مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ میں غیرفانی رُوح ہے؟‏

کیا آپ میں غیرفانی رُوح ہے؟‏

کیا آپ میں غیرفانی رُوح ہے؟‏

پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ‌مند بھی ہے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶‏)‏ جی‌ہاں،‏ بائبل خدائےبرحق،‏ یہوواہ کی سچی کتاب ہے۔‏—‏زبور ۸۳:‏۱۸‏۔‏

یہوواہ اس کائنات کی تمام چیزوں اور انسانوں کا خالق ہے اسلئے وہ بہتر طور پر جانتا ہے کہ مرنے کے بعد ہمارے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۳:‏۴؛‏ مکاشفہ ۴:‏۱۱‏)‏ لہٰذا،‏ اپنے الہامی کلام،‏ بائبل میں اُس نے بعدازموت زندگی سے متعلق سوالات کے حقیقت پر مبنی اطمینان‌بخش جواب فراہم کئے ہیں۔‏

رُوح کیا ہے؟‏

بائبل میں جن الفاظ کا ترجمہ ”‏روح“‏ کِیا گیا ہے اُنکا بنیادی مطلب ”‏دم“‏ ہے۔‏ تاہم اس سے مُراد محض عملِ‌تنفّس نہیں ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک بائبل‌نویس یعقوب بیان کرتا ہے:‏ ”‏بدن بغیر رُوح کے مُردہ ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۲:‏۲۶‏)‏ پس رُوح جسم کو زندہ رکھتی ہے۔‏

یہ زندگی‌بخش قوت محض دم یا پھیپھڑوں میں حرکت کرنے والی ہوا ہی نہیں ہو سکتی۔‏ کیوں نہیں؟‏ اسلئے کہ سانس بند ہو جانے کے بعد بھی جسم کے خلیے کچھ دیر—‏دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق،‏ ”‏کئی منٹ“‏—‏تک زندہ رہتے ہیں۔‏ اسی بِنا پر زندگی بحال کرنے کی کوششیں کامیاب ہو سکتی ہیں۔‏ تاہم،‏ جب جسم کے خلیوں سے یہ قوتِ‌حیات ختم ہو جاتی ہے تو پھر زندگی بحال کرنے کی تمام‌تر کوششیں بیکار ثابت ہوتی ہیں۔‏ دُنیا میں موجود ہوا یا سانس کی بڑی سے بڑی مقدار ایک خلیے کو بھی دوبارہ زندہ نہیں کر سکتی۔‏ لہٰذا رُوح نادیدہ قوتِ‌حیات—‏زندگی کی جوت—‏ہے جو خلیوں اور انسان کو زندہ رکھتی ہے۔‏ اس قوتِ‌حیات کو عملِ‌تنفّس سے برقرار رکھا جاتا ہے۔‏—‏ایوب ۳۴:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

کیا یہ رُوح صرف انسانوں میں کارفرما ہے؟‏ بائبل اس سلسلے میں درست نتیجہ اخذ کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔‏ دانشمند بادشاہ سلیمان نے تسلیم کِیا کہ انسان اور جانور ”‏سب میں ایک ہی سانس ہے“‏ لہٰذا اُس نے استفسار کِیا:‏ ”‏کون جانتا ہے کہ انسان کی رُوح اُوپر چڑھتی اور حیوان کی رُوح زمین کی طرف نیچے کو جاتی ہے؟‏“‏ (‏واعظ ۳:‏۱۹-‏۲۱‏)‏ پس بیان ظاہر کرتا ہے کہ انسانوں اور جانوروں دونوں میں رُوح ہے۔‏ یہ کیسے ممکن ہے؟‏

رُوح یا قوتِ‌حیات کا موازنہ کسی مشین یا آلے کو چلانے والی برقی رَو سے کِیا جا سکتا ہے۔‏ یہ نادیدہ برقی رَو آلے کی مناسبت سے مختلف کام انجام دیتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ بجلی کے چولہے کو حرارت،‏ کمپیوٹر کو معلومات کی ترتیب اور ٹیلیویژن کو تصاویر اور آواز کے لئے استعمال کِیا جا سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ یہ برقی رَو جس آلے کو چلاتی ہے اُس کی خصوصیات اختیار نہیں کر لیتی۔‏ یہ محض ایک قوت ہی رہتی ہے۔‏ اِسی طرح قوتِ‌حیات جن مخلوقات کو زندہ رکھتی ہے اُن کی خصوصیات اختیار نہیں کرتی۔‏ اس کی نہ تو کوئی شخصیت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ سوچنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‏ انسان اور حیوان دونوں میں ”‏ایک ہی سانس [‏”‏رُوح،‏“‏ این‌ڈبلیو]‏ ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۳:‏۱۹‏)‏ لہٰذا،‏ جب کوئی شخص مرتا ہے تو اُسکی رُوح کسی دوسرے عالم میں ایک روحانی مخلوق کے طور پر زندہ نہیں رہتی۔‏

پس،‏ مُردوں کی حالت کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟‏ نیز جب کوئی شخص مرتا ہے تو اُسکی رُوح کیساتھ کیا ہوتا ہے؟‏

‏”‏تُو .‏ .‏ .‏ خاک میں پھر لوٹ جائیگا“‏

جب پہلے انسان آدم نے دانستہ طور پر خدا کی حکم عدولی کی تو خدا نے اُس سے کہا:‏ ”‏تُو اپنے مُنہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تُو پھر لوٹ نہ جائے اس‌لئےکہ تُو اُس سے نکالا گیا ہے کیونکہ تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا۔‏“‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۹‏)‏ اس سے پہلے کہ یہوواہ نے آدم کو خلق کِیا وہ کہاں تھا؟‏ وہ کہیں بھی نہیں تھا!‏ اُس کا کوئی وجود نہیں تھا۔‏ پس جب یہوواہ خدا نے آدم سے یہ کہا کہ وہ ”‏خاک میں پھر لوٹ جائے گا“‏ تو اُس کا مطلب تھا کہ آدم مرنے کے بعد زمین کے عناصر میں شامل ہو جائے گا۔‏ آدم نے روحانی عالم میں منتقل نہیں ہونا تھا۔‏ لہٰذا،‏ موت کے بعد آدم کا پہلے کی طرح کوئی وجود باقی نہیں رہنا تھا۔‏ اُس کی سزا کسی دوسرے عالم میں منتقلی نہیں بلکہ موت یعنی نیستی تھی۔‏—‏رومیوں ۶:‏۲۳‏۔‏

موت کا لقمہ ہونے والے دوسرے لوگوں کی بابت کیا ہے؟‏ واعظ ۹:‏۵،‏ ۱۰ میں مُردوں کی حالت کو واضح کرتے ہوئے بیان کِیا گیا ہے:‏ ”‏مُردے کچھ بھی نہیں جانتے .‏ .‏ .‏ پاتال میں .‏ .‏ .‏ نہ کام ہے نہ منصوبہ۔‏ نہ علم نہ حکمت۔‏“‏ لہٰذا موت نیستی کی حالت ہے۔‏ زبورنویس نے لکھا کہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو ”‏اُسکا دم (‏رُوح)‏ نکل جاتا ہے .‏ .‏ .‏ وہ مٹی میں مِل جاتا ہے۔‏ اُسی دن اُس کے منصوبے فنا ہو جاتے ہیں۔‏“‏—‏زبور ۱۴۶:‏۴‏۔‏

واضح طور پر،‏ مُردوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔‏ وہ کچھ بھی نہیں جانتے۔‏ وہ آپ کو دیکھ نہیں سکتے،‏ آپکی باتیں سُن نہیں سکتے اور آپ سے بات‌چیت بھی نہیں کر سکتے۔‏ اسی طرح نہ تو وہ آپ کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی آپکو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ آپ کو مُردوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ موت کے وقت کسی شخص کی رُوح اُس میں سے ”‏نکل“‏ جاتی ہے؟‏

رُوح ”‏خدا کے پاس“‏ چلی جاتی ہے

بائبل بیان کرتی ہے کہ جب کوئی شخص مرتا ہے تو ”‏روح خدا کے پاس جس نے اُسے دیا تھا واپس“‏ چلی جاتی ہے۔‏ (‏واعظ ۱۲:‏۷‏)‏ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ رُوح خلا میں سفر کرتی ہوئی خدا کے حضور چلی جاتی ہے؟‏ ہرگز نہیں!‏ بائبل جس انداز میں لفظ ”‏واپس“‏ استعمال کرتی ہے وہ ایک سے دوسری جگہ منتقلی کا مفہوم پیش نہیں کرتا۔‏ مثال کے طور پر،‏ بےوفا اسرائیلیوں سے کہا گیا تھا:‏ ”‏تم میری طرف رجوع ہو تو مَیں تمہاری طرف رجوع ہونگا ربُ‌الافواج فرماتا ہے۔‏“‏ (‏ملاکی ۳:‏۷‏)‏ اسرائیل کا یہوواہ کی طرف ’‏رجوع ہونے‘‏ کا مطلب غلط روش کو چھوڑ کر اُس کی راست راہوں کو اختیار کرنا تھا۔‏ نیز یہوواہ کا اسرائیل کی طرف ’‏رجوع ہونے‘‏ کا مطلب اُسکا ایک بار پھر اپنے لوگوں پر نظرِکرم کرنا تھا۔‏ دونوں صورتوں میں ”‏رجوع“‏ جغرافیائی لحاظ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کی بجائے رُجحان میں تبدیلی کو ظاہر کرتا تھا۔‏

اسی طرح،‏ جب رُوح خدا کے پاس ”‏واپس“‏ جاتی ہے تو زمین سے آسمان میں کوئی حقیقی منتقلی واقع نہیں ہوتی۔‏ ایک بار جب کسی شخص میں قوتِ‌حیات ختم ہو جاتی ہے تو صرف خدا ہی اُسے دوبارہ بحال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‏ پس رُوح اس مفہوم میں ”‏خدا کے پاس .‏ .‏ .‏ واپس“‏ جاتی ہے کہ مستقبل میں صرف خدا ہی اُس شخص کو دوبارہ زندگی عطا کر سکتا ہے۔‏

مثال کے طور پر،‏ غور کریں کہ صحائف یسوع مسیح کی موت کی بابت کیا بیان کرتے ہیں۔‏ انجیل‌نویس لوقا کے مطابق:‏ ”‏یسوؔع نے بڑی آواز سے پکار کر کہا اَے باپ!‏ مَیں اپنی رُوح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں اور یہ کہہ کر دم دے دیا۔‏“‏ (‏لوقا ۲۳:‏۴۶‏)‏ جب یسوع کی رُوح اُس میں سے نکل گئی تو اُس نے درحقیقت آسمان کی طرف پرواز نہیں کی تھی۔‏ یسوع تین دن بعد مُردوں میں سے جلایا گیا اور پھر ۴۰ دن بعد آسمان پر گیا تھا۔‏ (‏اعمال ۱:‏۳،‏ ۹‏)‏ تاہم،‏ اپنی موت کے وقت یسوع نے یہوواہ کی دوبارہ زندہ کرنے کی صلاحیت پر مکمل بھروسا رکھتے ہوئے اپنی رُوح اپنے باپ کے ہاتھوں میں سونپ دی تھی۔‏

جی‌ہاں،‏ خدا انسان کو دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۰۴:‏۳۰‏)‏ یہ کسقدر شاندار امکان ہے!‏

ایک یقینی اُمید

بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس [‏یسوع]‏ کی آواز سنکر نکلینگے۔‏“‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ یسوع مسیح نے وعدہ کِیا کہ جتنے یہوواہ کی یاد میں ہیں وہ سب قیامت پائینگے یعنی دوبارہ زندہ کئے جائینگے۔‏ ان میں یقیناً یہوواہ کے راست اور وفادار خادم بھی شامل ہونگے۔‏ تاہم،‏ ہزاروں ایسے لوگ بھی ہیں جو خدا کے راست معیاروں کیلئے اپنی اطاعت کا ثبوت دئے بغیر ہی مر گئے ہیں۔‏ شاید وہ یہوواہ کے تقاضوں سے ناواقف تھے یا شاید اُنکے پاس ضروری ردوبدل کرنے کیلئے وقت ہی نہیں تھا۔‏ ایسے اشخاص بھی خدا کی یاد میں ہیں اور زندہ کئے جائینگے کیونکہ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی۔‏“‏—‏اعمال ۲۴:‏۱۵‏۔‏

آج زمین نفرت‌وابتری،‏ تشددوخونریزی،‏ آلودگی‌وبیماری کی زد میں ہے۔‏ اگر مُردوں کو ایسی زمین پر دوبارہ زندہ کِیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والی ہر طرح کی خوشی عارضی ہی ہوگی۔‏ تاہم خالق نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ شیطان ابلیس کے قبضے میں پڑے ہوئے موجودہ معاشرے کو بہت جلد ختم کر دے گا۔‏ (‏امثال ۲:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ دانی‌ایل ۲:‏۴۴؛‏ ۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ اُس وقت ایک راست انسانی معاشرہ—‏”‏نئی زمین“‏—‏شاندار حقیقت بن جائے گی۔‏—‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏۔‏

اُس وقت ”‏وہاں کے باشندوں میں بھی کوئی نہ کہیگا کہ مَیں بیمار ہوں۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۴‏)‏ موت کا کرب بھی ختم کر دیا جائیگا کیونکہ خدا ”‏اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔‏ اِسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔‏ نہ آہ‌ونالہ نہ درد۔‏ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲۱:‏۴‏)‏ اس وقت جو لوگ ”‏قبروں میں“‏ ہیں اُن کیلئے یہ کتنا شاندار امکان ہے!‏

جب یہوواہ زمین سے بُرائی کا خاتمہ کرے گا تو وہ شریروں کے ساتھ راستبازوں کو ہلاک نہیں کریگا۔‏ (‏زبور ۳۷:‏۱۰،‏ ۱۱؛‏ ۱۴۵:‏۲۰‏)‏ درحقیقت ”‏ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِ‌زبان“‏ کی ایک ”‏بڑی بِھیڑ“‏ اس موجودہ بدکار دُنیا کو تباہ کرنے والی ”‏بڑی مصیبت“‏ میں سے بچ نکلے گی۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹-‏۱۴‏)‏ لہٰذا،‏ لوگوں کا ایک بڑا ہجوم مُردوں کا خیرمقدم کرنے کیلئے وہاں موجود ہوگا۔‏

کیا آپ اپنے مُتوَفّی عزیزوں کو دوبارہ دیکھنے کے مشتاق ہیں؟‏ کیا آپ زمین پر فردوس میں ہمیشہ زندہ رہنا چاہتے ہیں؟‏ اس کے لئے آپ کو خدا کی مرضی اور اُس کے مقاصد کا صحیح علم حاصل کرنا چاہئے۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۳‏)‏ یہوواہ چاہتا ہے کہ ”‏سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۳،‏ ۴‏۔‏

‏[‏صفحہ ۴ پر تصویر]‏

‏”‏تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائیگا“‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

رُوح کو برقی رَو سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

قیامت دائمی خوشی لائیگی