آپکے اعتقاد کی بنیاد کیا ہے؟
آپکے اعتقاد کی بنیاد کیا ہے؟
اعتقاد سے مُراد کسی بات کو ”سچ، مستند یا حقیقی تسلیم کرنا ہے۔“ اقوامِمتحدہ کا یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومین رائٹس ”نظریات، خیالات اور مذہب“ کے سلسلے میں ہر شخص کے حقِآزادی کا تحفظ کرتا ہے۔ اس حق کے مطابق ہر شخص اگر چاہے تو اپنا ”مذہب یا اعتقاد بدل“ سکتا ہے۔
تاہم، کوئی اپنا مذہب یا اعتقاد کیوں بدلنا چاہے گا؟ ”میرے اپنے اعتقادات ہیں اور مَیں اُن سے بالکل مطمئن اور خوش ہوں،“ عام طور پر یہی رائے پائی جاتی ہے۔ بہتیروں کا خیال تو یہ ہے کہ غلط اعتقادات بھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی یہ مانتا ہے کہ زمین چپٹی ہے تو اس سے اُسکی اپنی ذات یا دوسروں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ بعض کہتے ہیں کہ ”اگر کسی شخص کا اعتقاد فرق ہے تو ہمیں اِس حقیقت کو مان لینا چاہئے اور بحث نہیں کرنی چاہئے۔“ کیا یہ دانشمندی کی بات ہوگی؟ اگر ایک ڈاکٹر مُردہخانے میں لاشوں کو چھونے کے بعد سیدھا ہسپتال کی وارڈ میں جا کر مریضوں کا معائنہ کرنا درست خیال کرتا ہے تو کیا دوسرا ڈاکٹر اس سے متفق ہو جائیگا؟
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ غلط مذہبی اعتقادات بڑے نقصاندہ ثابت ہوتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ قرونِوسطیٰ کی صلیبی جنگوں میں جب مذہبی پیشواؤں نے ”مسیحی انتہاپسندوں کو بیرحمی سے تشدد کرنے کی تحریک“ دی تو کتنے ہولناک واقعات رُونما ہوئے تھے۔ کسی حالیہ جنگ میں ملوث اُن ”مسیحی“ فوجیوں کی بابت سوچیں جو ”اپنی تلواروں کے دستوں پر اپنے مقدسین کا نام لکھنے والے قرونِوسطیٰ کے جنگجوؤں کی طرح اپنی رائفل کے بٹ پر کنواری مریم کی تصویر لگاتے ہیں۔“ یہ سب انتہاپسند اپنی دانست میں بالکل ٹھیک تھے۔ تاہم، اِس طرح کی دیگر مذہبی جنگوں اور فسادات میں ایک بہت بڑی خرابی تھی۔
آجکل اتنی بدامنی اور ابتری کیوں ہے؟ بائبل اس سوال کے جواب میں مکاشفہ ۱۲:۹؛ ۲-کرنتھیوں ۴:۴؛ ۱۱:۳) افسوس کی بات ہے کہ پولس رسول کی آگاہی کے مطابق بہتیرے مذہبی لوگ شیطان کے ’جھوٹے نشانوں اور عجیب کاموں‘ کے دھوکے میں آکر ’ہلاک‘ ہو جائینگے۔ پولس نے کہا کہ ایسے لوگ ’نجاتبخش سچائی سے محبت کو نظرانداز‘ کر دینے کے باعث ’جھوٹ کو سچ مان کر گمراہ‘ ہو جاتے ہیں۔ (۲-تھسلنیکیوں ۲:۹-۱۲) آپ کسی جھوٹ پر یقین کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ پس، آپکے ایمان کی بنیاد کیا ہے؟
بیان کرتی ہے کہ شیطان ابلیس ”سارے جہان کو گمراہ“ کر رہا ہے۔ (بچپن سے یہی سیکھا ہے؟
شاید آپ نے بچپن سے ہی اپنے خاندان کے اعتقادات کی تعلیم پائی ہے۔ یہ کسی حد تک اچھی بات ہو سکتی ہے کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ والدین اپنے بچوں کو سکھائیں۔ (استثنا ۶:۴-۹؛ ۱۱:۱۸-۲۱) مثال کے طور پر، نوجوان تیمتھیس نے اپنی ماں اور نانی سے نہایت مفید تعلیم پائی تھی۔ (۲-تیمتھیس ۱:۵؛ ۳:۱۴، ۱۵) صحائف والدین کے اعتقادات کا احترام کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ (امثال ۱:۸؛ افسیوں ۶:۱) لیکن کیا آپکا خالق یہ چاہتا ہے کہ آپ بعض باتیں محض اسلئے سچ مان لیں کیونکہ آپ کے والدین بھی اُنہیں سچ مانتے ہیں؟ دراصل آباؤاجداد کے ایمان اور اعمال کی بِلاسوچےسمجھے پیروی کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔—زبور ۷۸:۸؛ عاموس ۲:۴۔
جس سامری عورت کی یسوع مسیح سے ملاقات ہوئی تھی اُس نے بھی بچپن ہی سے سامری مذہب کی تعلیم پائی تھی۔ (یوحنا ۴:۲۰) یسوع نے ایمان کے سلسلے میں اُس کی آزادیٔانتخاب کا احترام کِیا مگر اُسے اتنا ضرور بتایا: ”تم جسے نہیں جانتے اُس کی پرستش کرتے ہو۔“ دراصل اُس کے بیشتر اعتقادات غلط تھے اسی لئے یسوع نے اُسے بتایا کہ اگر وہ قابلِقبول طریقے سے یعنی ”روح اور سچائی سے“ خدا کی پرستش کرنا چاہتی ہے تو اُسے اپنے اعتقادات تبدیل کرنے ہونگے۔ اپنے دیرینہ اور پسندیدہ اعتقادات سے چمٹے رہنے کی بجائے، اُسے اور اُس جیسے دیگر لوگوں کو یسوع مسیح کی معرفت منکشف ”دین کے تحت“ ہو جانا تھا۔—یوحنا ۴:۲۱-۲۴، ۳۹-۴۱؛ اعمال ۶:۷۔
دانشوروں کے اعتقادات ماننے کی تعلیم؟
علموفن کے مخصوص شعبوں میں بہتیرے اساتذہ اور علما بڑی عزت کے مستحق ہیں۔ تاہم، تاریخ ایسے شہرۂآفاق اساتذہ کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جنکے نظریات بالکل غلط تھے۔ مثال کے طور پر، یونانی فلاسفر ارسطو کی دو سائنسی کتابوں کی بابت مؤرخ برٹرینڈ رسل نے بیان کِیا کہ ”جدید سائنس کی روشنی میں ان کتابوں کے ایک جملے کو بھی درست تسلیم نہیں کِیا جا سکتا۔“ لیکن اکثر جدید سائنسی ماہرین کی باتیں بھی بالکل غلط ہوتی ہیں۔ برطانوی سائنسدان لارڈ کیلون نے ۱۸۹۵ میں یہ دعویٰ کِیا کہ ”ہوا سے وزنی اُڑنے والی مشینوں کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔“ لہٰذا، ایک دانشمند آدمی کسی بات کو محض اِسلئے سچ نہیں مان لیتا کہ یہ کسی معروف عالم کی بات ہے۔—زبور ۱۴۶:۳۔
مذہبی تعلیم کے سلسلے میں بھی ایسی ہی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ پولس رسول نے اپنے مذہبی اساتذہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی اور وہ ”اپنے بزرگوں کی روایتوں میں نہایت سرگرم تھا۔“ تاہم، اپنے آباؤاجداد کے روایتی اعتقادات کیلئے سرگرمی نے اُسے مشکلات میں ڈال دیا تھا۔ اِنکی وجہ سے وہ ”خدا کی کلیسیا کو ازحد ستاتا اور تباہ کرتا تھا۔“ (گلتیوں ۱:۱۳، ۱۴؛ یوحنا ۱۶:۲، ۳) افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پولس کافی عرصے تک ”پینے کی آر پر لات“ مارنے سے ایسے اثرات کی مزاحمت کرتا رہا جو اُسے یسوع مسیح پر ایمان لانے کی طرف راغب کر سکتے تھے۔ لہٰذا، یسوع نے خود معجزانہ طور پر مداخلت کرکے پولس کو اپنے اعتقادات بدلنے کی تحریک دی۔—اعمال ۹:۱-۶؛ ۲۶:۱۴۔
ابلاغِعامہ کا اثر؟
ممکن ہے کہ ابلاغِعامہ نے آپ کے اعتقادات پر بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔ بیشتر لوگ اس بات سے خوش ہوتے ہیں کہ ابلاغِعامہ کو تشہیروتحریر کی آزادی حاصل ہونے کی بدولت اُنہیں مفید معلومات تک دسترس حاصل ہے۔ تاہم، بیشتر طاقتور عناصر ابلاغِعامہ کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا، اکثر متعصّبانہ معلومات پیش کی جاتی ہیں جو مخفی انداز میں آپکی سوچ پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
یسعیاہ ۵:۲۰؛ ۱-کرنتھیوں ۶:۹، ۱۰۔
علاوہازیں، زیادہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ابلاغِعامہ سنسنیخیز اور انوکھی باتوں کی تشہیر کرتے ہیں۔ کچھ سال پہلے جن باتوں کو دوسروں کے سامنے یا عوام کے سامنے لانا نامناسب سمجھا جاتا تھا اب وہی گھرگھر سنی اور پڑھی جا سکتی ہیں۔ واقعی، انسانی طرزِعمل اور اخلاقیت کے معیار روبہتنزل ہیں۔ لوگوں کی سوچ بھی رفتہرفتہ بگڑتی جا رہی ہے۔ وہ ”بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی“ سمجھنے لگے ہیں۔—ایمان کی ٹھوس بنیاد ڈالنا
انسانی نظریات اور فیلسوفیوں پر اپنے ایمان کی بنیاد رکھنا ریت پر گھر تعمیر کرنے کے مترادف ہے۔ (متی ۷:۲۶؛ ۱-کرنتھیوں ۱:۱۹، ۲۰) پس، آپ کس چیز کو پورے اعتماد کے ساتھ اپنے اعتقادات کی بنیاد بنا سکتے ہیں؟ اگر خدا نے آپکو اپنے اردگرد کی دُنیا کی جانچ اور روحانی معاملات پر استفسار کرنے کی عقلودانش بخشی ہے تو کیا یہ بات معقول نہیں کہ وہ آپ کے سوالات کے درست جواب فراہم کرنے کا ذریعہ بھی مہیا کرے گا؟ (۱-یوحنا ۵:۲۰) جیہاں، یہ بات تو معقول ہے! تاہم، پرستش سے متعلق معاملات میں آپ سچی، مستند اور حقیقی باتوں کا تعیّن کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ صرف خدا کا کلام، بائبل ہی اس کے لئے بنیاد مہیا کرتا ہے۔—یوحنا ۱۷:۱۷؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷۔
تاہم شاید کوئی کہے کہ ”کیا دُنیاوی معاملات میں بدامنی اور ابتری کے ذمہدار وہی لوگ نہیں جنکے پاس بائبل ہے؟“ یہ سچ ہے کہ بائبل کے مطابق چلنے کے دعویدار مذہبی پیشواؤں نے بہتیرے متضاد اور پریشانکُن نظریات کو جنم دیا ہے۔ لیکن اسکی وجہ دراصل یہ ہے کہ اُنہوں نے بائبل کو اپنے اعتقادات کی بنیاد نہیں بنایا۔ پطرس رسول اُنہیں ”جھوٹے نبی“ اور ”جھوٹے اُستاد“ کہتا ہے جو ”ہلاک کرنے والی بدعتیں نکالینگے۔“ پطرس کے مطابق اِنہی کاموں کی وجہ سے ”راہِحق کی بدنامی ہوگی۔“ (۲-پطرس ۲:۱، ۲) پطرس مزید بیان کرتا ہے: ”ہمارے پاس نبیوں کا وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھہرا اور تم اچھا کرتے ہو جو یہ سمجھ کر اُس پر غور کرتے ہو کہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ میں روشنی بخشتا ہے۔“—۲-پطرس ۱:۱۹؛ زبور ۱۱۹:۱۰۵۔
بائبل ہماری حوصلہافزائی کرتی ہے کہ ہم اپنے اعتقادات کو اسکی تعلیم کی روشنی میں پرکھیں۔ (۱-یوحنا ۴:۱) اس رسالے کے لاکھوں قارئین اس بات کی تصدیق کرینگے کہ ایسا کرنے سے اُنکی زندگیاں زیادہ بامقصد اور مستحکم ہو گئی ہیں۔ پس، بیریہ کے نیکذات لوگوں کی مانند بنیں اور کسی بات کا یقین کرنے سے پہلے ’بڑی احتیاط کیساتھ روزانہ صحائف کی تحقیق کریں۔‘ (اعمال ۱۷:۱۱) ایسا کرنے کیلئے یہوواہ کے گواہ آپکی مدد کرکے خوش ہونگے۔ بِلاشُبہ، آپکا اعتقاد آپکا ذاتی معاملہ ہے۔ تاہم، یہ یقین کر لینا دانشمندی کی بات ہوگی کہ آپکے اعتقادات انسانی حکمت اور خواہشات کی بجائے خدا کی طرف سے آشکارا سچائی پر مبنی ہیں۔—۱-تھسلنیکیوں ۲:۱۳؛ ۵:۲۱۔
[صفحہ ۶ پر تصویریں]
آپ پورے اعتماد کیساتھ بائبل کو اپنے اعتقادات کی بنیاد بنا سکتے ہیں