مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آریگن کی تعلیم کا چرچ پر اثر؟‏

آریگن کی تعلیم کا چرچ پر اثر؟‏

آریگن کی تعلیم کا چرچ پر اثر؟‏

تیسری صدی کے مذہبی عالم،‏ آریگن کی تعریف میں لاطینی ولگاتا بائبل کے مترجم،‏ جیروم نے بیان کِیا کہ وہ ”‏رسولوں کے بعد،‏ کلیسیا کا مقدس راہنما تھا۔‏“‏ تاہم،‏ سب لوگ آریگن کو اتنی عزت نہیں دیتے تھے۔‏ بعض اسے بدعت پھیلانے والا خیال کرتے تھے۔‏ ۱۷ ویں صدی کے ایک مصنف کے مطابق،‏ آریگن کے نقادوں نے دعویٰ کِیا کہ ”‏اسکا عقیدہ بڑی حد تک نامعقول،‏ نقصاندہ اور افعی کے زہر کی مانند ہے جسے اس نے پوری دُنیا میں پھیلا دیا تھا۔‏“‏ درحقیقت،‏ اسکی موت کے تقریباً تین سو سال بعد،‏ آریگن کو باضابطہ طور پر بدعتی قرار دے دیا گیا تھا۔‏

آریگن کی بابت تعریفی اور نفرتی احساسات کیوں پائے جاتے ہیں؟‏ چرچ کے اعتقاد کو فروغ دینے کے سلسلے میں اس نے کیا کردار ادا کِیا تھا؟‏

چرچ کیلئے سرگرم

آریگن ۱۸۵ س.‏ع.‏ میں مصر کے شہر سکندریہ میں پیدا ہوا تھا۔‏ اس نے یونانی ادب کی جامع تعلیم پائی تھی مگر اس کے والد،‏ لیونائڈس نے اصرار کِیا کہ اُسے صحائف کا مطالعہ کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔‏ جب آریگن ۱۷ سال کا ہوا تو رومی بادشاہ کے ایک فرمان کے مطابق تبدیلیٔ‌مذہب کو جُرم قرار دے دیا گیا۔‏ آریگن کے والد کو مسیحی بننے کے جُرم میں قید میں ڈال دیا گیا۔‏ جوانی کے جوش میں آریگن نے عزم کِیا کہ وہ بھی اپنے باپ کے ساتھ قید اور شہید ہوگا۔‏ لیکن اس کی ماں نے اسے گھر چھوڑنے سے روکنے کے لئے اس کے کپڑے چھپا دئے۔‏ آریگن نے خط کے ذریعے اپنے والد سے التجا کی:‏ ”‏آپ ہماری خاطر اپنا فیصلہ نہ بدلئے گا۔‏“‏ لیونائڈس پُرعزم رہا اور جامِ‌شہادت نوش کرکے اپنے خاندان کو بےیارومددگار چھوڑ گیا۔‏ تاہم،‏ آریگن اتنی تعلیم حاصل کر چکا تھا کہ وہ اب یونانی ادب کی تعلیم دینے کا پیشہ اختیار کرکے اپنی ماں اور اپنے چھ چھوٹے بھائیوں کی کفالت کر سکتا تھا۔‏

بادشاہ کا مقصد مسیحیت کے فروغ کو روکنا تھا۔‏ بادشاہ کے فرمان نے نہ صرف طالبعلموں بلکہ اساتذہ کو بھی نشانہ بنایا اسلئے تمام مسیحی مُعلم سکندریہ سے فرار ہو گئے۔‏ جب صحیفائی علم کے خواہاں غیرمسیحیوں نے نوجوان آریگن سے مدد مانگی تو اُس نے اس کام کو خداداد تفویض سمجھ کر بخوشی قبول کر لیا۔‏ اس کے بہتیرے طالبعلم ہلاک کر دئے گئے جن میں سے بعض تو اپنی تعلیم بھی مکمل نہ کر پائے۔‏ اپنی جان کی پروا کئے بغیر،‏ آریگن نے جج کے سامنے پیش ہونے،‏ قید میں ڈالے جانے حتیٰ‌کہ موت کی سزا پانے والے اپنے طالبعلموں کی کھلم‌کھلا حوصلہ‌افزائی اور حمایت کی۔‏ چوتھی صدی کا مؤرخ یوسیبیس بیان کرتا ہے کہ جب انہیں ہلاک کرنے کیلئے لیجایا جاتا تھا تو آریگن ”‏بڑی دلیری کیساتھ انہیں بوسہ دیکر خراجِ‌عقیدت پیش کرتا تھا۔‏“‏

آریگن بہتیرے غیرمسیحیوں کی عداوت کا بھی نشانہ بنا کیونکہ اُنکے خیال میں وہ اُنکے لوگوں کی تبدیلیٔ‌مذہب اور ہلاکت کا ذمہ‌دار تھا۔‏ وہ کئی مرتبہ اجتماعی حملوں اور پُرتشدد موت سے بال‌بال بچا۔‏ اپنے تعاقب کرنے والوں سے بچنے کیلئے دربدر بھٹکنے کے باوجود آریگن نے تعلیم دینے کا کام جاری رکھا۔‏ ایسی دلیری اور عقیدت نے سکندریہ کے بشپ،‏ دیمیتریس کو بڑا متاثر کِیا۔‏ لہٰذا،‏ دیمیتریس نے آریگن کو ۱۸ سال کی عمر ہی میں سکندریہ کے مذہبی سکول کا سربراہ مقرر کر دیا۔‏

بالآخر،‏ آریگن ایک ممتاز عالم اور ماہر مصنف بن گیا۔‏ بعض کے خیال میں اس نے ۰۰۰،‏۶ کتابیں لکھیں جو کہ مبالغہ‌آرائی لگتی ہے۔‏ تاہم وہ ۵۰ جِلدوں پر مشتمل عبرانی صحائف کی ایک ضخیم کتاب ہکساپلا کے لئے نہایت مشہور ہے۔‏ آریگن نے ہکساپلا کو چھ مماثل کالموں میں ترتیب دیا:‏ (‏۱)‏ عبرانی اور ارامی متن،‏ (‏۲)‏ اس متن کی یونانی زبان میں نقل‌حرفی،‏ (‏۳)‏ اکولہ کا یونانی ترجمہ،‏ (‏۴)‏ سماخس کا یونانی ترجمہ،‏ (‏۵)‏ یونانی سپتواُجنتا جس کی عبرانی متن سے زیادہ مماثلت پیدا کرنے کے لئے آریگن نے ترمیم کی اور (‏۶)‏ تھیوڈوشن کا یونانی ترجمہ۔‏ بائبل عالم جان ہورٹ نے لکھا کہ ”‏آریگن یہ سارے متن یکجا کرکے ایسے بیشتر اقتباسات کے مفہوم پر روشنی ڈالنا چاہتا تھا جن کی بابت یونانی قاری صرف سپتواُجنتا کو پڑھنے سے پریشان یا گمراہ ہو سکتا تھا۔‏“‏

‏’‏لکھے ہوئے سے تجاوز‘‏

تاہم،‏ تیسری صدی کی مذہبی ابتری نے بائبل کی تعلیم کے سلسلے میں آریگن کے طریقۂ‌کار پر گہرا اثر ڈالا۔‏ اگرچہ دُنیائےمسیحیت ابھی اپنے ابتدائی دَور میں تھی توبھی یہ غیرصحیفائی اعتقادات سے آلودہ ہو چکی تھی جس کے باعث اسکے چرچ مختلف تعلیمات دے رہے تھے۔‏

آریگن نے ان میں سے بعض غیرصحیفائی اعتقادات کو رسولوں کی تعلیمات قرار دیتے ہوئے قبول کر لیا تھا۔‏ تاہم،‏ اُس نے دیگر معاملات کے سلسلے میں بھی قیاس‌آرائی کو واجب خیال کِیا۔‏ اُس وقت اسکے بہتیرے طالبعلم اپنے زمانے کی فیلسوفیوں سے نبردآزما تھے۔‏ آریگن نے اپنے نوجوان طالبعلموں کے ذہنوں پر اثرانداز ہونے والے مختلف مکاتب‌فکر کا مطالعہ بھی کِیا۔‏ اس نے اپنے طالبعلموں کے فلسفیانہ سوالات کے تسلی‌بخش جواب دینے کی کوشش شروع کر دی۔‏

آریگن نے بائبل کو فیلسوفی کے ساتھ ہم‌آہنگ کرنے کی کوشش میں صحائف کی توضیح کیلئے تمثیلی طریقے پر بہت زیادہ انحصار کِیا۔‏ اس کا خیال تھا کہ صحائف کوئی حقیقی مطلب نہیں رکھتے بلکہ ہمیشہ روحانی مفہوم پیش کرتے ہیں۔‏ ایک عالم کے مطابق،‏ آریگن کے اس خیال نے اسے کھلی چھٹی دے دی کہ ”‏بائبل کی تشریح میں کوئی بھی ایسا نظریہ شامل کر دے جو بائبل کی بجائے اسکی اپنی مذہبی سوچ سے مطابقت رکھتا ہے جبکہ اس کا دعویٰ تھا (‏اور یقیناً وہ خلوصدلی سے یہ سمجھتا تھا)‏ کہ وہ بائبل کا وفادار اور پُرجوش مفسر ہے۔‏“‏

اپنے کسی طالبعلم کے نام آریگن کے ایک خط سے اس کی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔‏ آریگن نے اس بات پر توجہ دلائی کہ اسرائیلیوں نے مصری سونے سے یہوواہ کی ہیکل کیلئے ظروف بنائے تھے۔‏ یوں اس بات میں اس نے یونانی فلسفے کے ذریعے مسیحیت کی تعلیم دینے کا اشارہ پایا۔‏ اس نے لکھا:‏ ”‏اسرائیلی بچوں کیلئے مصر سے لائی گئی چیزیں بڑی کارآمد ثابت ہوئیں،‏ اگرچہ مصر کے لوگوں نے انکا مناسب استعمال نہ کِیا مگر عبرانیوں نے خدا کی حکمت سے راہنمائی پا کر خدا کی خدمت کیلئے انہیں استعمال کِیا۔‏“‏ لہٰذا،‏ آریگن نے اپنے طالبعلم کی حوصلہ‌افزائی کی کہ ”‏مسیحیت کے مطالعے یا اسکی تیاری کیلئے یونانی فیلسوفی سے مدد حاصل کریں۔‏“‏

بائبل کی ایسی بےقابو تفسیر نے مسیحی عقیدے اور یونانی فیلسوفی کے مابین واضح فرق کو ماند کر دیا۔‏ مثال کے طور پر،‏ آریگن نے اپنی کتاب آن فرسٹ پرنسیپلز میں یسوع کی بابت بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’‏اکلوتے بیٹے کے طور پر پیدا ہوا مگر اس کی کوئی ابتدا نہیں تھی۔‏‘‏ اس نے یہ بھی کہا:‏ ’‏اس کی پیدائش ازلی اور ابدی ہے۔‏ وہ کسی بیرونی عمل سے زندگی کا دم حاصل کرنے کی بجائے خدا کی ذات سے بیٹا بنا ہے۔‏‘‏

آریگن کا یہ خیال بائبل کے مطابق نہیں تھا کیونکہ صحائف تعلیم دیتے ہیں کہ یہوواہ کا اکلوتا بیٹا ”‏تمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے“‏ اور وہ ”‏خدا کی خلقت کا مبدا ہے۔‏“‏ (‏کلسیوں ۱:‏۱۵؛‏ مکاشفہ ۳:‏۱۴‏)‏ مذہبی مؤرخ اوگوستُس نیاندر کے مطابق،‏ آریگن کا مسیح کی ”‏ابدی پیدائش“‏ کا نظریہ ”‏افلاطونی فیلسوفی کی تعلیم“‏ پر مبنی تھا۔‏ لہٰذا،‏ آریگن نے ”‏لکھے ہوئے سے تجاوز نہ کرو“‏ کے بنیادی صحیفائی اُصول کی خلاف‌ورزی کی تھی۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۴:‏۶‏۔‏

بدعتی قرار پانا

آریگن کو اُستاد کے طور پر اُس کے ابتدائی سالوں کے دوران،‏ سکندریہ کی ایک کلیسیائی مجلس نے پادری کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔‏ غالباً اِسکا سبب یہ تھا کہ بشپ دیمیتریس خود ہی آریگن کی بڑھتی ہوئی شہرت سے حسد کرنے لگا تھا۔‏ آریگن فلسطین چلا گیا جہاں مسیحی عقیدے کے علمبردار کے طور پر اُسے لامحدود شہرت حاصل ہوئی اور وہاں وہ پادری کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔‏ درحقیقت جب مشرق میں ”‏بدعت“‏ پھیلی تو خطاکار بشپ صاحبان کو درست عقائد کی طرف واپس لانے کیلئے اس کی خدمات طلب کی گئیں۔‏ تاہم،‏ ۲۵۴ س.‏ع.‏ میں آریگن کی موت کے بعد،‏ اسکی بہت بدنامی ہوئی۔‏ کیوں؟‏

نام‌نہاد مسیحیت کے ممتاز مذہب بن جانے کے بعد چرچ نے بڑی باریک‌بینی سے عقائد کی وضاحت کا جائزہ لیا۔‏ لہٰذا،‏ مذہبی علما کی آئندہ نسلوں نے آریگن کے بیشتر قیاسی اور بعض‌اوقات مبہم فلسفیانہ نظریات کو قبول نہ کِیا۔‏ یوں اس کی تعلیمات چرچ میں شدید اختلافات کا باعث بنیں۔‏ ان اختلافات سے نپٹنے اور اتحاد قائم رکھنے کی کوشش میں چرچ نے آریگن کو باضابطہ طور پر بدعتی قرار دے دیا۔‏

صرف آریگن ہی غلطی پر نہیں تھا۔‏ درحقیقت،‏ بائبل نے مسیح کی خالص تعلیمات سے عام برگشتگی کی پیشینگوئی کر دی تھی۔‏ پہلی صدی کے اختتام تک،‏ یسوع کے رسولوں کی موت کے بعد اس برگشتگی نے بہت شدت اختیار کر لی تھی۔‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۶،‏ ۷‏)‏ انجام‌کار،‏ بعض نام‌نہاد مسیحیوں نے خود کو ”‏راسخ‌الاعتقاد“‏ اور باقی تمام لوگوں کو ”‏بدعتی“‏ قرار دیا۔‏ لیکن حقیقت میں دُنیائےمسیحیت سچی مسیحیت سے منحرف ہو گئی تھی۔‏

‏”‏جس علم کو ’‏علم‘‏ کہنا ہی غلط ہے“‏

آریگن کی بیشتر قیاس‌آرائیوں کے باوجود اسکی تحریروں میں مفید چیزیں بھی موجود ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہکساپلا میں چار عبرانی حروف پر مشتمل خدا کا نام پایا جاتا ہے جسے ٹیٹراگریمٹن کہتے ہیں۔‏ یہ اس بات کا اہم ثبوت ہے کہ ابتدائی مسیحی خدا کے ذاتی نام یہوواہ سے واقف تھے اور اسے استعمال بھی کرتے تھے۔‏ اسکے باوجود،‏ پانچویں صدی کے ایک بشپ تھیفلُس نے خبردار کِیا:‏ ”‏آریگن کی تصانیف ایک ایسے سبزہ‌زار کی مانند ہیں جس میں ہر قسم کا پھول پایا جاتا ہے۔‏ اگر مجھے کوئی پھول خوبصورت لگتا ہے تو مَیں اسے توڑ لیتا ہوں لیکن اگر کوئی کانٹےدار چیز دکھائی دے تو مَیں اُس سے دُور رہتا ہوں۔‏“‏

بائبل کی تعلیمات میں یونانی فلسفے کی آمیزش کی وجہ سے آریگن کے عقائد میں بیشمار خامیاں پیدا ہو گئیں جو دُنیائےمسیحیت کیلئے نہایت تباہ‌کُن ثابت ہوئیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ اگرچہ آریگن کی بہتیری قیاس‌آرائیوں کو بعدازاں رد کر دیا توبھی مسیح کی ”‏ابدی پیدائش“‏ کی بابت اس کے نظریات نے بائبل کی تعلیم کے برعکس تثلیث کے عقیدے کی بنیاد ڈالنے میں اہم کردار ادا کِیا۔‏ کتاب دی چرچ آف دی فسٹ تھری سنچریز بیان کرتی ہے:‏ ”‏فلسفے کی مقبولیت [‏جس کی شروعات آریگن سے ہوئی]‏ طویل عرصے تک قائم رہنی تھی۔‏“‏ اسکا نتیجہ کیا نکلا؟‏ ”‏سادہ اور خالص مسیحی ایمان آلودہ ہو گیا اور چرچ میں بیشمار خامیاں پیدا ہو گئیں۔‏“‏

پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏جس علم کو علم کہنا ہی غلط ہے اسکی بیہودہ بکواس اور مخالفت پر توجہ نہ کر۔‏“‏ آریگن اس نصیحت پر دھیان دیکر برگشتگی پھیلانے میں شریک ہونے سے گریز کر سکتا تھا۔‏ اسکے برعکس،‏ آریگن ایسے ”‏علم“‏ کو اپنی بیشتر تعلیم کی بنیاد بنانے سے ”‏ایمان سے برگشتہ“‏ ہو گیا۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ کلسیوں ۲:‏۸‏۔‏

‏[‏صفحہ ۳۱ پر تصویر]‏

آریگن کی ”‏ہکساپلا“‏ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیحی یونانی صحائف میں خدا کا نام استعمال کِیا گیا تھا

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Published by permission of the Syndics of Cambridge University

12.182 Library, T-S

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر کا حوالہ]‏

Culver Pictures