مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ واقعی بُردبار ہیں؟‏

کیا آپ واقعی بُردبار ہیں؟‏

کیا آپ واقعی بُردبار ہیں؟‏

کیا آپ کبھی کسی کے نامناسب چال‌چلن کی وجہ سے اشتعال میں آئے ہیں؟‏ کیا آپ اپنے قریبی ساتھیوں کو بُرے اثرات سے متاثر ہوتا دیکھ کر فوری کارروائی کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں؟‏

بعض‌اوقات کسی سنگین گُناہ کو پھیلنے سے روکنے کے لئے فوری اور سخت کارروائی کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب ۱۵ ویں صدی ق.‏س.‏ع.‏ میں حقارت‌آمیز غلط‌کاری کی وجہ سے اسرائیلیوں کے آلودہ ہو جانے کا خطرہ لاحق ہوا تو ہارون کے پوتے فینحاس نے بُرائی کو ختم کرنے کے لئے فیصلہ‌کُن کارروائی کی تھی۔‏ جو کچھ اُس نے کِیا اُسے پسند کرتے ہوئے یہوواہ خدا نے کہا:‏ ”‏فینحاس .‏ .‏ .‏ نے میرے قہر کو بنی‌اسرائیل پر سے ہٹایا کیونکہ اُن کے بیچ اُسے میرے لئے غیرت آئی۔‏“‏—‏گنتی ۲۵:‏۱-‏۱۱‏۔‏

فینحاس نے ناپاکی کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے مناسب قدم اُٹھایا۔‏ تاہم دوسروں کی معمولی سی انسانی کمزوریوں پر بِلاوجہ ناراض ہو جانے کی بابت کیا ہے؟‏ اگر ہم جلدبازی میں یا کسی معقول وجہ کے بغیر ہی کوئی سخت قدم اُٹھاتے ہیں تو ہم راستی کا دفاع کرنے والے کی بجائے دوسروں کی ناکاملیتوں کو برداشت کرنے میں ناکام رہنے والے تنگ‌نظر شخص کی مانند بن جائیں گے۔‏ اس پھندے سے بچنے کے لئے کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

‏’‏یہوواہ تیری ساری بدکاری کو بخشتا ہے‘‏

یہوواہ ”‏غیور خدا“‏ ہے۔‏ (‏خروج ۲۰:‏۵‏)‏ خالق کے طور پر وہ بِلاشرکتِ‌غیرے عقیدت کا تقاضا کرنے میں حق بجانب ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۴:‏۱۱‏)‏ اس کے باوجود یہوواہ انسانی کمزوریوں کے لئے بُردباری ظاہر کرتا ہے۔‏ اس لئے اس کی بابت زبورنویس داؤد نے یہ گیت گایا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ رحیم اور کریم ہے۔‏ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی۔‏ وہ سدا جھڑکتا نہ رہے گا۔‏ .‏ .‏ .‏ اُس نے ہمارے گُناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کِیا اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہمکو بدلہ نہیں دیا۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ اگر ہم تائب ہوتے ہیں تو خدا ’‏ہماری ساری بدکاری کو بخشتا ہے۔‏‘‏—‏زبور ۱۰۳:‏۳،‏ ۸-‏۱۰‏۔‏

یہوواہ انسان کی گنہگارانہ سرشت سے واقف ہے،‏ لہٰذا وہ تائب گنہگاروں کو ”‏سدا جھڑکتا“‏ نہیں رہتا۔‏ (‏زبور ۵۱:‏۵؛‏ رومیوں ۵:‏۱۲‏)‏ درحقیقت،‏ گُناہ اور ناکاملیت کو ختم کرنا اسکا مقصد ہے۔‏ جبتک ایسا ہو نہیں جاتا خدا ”‏ہماری بدکاریوں کے مطابق ہمکو بدلہ“‏ دینے کی بجائے مشفقانہ طور پر یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی کی بنیاد پر ہمیں معاف کرتا ہے۔‏ اگر یہوواہ ضرورت کے وقت رحم ظاہر نہ کرتا تو ہم میں سے کوئی بھی زندہ رہنے کے لائق نہ ہوتا۔‏ (‏زبور ۱۳۰:‏۳‏)‏ ہم کتنے شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ ہم سے جائز طور پر بِلاشرکتِ‌غیرے عقیدت کا تقاضا کرنے والا ہمارا آسمانی باپ مہربان خدا ہے!‏

توازن درکار ہے

چونکہ کائنات کا حاکمِ‌اعلیٰ ناکامل انسانوں کے ساتھ اپنے برتاؤ میں بُردبار ہے کیا ہمیں بھی ایسا ہی نہیں کرنا چاہئے؟‏ بُردباری کی تعریف یوں کی گئی ہے،‏ ”‏دوسروں کے افعال اور خیالات برداشت کرنے کا میلان۔‏“‏ کیا ہم ذاتی طور پر ایسا میلان ظاہر کرتے ہیں—‏جی‌ہاں جب دوسرے ایسی باتیں کہتے یا کرتے ہیں جو شاید سنگین گُناہ تو نہیں مگر نامناسب قول‌وفعل کے زمرے میں آتی ہیں تو کیا ہم صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں؟‏

سچ ہے کہ ہمیں حد سے زیادہ روادار بننے سے گریز کرنا چاہئے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب مذہبی حکام بچوں کیساتھ مسلسل جنسی بدسلوکی کرنے والے بدکار پادریوں کے لئے رواداری ظاہر کرتے ہیں تو اس کے نتائج تباہ‌کُن ثابت ہوتے ہیں۔‏ آئرلینڈ کے ایک رپورٹر نے بیان کِیا کہ ”‏بچوں کے ساتھ ایسی بدسلوکی کو محض گنہگارانہ روش کا نتیجہ خیال کرتے ہوئے چرچ حکام نے اس پادری کو [‏کسی دوسری جگہ]‏ منتقل کر دیا۔‏“‏

کیا ایسے شخص کی کسی دوسری جگہ منتقلی مناسب بُردباری کی مثال ہے؟‏ ہرگز نہیں!‏ فرض کریں کہ ایک میڈیکل بورڈ اس بات سے قطع‌نظر کہ ایک سرجن مریضوں کی زندگیوں سے کھیلتا یا انہیں معذورکرتا رہتا ہے کسی ایسے غیرذمہ‌دار سرجن کو ایک ہسپتال سے دوسرے میں منتقل کرتے ہوئے آپریشن کرنے کی اجازت دیتا ہے۔‏ اپنے پیشے سے وفاداری کی غلط سوچ ایسی ”‏رواداری“‏ پیدا کر سکتی ہے۔‏ تاہم ان لوگوں کی بابت کیا ہے جنہیں غفلت یا مجرمانہ کاموں کی وجہ سے نقصان پہنچا یا جنکی جانیں ضائع ہو گئیں؟‏

بہت کم رواداری ظاہر کرنے میں بھی خطرہ لاحق ہے۔‏ جب یسوع زمین پر تھا تو زیلوتیس کہلانے والے بعض یہودیوں نے اپنی انتہاپسند کارگزاریوں کی توجیہ کیلئے فینحاس کی مثال کو غلط طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کی۔‏ بعض زیلوتیس یہودیوں کی ایک انتہاپسند کارروائی یہ تھی کہ وہ ”‏عید یا ایسی دیگر تقریبات کے دوران،‏ یروشلیم میں جمع بِھیڑ میں شامل ہو کر خفیہ طور پر اپنے دشمنوں کو خنجروں سے گھایل کر دیتے تھے۔‏“‏

مسیحیوں کے طور پر،‏ ہم کبھی بھی ان زیلوتیس یہودیوں کی طرح ان لوگوں کو جسمانی نقصان پہنچانا نہیں چاہیں گے جنہیں ہم پسند نہیں کرتے۔‏ تاہم،‏ کیا کسی حد تک غیرمتحمل مزاجی ہمیں اُن لوگوں کی بدگوئی کرنے یا دیگر طریقوں سے انہیں نشانہ بنانے کی تحریک دیتی ہے جنہیں ہم پسند نہیں کرتے؟‏ اگر ہم واقعی بُردبار ہیں تو ہم ایسی تلخ‌کلامی سے گریز کریں گے۔‏

پہلی صدی کا فریسی طبقہ بھی ایک تنگ‌نظر گروہ تھا۔‏ وہ ہمیشہ دوسروں پر الزام‌تراشی کرتے تھے اور انسانی ناکاملیت کے لئے کوئی رعایت نہیں کرتے تھے۔‏ مغرور فریسی عام لوگوں کو حقیر جانتے اور انہیں ”‏لعنتی“‏ خیال کرتے تھے۔‏ (‏یوحنا ۷:‏۴۹‏)‏ موزوں طور پر،‏ یسوع نے ایسے ظاہری راستباز اشخاص کی مذمت کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏اَے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس!‏ کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تو دہ‌یکی دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔‏ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔‏“‏—‏متی ۲۳:‏۲۳‏۔‏

یسوع اس بیان سے موسوی شریعت کی اطاعت کو کم اہم قرار نہیں دے رہا تھا۔‏ وہ محض یہ ظاہر کر رہا تھا کہ شریعت کے ”‏بھاری“‏ یا زیادہ اہم پہلو یہ تقاضا کرتے تھے کہ انکا اطلاق جائز طریقے اور رحم کے ساتھ کِیا جائے۔‏ یسوع اور اسکے شاگرد ان غیرروادار فریسیوں اور زیلوتیس یہودیوں سے کسقدر مختلف تھے!‏

یہوواہ خدا اور یسوع مسیح دونوں بُرائی کو نظرانداز نہیں کرتے۔‏ بہت جلد ’‏جو خدا کو نہیں پہچانتے اور خوشخبری کو نہیں مانتے ان سے بدلہ لیا جائے گا۔‏‘‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۶-‏۱۰‏)‏ تاہم،‏ راستبازی کے لئے اپنی گرمجوشی کے ساتھ یسوع نیکی کے خواہشمند لوگوں کے لئے ہمیشہ اپنے آسمانی باپ کے تحمل،‏ رحم اور مشفقانہ فکر کو بھی ظاہر کرتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۲:‏۱-‏۳؛‏ متی ۱۱:‏۲۸-‏۳۰؛‏ ۱۲:‏۱۸-‏۲۱‏)‏ یسوع نے ہمارے لئے کیا ہی شاندار نمونہ قائم کِیا!‏

ایک دوسرے کی برداشت کریں

راستبازی کے لئے پُرعزم ہونے کے باوجود ہمیں پولس رسول کی اس مشورت کا اطلاق کرنا چاہئے:‏ ”‏اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔‏ جیسے [‏یہوواہ]‏ نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو۔‏“‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۳؛‏ متی ۶:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ بُردباری اس ناکامل دُنیا میں ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو برداشت کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔‏ ہمیں دوسروں سے توقعات کے سلسلے میں معقول‌پسند بننے کی ضرورت ہے۔‏—‏فلپیوں۴:‏۵۔‏

بُردبار ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی بھی طرح سے غلط‌کاری کی اجازت دے دی جائے یا خامیوں کو نظرانداز کر دیا جائے۔‏ کسی ساتھی ایماندار کی سوچ یا چال‌چلن کا کوئی پہلو شاید یہوواہ کے معیاروں سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔‏ شاید اس خلاف‌ورزی نے ابھی تک اتنی سنگین صورت اختیار نہیں کی کہ یہ خدا کی نامقبولیت کا سبب بنے تاہم،‏ یہ ایک آگاہی ہو سکتی ہے کہ کچھ نہ کچھ ردوبدل کرنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏پیدایش ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ روحانی لیاقتوں کے مالک اشخاص کو حلم‌مزاجی سے خطاکار کو بحال کرنے کے لئے کوشاں دیکھنا کسقدر پُرمحبت ہے!‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱‏)‏ تاہم،‏ اس کوشش میں کامیابی کا انحصار تنقید کرنے کی بجائے فکرمندی ظاہر کرنے پر ہوتا ہے۔‏

‏”‏حلم اور خوف کیساتھ“‏

مختلف مذہبی نقطۂ‌نظر رکھنے والے لوگوں کے لئے برداشت ظاہر کرنے کی بابت کیا ہے؟‏ آئرلینڈ میں ۱۸۳۱ میں قائم ہونے والے تمام نیشنل سکولوں میں آویزاں کی جانے والی ایک ”‏عام ہدایت“‏ یوں پڑھی جاتی ہے:‏ ”‏یسوع مسیح کا مقصد طاقت کے بل‌بوتے پر لوگوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنا نہیں تھا۔‏ .‏ .‏ .‏ اپنے پڑوسیوں سے لڑنے اور انہیں بُرابھلا کہنے سے ہم انہیں قائل نہیں کر سکتے کہ ہم صحیح ہیں اور وہ غلط ہیں۔‏ غالباً اس سے اُنہیں یہ یقین ضرور ہو جائے گا کہ ہم مسیحی جذبہ نہیں رکھتے۔‏“‏

یسوع نے اپنی تعلیم اور عمل کے ذریعے لوگوں کی توجہ خدا کے کلام پر مبذول کرائی اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔‏ (‏مرقس ۶:‏۳۴؛‏ لوقا ۴:‏۲۲،‏ ۳۲؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏)‏ خداداد بصیرت رکھنے والے ایک کامل انسان کے طور پر وہ لوگوں کے دلوں کو پڑھ سکتا تھا۔‏ لہٰذا،‏ ضرورت پڑنے پر یسوع نے یہوواہ کے دشمنوں کو سخت ملامت بھی کی تھی۔‏ (‏متی ۲۳:‏۱۳-‏۳۳‏)‏ ایسا کرنے سے وہ تنگ‌نظری کا مظاہرہ نہیں کر رہا تھا۔‏

یسوع کے برعکس،‏ ہمارے پاس دلوں کو پڑھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔‏ لہٰذا،‏ ہمیں پطرس رسول کی نصیحت پر عمل کرنا چاہئے:‏ ”‏مسیح کو خداوند جان کر اپنے دلوں میں مُقدس سمجھو اور جو کوئی تم سے تمہاری اُمید کی وجہ دریافت کرے اُسکو جواب دینے کیلئے ہر وقت مستعد رہو مگر حلم اور خوف کے ساتھ۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۵‏)‏ یہوواہ کے خادموں کے طور پر،‏ ہمیں اپنے اعتقادات کا دفاع کرنا چاہئے کیونکہ یہ خدا کے کلام پر مبنی ہیں۔‏ تاہم،‏ ایسا کرتے وقت ہمیں دوسروں کے لئے اور ان کے اعتقادات کے لئے جنکی وہ خلوصدلی سے پیروی کرتے ہیں احترام ظاہر کرنا چاہئے۔‏ پولس نے لکھا:‏ ”‏تمہارا کلام ہمیشہ ایسا پُرفضل اور نمکین ہو کہ تمہیں ہر شخص کو مناسب جواب دینا آ جائے۔‏“‏—‏کلسیوں ۴:‏۶‏۔‏

اپنے مشہور پہاڑی وعظ میں یسوع نے فرمایا:‏ ”‏جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تم بھی اُن کے ساتھ کرو۔‏“‏ (‏متی ۷:‏۱۲‏)‏ پس،‏ آئیں ہم ایک دوسرے کی برداشت کریں اور ان لوگوں کے لئے احترام ظاہر کریں جنہیں ہم خوشخبری سناتے ہیں۔‏ راستبازی کے لئے اپنی گرمجوشی اور بائبل پر مبنی بُردباری میں توازن قائم کرنے سے ہم یہوواہ کو خوش کرینگے اور واقعی بُردبار ہونگے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

فریسیوں کے غیرروادارانہ رُجحان سے گریز کریں

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

یسوع نے بُردباری کے سلسلے میں اپنے باپ کے جذبے کی عکاسی کی۔‏ کیا آپ بھی ایسا کرتے ہیں؟‏