اچھی عادات سے فائدہ اُٹھائیں
اچھی عادات سے فائدہ اُٹھائیں
وہ شخص ایتھنز کے مضافات میں ۱۲ سال سے مقیم تھا۔ وہ ہر روز کام کے بعد ایک ہی راستے سے گھر جایا کرتا تھا۔ لیکن پھر وہ کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہو گیا۔ ایک دن کام کے بعد وہ گھر لوٹ رہا تھا کہ اچانک اُسے احساس ہوا کہ وہ غلط راستے پر ہے کیونکہ وہ اپنے پُرانے علاقے میں پہنچ گیا تھا۔ درحقیقت، وہ عادتاً اپنے پُرانے گھر چلا آیا تھا!
ہماری عادات دراصل ہماری فطرت کا ہی دوسرا نام ہے اور یہ مختلف طریقوں سے ہم پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ اس مفہوم میں عادات کو آگ سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے۔ آگ اندھیرے میں اُجالا کرنے کے علاوہ ہمارے جسموں کو حرارت بخشتی اور ہمارے کھانے کو بھی گرم کرتی ہے۔ تاہم، آگ ایک خطرناک دشمن بن کر ہماری زندگیوں اور اثاثوں کو تباہ بھی کر سکتی ہے۔ عادات پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ اگر یہ اچھی ہوں تو بہت مفید ثابت ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بڑی تباہکُن بھی ہو سکتی ہیں۔
مسبوقالذکر آدمی کے معاملہ میں تو اُسے اپنی عادت کی وجہ سے ٹریفک میں پھنس کر کچھ وقت کا نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔ تاہم، جب اہم معاملات کی بات آتی ہے تو عادات ہمیں کامیاب یا تباہ کر سکتی ہیں۔ آیئے بائبل کی چند حقیقی مثالوں پر غور کریں جو ظاہر کرتی ہیں کہ کیسے ہماری عادات خدا کیساتھ مضبوط رشتہ پیدا کرنے اور اُس کی خدمت بجا لانے میں یا تو مددگار ثابت ہو سکتی ہیں یاپھر رُکاوٹ بن سکتی ہیں۔
اچھی اور بُری عادات کی بائبل مثالیں
نوح، ایوب اور دانیایل کو خدا کیساتھ ایک قریبی رشتہ رکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ بائبل اُنکی ”صداقت“ کی وجہ سے اُنکی تعریف کرتی ہے۔ (حزقیایل ۱۴:۱۴) اِن تینوں آدمیوں کی زندگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنہوں نے اچھی عادات پیدا کی تھیں۔
نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا گیا تھا جو آجکل کی فٹبال گراؤنڈ سے زیادہ لمبی اور پانچ منزلہ عمارت سے زیادہ اُونچی تھی۔ زمانۂقدیم کے کسی بھی کشتیساز کیلئے اتنا بڑا پراجیکٹ واقعی چیلنجخیز ثابت ہوا ہوتا۔ نوح اور اُسکے خاندان کے سات افراد نے جدید سازوسامان کے بغیر اس کشتی کو تعمیر کِیا۔ علاوہازیں، نوح نے اپنے زمانے کے لوگوں کو منادی کرنا بھی جاری رکھا۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے خاندان کی روحانی اور جسمانی ضروریات بھی پوری کرتا ہوگا۔ (۲-پطرس ۲:۵) اِن تمام کاموں کو سرانجام دینے کیلئے نوح یقیناً محنت سے کام کرنے کا عادی ہوگا۔ مزیدبرآں، بائبل نوح کی بابت بیان کرتی ہے کہ وہ ”خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ . . . نوح نے وہ سب جیسا [یہوواہ] نے اُسے حکم دیا تھا کِیا۔“ (پیدایش ۶:۹، ۲۲؛ ۷:۵) بائبل میں نوح کو ”بےعیب“ بھی کہا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ طوفان حتیٰکہ بابل میں یہوواہ کے خلاف بغاوت کے سر اُٹھانے کے بعد تک خدا کے ساتھ چلتا رہا۔ یقیناً، نوح ۹۵۰ سال کی عمر میں اپنی موت تک خدا کیساتھ ساتھ چلتا رہا۔—پیدایش ۹:۲۹۔
ایوب اپنی اچھی عادات کی وجہ سے ”کامل اور راستباز“ کہلایا۔ (ایوب ۱:۱، ۸؛ ۲:۳) وہ عموماً یا عادتاً اپنے بچوں کی خاطر ہر ضیافت کے بعد اس خیال سے خاندان کے کاہن کی حیثیت سے قربانی گزرانتا تھا کہ شاید انہوں نے ”کچھ خطا کی ہو اور اپنے دل میں خدا کی تکفیر کی ہو۔ . . . اؔیوب ہمیشہ ایسا ہی کِیا کرتا تھا۔“ (ایوب ۱:۵) ایوب کے خاندان میں بِلاشُبہ یہوواہ کی پرستش سے متعلق رسومات نمایاں تھیں۔
دانیایل یہوواہ کی ”ہمیشہ عبادت کرتا“ رہا۔ (دانیایل ۶:۱۶، ۲۰) دانیایل کن اچھی روحانی عادات کا مالک تھا؟ ایک بات تو یہ ہے کہ وہ یہوواہ سے باقاعدگی کیساتھ دُعا کرتا تھا۔ اس عمل کے خلاف شاہی فرمان کے باوجود ”دانیؔایل . . . دن میں تین مرتبہ حسبِمعمول گھٹنے ٹیک کر خدا کے حضور دُعا اور اُسکی شکرگذاری کرتا رہا۔“ (دانیایل ۶:۱۰) اُس نے خدا سے دُعا کرنے کی عادت ترک نہ کی حالانکہ اسکی وجہ سے اُسکی زندگی بھی خطرے میں پڑ گئی۔ اس عادت نے یقیناً دانیایل کو اپنی زندگی میں خدا کیلئے غیرمعمولی راستی برقرار رکھنے کی طاقت عطا کی تھی۔ بدیہی طور پر، دانیایل خدا کے ہیجانخیز وعدوں کا مطالعہ اور اُن پر غوروخوض کرنے کا بھی عادی تھا۔ (یرمیاہ ۲۵:۱۱، ۱۲؛ دانیایل ۹:۲) اِن عادات کی بدولت اُس نے آخر تک برداشت کی اور کامیابی کیساتھ زندگی کی دوڑ ختم کی۔
اسکے برعکس، بُری عادت کی وجہ سے دینہ کو افسوسناک انجام کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ”اُس مُلک کی لڑکیوں کے دیکھنے کو باہر“ جایا کرتی تھی جو یہوواہ کی پرستار نہیں تھیں۔ (پیدایش ۳۴:۱) اُسکی بظاہر بےضرر عادت تباہی کا باعث بنی۔ پہلے تو اُسے سکم نے بےحُرمت کِیا جو ”اپنے باپ کے سارے گھرانے میں سب سے معزز“ سمجھا جاتا تھا۔ پھر اُسکے دو بھائیوں نے انتقاماً اُس شہر کے تمام مردوں کو ہلاک کر دیا۔ کتنا ہولناک انجام!—پیدایش ۳۴:۱۹، ۲۵-۲۹۔
ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ ہماری عادات ہمیں نقصان کی بجائے فائدہ پہنچائینگی؟
عادات سے فائدہ اُٹھانا
ایک فلاسفر نے لکھا کہ ”عادات مقدر کا حصہ ہیں۔“ لیکن ایسا ہونا تو نہیں چاہئے۔ بائبل واضح کرتی ہے کہ ہم اپنی بُری عادات کو بدل کر اچھی عادات پیدا کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
اچھی عادات کی بدولت مسیحی طرزِزندگی زیادہ سہل اور مفید ہو جاتا ہے۔ یونان سے ایک مسیحی، الکس بیان کرتا ہے: ”مختلف کام سرانجام دینے کیلئے شیڈول کی پابندی کرنے کی عادت سے میرا بیشقیمت وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔“ ایک مسیحی بزرگ، تھیفلُس کے مطابق، منصوبہسازی کی عادت اثرآفرین ثابت ہونے میں اُسکی مدد کرتی ہے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”مجھے پورا یقین ہے کہ مَیں اچھی منصوبہسازی کی عادت کے بغیر اپنی مسیحی ذمہداریوں کو کامیابی سے انجام نہیں دے سکتا۔“
مسیحیوں کے طور پر ہمیں ”[معمول] کے مطابق“ چلنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ (فلپیوں ۳:۱۶) معمول میں ”حسبِدستور کسی کام کو عادتاً کرنا“ شامل ہے۔ ایسی اچھی عادات مفید ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ہمیں ہر کام کیلئے مغزماری نہیں کرنی پڑتی بلکہ ہم اپنے معمول اور عادت کی بِنا پر مختلف کام انجام دیتے رہتے ہیں۔ ہماری بعض عادات اتنی پُختہ ہو جاتی ہیں کہ یہ ہمیں غیرارادی حرکات کی طرف مائل کرتی ہیں۔ جس طرح تحفظ کو ملحوظِخاطر رکھتے ہوئے دھیان سے گاڑی چلانے کی عادات سڑک پر خطرے کی صورت میں زندگی بچانے کیلئے فوری فیصلے کرنے میں ایک ڈرائیور کی راہنمائی کرتی ہیں اسی طرح اچھی عادات اپنی مسیحی زندگی میں فوری طور پر مناسب فیصلے کرنے میں ہماری مدد کرتی ہیں۔
ایک انگریز مصنف، جرمی ٹیلر نے بیان کِیا: ”عادات اعمال سے جنم لیتی ہیں۔“ اگر ہماری عادات اچھی ہیں تو ہمیں اچھے کام کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی۔ مثال کے طور پر، اگر ہمیں مسیحی خادموں کے طور پر منادی کے کام میں باقاعدہ حصہ لینے کی عادت ہے تو ہمارے لئے میدانی خدمتگزاری میں جانا آسان اور پُرمسرت ہوگا۔ رسولوں کی بابت ہم پڑھتے ہیں کہ ”وہ ہیکل میں اور گھروں میں ہر روز تعلیم دینے اور اس بات کی خوشخبری سنانے سے کہ یسوؔع ہی مسیح ہے باز نہ آئے۔“ (اعمال ۵:۴۲؛ ۱۷:۲) اسکے برعکس، اگر ہم خدمتگزاری میں کبھیکبھار ہی جاتے ہیں تو ہمیں پریشانی ہو سکتی ہے اور اس اہم مسیحی کارگزاری میں اطمینان اور اعتماد حاصل کرنے کیلئے وقت لگ سکتا ہے۔
ہمارے مسیحی معمول کے دیگر پہلوؤں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اچھی عادت باقاعدگی سے ’دن رات خدا کے کلام پر دھیان‘ دینے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔ (یشوع ۱:۸؛ زبور ۱:۲) ایک مسیحی کو سونے سے پہلے ۲۰ سے ۳۰ منٹ تک بائبل پڑھنے کی عادت ہے۔ اگر وہ بہت تھکا ہوا بھی ہو تو بائبل پڑھے بغیر اُسے نیند نہیں آتی۔ لہٰذا اُسے اُٹھ کر اپنی اس روحانی ضرورت کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ کئی سالوں سے اس اچھی عادت نے ہر سال پوری بائبل پڑھنے میں اُسکی مدد کی ہے۔
یسوع مسیح نے ہمارے لئے عمدہ نمونہ چھوڑا ہے۔ اُسے ایسے اجتماعات پر حاضر ہونے کی عادت تھی جہاں بائبل پر گفتگو کی جاتی تھی۔ وہ ”اپنے دستور کے موافق سبت کے دن عبادتخانہ میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہوا۔“ (لوقا ۴:۱۶) ایک بڑے خاندان کے سربراہ اور مسلسل کئی گھنٹوں تک کام کرنے والے ایک بزرگ کی عادت نے اُس کے اندر اجلاسوں پر باقاعدہ شرکت کی ضرورت کا احساس اور خواہش پیدا کی ہے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”یہ عادت مجھے مشکلات اور مسائل کا کامیابی سے سامنا کرنے کیلئے درکار روحانی طاقت فراہم کرتے ہوئے ثابتقدم رکھتی ہے۔“—عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
زندگی کی مسیحی دَوڑ میں ایسی عادات ناگزیر ہیں۔ ایک ملک کی رپورٹ جہاں یہوواہ کے گواہوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا یوں بیان کرتی ہے: ”اچھی روحانی عادات اور سچائی کی قدر کرنے والے لوگوں کو آزمائش کے وقت ثابتقدم رہنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی جبکہ سازگار ’وقت‘ میں اجلاسوں سے غیرحاضر، میدانی خدمتگزاری میں بےقاعدہ اور معمولی باتوں پر مصالحت کرنے والے لوگ اکثر ’سخت‘ آزمائش میں ہمت ہار جاتے ہیں۔“—بُری عادات سے بچیں اور اچھی سے مستفید ہوں
عام خیال کے مطابق ’ایک شخص کو اپنے اندر وہی عادات پیدا کرنی چاہئیں جنکا اثر وہ بخوشی قبول کرنے کیلئے تیار ہے۔‘ بُری عادات کا ظالمانہ اثر تو قبول نہیں کِیا جا سکتا۔ تاہم، ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ایک وقت تھا جب سٹیلا ہر وقت ٹیلیویژن دیکھتی رہتی تھی۔ وہ تسلیم کرتی ہے: ”میری ہر بُری عادت کی ہمیشہ کوئی نہ کوئی ’بےضرر‘ وجہ ضرور ہوتی تھی۔“ حد سے زیادہ ٹیلیویژن دیکھنے کی عادت کا بھی ایک ایسا ہی عذر تھا۔ وہ خود سے یہ کہتی تھی کہ وہ صرف ”تھوڑی سی تفریح“ یا ”مزاج میں تبدیلی“ کیلئے کچھ دیر ٹیلیویژن دیکھے گی۔ تاہم، اُسکی عادت اُسکے اختیار میں نہ رہی اور وہ گھنٹوں ٹیلیویژن دیکھتی رہتی۔ وہ بیان کرتی ہے: ”یہ بُری عادت میری روحانی ترقی میں رُکاوٹ بن گئی۔“ سخت کوشش کے بعد، وہ بالآخر ٹیلیویژن دیکھنے کے وقت کو کم کرکے انتخابپسند بننے کے قابل ہوئی۔ سٹیلا بیان کرتی ہے: ”مَیں ہمیشہ اس عادت کو چھوڑنے کی وجہ یاد رکھنے کی کوشش اور اپنے عزم پر قائم رہنے کیلئے یہوواہ پر توکل کرتی ہوں۔“
خارالامبوس نامی ایک مسیحی بیان کرتا ہے کہ ہر کام کو التوا میں ڈالنے کی عادت سے اُسکی روحانی ترقی رُک گئی تھی۔ وہ بیان کرتا ہے: ”جب مَیں نے محسوس کِیا کہ کام ملتوی کرنے کی عادت نقصاندہ ہے تو مَیں نے اپنی زندگی بدلنے کی کوشش شروع کر دی۔ مَیں نے نشانے قائم کئے اور انکے حصول کیلئے کب اور کیسے کام شروع کرنے کا خاص منصوبہ بنایا۔ اپنے فیصلوں اور منصوبوں کا باقاعدہ اطلاق کامیابی کی کنجی ثابت ہوا اور مَیں ابھی تک یہ اچھی عادت اپنائے ہوئے ہوں۔“ واقعی، بُری عادات کو چھوڑ کر اچھی عادات پیدا کرنا بیشبہا فائدے کا باعث ہے۔
ہمارے دوستواحباب بھی اچھی یا بُری عادات اپنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جس طرح کسی کی بُری عادات دوسروں کو متاثر کرتی ہیں اُسی طرح اچھی عادات بھی گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ واقعی، ”بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں“ جبکہ اچھی صحبتیں صحتمندانہ اور قابلِتقلید عادات کی مثالیں فراہم کرتی ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳) سب سے اہم بات یہ ہے کہ عادات خدا کیساتھ ہمارے رشتے کو مضبوط یا کمزور کر سکتی ہیں۔ سٹیلا کہتی ہے: ”اچھی عادات یہوواہ کی خدمت کو سہل بنا دیتی ہیں لیکن بُری عادات ہماری راہ میں رُکاوٹ بنتی ہیں۔“
پس، اچھی عادات پیدا کریں اور انہیں اپنی راہنمائی کرنے دیں۔ یہ آپکی زندگی میں زوردار اور مفید قوت ثابت ہونگی۔
[صفحہ ۱۹ پر تصویر]
آگ کی طرح عادات مفید یا تباہکُن ثابت ہو سکتی ہیں
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
یسوع اپنے دستور کے موافق سبت کے دن عبادتخانہ میں خدا کا کلام پڑھنے جایا کرتا تھا
[صفحہ ۲۲ پر تصویریں]
اچھی روحانی عادات خدا کیساتھ ہمارے رشتے کو مضبوط بناتی ہیں