہمارے ”‏کھانے پہننے“‏ کی حقیقی ضرورت کی بابت یہ بیان کچھ ضرورت سے زیادہ ہی سادہ معلوم ہوتا ہے۔‏ بہتیرے لوگ ایسے ٹیلیویژن پروگراموں کو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں جن میں پُرآسائش گھروں میں رہنے والی ممتاز شخصیات سے ملاقات کرائی جاتی ہے۔‏ یہ قناعت‌پسندی اپنانے کا طریقہ نہیں ہے۔‏

بِلاشُبہ،‏ خدا کے خادموں کو جان‌بوجھ کر غربت کی زندگی بسر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ (‏امثال ۳۰:‏۸،‏ ۹‏)‏ پولس ہمیں یاد دلاتا ہے کہ غربت دراصل کیا ہوتی ہے:‏ بقائےحیات کیلئے درکار خوراک،‏ لباس اور رہائش کا فقدان۔‏ اسکے برعکس،‏ اگر ہمارے پاس یہ چیزیں ہیں توپھر ہم انہی پر قناعت کر سکتے ہیں۔‏

کیا پولس قناعت کو اس پیرائے میں بیان کرتے وقت سنجیدہ تھا؟‏ کیا محض بنیادی اشیا—‏خوراک،‏ لباس اور رہائش—‏سے مطمئن ہونا ممکن ہے؟‏ پولس کو ضرور معلوم ہوگا۔‏ اُسے یہودیوں میں اعلیٰ مرتبے اور رومی شہریت کی وجہ سے حاصل ہونے والی دولت اور مراعات کا ذاتی تجربہ تھا۔‏ (‏اعمال ۲۲:‏۲۸؛‏ ۲۳:‏۶؛‏ فلپیوں ۳:‏۵‏)‏ پولس کو اپنی مشنری کارگزاریوں میں بھی سخت مشکلات اُٹھانی پڑی تھیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۲۳-‏۲۸‏)‏ ان تمام حالتوں سے گزرنے کے باعث اُسے قناعت کرنا سیکھنے میں مدد ملی تھی۔‏ مگر کیسے؟‏

‏’‏مَیں نے سیکھا ہے‘‏

پولس نے اپنے ایک خط میں بیان کِیا:‏ ”‏مَیں پست ہونا بھی جانتا ہوں اور بڑھنا بھی جانتا ہوں۔‏ ہر ایک بات اور سب حالتوں میں مَیں نے سیر ہونا اور بھوکا رہنا اور بڑھنا گھٹنا سیکھا ہے۔‏“‏ (‏فلپیوں ۴:‏۱۲‏)‏ پولس بہت پُراعتماد اور پُراُمید معلوم ہوتا ہے!‏ اس سے ہم بآسانی فرض کر سکتے ہیں کہ جب اُس نے یہ بات لکھی ہوگی تو اُس کی زندگی بڑی پُرمسرت ہوگی لیکن درحقیقت ایسا نہیں تھا۔‏ وہ روم میں قید تھا!‏—‏فلپیوں ۱:‏۱۲-‏۱۴‏۔‏

اگر اس سنجیدہ حقیقت کو مدِنظر رکھا جائے تو یہ اقتباس اس بات کی پُرزور دلالت کرتا ہے کہ نہ صرف مال‌واسباب بلکہ حالات کے سلسلے میں بھی قناعت‌پسندی ضروری ہے۔‏ دولت یا مشکلات دونوں میں انتہا ہماری ترجیحات کیلئے آزمائش ہو سکتی ہے۔‏ پولس نے ایسے روحانی وسائل کا ذکر کِیا جنہوں نے اُسے اپنے حالات سے قطع‌نظر قناعت کرنے کے قابل بنایا تھا:‏ ”‏جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‏“‏ (‏فلپیوں ۴:‏۱۳‏)‏ پولس نے اپنے تھوڑے یا زیادہ مال یا اپنے اچھے یا بُرے حالات کی بجائے خدا پر توکل کِیا کہ وہی اُسکی ضروریات پوری کریگا۔‏ اسکا نتیجہ یہ تھا کہ اُس نے قناعت کرنا سیکھ لیا۔‏

پولس کا نمونہ بالخصوص تیمتھیس کے لئے اہمیت کا حامل تھا۔‏ پولس نے اُس نوجوان کو ایسا طرزِزندگی اختیار کرنے کی تاکید کی جو خدائی عقیدت اور خدا کیساتھ قریبی رشتے کو دولت سے زیادہ مقدم رکھنے کی تحریک دیتا ہے۔‏ پولس نے کہا:‏ ”‏اَے مردِخدا!‏ تُو ان باتوں سے بھاگ اور راستبازی۔‏ دینداری۔‏ ایمان۔‏ محبت۔‏ صبر اور حلم کا طالب ہو۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۱‏)‏ یہ بات اگرچہ تیمتھیس سے کہی گئی تھی مگر اسکا اطلاق خدا کی تعظیم اور حقیقی خوشحال زندگی کے خواہاں ہر شخص پر ہوتا ہے۔‏

دیگر تمام مسیحیوں کی طرح تیمتھیس کو بھی لالچ سے گریز کرنے کی ضرورت تھی۔‏ ظاہر ہے کہ جب پولس نے تیمتھیس کو خط لکھا تو اُس وقت افسس کی کلیسیا میں دولتمند ایماندار بھی تھے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۳‏)‏ پولس اس خوشحال تجارتی شہر میں مسیح کی خوشخبری لیکر آیا اور بہت سے لوگوں کو مسیحی بنا لیا۔‏ بِلاشُبہ،‏ ان میں سے کئی دولتمند بھی تھے جیسا کہ آجکل بھی مسیحی کلیسیا میں دیکھا جا سکتا ہے۔‏

پس،‏ ۱-‏تیمتھیس ۶:‏۶-‏۱۰ میں پیش‌کردہ تعلیم کی روشنی میں سوال پیدا ہوتا ہے:‏ دولتمند لوگ اگر خدا کی تعظیم کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں کیا کرنا چاہئے؟‏ پولس کہتا ہے کہ اُنہیں سب سے پہلے اپنے رُجحانات کی جانچ کرنی چاہئے۔‏ پیسہ کسی شخص میں یہ احساس پیدا کر دیتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔‏ پولس کہتا ہے:‏ ”‏اس موجودہ جہان کے دولتمندوں کو حکم دے کہ مغرور نہ ہوں اور ناپایدار دولت پر نہیں بلکہ خدا پر اُمید رکھیں جو ہمیں لطف اُٹھانے کے لئے سب چیزیں افراط سے دیتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۷‏)‏ دولتمندوں کو اپنے پیسے کی بجائے خدا پر آس لگانے کی ضرورت ہے جو ہر طرح کی دولت کا منبع ہے۔‏

تاہم،‏ اس سلسلے میں کامیابی کے لئے صرف اپنے رُجحان کی جانچ کرنا ہی کافی نہیں ہے۔‏ جلدیابدیر دولتمند مسیحیوں کو اپنی دولت کا صحیح استعمال کرنا سیکھنا ہی پڑتا ہے۔‏ پولس نصیحت کرتا ہے:‏ ”‏نیکی کریں اور اچھے کاموں میں دولتمند بنیں اور سخاوت پر تیار اور امداد پر مستعد ہوں۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۸‏۔‏

‏”‏حقیقی زندگی“‏

پولس کی نصیحت کا مقصد یہ ہے کہ ہم مال‌ومتاع کی نسبتی قدروقیمت کو یاد رکھیں۔‏ خدا کا کلام فرماتا ہے:‏ ”‏دولتمند آدمی کا مال اُس کا محکم شہر اور اُس کے تصور میں اونچی دیوار کی مانند ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۸:‏۱۱‏)‏ جی‌ہاں،‏ دولت کا تحفظ بالآخر محض ایک خواب اور دھوکا ثابت ہو سکتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ خدا کی خوشنودی کے طالب ہونے کی بجائے ان چیزوں کو اپنی زندگی کا محور بنانا غلط ہوگا۔‏

دولت کی بےثباتی کی وجہ سے اس پر آس لگانا واقعی لاحاصل ہے۔‏ حقیقی اُمید کسی مضبوط،‏ مفید اور دیرپا چیز پر مبنی ہونی چاہئے۔‏ مسیحی اُمید ہمارے خالق،‏ یہوواہ خدا اور اُسکے ابدی زندگی کے وعدوں پر مبنی ہے۔‏ یہ سچ ہے کہ پیسہ ہمارے لئے خوشی نہیں خرید سکتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ پیسہ نجات نہیں خرید سکتا۔‏ صرف خدا پر ایمان ہی ہمیں ایسی اُمید فراہم کر سکتا ہے۔‏

پس خواہ ہم امیر ہیں یا غریب،‏ ہمیں ایسی روش اختیار کرنی چاہئے جو ہمیں ”‏خدا کے نزدیک دولتمند“‏ بنائیگی۔‏ (‏لوقا ۱۲:‏۲۱‏)‏ خالق کے حضور مقبولیت حاصل کرنے سے زیادہ اَور کوئی چیز قیمتی نہیں ہو سکتی۔‏ اسے برقرار رکھنے کیلئے ہم جو بھی کوشش کریں گے وہ ’‏آئندہ اپنے واسطے ایک عمدہ بنیاد قائم‘‏ کرنے میں مددگار ثابت ہوگی ’‏تاکہ ہم حقیقی زندگی پر قبضہ کر سکیں۔‏‘‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۹‏۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

پولس نے قناعت کرنا سیکھ لیا تھا

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویریں]‏

ہمارے پاس جوکچھ ہے ہم اُسی پر قناعت کرکے خوش رہ سکتے ہیں