مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اعتقاد—‏ایک ذاتی معاملہ

اعتقاد—‏ایک ذاتی معاملہ

اعتقاد‏—‏ایک ذاتی معاملہ

آپ اعتقاد کے سلسلے میں حقِ‌آزادی کی یقیناً بڑی قدر کرتے ہیں۔‏ سب ہی ایسا کرتے ہیں۔‏ اس حق کے باعث دُنیا کے چھ ارب باشندوں میں اعتقادات کا حیران‌کُن تنوع پیدا ہو گیا ہے۔‏ جس طرح خلقت میں رنگ‌وبو،‏ آوازوذائقہ اور ساخت‌ونوعیت کا حسین تغیر پایا جاتا ہے اُسی طرح مختلف اعتقادات اکثر زندگی میں دلچسپی،‏ تجسّس اور لطف کو فروغ دیتے ہیں۔‏ باالفاظِ‌دیگر،‏ ایسا تنوع زندگی میں چاشنی پیدا کرتا ہے۔‏—‏زبور ۱۰۴:‏۲۴‏۔‏

تاہم،‏ اس سلسلے میں احتیاط ضروری ہے۔‏ بعض اعتقادات نہ صرف مختلف بلکہ خطرناک بھی ہوتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ ۲۰ ویں صدی کے شروع میں،‏ بعض لوگوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ یہودی اور فری‌میسن ”‏مسیحی مدنیت کو ختم کرکے اپنے مشترکہ اقتدار کے تحت ایک عالمگیر ریاست قائم“‏ کرنا چاہتے ہیں۔‏ اس اعتقاد کی ابتدا ایک یہوددُشمن ٹریکٹ سے ہوئی جسکا عنوان تھا پروٹوکالز آف دی لرنڈ ایلڈرز آف زائن۔‏ اس ٹریکٹ نے الزام عائد کِیا کہ اس منصوبے کے تحت دراصل بھاری ٹیکس لگانے،‏ اسلحے کی پیداوار کے فروغ اور ’‏دیگر اقوام کے وسائل اور اثاثوں کو تباہ‘‏ کرنے کے لئے اجارہ‌داریوں کی حمایت کی جا رہی ہے۔‏ دیگر الزامات میں ’‏غیریہودیوں کو جہالت کے اندھیرے میں غرق‘‏ کرنے کے لئے تعلیمی نظام پر قبضہ جمانا اور دارالحکومتی شہروں کو ملانے کے لئے زمین‌دوز ریل کی پٹڑی بچھانا شامل تھا تاکہ یہودی پیشوا ’‏مخالفین کو نیست کرنے سے غلبہ‘‏ حاصل کر سکیں۔‏

یہ سب جھوٹ کا پلندا تھا جنکا مقصد یہودیوں کے خلاف جذبات کو بھڑکانا تھا۔‏ برٹش میوزیم کا مارک جونز بیان کرتا ہے کہ ’‏اس لغو داستان کا آغاز روس سے ہوا تھا‘‏ جہاں یہ سب سے پہلے ۱۹۰۳ میں کسی اخبار میں شائع ہوئی تھی۔‏ پھر یہ مئی ۸،‏ ۱۹۲۰ کو لندن کے دی ٹائمز میں شائع ہوئی۔‏ ایک سال بعد دی ٹائمز نے اسے جھوٹا قرار دے دیا۔‏ تاہم،‏ جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو ہی چکا تھا۔‏ جونز کے مطابق ’‏ایسی جھوٹی باتوں کو دبانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔‏‘‏ جب لوگ انہیں قبول کر لیتے ہیں تو یہ نہایت متعصّبانہ،‏ زہرآلودہ اور خطرناک اعتقادات کو جنم دیتی ہیں جو تباہ‌کُن انجام پر منتج ہوتے ہیں جیسے کہ ۲۰ ویں صدی کی تاریخ سے ظاہر ہے۔‏—‏امثال ۶:‏۱۶-‏۱۹‏۔‏

اعتقاد بمقابلہ سچائی

یہ بات سچ ہے کہ غلط اعتقادات کسی جھوٹ کے بغیر بھی پھیل سکتے ہیں۔‏ بعض‌اوقات،‏ ہم خود ہی کسی بات کو صحیح طرح سمجھ نہیں پاتے۔‏ کتنے لوگ کوئی ایسا کام کرتے ہوئے بےموت مارے جاتے ہیں جو اُنکی دانست میں صحیح ہوتا ہے؟‏ اکثر ہم کسی بات کو محض اسلئے سچ مان لیتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ صحیح ہوتی ہے۔‏ ایک پروفیسر کے مطابق،‏ سائنسدان بھی ”‏اکثر اپنے مفروضات اور نتائج کو مستند سمجھنے لگتے ہیں۔‏“‏ اُن کے اپنے نظریات ہی واقعیت‌پسندانہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیتے ہیں۔‏ یوں وہ اپنی ساری زندگی غلط اعتقادات کی حمایت کرنے کی بےسُود کوشش میں گزار دیتے ہیں۔‏—‏یرمیاہ ۱۷:‏۹‏۔‏

مذہبی اعتقادات کے سلسلے میں بھی کچھ ایسا ہی واقع ہوا ہے اسلئےکہ اِن میں بہت زیادہ تضاد پایا جاتا ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۴:‏۳،‏ ۴‏)‏ اگر ایک شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے تو دوسرا دعویٰ کرتا ہے کہ یہ محض اُسکی ”‏اپنی اختراع ہے جسکی کوئی بنیاد نہیں ہے۔‏“‏ اگر ایک شخص یہ مانتا ہے کہ انسان میں غیرفانی روح ہے جو موت کے بعد بھی زندہ رہتی ہے تو دوسرا یہ سمجھتا ہے کہ موت کے وقت انسان مکمل طور پر ختم اور نیست ہو جاتا ہے۔‏ بدیہی طور پر ایسے تمام مختلف اعتقادات سچ نہیں ہو سکتے۔‏ پس،‏ کیا اس بات کا تعیّن کرنا دانشمندی کی بات نہیں ہوگی کہ آپکا ایمان بےبنیاد نہیں بلکہ پُختہ اور سچا ہے؟‏ (‏امثال ۱:‏۵‏)‏ آپ یہ تعیّن کیسے کر سکتے ہیں؟‏ اگلا مضمون اس موضوع پر بحث کریگا۔‏

‏[‏صفحہ ۳ پر تصویر]‏

۱۹۲۱ میں ”‏پروٹوکالز آف دی لرنڈ ایلڈرز آف زائن“‏ کو جھوٹا قرار دینے والا مضمون