مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مسیح کا اطمینان ہمارے دلوں پر کیسے حکومت کر سکتا ہے؟‏

مسیح کا اطمینان ہمارے دلوں پر کیسے حکومت کر سکتا ہے؟‏

مسیح کا اطمینان ہمارے دلوں پر کیسے حکومت کر سکتا ہے؟‏

‏”‏مسیح کا اطمینان جسکے لئے تم ایک بدن ہو کر بلائے بھی گئے ہو تمہارے دلوں پر حکومت کرے۔‏“‏—‏کلسیوں ۳:‏۱۵‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ”‏مسیح کا اطمینان“‏ ایک مسیحی کے دل پر کس طرح حکومت کرتا ہے؟‏

حکومت بہتیروں کیلئے ایک ناپسندیدہ لفظ ہے کیونکہ اس کیساتھ جبر اور سازش کے تصورات وابستہ ہیں۔‏ لہٰذا،‏ کُلسّے میں ساتھی مسیحیوں کے نام پولس کی یہ فہمائش کہ ”‏مسیح کا اطمینان .‏ .‏ .‏ تمہارے دلوں پر حکومت کرے،‏“‏ بعض کو غیرمعقول دکھائی دے سکتی ہے۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۵‏)‏ کیا ہم آزاد مرضی کے مالک نہیں ہیں؟‏ ہم کسی چیز یا کسی شخص کو اپنے دلوں پر کیوں حکومت کرنے دیں؟‏

۲ پولس کُلسّے کے باشندوں کو اُن کی آزاد مرضی سے دستبرار ہونے کے لئے نہیں کہہ رہا تھا۔‏ کلسیوں ۳:‏۱۵ میں جس یونانی اصطلاح کا ترجمہ ”‏حکومت“‏ کِیا گیا ہے اُس کا تعلق اُن دنوں میں کسرتی مقابلوں میں انعام دینے والے امپائر یا ثالث کے لئے استعمال ہونے والے لفظ سے ہے۔‏ مقابلہ‌بازوں کو کھیل کے اصولوں کے دائرے میں کسی حد تک آزادی ہوتی تھی لیکن انجام‌کار امپائر فیصلہ کرتا تھا کہ کس نے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے مقابلہ جیتا ہے۔‏ اسی طرح،‏ ہمیں زندگی میں مختلف فیصلے کرنے کی آزادی ہے لیکن ایسا کرتے وقت مسیح کے اطمینان کو ہمارے دلوں میں ہمیشہ ”‏امپائر“‏—‏یا مترجم ایڈگر جے.‏ گڈسپیڈ کے ترجمے کے مطابق،‏ ”‏بنیادی اُصول“‏ ہونا چاہئے۔‏

۳.‏ ”‏مسیح کا اطمینان“‏ کیا ہے؟‏

۳ ‏”‏مسیح کا اطمینان“‏ کیا ہے؟‏ یہ وہ سکون اور باطنی اطمینان ہے جو ہمیں یسوع کے شاگرد بننے اور یہ جاننے کے بعد حاصل ہوتا ہے کہ یہوواہ اور اس کا بیٹا ہم سے محبت کرتے اور ہمیں پسند کرتے ہیں۔‏ جب یسوع اپنے شاگردوں سے جُدا ہونے والا تھا تو اُس نے انہیں بتایا:‏ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ اپنا اطمینان تمہیں دیتا ہوں۔‏ .‏ .‏ .‏ تمہارا دل نہ گھبرائے اور نہ ڈرے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۲۷‏)‏ تقریباً ۰۰۰،‏۲ سال سے مسیح کے بدن میں شامل وفادار ممسوح ارکان نے اس اطمینان سے استفادہ کِیا ہے اور آجکل ان کے ساتھی ’‏دوسری بھیڑیں‘‏ بھی اس میں شریک ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۱۶‏)‏ اس اطمینان کو ہمارے دلوں پر ضابط ہونا چاہئے۔‏ جب ہم سخت آزمائش کے تحت ہوتے ہیں تو یہ خوفزدہ یا انتہائی پریشان ہونے سے بچنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔‏ آئیے دیکھیں کہ جب ہم ناانصافی،‏ پریشانی اور نااہلیت کے احساس کا تجربہ کرتے ہیں تو اُس وقت یہ بات کیسے سچ ثابت ہوتی ہے۔‏

جب ہمارے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے

۴.‏ (‏ا)‏ یسوع کو ناانصافی کا تجربہ کیسے ہوا تھا؟‏ (‏ب)‏ مسیحیوں نے ناانصافی کا شکار ہونے کے باوجود کیسا جوابی‌عمل دکھایا ہے؟‏

۴ بادشاہ سلیمان نے مشاہدہ کِیا:‏ ”‏ایک شخص دوسرے پر حکومت کرکے اپنے اُوپر بلا لاتا ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۸:‏۹‏)‏ یسوع ان الفاظ کی حقیقت سے واقف تھا۔‏ اُس نے آسمان سے انسانوں کو ایک دوسرے پر انتہائی ظلم کرتے دیکھا تھا۔‏ اُس نے زمین پر خود بھی بڑی ناانصافی کا سامنا اس وقت کِیا جب بیگناہ ہونے کے باوجود اُس پر کفر بولنے کا الزام لگایا گیا اور ایک مجرم کے طور پر اُسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۶۳-‏۶۶؛‏ مرقس ۱۵:‏۲۷‏)‏ آجکل بھی ناانصافی کا راج ہے اور حقیقی مسیحیوں نے ’‏سب قوموں کی طرف سے نفرت کا نشانہ‘‏ بننے کے باعث کچھ زیادہ ہی تکلیف اُٹھائی ہے۔‏ (‏متی ۲۴:‏۹‏)‏ تاہم،‏ موت کے نازی کیمپوں اور سوویت لیبر کیمپوں میں ہولناک تجربات،‏ اجتماعی تشدد،‏ جھوٹے الزامات اور حملوں کا شکار ہونے کے باوجود،‏ مسیح کے اطمینان نے انہیں قائم رکھا ہے۔‏ انہوں نے یسوع کی نقل کی ہے جس کی بابت ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏نہ وہ گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پا کر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپرد کرتا تھا۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۲۳‏۔‏

۵.‏ جب ہم کلیسیا میں بظاہر کسی ناانصافی کی بابت سنتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے کس بات پر غور کرنا چاہئے؟‏

۵ نہایت ہی چھوٹے پیمانے پر،‏ ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ مسیحی کلیسیا میں کسی کیساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔‏ ایسی صورت میں،‏ ہم پولس کی مانند محسوس کر سکتے ہیں جس نے کہا:‏ ”‏کس کے ٹھوکر کھانے سے میرا دل نہیں دُکھتا؟‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۲۹‏)‏ ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے کہ ’‏آیا یہ واقعی ناانصافی ہے؟‏‘‏ اکثراوقات ہم تمام حقائق سے واقف نہیں ہوتے۔‏ ہم شاید کسی ایسے شخص کی بات سُن کر شدید ردِعمل کا مظاہرہ کریں جو تمام حقائق سے باخبر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔‏ معقول طور پر بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۴:‏۱۵‏)‏ پس ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔‏

۶.‏ ہم کلیسیا میں بظاہر ناانصافیوں کی بابت کیسا ردِعمل دکھا سکتے ہیں؟‏

۶ تاہم،‏ فرض کریں کہ ہم ذاتی طور پر بظاہر کسی ناانصافی کا شکار ہوئے ہیں۔‏ جس شخص کے دل میں مسیح کا اطمینان ہے وہ کیسا ردِعمل دکھائیگا؟‏ ہم شاید اس شخص سے بات کرنے کی ضرورت محسوس کریں جو ہمارے خیال میں قصوروار ہے۔‏ اس کے بعد،‏ کسی اَور شخص سے بات کرنے کی بجائے کیوں نہ دُعا میں یہوواہ کے حضور اپنا معاملہ بیان کرنے سے انصاف کیلئے اس پر توکل کریں؟‏ (‏زبور ۹:‏۱۰؛‏ امثال ۳:‏۵‏)‏ ایسا کرنے کے بعد،‏ ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے دل میں معاملے کو حل کرکے مطمئن ہو جائیں اور ”‏خاموش“‏ رہیں۔‏ (‏زبور ۴:‏۴‏)‏ بیشتر معاملات میں،‏ پولس کی اس فہمائش کا اطلاق ہوگا:‏ ”‏اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔‏ جیسے [‏یہوواہ]‏ نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو۔‏“‏—‏کلسیوں ۳:‏۱۳‏۔‏

۷.‏ ہمیں اپنے بھائیوں کیساتھ اپنے تعلقات میں ہمیشہ کیا بات یاد رکھنی چاہئے؟‏

۷ تاہم،‏ ہم خواہ کچھ بھی کریں،‏ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ ہو چکا ہے ہم اس پر تو قابو نہیں پا سکتے توبھی ہم اپنے ردِعمل پر ضرور قابو پا سکتے ہیں۔‏ اگر ہم ظاہری ناانصافی کے سلسلے میں غیرمتوازن طریقے سے ردِعمل ظاہر کرتے ہیں تو یہ ناانصافی سے زیادہ ہمارے اطمینان پر نقصاندہ اثر ڈال سکتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۸:‏۱۴‏)‏ ہم ٹھوکر کھا سکتے اور کلیسیا کیساتھ اُس وقت تک رفاقت رکھنا بند کر سکتے ہیں جبتک ہمارے خیال میں انصاف نہیں ہو جاتا ہے۔‏ زبورنویس نے لکھا کہ یہوواہ کی شریعت سے محبت رکھنے والوں کیلئے ”‏ٹھوکر کھانے کا کوئی موقع نہیں۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۶۵‏)‏ سچ تو یہ ہے کہ وقتاًفوقتاً سب کو ناانصافی کا تجربہ ہوتا ہے۔‏ ایسے ناموافق تجربات کو یہوواہ کی خدمت میں کبھی حائل نہ ہونے دیں۔‏ اسکی بجائے،‏ مسیح کے اطمینان کو اپنے دل پر حکومت کرنے دیں۔‏

جب ہم پریشانی میں گِھر جاتے ہیں

۸.‏ پریشانی کا سبب بننے والی بعض باتیں کونسی ہیں اور پریشانی کس چیز پر منتج ہو سکتی ہے؟‏

۸ اس ”‏اخیر زمانہ“‏ میں پریشانی زندگی کا ایک حقیقی حصہ ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱‏)‏ سچ ہے کہ یسوع نے فرمایا:‏ ”‏اپنی جان کی فکر نہ کرو کہ ہم کیا کھائینگے اور نہ اپنے بدن کی کہ کیا پہنینگے۔‏“‏ (‏لوقا ۱۲:‏۲۲‏)‏ لیکن ساری پریشانیاں مادی چیزوں سے ہی جنم نہیں لیتی ہیں۔‏ لوط سدوم کی کجروی سے نہایت ”‏دِق“‏ تھا۔‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۷‏)‏ پولس کو ”‏سب کلیسیاؤں کی فکر“‏ تھی۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۲۸‏)‏ یسوع اپنی موت سے پہلے کی رات ایسے کرب میں تھا کہ ”‏اُس کا پسینہ گویا خون کی بڑی بڑی بوندیں ہو کر زمین پر ٹپکتا تھا۔‏“‏ (‏لوقا ۲۲:‏۴۴‏)‏ واضح طور پر،‏ ہر طرح کا فکروتردد کمزور ایمان کی وجہ سے نہیں ہوتا۔‏ تاہم،‏ اس کی وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں،‏ اگر پریشانی شدید ہے اور طول پکڑ جاتی ہے تو یہ ہمارا اطمینان چھین سکتی ہے۔‏ بعض پریشانی سے مغلوب ہو کر محسوس کرنے لگے ہیں کہ وہ یہوواہ کی خدمت سے متعلق ذمہ‌داریاں پوری کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏آدمی کا دل فکرمندی سے دب جاتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۲:‏۲۵‏)‏ اگر ہم پریشانی سے مغلوب ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

۹.‏ پریشانی کو کم کرنے کے لئے کونسے عملی اقدام اُٹھائے جا سکتے ہیں لیکن پریشانی کے کونسے اسباب ختم نہیں کئے جا سکتے؟‏

۹ بعض حالتوں میں،‏ ہم عملی اقدام اُٹھانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‏ اگر ہماری پریشانی کی وجہ کوئی طبّی مسئلہ ہے تو اس پر توجہ دینا عقلمندی ہوگی حالانکہ ایسے معاملات میں ذاتی فیصلہ کِیا جانا چاہئے۔‏ * (‏متی ۹:‏۱۲‏)‏ اگر ہم پر بہت زیادہ ذمہ‌داریاں ہیں تو ان میں سے بعض دوسروں کو سونپنا ممکن ہو سکتا ہے۔‏ (‏خروج ۱۸:‏۱۳-‏۲۳‏)‏ تاہم،‏ والدین اور دیگر لوگوں کی بابت کیا ہے جنکی ایسی بھاری ذمہ‌داریاں ہوتی ہیں جنہیں دوسروں کو سونپا نہیں جا سکتا؟‏ اس مسیحی کی بابت کیا ہے جو ایک مخالف بیاہتا ساتھی کیساتھ زندگی بسر کر رہا ہے؟‏ اس خاندان کی بابت کیا ہے جو انتہائی معاشی بدحالی یا جنگ‌وجدل والے علاقے میں زندگی بسر کر رہا ہے؟‏ بِلاشُبہ،‏ ہم اس نظام‌العمل میں پریشانی کے تمام اسباب کو ختم نہیں کر سکتے۔‏ پھربھی،‏ ہم اپنے دل میں مسیح کا اطمینان محفوظ کر سکتے ہیں۔‏ کیسے؟‏

۱۰.‏ ایک مسیحی کن دو طریقوں سے پریشانی کم کر سکتا ہے؟‏

۱۰ ایک طریقہ خدا کے کلام سے تسلی کے طلبگار ہونا ہے۔‏ بادشاہ داؤد نے تحریر کِیا:‏ ”‏جب میرے دل میں فکروں کی کثرت ہوتی ہے تو تیری تسلی میری جان کو شاد کرتی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۹۴:‏۱۹‏)‏ ہم بائبل سے یہوواہ کی ”‏تسلی“‏ حاصل کر سکتے ہیں۔‏ باقاعدگی سے اس الہامی کتاب سے مشورت حاصل کرنا ہمارے دلوں میں مسیح کے اطمینان کو محفوظ رکھنے میں مدد دیگا۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏اپنا بوجھ [‏یہوواہ]‏ پر ڈالدے۔‏ وہ تجھے سنبھالیگا۔‏ وہ صادق کو کبھی جنبش نہ کھانے دیگا۔‏“‏ (‏زبور ۵۵:‏۲۲‏)‏ اسی طرح سے،‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔‏ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھیگا۔‏“‏ (‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ مستعدی اور باقاعدگی کیساتھ دُعا ہمارے اطمینان کو محفوظ رکھنے میں مدد دیگی۔‏

۱۱.‏ (‏ا)‏ یسوع دُعا کے معاملے میں کیسے عمدہ نمونہ تھا؟‏ (‏ب)‏ ہمیں دُعا کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏

۱۱ یسوع اس سلسلے میں شاندار نمونہ تھا۔‏ بعض‌اوقات،‏ وہ دُعا میں اپنے آسمانی باپ سے کئی گھنٹے باتیں کرتا رہتا تھا۔‏ (‏متی ۱۴:‏۲۳؛‏ لوقا ۶:‏۱۲‏)‏ دُعا نے بدترین آزمائشوں کو برداشت کرنے میں اُسکی مدد کی تھی۔‏ اپنی موت سے پہلے کی رات،‏ اس کی پریشانی بہت شدید ہو گئی تھی۔‏ اس کا ردِعمل؟‏ اس نے ”‏اَور بھی دلسوزی سے دُعا“‏ کی۔‏ (‏لوقا ۲۲:‏۴۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ خدا کا کامل بیٹا دُعاگو شخص تھا۔‏ توپھر،‏ اس کے ناکامل پرستاروں کو دُعا کرنے کی عادت ڈالنے کی کتنی زیادہ کوشش کرنی چاہئے!‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو ’‏ہر وقت دُعا کرتے رہنے اور ہمت نہ ہارنے‘‏ کی تعلیم دی۔‏ (‏لوقا ۱۸:‏۱‏)‏ دُعا اس ہستی کیساتھ حقیقی اور اہم رابطہ ہے جو ہم سے زیادہ ہمیں جانتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۰۳:‏۱۴‏)‏ اگر ہم نے اپنے دلوں میں مسیح کے اطمینان کو محفوظ رکھنا ہے تو ہمارے لئے ”‏بِلاناغہ دُعا“‏ کرنا ضروری ہے۔‏—‏۱-‏تھسلنیکیوں ۵:‏۱۷‏۔‏

اپنی حدود پر غالب آنا

۱۲.‏ کن وجوہات کی بِنا پر بعض محسوس کر سکتے ہیں کہ وہ اس خدمت کے اہل نہیں؟‏

۱۲ یہوواہ اپنے تمام خادموں کو بیش‌قیمت خیال کرتا ہے۔‏ (‏حجی ۲:‏۷‏)‏ تاہم،‏ بہتیرے اس بات کو قبول کرنا مشکل پاتے ہیں۔‏ بعض بڑھاپے،‏ اضافی خاندانی ذمہ‌داریوں یا خراب صحت کی وجہ سے بےحوصلہ ہو سکتے ہیں۔‏ دیگر بچپن کے تلخ تجربات کی وجہ سے احساسِ‌محرومی کا شکار ہو سکتے ہیں۔‏ دیگر اس شک میں مبتلا ہو کر ماضی کی غلطیوں سے اذیت اُٹھا سکتے ہیں کہ آیا یہوواہ انہیں کبھی معاف کرے گا۔‏ (‏زبور ۵۱:‏۳‏)‏ ایسے احساسات کی بابت کیا کِیا جا سکتا ہے؟‏

۱۳.‏ نااہلیت کے احساس میں مبتلا لوگوں کیلئے کونسی صحیفائی تسلی پائی جاتی ہے؟‏

۱۳ مسیح کا اطمینان ہمیں یہوواہ کی محبت کا یقین دلائیگا۔‏ ہم اس اطمینان کو اس حقیقت پر غور کرنے سے اپنے دلوں میں بحال کر سکتے ہیں کہ یسوع نے یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ ہماری قدروقیمت کا اندازہ ہمارے کام کا دوسروں کے کام سے موازنہ کرکے لگایا جاتا ہے۔‏ (‏متی ۲۵:‏۱۴،‏ ۱۵؛‏ مرقس ۱۲:‏۴۱-‏۴۴‏)‏ تاہم،‏ جس چیز پر یسوع نے زور دیا وہ وفاداری ہے۔‏ اس نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏مگر جو آخر تک برداشت کریگا وہ نجات پائے گا۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۱۳‏)‏ بذاتِ‌خود یسوع کو آدمیوں نے ”‏حقیر“‏ جانا مگر اُسے یقین تھا کہ اس کا باپ اس سے محبت کرتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۵۳:‏۳؛‏ یوحنا ۱۰:‏۱۷‏)‏ اس نے اپنے شاگردوں کو بھی بتایا کہ وہ بھی عزیز ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۲۱‏)‏ اس بات پر زور دینے کیلئے یسوع نے کہا:‏ ”‏کیا پیسے کی دو چڑیاں نہیں بِکتیں؟‏ اور اُن میں سے ایک بھی تمہارے باپ کی مرضی بغیر زمین پر نہیں گِر سکتی۔‏ بلکہ تمہارے سر کے بال بھی سب گنے ہوئے ہیں۔‏ پس ڈرو نہیں۔‏ تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے۔‏“‏ (‏متی ۱۰:‏۲۹-‏۳۱‏)‏ یہوواہ کی محبت کی کیا ہی شاندار یقین‌دہانی!‏

۱۴.‏ ہمارے پاس اس بات کی کیا یقین‌دہانی ہے کہ یہوواہ ہم سب کو بیش‌قیمت خیال کرتا ہے؟‏

۱۴ یسوع نے یہ بھی کہا:‏ ”‏کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اسے کھینچ نہ لے۔‏“‏ (‏یوحنا ۶:‏۴۴‏)‏ چونکہ یہوواہ نے یسوع کی پیروی کرنے کیلئے ہمیں کھینچ لیا ہے اسلئے وہ ہمیں بچانا چاہتا ہے۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏تمہارا آسمانی باپ یہ نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو۔‏“‏ (‏متی ۱۸:‏۱۴‏)‏ لہٰذا،‏ اگر آپ پورے دل کیساتھ خدمت کر رہے ہیں تو آپ اپنے عمدہ کاموں سے خوش ہو سکتے ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۴‏)‏ اگر آپ ماضی کی غلطیوں کے باعث ذہنی کوفت محسوس کر رہے ہیں تو یقین رکھیں کہ یہوواہ حقیقی طور پر تائب اشخاص کو ”‏کثرت سے“‏ معاف کریگا۔‏ (‏یسعیاہ ۴۳:‏۲۵؛‏ ۵۵:‏۷‏)‏ اگر آپ کسی بھی دوسری وجہ سے بےحوصلہ ہیں تو یاد رکھیں کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۳۴:‏۱۸‏۔‏

۱۵.‏ (‏ا)‏ شیطان ہم سے ہمارا اطمینان کیسے چھین لینا چاہتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم یہوواہ پر کیا بھروسا رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۵ شیطان ہمارے اطمینان کو چھین لینا چاہتا ہے۔‏ وہی اس موروثی گناہ کا ذمہ‌دار ہے جس کے ساتھ ہم سب نبردآزما ہیں۔‏ (‏رومیوں ۷:‏۲۱-‏۲۴‏)‏ وہ آپکو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ ناکاملیت کی وجہ سے خدا کے حضور آپ کی خدمت ناقابلِ‌قبول ہے۔‏ ابلیس کو ہرگز موقع نہ دیں کہ آپ کو شکستہ‌خاطر کر دے!‏ اس کے منصوبوں سے آگاہ رہیں اور اس آگہی کو خود کو برداشت کرنے کیلئے پُرعزم بنانے دیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۱؛‏ افسیوں ۶:‏۱۱-‏۱۳‏)‏ یاد رکھیں کہ ”‏خدا ہمارے دل سے بڑا اور سب کچھ جانتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۳:‏۲۰‏)‏ یہوواہ صرف ہماری تقصیروں کو ہی نہیں دیکھتا ہے۔‏ وہ ہمارے اغراض‌ومقاصد کو بھی دیکھتا ہے۔‏ پس،‏ زبورنویس کے ان الفاظ سے تسلی حاصل کریں:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے لوگوں کو ترک نہیں کریگا اور وہ اپنی میراث کو نہیں چھوڑے گا۔‏“‏—‏زبور ۹۴:‏۱۴‏۔‏

مسیح کے اطمینان میں متحد

۱۶.‏ ہم برداشت کے معاملے میں کس طرح تنہا نہیں ہیں؟‏

۱۶ پولس نے لکھا کہ ہم مسیح کے اطمینان کو اپنے دلوں پر حکومت کرنے دیں کیونکہ ہم ”‏ایک بدن ہو کر بلائے“‏ گئے ہیں۔‏ پولس نے جن ممسوح مسیحیوں کو یہ بات لکھی اُنہیں مسیح کے بدن کا حصہ ہونے کیلئے بلایا گیا تھا اسلئے آجکل ممسوح بقیے کو بھی یہی شرف حاصل ہے۔‏ اُنکے ساتھی ’‏دوسری بھیڑیں‘‏ ان کیساتھ ”‏ایک ہی [‏چرواہے]‏،‏“‏ یسوع مسیح کے تحت ”‏ایک ہی گلّہ“‏ ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۱۶‏)‏ لاکھوں لوگوں پر مشتمل عالمگیر ”‏گلّہ“‏ ملکر مسیح کے اطمینان کو اپنے دلوں پر حکومت کرنے کا موقع دے رہا ہے۔‏ یہ جاننا کہ ہم تنہا نہیں ہیں برداشت کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔‏ پطرس نے لکھا:‏ ”‏تم ایمان میں مضبوط ہو کر اور یہ جان کر [‏شیطان]‏ کا مقابلہ کرو کہ تمہارے بھائی جو دُنیا میں ہیں ایسے ہی دُکھ اُٹھا رہے ہیں۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۵:‏۹‏۔‏

۱۷.‏ مسیح کے اطمینان کو اپنے دلوں پر حکومت کرنے کا موقع دینے کا ہمارے پاس کیا محرک ہے؟‏

۱۷ دُعا ہے کہ ہم سب اطمینان کی خوبی کو پیدا کرنا جاری رکھیں جو خدا کی پاک رُوح کا خاص پھل ہے۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ یہوواہ جن لوگوں کو بیداغ اور بےعیب اور مطمئن پاتا ہے وہ اُنہیں انجام‌کار فردوسی زمین پر ابدی زندگی عطا کریگا جہاں راستبازی بسی رہیگی۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ ہمارے پاس ہر وجہ موجود ہے کہ ہم مسیح کے اطمینان کو اپنے دلوں پر حکومت کرنے دیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 بعض معاملات میں پریشانی ڈپریشن جیسی طبّی حالتوں کی وجہ سے پیدا ہو سکتی یا شدت اختیار کر سکتی ہے۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• مسیح کا اطمینان کیا ہے؟‏

‏• ناانصافی کے پیشِ‌نظر مسیح کا اطمینان ہمارے دلوں پر کیسے حکومت کر سکتا ہے؟‏

‏• مسیح کا اطمینان پریشانی سے نپٹنے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏

‏• مسیح کا اطمینان نااہلیت کے احساس میں ہمیں کیسے تسلی دیتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

الزام لگانے والوں کے رُوبرو یسوع نے خود کو یہوواہ کے حوالے کِیا

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

شفیق باپ کی پُرتپاک بغلگیری کی مانند،‏ یہوواہ کی تسلی ہماری پریشانی کم کر سکتی ہے

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

خدا کے حضور برداشت کی بڑی قدر ہے