مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا چیز حقیقی قدروقیمت کی حامل ہے؟‏

کیا چیز حقیقی قدروقیمت کی حامل ہے؟‏

کیا چیز حقیقی قدروقیمت کی حامل ہے؟‏

حقیقی قدروقیمت کی حامل کسی چیز کے مالک ہونا واقعی بڑی خوشی بخشتا ہے۔‏ تاہم یہ چیز کیا ہو سکتی ہے؟‏ ایک بہت بڑی رقم؟‏ کوئی قیمتی یا منفرد زیور؟‏ عزت‌وشہرت؟‏ بہتیرے لوگ ان چیزوں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔‏ انکا حصول ذریعۂ‌معاش فراہم کر سکتا ہے،‏ زندگی کو اَور زیادہ بامقصد بنا سکتا یا اپنے لئے نام کمانے اور کامیابی حاصل کرنے کی باطنی خواہش پوری کر سکتا ہے۔‏ کیا ہم بھی اپنے مستقبل کے نشانوں یا اُمنگوں کو پورا کرنے کی اُمید میں ایسی چیزوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟‏

لوگ عام طور پر اپنی ضروریات اور ذاتی خواہشات کی تسکین کی خاطر چیزوں کی قدر کرتے ہیں۔‏ ہم خوشحالی کا احساس پیدا کرنے اور ایک محفوظ مستقبل کا امکان پیش کرنے والی چیزوں کو عزیز رکھتے ہیں۔‏ ہم ایسی چیزوں کی قدر کرتے ہیں جو فوری نجات،‏ آرام یا عزت بخشتی ہیں۔‏ تاہم،‏ تغیرپذیر خواہشات یا مفادات کی بنیاد پر چیزوں کی قدروقیمت کا تعیّن کرنا سطحی اور کوتاہ‌اندیشی ہے۔‏ دراصل،‏ اپنی سب سے بڑی ضرورت کو سمجھنے کی صورت ہی میں حقیقی قدروقیمت کا تعیّن کِیا جا سکتا ہے۔‏

ہماری سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟‏ ایک بنیادی جزو—‏زندگی—‏کے بغیر کوئی بھی چیز قدروقیمت کی حامل نہیں ہے۔‏ اگر زندگی نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے۔‏ قدیم اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے لکھا:‏ ”‏مُردے کچھ بھی نہیں جانتے .‏ .‏ .‏ پاتال [‏نسلِ‌انسانی کی قبر]‏ میں .‏ .‏ .‏ نہ کام ہے نہ منصوبہ۔‏ نہ علم نہ حکمت۔‏“‏ (‏واعظ ۹:‏۵،‏ ۱۰‏)‏ موت واقع ہونے پر ہم اپنا سب کچھ کھو دیتے ہیں۔‏ لہٰذا،‏ ہماری سب سے بڑی ضرورت کسی ایسی چیز کا حصول ہے جو ہماری زندگی بچا سکے۔‏ کونسی چیز ایسا کر سکتی ہے؟‏

کونسی چیز ہماری زندگی بچا سکتی ہے؟‏

‏’‏روپیہ پناہ‌گاہ ہے،‏‘‏ بادشاہ سلیمان نے بیان کِیا۔‏ (‏واعظ ۷:‏۱۲‏)‏ اگر ہمارے پاس کافی روپیہ ہو تو ہم اپنے لئے غذا اور ایک پُرآسائش گھر خرید سکتے ہیں۔‏ روپیہ ہمیں دُوردراز علاقوں کی سیر سے لطف‌اندوز ہونے کے قابل بنا سکتا ہے۔‏ جب ہم بڑھاپے یا معذوری کی وجہ سے کام کرنے کے قابل نہیں رہتے تو یہ ہمارے لئے ضروریاتِ‌زندگی فراہم کر سکتا ہے۔‏ روپےپیسے کے کئی فوائد ہیں۔‏ تاہم پیسہ ہماری زندگی نہیں بچا سکتا۔‏ پولس رسول نے تیمتھیس کو فہمائش کی:‏ ”‏اس موجودہ جہان کے دولتمندوں کو حکم دے کہ مغرور نہ ہوں اور ناپایدار دولت پر نہیں بلکہ خدا پر اُمید رکھیں۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۷‏)‏ دُنیا کی تمام‌تر دولت ہمارے لئے زندگی نہیں خرید سکتی۔‏

ہیٹوشی نامی ایک شخص کے تجربے پر غور کریں۔‏ ایک غریب گھرانے میں پرورش پانے کی وجہ سے ہیٹوشی کے دل میں امیر بننے کی شدید خواہش تھی۔‏ وہ دولت کی طاقت پر اسقدر ایمان رکھتا تھا کہ اُسکے نزدیک انسان بھی بکاؤ تھے۔‏ پھر ایک شخص ہیٹوشی سے ملنے آیا اور اُس سے پوچھا کہ آیا وہ جانتا ہے کہ یسوع مسیح نے اُسکی خاطر جان دی تھی۔‏ اس سوال نے ہیٹوشی کے تجسّس کو اُبھارا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اُس جیسے انسان کیلئے کوئی بھی اپنی جان نہیں دے گا۔‏ اُس نے ایک عوامی بائبل تقریر سنی اور وہ ’‏اپنی آنکھ کو سادہ رکھنے‘‏ کی فہمائش سن کر حیران رہ گیا۔‏ مقرر نے وضاحت کی کہ ’‏سادہ‘‏ آنکھ دُوراندیش اور روحانی چیزوں پر مُرتکز ہوتی ہے۔‏ (‏لوقا ۱۱:‏۳۴‏)‏ پیسے کمانے کیلئے جدوجہد کرنے کی بجائے،‏ ہیٹوشی نے روحانی اقدار کو اپنی زندگی میں مقدم رکھنا شروع کر دیا۔‏

مادی چیزیں بھی کسی حد تک ہمیں استحکام اور تحفظ بخش سکتی ہیں۔‏ ان کی فراوانی ہمیں اپنی روزمرّہ ضروریات کی پریشانی سے آزاد کرتی ہے۔‏ عمدہ گردونواح میں ایک خوبصورت گھر ہم میں کامیابی کا احساس پیدا کر سکتا ہے۔‏ جدید ملبوسات اور شاندار گاڑی ہمیں دوسروں کی توجہ کا مرکز بنا سکتی ہے۔‏

‏”‏اپنی ساری محنت سے فائدہ“‏ اُٹھانا باعثِ‌برکت ہے۔‏ (‏واعظ ۳:‏۱۳‏)‏ نیز مادی چیزوں کی افراط ہمارے عزیزوں کیلئے ’‏سکھ‌چین سے رہنے،‏ کھانےپینے اور خوش رہنے‘‏ کے کام آ سکتی ہے۔‏ تاہم مادی چیزوں کی قدروقیمت عارضی ہوتی ہے۔‏ لالچ کے خلاف آگاہ کرتے ہوئے یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏کسی کی زندگی اُس کے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔‏“‏ (‏لوقا ۱۲:‏۱۵-‏۲۱‏)‏ مقدار اور وقعت سے قطع‌نظر مال‌ودولت ہمیں زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔‏

مثال کے طور پر،‏ لیز کی شادی ایک مالدار شخص سے ہوئی۔‏ وہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏ہمارے پاس ایک عالیشان گھر اور دو گاڑیاں تھیں اور ہماری مالی حیثیت ایسی تھی کہ ہم دُنیا کی ہر آسائش سے لطف‌اندوز ہو سکتے تھے۔‏ تاہم عجیب بات یہ ہے کہ مَیں پھربھی پیسوں کی بابت پریشان رہتی تھی۔‏“‏ وہ وضاحت کرتی ہے:‏ ”‏ہم بہت ساری چیزوں سے محروم ہو سکتے تھے۔‏ بظاہر یوں لگتا ہے کہ آپ کے پاس جتنا زیادہ مال ہو آپ خود کو اتنا ہی زیادہ غیرمحفوظ محسوس کرتے ہیں۔‏“‏

بہتیرے لوگ بلند مقام اور شہرت کی بھی بڑی قدر کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کیلئے عزت‌وتکریم کا باعث بن سکتا ہے۔‏ آجکل کی دُنیا میں اچھا پیشہ ایک ایسی کامیابی ہے جس پر بہتیرے رشک کرتے ہیں۔‏ ہم اپنے اندر منفرد صلاحیتیں یا مہارتیں پیدا کرنے سے اچھا نام کما سکتے ہیں۔‏ اس طرح دوسرے لوگ ہماری تعریف کرتے ہوئے ہمارے نظریات کو نہایت اہم خیال کر سکتے ہیں اور ہماری پسندیدگی حاصل کرنے کے آرزومند ہو سکتے ہیں۔‏ یہ تمام چیزیں خوشی اور تسکین بخش سکتی ہیں۔‏ تاہم،‏ آخرکار یہ خوشی ختم ہو جاتی ہے۔‏ سلیمان اس تمام جلال اور طاقت کا مالک تھا جو ایک بادشاہ کو حاصل ہوتی ہے لیکن اُس نے افسوس کا اظہار کِیا:‏ ”‏نہ دانشور اور نہ احمق کی یادگار ابد تک رہیگی۔‏ .‏ .‏ .‏ سب کچھ فراموش ہو چکے گا۔‏“‏ (‏واعظ ۲:‏۱۶‏)‏ بلند مقام اور شہرت کسی شخص کو زندگی عطا نہیں کرتی۔‏

چیلو نامی ایک مجسّمہ‌ساز نے شہرت سے زیادہ بیش‌قیمت کسی چیز کی قدر پہچان لی۔‏ خداداد قابلیت رکھنے کی وجہ سے اسے اپنی مہارت کو فروغ دینے کے لئے مزید تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔‏ بہت جلد اخبارات اور فنونِ‌لطیفہ کے تنقیدنگاروں نے اس کے کام کو سراہا۔‏ یورپ کے بڑے شہروں میں اس کے بہتیرے مجسّموں کی نمائش کی گئی۔‏ چیلو بیان کرتا ہے:‏ ”‏مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ ایک وقت ایسا تھا جب فن میری زندگی میں اہم‌ترین مقام رکھتا تھا۔‏ تاہم،‏ مَیں نے سمجھ لیا کہ اگر مَیں اپنے پیشے کو اسقدر اہمیت دونگا تو یہ دو مالکوں کی خدمت کرنے کے برابر ہوگا۔‏ (‏متی ۶:‏۲۴‏)‏ مجھے پورا یقین ہو گیا کہ خدا کی بادشاہتی خوشخبری کی منادی میرے لئے اہم‌ترین کام ہے۔‏ لہٰذا مَیں نے مجسّمہ‌سازی کا کام چھوڑ دینے کا ذاتی فیصلہ کِیا۔‏“‏

کیا چیز سب سے زیادہ قدروقیمت کی حامل ہے؟‏

چونکہ زندگی کے بغیر کوئی چیز قدروقیمت یا معنی نہیں رکھتی لہٰذا،‏ ہم ایسی کونسی چیز حاصل کر سکتے ہیں جو ہمیں زندگی کی ضمانت دیگی؟‏ تمام زندگی کا ماخذ یہوواہ خدا ہے۔‏ (‏زبور ۳۶:‏۹‏)‏ واقعی،‏ ”‏اُسی میں ہم جیتے اور چلتےپھرتے اور موجود ہیں۔‏“‏ (‏اعمال ۱۷:‏۲۸‏)‏ وہ جن سے محبت رکھتا ہے انہیں ہمیشہ کی زندگی کی بخشش بھی نوازتا ہے۔‏ (‏رومیوں ۶:‏۲۳‏)‏ اس بخشش کے لائق ٹھہرنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏

ہم یہوواہ کیساتھ ایک قریبی رشتہ استوار کرنے سے ہی ہمیشہ کی زندگی کی بخشش حاصل کر سکتے ہیں۔‏ لہٰذا اُسکی خوشنودی ہمارے ہر ممکنہ اثاثے سے زیادہ بیش‌قیمت ہے۔‏ جب ہم اسے پا لیتے ہیں تو ہمارے پاس حقیقی اور ابدی خوشی کا امکان ہوتا ہے۔‏ تاہم خدا کی خوشنودی کے بغیر ہم ابدی ہلاکت کا سامنا کرتے ہیں۔‏ واضح طور پر یہوواہ کیساتھ ایک اچھا رشتہ استوار کرنے میں ہماری مدد کرنے والی چیز بیش‌قیمت ہے۔‏

ہمیں کیا کرنا چاہئے

ہماری کامیابی کا انحصار علم حاصل کرنے پر ہے۔‏ یہوواہ کا کلام،‏ بائبل صحیح علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔‏ صرف یہی ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کو خوش کرنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔‏ لہٰذا ہمیں صحائف کا بغور مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کو جاننے کی ہماری مستعد کوشش ”‏ہمیشہ کی زندگی“‏ کا علم حاصل کرنے کا باعث بنتی ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۳‏)‏ ایسا علم ایک انمول خزانہ ہے!‏—‏امثال ۲:‏۱-‏۵‏۔‏

خدا کے کلام سے حاصل ہونے والا علم ہمیں اگلا قدم اُٹھانے یعنی یسوع مسیح پر ایمان لانے کیلئے تیار کرتا ہے۔‏ یہوواہ کا یہ حکم ہے کہ اس کے پاس آنے والوں کو صرف یسوع کے وسیلہ سے ایسا کرنا چاہئے۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۶‏)‏ دراصل،‏ ”‏کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں۔‏“‏ (‏اعمال ۴:‏۱۲‏)‏ انجام‌کار ہماری بقا کا انحصار ’‏سونے چاندی پر نہیں .‏ .‏ .‏ بلکہ مسیح کے بیش‌قیمت خون‘‏ پر ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۱:‏۱۸،‏ ۱۹‏)‏ ہمیں یسوع کی تعلیمات پر بھروسا کرنے اور اس کے نمونے کی پیروی کرنے سے اپنے ایمان کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۱-‏۳؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۲۱‏)‏ نیز اُسکی قربانی کسقدر گراں‌بہا ہے!‏ اسکے فوائد کا اطلاق تمام نوعِ‌انسان کیلئے ہمیشہ کی زندگی کا باعث بنتا ہے۔‏ جب ہماری خاطر اسکا مکمل اطلاق کِیا جاتا ہے تو ہمیں واقعی ہمیشہ کی زندگی کی انمول بخشش ملتی ہے۔‏—‏یوحنا ۳:‏۱۶‏۔‏

یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔‏“‏ (‏متی ۲۲:‏۳۷‏)‏ یہوواہ سے محبت رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ”‏ہم اُسکے حکموں پر عمل کریں۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏)‏ اسکے احکام ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ دُنیا سے علیٰحدہ رہیں،‏ راست چال‌چلن برقرار رکھیں اور وفاداری سے اُسکی بادشاہت کی حمایت کریں۔‏ اس طرح سے ہم موت کی بجائے ”‏زندگی کو اختیار“‏ کرتے ہیں۔‏ (‏استثنا ۳۰:‏۱۹‏)‏ اگر ہم ’‏خدا کے نزدیک جائیں تو وہ ہمارے نزدیک آئیگا۔‏‘‏—‏یعقوب ۴:‏۸‏۔‏

خدا کی خوشنودی کی یقین‌دہانی دُنیا کے تمام خزانوں سے زیادہ گراں‌بہا ہے۔‏ اسے حاصل کرنے والے دُنیا کے سب سے زیادہ دولتمند لوگ ہیں!‏ پس،‏ دُعا ہے کہ ہم حقیقی قدروقیمت کے خزانے—‏یہوواہ کی مقبولیت—‏کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔‏ بیشک،‏ ہمیں پولس رسول کی اس نصیحت پر دھیان دینے کی ضرورت ہے:‏ ”‏راستبازی۔‏ دینداری۔‏ ایمان۔‏ محبت۔‏ صبر اور حلم کا طالب ہو۔‏ ایمان کی اچھی کشتی لڑ۔‏ اُس ہمیشہ کی زندگی پر قبضہ کرلے۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویریں]‏

ہمیں صحائف کا بغور مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

آپ کے نزدیک سب سے بیش‌قیمت چیز کیا ہے؟‏ روپیہ‌پیسہ،‏ مال‌ومتاع،‏ شہرت یا کچھ اَور؟‏