مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏راستی کی راہ‘‏ پر چلیں

‏’‏راستی کی راہ‘‏ پر چلیں

‏’‏راستی کی راہ‘‏ پر چلیں

یسعیاہ نبی نے بیان کِیا:‏ ”‏راستبازوں .‏ .‏ .‏ [‏کا]‏ بھلا ہوگا کیونکہ وہ اپنے کاموں کا پھل کھائینگے۔‏“‏ یسعیاہ نے یہ بھی کہا:‏ ”‏صادق کی راہ راستی ہے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳:‏۱۰؛‏ ۲۶:‏۷‏)‏ واضح طور پر،‏ اگر ہمارے کاموں کا پھل اچھا ہونا ہے تو ہمیں خدا کی نظروں میں راست کام کرنے چاہئیں۔‏

تاہم،‏ ہم راستی کی راہ پر کیسے چل سکتے ہیں؟‏ ایسا کرنے سے ہم کن برکات کی توقع رکھ سکتے ہیں؟‏ نیز ہمارے خدا کے راست معیاروں پر چلنے سے دوسرے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟‏ بائبل کی کتاب امثال کے ۱۰ باب میں قدیم اسرائیل کا بادشاہ سلیمان راستبازوں کا موازنہ شریر لوگوں کیساتھ کرتے ہوئے ان سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے۔‏ یہاں وہ لفظ ”‏صادق“‏ اور ”‏صادقوں“‏ ۱۲ مرتبہ استعمال کرتا ہے۔‏ آیات ۱۵ تا ۳۲ میں یہ لفظ ۹ مرتبہ آتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ امثال ۱۰:‏۱۵-‏۳۲ پر غوروخوض کرنا حوصلہ‌افزا ثابت ہوگا۔‏ *

تربیت‌پذیر ہوں

سلیمان راستبازی کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏دولتمند کی دولت اُسکا محکم شہر ہے۔‏ کنگال کی ہلاکت اُسی کی تنگ‌دستی ہے۔‏ صادق کی محنت زندگانی کا باعث ہے۔‏ شریر کی اقبالمندی گناہ کراتی ہے۔‏“‏‏—‏امثال ۱۰:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

دولت زندگی کی بعض بےثبات حالتوں میں تحفظ فراہم کر سکتی ہے جسطرح کسی فصیل‌دار شہر میں رہنے والے خود کو کسی حد تک محفوظ محسوس کرتے ہیں۔‏ نیز غربت غیرمتوقع حالات میں تباہ‌کُن ہو سکتی ہے۔‏ (‏واعظ ۷:‏۱۲‏)‏ تاہم دانشمند بادشاہ کا اشارہ ایک ایسے خطرے کی طرف بھی ہو سکتا ہے جس میں دولت اور غربت دونوں شامل ہیں۔‏ ایک دولتمند شخص یہ سوچتے ہوئے اپنی دولت پر مکمل بھروسا کرنے کی طرف مائل ہو سکتا ہے کہ اُسکی دولت ”‏اُونچی دیوار کی مانند ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۸:‏۱۱‏)‏ لہٰذا ایک حاجتمند شخص غلطی سے یہ خیال کر سکتا ہے کہ اُسکی غربت نے اُسکے مستقبل کو مایوس‌کُن بنا دیا ہے۔‏ پس دونوں ہی صورتوں میں خدا کے نام کو جلال نہیں ملتا۔‏

اسکے برعکس،‏ ایک صادق آدمی مالی طور پر امیر ہو یا غریب اُسکی صداقت اُسے زندگی بخشتی ہے۔‏ کیسے؟‏ اُسکے پاس جوکچھ بھی ہوتا ہے وہ اس پر قناعت کرتا ہے۔‏ وہ اپنی مالی حالت کو خدا کیساتھ اپنی راست حیثیت پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔‏ ایک صادق شخص امیر ہو یا غریب اُسکی روشِ‌زندگی اس وقت بھی اُس کیلئے خوشی کا باعث بنتی ہے اور اُسے مستقبل میں ہمیشہ کی زندگی کی اُمید بخشتی ہے۔‏ (‏ایوب ۴۲:‏۱۰-‏۱۳‏)‏ شریر شخص اگر دولتمند بن بھی جائے توبھی اُسے اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔‏ تحفظ فراہم کرنے کی اس کی قدروقیمت کو سمجھنے اور خدا کی مرضی کی مطابقت میں زندگی بسر کرنے کی بجائے وہ اپنی دولت کو ایک گنہگارانہ زندگی بسر کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔‏

‏”‏تربیت‌پذیر زندگی کی راہ پر ہے،‏“‏ اسرائیل کا بادشاہ مزید بیان کرتا ہے،‏ ‏”‏لیکن ملامت کو ترک کرنے والا گمراہ ہو جاتا ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۰:‏۱۷‏)‏ ایک بائبل عالم کے مطابق اس آیت کو دو طریقوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔‏ ایک امکان یہ ہے کہ تربیت قبول کرنے اور صداقت پر چلنے والا شخص زندگی کی راہ پر ہے،‏ جبکہ تنبیہ کو ترک کرنے والا شخص اس سے گمراہ ہو جاتا ہے۔‏ اس آیت کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا کہ ”‏تربیت قبول کرنے والا [‏دوسروں کو]‏ زندگی کی راہ بتاتا ہے [‏کیونکہ اسکا اچھا نمونہ انہیں فائدہ پہنچاتا ہے]‏ لیکن اسے ترک کرنے والا دوسروں کو گمراہ کرتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۰:‏۱۷‏،‏ نیو انٹرنیشنل ورشن‏)‏ دونوں صورتوں میں یہ نہایت اہم ہے کہ ہم تربیت‌پذیر ہوں اور ملامت کو ترک نہ کریں!‏

نفرت کی جگہ محبت پیدا کریں

اسکے بعد سلیمان دو حصوں پر مشتمل ملتی‌جلتی مثل بیان کرتا ہے جسکا دوسرا حصہ پہلے حصے کی وضاحت کرتا ہے۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ‏”‏عداوت کو چھپانے والا دروغگو ہے۔‏“‏ اگر ایک شخص اپنے دل میں کسی کیلئے عداوت رکھتا ہے مگر میٹھی باتوں یا خوشامد سے اس پر پردہ ڈالتا ہے تو وہ فریب دیتا ہے—‏وہ ”‏دروغگو“‏ ہے۔‏ اسکے بعد دانشمند بادشاہ کہتا ہے:‏ ‏”‏تہمت لگانے والا احمق ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۰:‏۱۸‏)‏ بعض لوگ اپنی نفرت کو چھپانے کی بجائے،‏ دوسروں پر غلط الزامات لگاتے یا جن سے نفرت رکھتے ہیں اُن کی بابت تحقیرآمیز باتیں پھیلاتے ہیں۔‏ یہ بیوقوفی ہے کیونکہ تہمت‌آمیز باتیں کسی کی شخصیت کو متاثر نہیں کر سکتیں۔‏ تاہم ایک صاحبِ‌ادراک سامع تہمت لگانے والے کی بدنیتی کو بھانپ لیگا اور اُسکی نظروں میں اس شخص کی عزت کم ہو جائیگی۔‏ پس تہمت لگانے والا شخص خود کو نقصان پہنچاتا ہے۔‏

راست روش فریب اور غیبت سے گریز کرنا ہے۔‏ خدا نے اسرائیلیوں سے کہا:‏ ”‏تُو اپنے دل میں اپنے بھائی سے بغض نہ رکھنا۔‏“‏ (‏احبار ۱۹:‏۱۷‏)‏ یسوع نے اپنے سننے والوں کو نصیحت کی:‏ ”‏اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔‏ تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۴۴،‏ ۴۵‏)‏ کتنا اچھا ہوگا کہ ہم اپنے دلوں کو نفرت کی بجائے محبت سے معمور کریں!‏

‏’‏ہونٹوں کو قابو میں رکھنا‘‏

اپنی زبان کو قابو میں رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے دانشمند بادشاہ بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏کلام کی کثرت خطا سے خالی نہیں لیکن ہونٹوں کو قابو میں رکھنے والا دانا ہے۔‏“‏‏—‏امثال ۱۰:‏۱۹‏۔‏

‏”‏احمق .‏ .‏ .‏ بہت سی باتیں بناتا ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۱۰:‏۱۴‏)‏ اُسکا ”‏مُنہ حماقت اُگلتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۵:‏۲‏)‏ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر باتونی شخص احمق ہے۔‏ تاہم بہت بولنے والا شخص بآسانی نقصان‌دہ فضول‌گوئی یا افواہ پھیلانے کا ذریعہ بن سکتا ہے!‏ بُری شہرت،‏ مجروح جذبات،‏ خراب تعلقات اور جسمانی نقصان کو بھی اکثر احمقانہ گفتگو سے منسوب کِیا جا سکتا ہے۔‏ ”‏زیادہ باتیں کرنے سے گناہ ہوگا۔‏“‏ (‏امثال ۱۰:‏۱۹‏،‏ این امریکن ٹرانسلیشن‏)‏ اسکے علاوہ،‏ ایک ایسے شخص کی موجودگی جھنجھلاہٹ کا باعث بنتی ہے جسے ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ کہنے کی عادت ہوتی ہے۔‏ پس ہمیں اپنی زبان کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏

اپنے ہونٹوں کو قابو میں رکھنے والا شخص دروغگوئی سے گریز کرنے کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی ظاہر کرتا ہے۔‏ وہ بولنے سے پہلے سوچتا ہے۔‏ یہوواہ کے معیاروں سے گہری محبت اور اپنے ساتھی انسانوں کی مدد کرنے کی حقیقی خواہش سے تحریک پا کر،‏ وہ اس بات کا بھی لحاظ رکھتا ہے کہ اسکی باتوں کا دوسروں پر کیا اثر پڑیگا۔‏ اُسکی باتیں پُرمحبت اور مہربانہ ہوتی ہیں۔‏ وہ اپنی باتوں کو دلکش اور مفید بنانے پر بھی غوروخوض کرتا ہے۔‏ اُسکے الفاظ ”‏روپہلی ٹوکریوں میں سونے کے [‏سیبوں]‏“‏ کی مانند ہمیشہ موقع‌شناس اور باوقار ہوتے ہیں۔‏—‏امثال ۲۵:‏۱۱‏۔‏

‏”‏بہتوں کو غذا پہنچاتے ہیں“‏

‏”‏صادق کی زبان خالص چاندی ہے“‏ سلیمان بیان کرتا ہے،‏ ‏”‏شریروں کے دل بےقدر ہیں۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۰:‏۲۰‏)‏ صادق کی باتیں بیش‌قیمت اور خالص چاندی کی طرح ملاوٹ سے پاک ہوتی ہیں۔‏ یہ بات یقیناً یہوواہ کے خادموں کی بابت سچ ہے جب وہ دوسروں کو خدا کے کلام کے زندگی‌بخش علم سے متعارف کراتے ہیں۔‏ انکے عظیم مُعلم یہوواہ خدا نے انہیں تعلیم دی ہے اور انہیں ’‏شاگرد کی زبان بخشی ہے تاکہ وہ کلام کے وسیلہ سے تھکےماندے کی مدد کریں۔‏‘‏ (‏یسعیاہ ۵۰:‏۴‏)‏ بیشک،‏ اُنکی زبان بائبل سچائی بیان کرتے وقت بیش‌قیمت چاندی کی مانند ہے۔‏ شریر انسان کے منصوبوں کی نسبت،‏ انکی باتیں خلوصدل لوگوں کیلئے کتنی قابلِ‌قدر ہیں!‏ ہمیں خدا کی بادشاہت اور اُسکے حیرت‌انگیز کاموں کی بابت گرمجوشی سے بات‌چیت کرنی چاہئے۔‏

صادق اپنے اردگرد کے لوگوں کے لئے باعثِ‌برکت ہے۔‏ ‏”‏صادق کے ہونٹ بہتوں کو غذا پہنچاتے ہیں،‏“‏ سلیمان مزید بیان کرتا ہے،‏ ‏”‏لیکن احمق بےعقلی سے مرتے ہیں۔‏“‏—‏امثال ۱۰:‏۲۱‏۔‏

صادق کیسے ”‏بہتوں کو غذا پہنچاتے ہیں“‏؟‏ جو عبرانی لفظ یہاں استعمال ہوا ہے وہ ”‏گلّہ‌بانی“‏ کا خیال پیش کرتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۰:‏۲۱‏)‏ جسطرح قدیم وقتوں میں ایک چرواہا اپنے گلّے کی دیکھ‌بھال کِیا کرتا تھا بالکل اسی طرح اس اظہار میں راہنمائی اور غذا فراہم کرنے کا خیال پایا جاتا ہے۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۱۱؛‏ زبور ۲۳:‏۱-‏۳؛‏ غزل‌الغزلات ۱:‏۷‏)‏ ایک صادق شخص صداقت کی راہ میں دوسروں کی راہنمائی یا رہبری کرتا ہے،‏ اسکی گفتگو اُسکے سامعین کیلئے تقویت‌بخش ہوتی ہے۔‏ نتیجتاً وہ خوشحال اور زیادہ تسکین‌بخش زندگی بسر کرتے اور ہمیشہ کی زندگی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔‏

تاہم احمق کی بابت کیا ہے؟‏ اپنی بےعقلی کی وجہ سے وہ اپنی روش کے نتائج کیلئے اچھا محرک یا فکرمندی ظاہر نہیں کرتا ہے۔‏ ایسا شخص نتائج کی پرواہ کئے بغیر اپنی مرضی پوری کرتا ہے۔‏ انجام‌کار،‏ اُسے اپنے کاموں کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔‏ صادق دوسروں کی زندہ رہنے میں مدد کرتا ہے مگر بےعقل شخص خود اپنی زندگی بھی نہیں بچا پاتا۔‏

بدچلنی سے گریز کریں

اکثراوقات ایک شخص کی پسند اور ناپسند اُس کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے۔‏ اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اسرائیل کا بادشاہ کہتا ہے:‏ ‏”‏احمق کیلئے شرارت کھیل ہے پر حکمت عقلمند کیلئے ہے۔‏“‏‏—‏امثال ۱۰:‏۲۳‏۔‏

بعض لوگ بدچلنی کو مشغلہ یا کھیل خیال کرتے ہیں اور محض ”‏تفریح“‏ کی خاطر اس میں حصہ لیتے ہیں۔‏ ایسے لوگ خدا کو ایک ہستی خیال کرنے سے قاصر رہتے ہیں جس کے حضور سب جوابدہ ہیں نیز وہ اپنی غلط‌کاری کی طرف سے آنکھیں بند رکھتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۲‏)‏ اُنکی سوچ اسقدر آلودہ ہو جاتی ہے کہ وہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ خدا انکی بدکاری کو نہیں دیکھتا ہے۔‏ درحقیقت اپنے کاموں سے وہ کہتے ہیں:‏ ”‏کوئی [‏یہوواہ]‏ نہیں۔‏“‏ (‏زبور ۱۴:‏۱-‏۳؛‏ یسعیاہ ۲۹:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ کتنی بڑی حماقت!‏

اسکے برعکس،‏ ایک فہیم آدمی اس بات کو پہچانتا ہے کہ بدچلنی کوئی کھیل نہیں ہے۔‏ وہ جانتا ہے کہ یہ یہوواہ کو ناخوش کرتی اور اس کیساتھ ایک شخص کے رشتے کو ختم کر سکتی ہے۔‏ ایسا چال‌چلن اسلئے احمقانہ ہے کہ یہ لوگوں کو انکے عزتِ‌نفس سے محروم کرتا،‏ شادیوں کو ناکام بناتا،‏ دماغ اور جسم دونوں کو نقصان پہنچاتا اور روحانی چیزوں کیلئے قدردانی کے فقدان کا باعث بنتا ہے۔‏ ہم بدچلنی کو رد کرنے اور حکمت کیلئے ایک عزیز بہن جیسی اُلفت پیدا کرنے سے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہیں۔‏—‏امثال ۷:‏۴‏۔‏

درست بنیاد پر تعمیر کریں

زندگی کو صحیح بنیاد پر تعمیر کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏شریر کا خوف اُس پر آ پڑیگا اور صادقوں کی مراد پوری ہوگی۔‏ جب بگولا گذرتا ہے تو شریر نیست ہو جاتا ہے لیکن صادق ابدی بنیاد ہے۔‏“‏—‏امثال ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

شریر دوسروں کو بہت زیادہ خوفزدہ کر سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ آخر میں اُس کا خوف اُسی پر حاوی ہو جاتا ہے۔‏ راست اصولوں کی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے،‏ وہ ایک کمزور عمارت کی طرح متلاطم طوفان میں گِر جاتا ہے۔‏ وہ دباؤ کے تحت ہمت ہار جاتا ہے۔‏ اسکے برعکس،‏ صادق ایک ایسے شخص کی مانند ہے جو یسوع کے الفاظ کے مطابق عمل کرتا ہے۔‏ وہ ”‏اُس عقلمند آدمی کی مانند ٹھہریگا جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا۔‏“‏ یسوع بیان کرتا ہے،‏ ”‏اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اُس گھر پر ٹکریں لگیں لیکن وہ نہ گِرا کیونکہ اُس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی۔‏“‏ (‏متی ۷:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ ایسا شخص قیام‌پذیر ہوتا ہے—‏اُس کی سوچ اور افعال کی مضبوط بنیاد خدائی اصول ہوتے ہیں۔‏

شریر اور صادق کے موازنے پر مزید بات‌چیت کرنے سے پہلے،‏ دانشمند بادشاہ ایک جامع مگر اہم آگاہی پیش کرتا ہے۔‏ وہ بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏جیسا دانتوں کیلئے سرکہ اور آنکھوں کیلئے دھواں ویسا ہی کاہل اپنے بھیجنے والوں کیلئے ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۰:‏۲۶‏)‏ سرکہ دانتوں کیلئے ناگوار ہوتا ہے۔‏ سرکے میں موجود تیزابیت مُنہ میں ترش ذائقہ اور دانتوں میں حساسیت پیدا کر سکتی ہے۔‏ دھوئیں سے آنکھوں میں جلن اور شدید درد ہوتا ہے۔‏ اسی طرح،‏ ایک کاہل آدمی کی خدمات لینے والے یا اُسے نمائندے کے طور پر استعمال کرنے والے شخص کو یقیناً پریشانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔‏

‏’‏یہوواہ کی راہ راستبازوں کیلئے پناہ‌گاہ‘‏

اسرائیل کا بادشاہ مزید بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏[‏یہوواہ]‏ کا خوف عمر کی درازی بخشتا ہے لیکن شریروں کی زندگی کوتاہ کر دی جائیگی۔‏ صادقوں کی اُمید خوشی لائیگی لیکن شریروں کی توقع خاک میں مل جائیگی۔‏“‏—‏امثال ۱۰:‏۲۷،‏ ۲۸‏۔‏

صادق خدائی خوف سے راہنمائی پا کر یہوواہ کو اپنے خیالات اور اقوال‌وافعال سے خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ خدا اُسکی دیکھ‌بھال کرتا اور اُسکی راست توقعات کو پورا کرتا ہے۔‏ تاہم شریر ایک بیدین زندگی بسر کرتا ہے۔‏ اُسکی اُمیدیں بظاہر پوری ہوتی نظر آتی ہیں تاہم یہ عارضی ہوتی ہیں کیونکہ اُس کی زندگی کے ایّام اکثر تشدد یا خراب چال‌چلن سے لگنے والی بیماری کے باعث مختصر ہوتے ہیں۔‏ موت کیساتھ ہی اُسکی تمام اُمیدیں ختم ہو جاتی ہیں۔‏—‏امثال ۱۱:‏۷‏۔‏

سلیمان بیان کرتا ہے،‏ ‏”‏[‏یہوواہ]‏ کی راہ راستبازوں کے لئے پناہگاہ لیکن بدکرداروں کیلئے ہلاکت ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۰:‏۲۹‏)‏ یہاں یہوواہ کی راہ سے مُراد زندگی کی وہ روش نہیں جس پر ہمیں چلنا چاہئے بلکہ نوعِ‌انسان کیساتھ خدا کے برتاؤ کا طریقۂ‌کار ہے۔‏ ”‏وہ وہی چٹان ہے۔‏ اُسکی صنعت کامل ہے،‏“‏ موسیٰ نے کہا،‏ ”‏اُسکی سب راہیں انصاف کی ہیں۔‏“‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴‏)‏ خدا کی راست راہوں کا مطلب صادق کیلئے پناہ اور بدکردار کیلئے تباہی ہے۔‏

یہوواہ اپنے لوگوں کیلئے کیا ہی عظیم پناہ‌گاہ ہے!‏ ‏”‏صادقوں کو کبھی جنبش نہ ہوگی لیکن شریر زمین پر قائم نہیں رہینگے صادق کے مُنہ سے حکمت نکلتی ہے لیکن کجگو زبان کاٹ ڈالی جائیگی۔‏ صادق کے ہونٹ پسندیدہ بات سے آشنا ہیں لیکن شریروں کے مُنہ کجگوئی سے۔‏“‏‏—‏امثال ۱۰:‏۳۰-‏۳۲‏۔‏

صادق یقیناً راستی کی راہ پر چلنے کی وجہ سے کامیابی اور برکت حاصل کرتے ہیں۔‏ واقعی،‏ ‏”‏[‏یہوواہ]‏ ہی کی برکت دولت بخشتی ہے اور وہ اُس کے ساتھ دُکھ نہیں ملاتا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۱۰:‏۲۲‏)‏ پس دُعا ہے کہ ہم ہمیشہ خدائی اُصولوں کی مطابقت میں چلتے رہیں۔‏ ہمیں اپنے ہونٹوں کو قابو میں رکھنا اور اپنی زبان کو خدا کے کلام کی زندگی‌بخش سچائی دوسروں کو سنانے اور صداقت کی راہ میں اُن کی راہنمائی کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

زبان ”‏خالص چاندی“‏ کی مانند ہو سکتی ہے