کیا آپ ”نیکوبد میں امتیاز“ کر سکتے ہیں؟
کیا آپ ”نیکوبد میں امتیاز“ کر سکتے ہیں؟
”تجربہ سے معلوم کرتے رہو کہ خداوند کو کیا پسند ہے۔“—افسیوں ۵:۱۰۔
۱. آجکل زندگی ہمارے لئے کیسے اور کیوں پیچیدہ بن سکتی ہے؟
”اَے [یہوواہ]! مَیں جانتا ہوں کہ انسان کی راہ اُس کے اختیار میں نہیں۔ انسان اپنی روش میں اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔“ (یرمیاہ ۱۰:۲۳) یرمیاہ کا یہ دانشمندانہ مشاہدہ ہمارے لئے آجکل اَور بھی زیادہ پُرمعنی ہے۔ کیوں؟ اسلئےکہ ہم بائبل پیشینگوئی کے مطابق، ’تشویشناک ایّام‘ میں رہ رہے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱) ہر نیا دن پیچیدہ حالتوں کے ساتھ آتا ہے جن کی بابت ہمیں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ فیصلے خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے، ہماری جسمانی، جذباتی اور روحانی فلاحوبہبود پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔
۲. کونسے انتخابات معمولی دکھائی دے سکتے ہیں مگر مخصوصشُدہ مسیحی انہیں کیسا خیال کرتے ہیں؟
۲ ہماری روزمرّہ زندگی کے بیشتر انتخاب معمولی دکھائی دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم ہر روز اپنے لباس اور خوراک کے علاوہ ایسے لوگوں کا بھی انتخاب کرتے ہیں جن سے ہم ملنا چاہینگے۔ ہم یہ انتخابات ازخود کر لیتے ہیں۔ لیکن کیا ایسے معاملات واقعی معمولی ہوتے ہیں؟ مخصوصشُدہ مسیحیوں کے نزدیک یہ سنجیدہ غوروفکر کے معاملات ہیں کیونکہ لباس اور وضعقطع، کھانےپینے اور کرداروگفتار کے سلسلے میں ہمارے انتخابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بلندوبالا، یہوواہ خدا کے خادم ہیں۔ پولس ہمیں یہ یاددہانی کراتا ہے: ”تم کھاؤ یا پیو یا جو کچھ کرو سب خدا کے جلال کیلئے کرو۔“—۱-کرنتھیوں ۱۰:۳۱؛ کلسیوں ۴:۶؛ ۱-تیمتھیس ۲:۹، ۱۰۔
۳. کونسے انتخابات واقعی سنجیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں؟
۳ بعض انتخابات بہت ہی سنجیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، شادی کرنے یا کنوارا رہنے کا فیصلہ یقیناً کسی کی زندگی پر گہرا اور دائمی اثر ڈالتا ہے۔ دراصل، شریکِحیات کا انتخاب کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ * (امثال ۱۸:۲۲) علاوہازیں، دوستواحباب، تعلیم، ملازمت اور تفریح کے سلسلے میں بھی ہمارا انتخاب ہماری روحانیت—ہماری ابدی فلاحوبہبود—میں اہم اور فیصلہکُن کردار ادا کرتا ہے۔—رومیوں ۱۳:۱۳، ۱۴؛ افسیوں ۵:۳، ۴۔
۴. کونسی صلاحیت مفید ثابت ہوگی؟ (ب) کونسے سوال قابلِغور ہیں؟
امثال ۱۴:۱۲) پس، ’ہم پوچھ سکتے ہیں: ہم نیکوبد میں امتیاز کرنے کی صلاحیت کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ ہم اپنے فیصلوں کے سلسلے میں درکار راہنمائی کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟ ماضی اور حال کے لوگوں نے اس سلسلے میں کیا کِیا ہے اور اسکا نتیجہ کیا رہا ہے؟‘
۴ اِن تمام انتخابات کے پیشِنظر، ہمارے لئے اچھائی یا بُرائی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت رکھنا یقیناً مفید ہوگا۔ لیکن ہمیں صرف اچھائی یا بُرائی ہی میں نہیں بلکہ ظاہری اچھائی اور حقیقی اچھائی میں بھی امتیاز کرنے کی ضرورت ہے۔ ”ایسی راہ بھی ہے جو انسان کو سیدھی معلوم ہوتی ہے پر اُسکی انتہا میں موت کی راہیں ہیں۔“ (دُنیاوی ”فیلسوفی اور لاحاصل فریب“
۵. ابتدائی مسیحی کس قسم کے معاشرے میں رہتے تھے؟
۵ پہلی صدی کے مسیحی یونانی اور رومی اقدارونظریات سے مرعوب معاشرے میں رہتے تھے۔ ایک طرف تو بیشتر لوگ رومی طرزِزندگی کے عیشوآرام پر رشک کرتے تھے۔ دوسری طرف اُس زمانے کے علمودانش کے حلقے میں افلاطون اور ارسطو کے فلسفے کے علاوہ اپکوریوں اور ستوئیکوں جیسے نئے مکاتبفکر نے بھی تہلکہ مچا رکھا تھا۔ جب پولس اپنے دوسرے مشنری دَورے پر اتھینے میں آیا تو اپکوری اور ستوئیکی فیلسوف اُس کا مقابلہ کرنے لگے جو خود کو اِس ”بکواسی،“ پولس سے افضل سمجھتے تھے۔—اعمال ۱۷:۱۸۔
۶. (ا) بعض ابتدائی مسیحی کس آزمائش میں پڑ گئے تھے؟ (ب) پولس نے کیا آگاہی دی؟
۶ لہٰذا، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ بعض ابتدائی مسیحی اپنے اردگرد کے لوگوں جیسا کھوکھلا اور پُرفریب طرزِزندگی اپنانے کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ (۲-تیمتھیس ۴:۱۰) اس معاشرے کی ممتاز شخصیات بظاہر بہت سے فوائد اور مراعات سے لطفاندوز ہونے کے علاوہ معقول انتخابات بھی کرتی ہیں۔ دُنیا بظاہر ایسی بیشقیمت چیزیں دے سکتی ہے جو عقیدتمندانہ مسیحی طرزِزندگی سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ تاہم، پولس رسول نے آگاہ کِیا: ”خبردار کوئی شخص تم کو اُس فیلسوفی اور لاحاصل فریب سے شکار نہ کر لے جو انسانوں کی روایت اور دُنیوی ابتدائی باتوں کے موافق ہیں نہ کہ مسیح کے موافق۔“ (کلسیوں ۲:۸) پولس نے ایسا کیوں کہا؟
۷. دُنیا کی حکمت درحقیقت کیسی ہے؟
۷ پولس نے یہ آگاہی اس لئے دی کیونکہ اُس نے دُنیا کی طرف راغب ہونے والوں کی سوچ میں چھپے ہوئے خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ اُس کی یہ اصطلاح کہ ”فیلسوفی اور لاحاصل فریب“ بالخصوص اہمیت کی حامل ہے۔ ”فیلسوفی“ کا لفظی مطلب ”حکمت کی محبت اور جستجو“ ہے جو مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ دراصل، بائبل خصوصاً امثال کی کتاب میں درست علم اور حکمت کے حصول کے لئے حوصلہافزائی کرتی ہے۔ (امثال ۱:۱-۷؛ ۳:۱۳-۱۸) تاہم، پولس نے ”فیلسوفی“ کے ساتھ ”لاحاصل فریب“ کا بھی ذکر کِیا تھا۔ باالفاظِدیگر، پولس کی نظر میں دُنیا کی حکمت لاحاصل اور پُرفریب تھی۔ ایک غبارے کی طرح یہ بہت ٹھوس دکھائی دیتی تھی مگر اندر سے یہ بالکل کھوکھلی تھی۔ واقعی دُنیا کی کھوکھلی ”فیلسوفی اور لاحاصل فریب“ کو نیکوبد میں امتیاز کرنے کی بنیاد بنانا یقیناً بیکار بلکہ تباہکُن ہوگا۔
”بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی“ کہنے والے
۸. (ا) لوگ کن سے مشورت کے طالب ہوتے ہیں؟ (ب) کس قسم کی مشورت دی جاتی ہے؟
۸ آجکل بھی حالات بالکل ویسے ہی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں بہتیرے ماہرین پائے جاتے ہیں۔ شادی اور خاندان کے مشیر، کالمنویس، خودساختہ معالج، نجومی، عامل اور دیگر بہتیرے معاوضے کے عوض مشورہ دینے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ لیکن کس قسم کا مشورہ دیا جاتا ہے؟ اکثر، نامنہاد نئے اخلاقی معیاروں کی خاطر بائبل کے اخلاقی معیاروں کو پسِپُشت ڈال دی گلوبل اینڈ میل کا ایک اداریہ بیان کرتا ہے: ”سن ۲۰۰۰ میں پہنچ کر بھی محبت اور عقیدت کے جذبے سے سرشار کسی جوڑے کے بندھن کو محض ہمجنس ہونے کی وجہ سے مسترد قرار دے دینا بڑی نامعقول بات ہے۔“ آجکل رواداری کا رُجحان عام ہے، تنقید کوئی بھی نہیں کرتا۔ ہر بات کو نسبتی قرار دیکر نیکوبد کے حتمی معیاروں کو ختم کر دیا گیا ہے۔—زبور ۱۰:۳، ۴۔
دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ”ہمجنسپسندوں کی شادیوں“ کے لئے حکومتی نامنظوری کا ذکر کرتے ہوئے، کینیڈا کے مشہور اخبار۹. معاشرے میں قابلِاحترام خیال کئے جانے والے لوگ اکثر کیا کرتے ہیں؟
۹ بعض لوگ فیصلے کرنے کے سلسلے میں معاشرتی اور معاشی اعتبار سے کامیاب—دولتمند اور مشہور—لوگوں کی نقل کرتے ہیں۔ اگرچہ آجکل دولتمند اور مشہور لوگوں کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے توبھی وہ دیانتداری اور اعتماد کے سلسلے میں صرف زبانی جمعخرچ ہی کرتے ہیں۔ اقتدار اور منافع کے حصول کیلئے بہتیرے لوگ قوانین کی خلافورزی اور اخلاقیت کی پامالی میں بھی کوئی ندامت محسوس نہیں کرتے۔ شہرت اور مقبولیت کی ہوس میں بعض لوگ عجیب اور غیرمہذب طرزِعمل کو ترجیح دیتے ہوئے بڑی بےحسی کیساتھ مسلمہ اقدار اور معیاروں کو ترک کر دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ذاتی مفاد پر اصرار کرنے والا اباحتی معاشرہ وجود میں آیا ہے جس پر ”سب چلتا ہے“ کا میلان مسلّط ہے۔ پس کیا یہ کوئی تعجب کی بات ہے کہ نیکوبد کے سلسلے میں لوگ ابتری اور پریشانی کا شکار ہیں؟—لوقا ۶:۳۹۔
۱۰. نیکی اور بدی کے سلسلے میں یسعیاہ کا بیان کیسے سچ ثابت ہوا ہے؟
۱۰ ہمیں اپنے چاروں طرف ناقص ہدایت پر مبنی غیردانشمندانہ فیصلوں کے المناک نتائج دکھائی دیتے ہیں—شکستہ شادیاں اور خاندان، منشیات اور الکحل کا استعمال، نوجوانوں کے متشدّد گینگ، آزادانہ جنسی تعلقات اور جنسی بیماریاں وغیرہوغیرہ۔ ظاہر ہے کہ جب نیکوبد کے تمام معیاروں اور راہنمائیوں کو نظرانداز کر دیا جائیگا تو اس سے فرق نتائج کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے؟ (رومیوں ۱:۲۸-۳۲) یہ حالت بالکل یسعیاہ کے اِس بیان کے مطابق ہے: ”اُن پر افسوس جو بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی کہتے ہیں اور نُور کی جگہ تاریکی کو اور تاریکی کی جگہ نُور کو دیتے ہیں اور شیرینی کے بدلے تلخی اور تلخی کے بدلے شیرینی رکھتے ہی! اُن پر افسوس جو اپنی نظر میں دانشمند اور اپنی نگاہ میں صاحبِامتیاز ہیں!“—یسعیاہ ۵:۲۰، ۲۱۔
۱۱. نیکوبد کا تعیّن کرنے کے سلسلے میں اپنی ذات پر بھروسا کرنا کیوں حماقت ہوگی؟
۱۱ خدا نے اُن قدیم یہودیوں کو جوابدہ ٹھہرایا تھا جو ”اپنی نظر میں دانشمند“ بنتے تھے اس لئے نیکوبد کا تعیّن کرنے کے لئے اپنی ذات پر بھروسا کرنے سے گریز کرنا ہمارے لئے اَور بھی زیادہ اہم بن جاتا ہے۔ آجکل بہتیرے لوگوں کا نظریہ ہے کہ ”صرف اپنے دل کی سنو“ یا ”اپنی منمانی کرو۔“ کیا ایسی سوچ درست ہے؟ بائبل کے مطابق یہ درست نہیں کیونکہ اس میں بیان کِیا گیا ہے: ”دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہباز اور لاعلاج ہے۔ اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟“ (یرمیاہ ۱۷:۹) کیا آپ فیصلہ کرنے کے لئے کسی حیلہباز اور لاعلاج شخص کی ہدایت پر بھروسا کریں گے؟ ہرگز نہیں۔ آپ اُس کا مشورہ بالکل نہیں مانینگے۔ اِسی وجہ سے بائبل ہمیں یاددہانی کراتی ہے: ”جو اپنے ہی دل پر بھروسا رکھتا ہے بیوقوف ہے لیکن جو دانائی سے چلتا ہے رہائی پائے گا۔“—امثال ۳:۵-۷؛ ۲۸:۲۶۔
خدا کی پسند معلوم کرنا
۱۲. ہمیں ”خدا کی مرضی“ تجربہ سے معلوم کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟
۱۲ اگر ہم نیکوبد کے سلسلے میں اپنی اور دُنیا کی حکمت پر بھروسا نہیں کر سکتے توپھر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ پولس رسول کی اس صاف اور واضح مشورت پر غور کریں: ”اس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہو جانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو۔“ (رومیوں ۱۲:۲) ہمیں خدا کی مرضی تجربہ سے معلوم کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ بائبل میں یہوواہ سادہ مگر اثرآفرین وجہ بیان کرتا ہے: ”جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اُسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے اور میرے خیال تمہارے خیالوں سے بلند ہیں۔“ (یسعیاہ ۵۵:۹) پس، انسانی عقل یا ذاتی احساسات پر بھروسا کرنے کی بجائے ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے: ”تجربہ سے معلوم کرتے رہو کہ خداوند کو کیا پسند ہے۔“—افسیوں ۵:۱۰۔
۱۳. یوحنا ۱۷:۳ میں درج یسوع کے الفاظ یہوواہ کی پسند معلوم کرنے کی ضرورت کو کیسے اُجاگر کرتے ہیں؟
۱۳ یسوع مسیح نے بھی ان الفاظ میں اس ضرورت کو اُجاگر کِیا تھا: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ (یوحنا ۱۷:۳) اس آیت میں ”جانیں“ کی اصطلاح درحقیقت گہرا علم حاصل کرنے کی دلالت کرتی ہے۔ وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری کے مطابق، یہ ”علم حاصل کرنے والے شخص اور اُس چیز کے مابین تعلق کی نشاندہی کرتی ہے جس کی بابت علم حاصل کِیا جاتا ہے۔ یوں، یہ علم اُس شخص کے لئے اہم اور مفید بن جاتا ہے اور اس سے رشتہ بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔“ کسی شخص کے ساتھ رشتہ اُستوار کرنے کے لئے اُس کی شناخت یا نام جاننے سے زیادہ کچھ معلوم ہونا چاہئے۔ اس میں اُس کی پسند، ناپسند، اقدار اور معیاروں سے واقف ہونا اور اُن کا احترام کرنا شامل ہے۔—۱-یوحنا ۲:۳؛ ۴:۸۔
اپنے حواس تیز کرنا
۱۴. پولس رسول کے مطابق روحانی بچوں اور پُختہ لوگوں میں بنیادی فرق کیا ہے؟
۱۴ پس، ہم نیکوبد میں امتیاز کرنے کی صلاحیت کیسے پیدا کر عبرانیوں ۵:۱۲-۱۴۔
سکتے ہیں؟ پہلی صدی کے عبرانی مسیحیوں کے لئے پولس کے الفاظ میں اسکا جواب ملتا ہے۔ اُس نے لکھا: ”دودھ پیتے ہوئے کو راستبازی کے کلام کا تجربہ نہیں ہوتا اسلئےکہ وہ بچہ ہے۔ اور سخت غذا پوری عمر والوں کے لئے ہوتی ہے جنکے حواس کام کرتے کرتے نیکوبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز ہو گئے ہیں۔“ پچھلی آیت میں پولس نے ”دودھ“ کو ”کلام کے ابتدائی اصول“ سے تشبِیہ دی تھی اور اب وہ اسکا موازنہ ”سخت غذا“ سے کرتا ہے جو درحقیقت ”پوری عمر والوں کے لئے ہوتی ہے جنکے حواس کام کرتے کرتے نیکوبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز ہو گئے ہیں۔“—۱۵. خدا کا صحیح علم حاصل کرنے کے لئے کوشش کیوں درکار ہے؟
۱۵ اس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمیں خدا کے کلام، بائبل میں پائے جانے والے معیاروں کی صحیح سمجھ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس میں ہمیں ایسی کوئی فہرست نہیں دی گئی کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ بائبل ایسی کتاب نہیں ہے۔ اس کے برعکس، پولس نے بیان کِیا: ”ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہمند بھی ہے۔ تاکہ مردِخدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷) ایسی تعلیم، الزام اور اصلاح سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہمیں اپنے ذہن یعنی ادراک کو استعمال کرنا ہوگا۔ اس کے لئے کوشش تو ضرور کرنی پڑتی ہے مگر اس کا نتیجہ—”ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار“ ہو جانا—نہایت خوشکُن ہوتا ہے۔—امثال ۲:۳-۶۔
۱۶. حواس تیز ہونے کا کیا مطلب ہے؟
۱۶ پولس نے یہ بھی بیان کِیا کہ پُختہ لوگوں کے ”حواس کام کرتے کرتے نیکوبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز ہو گئے ہیں۔“ سارے معاملے کا بنیادی نکتہ یہی ہے۔ ایک ماہر جمناسٹ رِنگ یا بیلنس بیم جیسے مخصوص سامان کے ساتھ چند سیکنڈوں میں ایسے کمالات دکھاتا ہے جو کششِثقل یا دیگر قوانینِفطرت کے منافی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے تمام اعضا کو قابو میں رکھتا ہے اور کامیابی سے اپنے کرتب کو مکمل کرنے کے لئے جبلّی طور پر اپنی تمام جسمانی حرکات سے واقف ہوتا ہے۔ یہ سب سخت تربیت اور باقاعدہ مشق سے ممکن ہوتا ہے۔
۱۷. ہمیں کس مفہوم میں ایک جمناسٹ کی مانند ہونا چاہئے؟
۱۷ اگر ہم ہمیشہ درست فیصلے اور درست انتخاب کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی روحانی مفہوم میں ایک جمناسٹ کی طرح تربیتیافتہ ہونا چاہئے۔ ہمیں ہمیشہ اپنے جسمانی اعضا اور حواس کو قابو میں رکھنا چاہئے۔ (متی ۵:۲۹، ۳۰؛ کلسیوں ۳:۵-۱۰) مثال کے طور پر، کیا آپ فحش مواد نہ دیکھنے کے لئے اپنی آنکھوں اور گھٹیا موسیقی یا گفتگو پر توجہ نہ دینے کے لئے اپنے کانوں کی تربیت کرتے ہیں؟ یہ بات سچ ہے کہ آجکل ایسی بیہودہ چیزیں بہت عام ہیں۔ تاہم، اس کا انحصار ہم پر ہے کہ آیا ہم انہیں اپنے دلودماغ میں سرایت کرنے دیتے ہیں یا نہیں۔ ہم زبورنویس کی نقل کر سکتے ہیں جس نے کہا: ”مَیں کسی خباثت کو مدِنظر نہیں رکھوں گا۔ مجھے کج رفتاروں کے کام سے نفرت ہے۔ اُس کو مجھ سے کچھ سروکار نہ ہوگا۔ . . . دروغگو کو میرے روبرو قیام نہ ہوگا۔“—زبور ۱۰۱:۳، ۷۔
اپنے حواس کو استعمال میں لاتے ہوئے تیز کریں
۱۸. اپنے حواس کو تیز کرنے کے سلسلے میں ’استعمال‘ کی اصطلاح کس بات کی دلالت کرتی ہے؟
۱۸ یاد رکھیں کہ ہم ’استعمال‘ ہی سے اپنے حواس کو نیکوبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز کر سکتے ہیں۔ باالفاظِدیگر، جب بھی کوئی فیصلہ کرنا ہو تو ہمیں یہ دیکھنے کے لئے اپنے ذہن کو استعمال کرنا سیکھنا چاہئے کہ کونسے بائبل اصول اس معاملے سے تعلق رکھتے ہیں اور انکا اطلاق کیسے کِیا جا سکتا ہے۔ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی فراہمکردہ بائبل مطبوعات سے تحقیق کرنے کی عادت اپنائیں۔ (متی ۲۴:۴۵) بِلاشُبہ، ہم پُختہ مسیحیوں سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ تاہم، یہوواہ کی مدد اور روح کے لئے دُعا کے ساتھ خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے کی ذاتی کوشش سے انجامکار بہتیرے فوائد حاصل ہوں گے۔—افسیوں ۳:۱۴-۱۹۔
۱۹. اگر ہم اپنے حواس کو بتدریج تیز کر لیتے ہیں تو ہمیں کونسی برکات حاصل ہو سکتی ہیں؟
۱۹ اپنے حواس کو بتدریج تیز کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ”ہم آگے کو بچے نہ رہیں اور آدمیوں کی بازیگری اور مکاری کے سبب سے اُن کے گمراہ کرنے والے منصوبوں کی طرف ہر ایک تعلیم کے جھوکے سے موجوں کی طرح اُچھلتے بہتے نہ پھریں۔“ (افسیوں ۴:۱۴) اِسکی بجائے، ہم خدا کی پسندیدگی کے علم اور سمجھ پر مبنی چھوٹے اور بڑے ایسے دانشمندانہ فیصلے کر سکتے ہیں جو ہماری ذات کیلئے مفید، ساتھی پرستاروں کیلئے تقویتبخش اور سب سے بڑھ کر ہمارے آسمانی باپ کو خوش کرنے والے ہوں۔ (امثال ۲۷:۱۱) یہ اِن تشویشناک ایّام میں واقعی بڑی برکت اور تحفظ کا باعث ہوگا!
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 ڈاکٹر تھامس ہومس اور رچرڈ رائے نے لوگوں کی زندگی میں پیش آنے والے ۴۰ سے زائد پریشانکُن واقعات کی ایک فہرست ترتیب دی ہے جس میں شریکِحیات کی موت، طلاق اور علیٰحدگی پہلے تین درجوں پر ہیں جبکہ شادی کرنا ساتویں درجے پر ہے۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• پُختہ فیصلے کرنے کیلئے کونسی صلاحیت درکار ہے؟
• نیکوبد میں امتیاز کیلئے ممتاز شخصیات یا اپنے احساسات پر بھروسا کرنا کیوں غیردانشمندانہ ہے؟
• فیصلے کرتے وقت خدا کی پسندیدگی کا خیال رکھنا کیوں ضروری ہے اور ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟
• ’اپنے حواس تیز‘ کرنے سے کیا مُراد ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۹ پر تصویر]
راہنمائی کیلئے دولتمند اور مشہور شخصیات پر آس لگانا بیکار ہے
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
ایک جمناسٹ کی طرح ہمیں بھی اپنے تمام حواس اور اعضا کو قابو میں رکھنا چاہئے