مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ابرہام—‏ایمان کی ایک مثال

ابرہام—‏ایمان کی ایک مثال

ابرہام—‏ایمان کی ایک مثال

‏”‏[‏ابرہام]‏ اُن سب کا باپ [‏ٹھہرا]‏ جو .‏ .‏ .‏ ایمان لاتے ہیں۔‏“‏—‏رومیوں ۴:‏۱۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ آجکل سچے مسیحی ابرہام کو کس خوبی کیلئے یاد کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ابرہام کو ’‏ایمان لانے والوں کا باپ‘‏ کیوں کہا جاتا ہے؟‏

وہ ایک طاقتور قوم کا جد،‏ ایک نبی،‏ تاجر اور راہنما تھا۔‏ تاہم،‏ آجکل کے مسیحی اُسے اُس خوبی—‏غیرمتزلزل ایمان—‏کیلئے یاد کرتے ہیں جسکی بِنا پر یہوواہ خدا نے اُسے اپنا دوست خیال کِیا تھا۔‏ (‏یسعیاہ ۴۱:‏۸؛‏ یعقوب ۲:‏۲۳‏)‏ اُسکا نام ابرہام تھا اور بائبل اُسے ’‏تمام ایمان لانے والوں کا باپ‘‏ کہتی ہے۔‏—‏رومیوں ۴:‏۱۱‏۔‏

۲ تاہم،‏ کیا ابرہام سے پہلے ہابل،‏ حنوک اور نوح نے ایمان کا مظاہرہ نہیں کِیا تھا؟‏ جی‌ہاں،‏ ضرور کِیا تھا لیکن یہ وعدہ صرف ابرہام سے ہی کِیا گیا تھا کہ زمین کی سب قومیں اُس کے وسیلہ سے برکت پائیں گی۔‏ (‏پیدایش ۲۲:‏۱۸‏)‏ پس،‏ علامتی مفہوم میں ابرہام موعودہ نسل پر ایمان لانے والے تمام لوگوں کا باپ بن گیا۔‏ (‏گلتیوں ۳:‏۸،‏ ۹‏)‏ کسی حد تک ابرہام ہمارا باپ بھی سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ اُسکا ایمان ہمارے لئے قابلِ‌تقلید ہے۔‏ بیشتر امتحانوں اور آزمائشوں کی وجہ سے اُسکی پوری زندگی ایمان کا اظہار خیال کی جا سکتی ہے۔‏ ابرہام اپنے بیٹے اضحاق کو قربان کرنے کے سلسلے میں ایمان کی سب سے بڑی آزمائش کا سامنا کرنے سے بہت پہلے دیگر کئی آزمائشوں میں اپنے ایمان کا ثبوت دے چکا تھا۔‏ (‏پیدایش ۲۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ آئیے ایمان کی ان ابتدائی آزمائشوں میں سے بعض کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھیں کہ ہم آجکل ان سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏

اُور چھوڑنے کا حکم

۳.‏ بائبل ہمیں ابرام کے پس‌منظر کی بابت کیا بتاتی ہے؟‏

۳ بائبل ہمیں پیدایش ۱۱:‏۲۶ میں ابرام (‏بعدازاں ابرہام)‏ سے متعارف کراتے ہوئے بیان کرتی ہے:‏ ”‏تاؔرح ستر برس کا تھا جب اُس سے اؔبرام اور نحوؔر اور حاؔران پیدا ہوئے۔‏“‏ ابرام خداترس سم کی نسل سے تھا۔‏ (‏پیدایش ۱۱:‏۱۰-‏۲۴‏)‏ پیدایش ۱۱:‏۳۱ کے مطابق،‏ ابرام اپنے خاندان کیساتھ دریائےفرات کے مشرق میں واقع ایک خوشحال شہر،‏ ”‏کسدیوں کے اُؔور“‏ میں رہتا تھا۔‏ * اُسکی پرورش خیموں میں بودوباش کرنے والے خانہ‌بدوش کی بجائے عیش‌ونشاط سے بھرپور شہر کے باشندے کے طور پر ہوئی تھی۔‏ اُور کے بازاروں میں غیرملکی اشیا دستیاب تھیں۔‏ اس شہر میں نل‌سازی کے اعلیٰ نظام والے بڑے کشادہ گھر تھے جن میں سفیدی کی جاتی تھی۔‏

۴.‏ (‏ا)‏ اُور میں سچے خدا کے پرستاروں کو کن چیلنجوں کا سامنا تھا؟‏ (‏ب)‏ ابرام یہوواہ پر ایمان کیسے لایا؟‏

۴ مادی فوائد کے علاوہ،‏ اُور کے شہر میں سچے خدا کی خدمت کے خواہاں کسی بھی شخص کے لئے ایک اَور سنگین چیلنج بھی تھا۔‏ یہ شہر بُت‌پرستی اور توہم‌پرستی کا گڑھ تھا۔‏ اس شہر کی بلند اور جاذبِ‌توجہ عمارت،‏ چاند دیوتا،‏ ننا کا مندر زگورات تھا۔‏ بِلاشُبہ ابرام پر دوسرے لوگوں کے علاوہ اُسکے بعض رشتہ‌داروں نے بھی اس مکروہ پرستش میں حصہ لینے کیلئے کافی دباؤ ڈالا ہوگا۔‏ بعض یہودی روایات کے مطابق،‏ ابرام کا باپ تارح خود بھی بُت بنایا کرتا تھا۔‏ (‏یشوع ۲۴:‏۲،‏ ۱۴،‏ ۱۵‏)‏ صورتحال خواہ کچھ بھی تھی،‏ سچ تو یہ ہے کہ ابرام اس مکروہ جھوٹی پرستش میں شامل نہیں ہوا تھا۔‏ اُسکا عمررسیدہ جد سم ابھی زندہ تھا جس نے یقیناً اُسے سچے خدا کی بابت علم فراہم کِیا ہوگا۔‏ نتیجتاً،‏ ابرام چاند دیوتا ننا کی بجائے یہوواہ پر ایمان رکھتا تھا!‏—‏گلتیوں ۳:‏۶‏۔‏

ایمان کی آزمائش

۵.‏ اُور میں خدا نے ابرام کو کیا حکم دیا اور اُس سے کیا وعدہ کِیا؟‏

۵ ابرام کا ایمان آزمایا گیا۔‏ خدا نے اُس پر ظاہر ہوکر اُسے حکم دیا:‏ ”‏تُو اپنے وطن اور اپنے ناتےداروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نکل کر اُس ملک میں جا جو مَیں تجھے دکھاؤنگا۔‏ اور مَیں تجھے ایک بڑی قوم بناؤنگا اور برکت دونگا اور تیرا نام سرفراز کروں گا۔‏ سو تُو باعثِ‌برکت ہو!‏ جو تجھے مبارک کہیں اُنکو مَیں برکت دونگا اور جو تجھ پر لعنت کرے اُس پر مَیں لعنت کرونگا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلہ سے برکت پائینگے۔‏“‏—‏پیدایش ۱۲:‏۱-‏۳؛‏ اعمال ۷:‏۲،‏ ۳‏۔‏

۶.‏ ابرام کو اُور چھوڑنے کے لئے حقیقی ایمان کی ضرورت کیوں تھی؟‏

۶ ابرام عمررسیدہ اور بےاولاد تھا۔‏ اُسے ایک ”‏بڑی قوم“‏ کیسے بنایا جا سکتا تھا؟‏ نیز وہ مُلک کہاں واقع تھا جہاں اُسے جانے کا حکم دیا گیا تھا؟‏ اُس وقت خدا نے اُسے یہ سب کچھ نہیں بتایا تھا۔‏ لہٰذا ابرام کو خوشحال اُور کے آرام‌وآسائش کو چھوڑنے کے لئے حقیقی ایمان کی ضرورت تھی۔‏ کتاب فیملی،‏ لَو اینڈ دی بائبل قدیم زمانے کی بابت بیان کرتی ہے:‏ ”‏جب خاندان کے کسی فرد سے کوئی سنگین گناہ سرزد ہو جاتا تو اُسے خاندان سے بےدخل اور ’‏عاق‘‏ کر دینا اُس کی سب سے بڑی سزا ہوتی تھی۔‏ .‏ .‏ .‏ اسی لئے الہٰی فرمان کی پیروی میں ابرہام کا نہ صرف اپنا مُلک بلکہ اپنے ناطےداروں کو بھی چھوڑ دینا خدا پر مسلمہ توکل اور فرمانبرداری کا غیرمعمولی اظہار تھا۔‏“‏

۷.‏ آجکل مسیحی ابرام جیسی آزمائشوں کا سامنا کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۷ آجکل مسیحیوں کو بھی ایسی ہی آزمائشوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔‏ ہم بھی ابرام کی طرح مادی مفادات کو تھیوکریٹک کارگزاریوں پر ترجیح دینے کا دباؤ محسوس کر سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۶‏)‏ ہمیں اپنے خاندان کے بےایمان افراد اور خارج‌شُدہ رشتہ‌داروں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہو سکتا ہے جو ہمیں بُری صحبت میں اُلجھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‏ (‏متی ۱۰:‏۳۴-‏۳۶؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۱-‏۱۳؛‏ ۱۵:‏۳۳‏)‏ پس ابرام نے ہمارے لئے عمدہ نمونہ قائم کِیا۔‏ اُس نے یہوواہ کیساتھ دوستی کو تمام چیزوں،‏ حتیٰ‌کہ خاندانی رشتوں پر بھی ترجیح دی۔‏ اُسے یہ معلوم نہیں تھا کہ خدا کے وعدے کیسے،‏ کب اور کہاں پورے ہونگے۔‏ اس کے باوجود اُس نے بخوشی اِن وعدوں کو اپنی زندگی کا محور بنا لیا۔‏ اس سے آجکل اپنی زندگیوں میں بادشاہت کو مقدم رکھنے کے سلسلے میں ہمیں کتنی عمدہ حوصلہ‌افزائی حاصل ہوتی ہے!‏—‏متی ۶:‏۳۳‏۔‏

۸.‏ ابرام کے ایمان کا اُس کے قریبی خاندانی افراد پر کیا اثر ہوا تھا اور مسیحی اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۸ ابرام کے قریبی خاندانی افراد کی بابت کیا ہے؟‏ بدیہی طور پر ابرام کے ایمان اور اعتقاد نے اُن پر گہرا اثر کِیا تھا اسی لئے اُسکی بیوی،‏ ساری اور اُسکے یتیم بھتیجے لوط نے خدا کے حکم کی تعمیل میں اُور چھوڑنے کی تحریک پائی۔‏ ابرام کا بھائی نحور اور اُسکی کچھ اولاد بھی بعدازاں اُور چھوڑ کر حاران میں جا بسے اور وہاں یہوواہ کی پرستش کی۔‏ (‏پیدایش ۲۴:‏۱-‏۴،‏ ۱۰،‏ ۳۱؛‏ ۲۷:‏۴۳؛‏ ۲۹:‏۴،‏ ۵‏)‏ ابرام کا باپ تارح بھی اپنے بیٹے کے ساتھ اُور چھوڑنے کے لئے راضی ہو گیا تھا!‏ اسی وجہ سے بائبل بیان کرتی ہے کہ خاندان کے سردار کے طور پر تارح اپنے کُنبے کو لیکر کنعان روانہ ہوا۔‏ (‏پیدایش ۱۱:‏۳۱‏)‏ اگر ہم موقع‌شناسی کیساتھ اپنے رشتہ‌داروں کو گواہی دیں تو کیا ہمیں بھی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے؟‏

۹.‏ ابرام کو اپنے سفر کیلئے کونسی تیاریاں کرنی پڑیں اور یہ اُس سے قربانی کا تقاضا کیوں کر سکتی تھیں؟‏

۹ اپنا سفر شروع کرنے سے پہلے ابرام کو بہت سا کام کرنا تھا۔‏ اُسے اپنی جائیداد اور سامان بیچ کر خیمے،‏ اُونٹ،‏ خوراک اور دیگر ضروری چیزیں خریدنی تھیں۔‏ ممکن ہے کہ جلدی‌جلدی ساری تیاری مکمل کرنے میں ابرام کو مالی نقصان بھی ہوا ہو مگر اُسکی خوشی یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے میں تھی۔‏ وہ دن کتنا عظیم تھا جب ساری تیاریاں مکمل ہو جانے کے بعد ابرام کا قافلہ اُور کی فصیلوں کے باہر کوچ کیلئے تیار کھڑا تھا!‏ قافلے نے دریائےفرات کیساتھ‌ساتھ شمال‌مغربی سمت میں سفر کِیا۔‏ یہ قافلہ کئی ہفتوں میں تقریباً ۱۰۰۰ کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد شمالی مسوپتامیہ کے شہر حاران پہنچا جو قافلوں کی عارضی قیام‌گاہ تھا۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏ ابرام نے غالباً کچھ عرصہ حاران میں قیام کیوں کِیا تھا؟‏ (‏ب)‏ عمررسیدہ والدین کی دیکھ‌بھال کرنے والے مسیحیوں کو کیا حوصلہ‌افزائی دی جا سکتی ہے؟‏

۱۰ ابرام نے شاید اپنے بوڑھے باپ تارح کی خاطر حاران میں قیام کِیا۔‏ (‏احبار ۱۹:‏۳۲‏)‏ اسی طرح آجکل بہتیرے مسیحیوں کو اپنے عمررسیدہ یا بیمار والدین کی دیکھ‌بھال کرنے کا شرف حاصل ہے اور بعض کو تو اس کیلئے اپنی زندگی میں کچھ ردوبدل بھی کرنا پڑتا ہے۔‏ ایسا کرنے والے لوگ اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ اُنکی مشفقانہ قربانیاں ”‏خدا کے نزدیک پسندیدہ“‏ ہیں۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۴‏۔‏

۱۱ وقت گزرتا گیا۔‏ ”‏تاؔرح کی عمر دو سو پانچ برس کی ہوئی اور اُس نے حاؔران میں وفات پائی۔‏“‏ اس کی موت پر ابرام یقیناً بہت غمگین تھا لیکن ماتم کا عرصہ گزر جانے کے بعد اُس نے فوراً اپنا سفر پھر شروع کر دیا۔‏ ”‏اؔبرام پچھتّر برس کا تھا جب وہ حاؔران سے روانہ ہوا۔‏ اور اؔبرام نے اپنی بیوی ساؔری اور اپنے بھتیجے لوؔط کو اور سب مال کو جو اُنہوں نے جمع کِیا تھا اور اُن آدمیوں کو جو اُنکو حاؔران میں مل گئے تھے ساتھ لیا اور ملکِ‌کنعاؔن کو روانہ ہوئے۔‏“‏—‏پیدایش ۱۱:‏۳۲؛‏ ۱۲:‏۴،‏ ۵‏۔‏

۱۲.‏ حاران میں قیام کے دوران ابرام نے کیا کِیا؟‏

۱۲ دلچسپی کی بات ہے کہ حاران میں قیام کے دوران ابرام نے ’‏مال جمع کِیا تھا۔‏‘‏ اگرچہ ابرام نے اُور کے آرام‌وآسائش کو قربان کر دیا تھا توبھی حاران سے روانگی کے وقت وہ ایک امیر آدمی بن چکا تھا۔‏ صاف ظاہر ہے کہ یہ خدا کی برکت کا نتیجہ تھا۔‏ (‏واعظ ۵:‏۱۹‏)‏ اگرچہ آجکل خدا اپنے تمام لوگوں کو دولتمند بنانے کا وعدہ نہیں کرتا توبھی وہ بادشاہت کی خاطر اپنے ”‏گھر یا بھائیوں یا بہنوں“‏ کو چھوڑنے والوں کی ضروریات پوری کرنے کا وعدہ وفاداری سے نبھاتا ہے۔‏ (‏مرقس ۱۰:‏۲۹،‏ ۳۰‏)‏ ابرام نے کئی ’‏آدمی‘‏ یعنی خادم بھی اکٹھے کر لئے تھے۔‏ یروشلیم تارگوم اور کلدانی تفسیر کے مطابق ابرام نے اُنہیں ’‏نومُرید بنایا تھا۔‏‘‏ (‏پیدایش ۱۸:‏۱۹‏)‏ کیا آپکا ایمان آپ کو اپنے پڑوسیوں،‏ ساتھی کارکنوں یا ہم‌جماعتوں سے بات‌چیت کرنے کی تحریک دیتا ہے؟‏ حاران میں مستقل قیام کرکے خدا کا حکم بھول جانے کی بجائے ابرام نے یہاں اپنے وقت کا بہترین استعمال کِیا۔‏ تاہم اب یہاں سے جانے کا وقت تھا۔‏ ”‏سو اؔبرام [‏یہوواہ]‏ کے کہنے کے مطابق چل پڑا۔‏“‏—‏پیدایش ۱۲:‏۴‏۔‏

دریائےفرات کے پار

۱۳.‏ ابرام نے دریائےفرات کب پار کِیا اور اسکی اہمیت کیا تھی؟‏

۱۳ اب ایک بار پھر ابرام کو سفر کرنا تھا۔‏ حاران چھوڑنے کے بعد اُسکے قافلے نے مغرب کی جانب تقریباً ۹۰ کلومیٹر کا سفر طے کِیا۔‏ ممکن ہے کہ ابرام نے دریائےفرات کے پار قدیم تجارتی مرکز کرکمیس میں پڑاؤ ڈالا ہو۔‏ قافلے اسی جگہ سے دریا پار کِیا کرتے تھے۔‏ * ابرام کے قافلے نے کس تاریخ پر دریا عبور کِیا تھا؟‏ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ یہ نیسان ۱۴،‏ ۱۵۱۳ ق.‏س.‏ع.‏ کو مصر سے یہودیوں کی رہائی کے ۴۳۰ سال پہلے کا واقعہ ہے۔‏ خروج ۱۲:‏۴۱ بیان کرتی ہے:‏ ”‏اُن چار سو تیس برسوں کے گذر جانے پر ٹھیک اُسی روز [‏یہوواہ]‏ کا سارا لشکر ملکِ‌مصرؔ سے نکل گیا۔‏“‏ لہٰذا،‏ بدیہی طور پر،‏ ابرہامی عہد نیسان ۱۴،‏ ۱۹۴۳ ق.‏س.‏ع.‏ کو عمل میں آیا جب ابرام نے فرمانبرداری سے دریائےفرات کو پار کِیا۔‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ ابرام اپنی ایمان کی آنکھوں سے کیا دیکھ سکتا تھا؟‏ (‏ب)‏ آجکل یہوواہ کے لوگ کس مفہوم میں ابرام سے زیادہ بابرکت حالت میں ہیں؟‏

۱۴ ابرام نے ایک خوشحال شہر چھوڑا تھا۔‏ تاہم،‏ اب وہ ایک ”‏پایدار شہر“‏ یعنی نسلِ‌انسانی پر راست حکومت کا تصور کر سکتا تھا۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ ابرام کم معلومات کے باوجود موت کے غلام انسانوں کو نجات دینے کے خدائی مقصد کو کچھ‌کچھ سمجھنے لگا تھا۔‏ آج ہمیں ابرام کی نسبت خدا کے مقاصد کی جامع سمجھ عطا کی گئی ہے۔‏ (‏امثال ۴:‏۱۸‏)‏ ابرام کو جس ”‏شہر“‏ یا بادشاہتی حکومت کی اُمید تھی اب وہ ایک حقیقت ہے کیونکہ وہ ۱۹۱۴ سے آسمان پر قائم ہو چکی ہے۔‏ پس کیا اب ہمیں اپنے کاموں سے یہوواہ پر ایمان اور بھروسا ظاہر نہیں کرنا چاہئے؟‏

ملکِ‌موعود میں عارضی قیام کی ابتدا

۱۵،‏ ۱۶.‏ (‏ا)‏ ابرام کو یہوواہ کیلئے قربان‌گاہ بنانے کیلئے دلیری کی ضرورت کیوں تھی؟‏ (‏ب)‏ آجکل مسیحی ابرام کی طرح بہادری کیسے دکھا سکتے ہیں؟‏

۱۵ پیدایش ۱۲:‏۵،‏ ۶ ہمیں بتاتی ہیں کہ آخرکار وہ ”‏ملکِ‌کنعاؔن میں آئے۔‏ اور اؔبرام اُس مُلک میں سے گذرتا ہوا مقامِ‌سکمؔ میں موؔرہ کے بلوط تک پہنچا۔‏“‏ سکم کا علاقہ یروشلیم کے شمال میں ۵۰ کلومیٹر دُور ایک سرسبزوشاداب وادی میں واقع تھا جسے ”‏شہرِمقدس کی جنت“‏ کہا گیا ہے۔‏ تاہم،‏ ”‏اُس وقت ملک میں کنعانی رہتے تھے۔‏“‏ کنعانی اخلاقی اعتبار سے نہایت کجرو لوگ تھے لہٰذا اپنے خاندان کو ان کے نقصاندہ اثرات سے بچانے کے لئے ابرام کو سخت کوشش کرنی پڑی۔‏—‏خروج ۳۴:‏۱۱-‏۱۶‏۔‏

۱۶ دوسری مرتبہ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے اؔبرام کو دکھائی دیکر کہا کہ یہی ملک مَیں تیری نسل کو دونگا۔‏“‏ کیا ہی ہیجان‌خیز بات!‏ واقعی ابرام ایمان کے باعث ہی اُس چیز سے خوش ہو سکتا تھا جس سے اُس کی آئندہ نسل نے مستفید ہونا تھا۔‏ تاہم،‏ ابرام نے قدردانی کے اظہار میں ”‏وہاں [‏یہوواہ]‏ کے لئے جو اُسے دکھائی دِیا تھا ایک قربان‌گاہ بنائی۔‏“‏ (‏پیدایش ۱۲:‏۷‏)‏ ایک بائبل عالم بیان کرتا ہے:‏ ”‏اس علاقے میں قربان‌گاہ بنانا دراصل اس بات کی علامت تھا کہ پُختہ ایمان کا مظاہرہ کرنے کی بدولت حاصل ہونے والے حق کی بِنا پر یہ علاقہ اُس کی ملکیت بن گیا ہے۔‏“‏ ایسی قربان‌گاہ بنانا ایک دلیرانہ کام بھی تھا۔‏ بِلاشُبہ،‏ یہ قربان‌گاہ قدرتی (‏بغیر تراشے ہوئے)‏ پتھروں سے بنائی گئی تھی اس لئے یہ بعدازاں شریعتی عہد کے تحت بننے والی قربان‌گاہ جیسی ہی تھی۔‏ (‏خروج ۲۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ یہ کنعانیوں کی بنائی ہوئی قربان‌گاہوں سے بہت فرق تھی۔‏ یوں ابرام نے سرِعام لوگوں کی ناپسندیدگی اور جسمانی نقصان کا خطرہ مول لے کر سچے خدا یہوواہ کے پرستار کے طور پر ایک دلیرانہ قدم اُٹھایا۔‏ آج ہماری بابت کیا ہے؟‏ کیا ہم—‏خاص طور پر نوجوان—‏اپنے پڑوسیوں یا ہم‌مکتبوں کو یہ بتانے سے ہچکچاتے ہیں کہ ہم یہوواہ کے پرستار ہیں؟‏ دُعا ہے کہ ہم سب ابرام کی دلیرانہ مثال سے یہوواہ کے خادم کہلانے میں فخر محسوس کرنے کی حوصلہ‌افزائی حاصل کریں!‏

۱۷.‏ ابرام نے خود کو خدا کے نام کا مناد کیسے ثابت کِیا اور یہ بات آجکل مسیحیوں کو کیا یاددہانی کراتی ہے؟‏

۱۷ ابرام جہاں کہیں بھی گیا اُس نے یہوواہ کی پرستش کو ہمیشہ مقدم رکھا۔‏ بعدازاں وہ ”‏وہاں سے کوچ کرکے اُس پہاڑ کی طرف گیا جو بیتؔ‌ایل کے مشرق میں ہے اور اپنا ڈیرا ایسے لگایا کہ بیتؔ‌ایل مغرب میں اور عیؔ مشرق میں پڑا اور وہاں اُس نے [‏یہوواہ]‏ کے لئے ایک قربان‌گاہ بنائی اور [‏یہوواہ کے نام]‏ سے دُعا کی۔‏“‏ (‏پیدایش ۱۲:‏۸‏)‏ عبرانی اظہار،‏ ”‏یہوواہ کے نام سے دُعا کی“‏ کا مطلب ”‏نام کا اعلان (‏منادی)‏ کرنا“‏ بھی ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ ابرام نے اپنے کنعانی پڑوسیوں میں یہوواہ کے نام کا دلیری سے اعلان کِیا تھا۔‏ (‏پیدایش ۱۴:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ یہ یاددہانی ہمیں ”‏اُس کے نام کا اقرار“‏ کرنے میں بھرپور حصہ لینے کی ذمہ‌داری کا احساس دلاتی ہے۔‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۵؛‏ رومیوں ۱۰:‏۱۰‏۔‏

۱۸.‏ کنعانیوں کیساتھ ابرام کے تعلقات کیسے تھے؟‏

۱۸ ابرام نے ان جگہوں پر زیادہ دیر تک قیام نہ کِیا۔‏ ”‏اؔبرام سفر کرتا کرتا جنوب کی طرف بڑھ گیا“‏ جس کا مطلب ہے کہ وہ یہوداہ کے پہاڑوں کے جنوب میں واقع نیم‌صحرائی علاقے نجب میں آیا۔‏ (‏پیدایش ۱۲:‏۹‏)‏ سفر جاری رکھنے اور ہر نئے علاقے میں جا کر خود کو یہوواہ کا پرستار ثابت کرنے سے ابرام اور اُس کے گھرانے نے ”‏اقرار کِیا کہ [‏وہ]‏ زمین پر پردیسی اور مسافر ہیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۱۳‏)‏ نیز اُنہوں نے اپنے بُت‌پرست پڑوسیوں سے زیادہ دوستی لگانے سے ہمیشہ گریز کِیا۔‏ اسی طرح آج مسیحیوں کو بھی ’‏دُنیا کا حصہ نہیں‘‏ ہونا چاہئے۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۶‏)‏ اگرچہ ہم اپنے پڑوسیوں اور ساتھی کارکنوں کے ساتھ مہربانی اور عزت سے پیش آتے ہیں توبھی ہمیں خدا سے جُدا دُنیا کی رُوح کی عکاسی کرنے والے چال‌چلن سے بچنے کی ضرورت ہے۔‏—‏افسیوں ۲:‏۲،‏ ۳‏۔‏

۱۹.‏ (‏ا)‏ خانہ‌بدوش زندگی ابرام اور ساری کیلئے دشوارگزار کیوں تھی؟‏ (‏ب)‏ ابرام کو اَور کونسی نئی آزمائشوں کا سامنا کرنا تھا؟‏

۱۹ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ خانہ‌بدوش زندگی کی دشواریاں برداشت کرنا ابرام اور ساری کے لئے آسان نہیں تھا۔‏ وہ اُور کے بھرے بازاروں سے کھانےپینے کی اشیا خریدنے کی بجائے اب اپنے مویشیوں سے حاصل ہونے والی چیزوں پر گزارا کرتے تھے اور مضبوط مکانوں کی بجائے خیموں میں رہتے تھے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۱:‏۹‏)‏ ابرام کی بہت سی مصروفیات تھیں کیونکہ اُسے اپنے گلّوں اور خادموں کی دیکھ‌بھال کے لئے کافی کام کرنا پڑتا تھا۔‏ بِلاشُبہ،‏ ساری بھی اپنی ثقافت کے مطابق روایتی کاموں مثلاً آٹا گوندھنے،‏ روٹی پکانے،‏ اون کاتنے اور کپڑے سینےپرونے میں مصروف رہتی تھی۔‏ (‏پیدایش ۱۸:‏۶،‏ ۷؛‏ ۲-‏سلاطین ۲۳:‏۷؛‏ امثال ۳۱:‏۱۹؛‏ حزقی‌ایل ۱۳:‏۱۸‏)‏ تاہم،‏ ابھی نئی آزمائشیں آنے والی تھیں۔‏ بہت جلد ابرام اور اُس کے گھرانے کو ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہوگا جو اُن کی زندگی کے لئے خطرہ ثابت ہوگی!‏ کیا ابرام کا ایمان اس آزمائش میں بھی مضبوط اور قائم رہے گا؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 اگرچہ اس وقت دریائےفرات اُور کے قدیم مقام کے تقریباً ۱۶ کلومیٹر مشرق میں بہتا ہے توبھی ثبوت سے ظاہر ہے کہ قدیم زمانے میں یہ دریا اس شہر کے مغرب سے گزرتا تھا۔‏ لہٰذا یہ کہنا درست تھا کہ ابرام ”‏بڑے دریا [‏فرات]‏ کے پار“‏ سے آیا تھا۔‏—‏یشوع ۲۴:‏۳‏۔‏

^ پیراگراف 13 صدیوں بعد،‏ شاہِ‌اسور اشورناصرپال دوم نے کرکمیس کے قریب بیڑوں کے ذریعے دریائےفرات پار کِیا تھا۔‏ بائبل یہ نہیں بتاتی کہ ابرام اور اُسکے قافلے نے بھی اسی طرح یاپھر پانی میں چل کر دریا پار کِیا تھا۔‏

کیا آپ نے غور کِیا؟‏

‏• ابرام کو ’‏سب ایمان لانے والوں کا باپ‘‏ کیوں کہا جاتا ہے؟‏

‏• کسدیوں کے اُور کو چھوڑنے کیلئے ابرام کو ایمان کی ضرورت کیوں تھی؟‏

‏• ابرام نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ کی پرستش کو مقدم رکھتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

ابرام کا سفر

اُور

حاران

کرکمیس

کنعان

بحیرۂروم

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Based on a map copyrighted by Pictorial Archive )‎Near Eastern

History‎( Est. and Survey of Israel

‏[‏صفحہ ۵۱ پر تصویر]‏

اُور کے آرام‌وآسائش کو چھوڑنے کیلئے ابرام کو پُختہ ایمان کی ضرورت تھی

‏[‏صفحہ ۸۱ پر تصویر]‏

ابرام اور اُس کے گھرانے نے خیموں میں بودوباش کرنے سے یہ ”‏اقرار کِیا کہ [‏وہ]‏ زمین پر پردیسی اور مسافر ہیں۔‏“‏