کیا کوئی چیز لوگوں کو واقعی متحد کر سکتی ہے؟
کیا کوئی چیز لوگوں کو واقعی متحد کر سکتی ہے؟
آپ اپنے اعتقادات سے قطعنظر، اس حقیقت سے اتفاق کرینگے کہ تقریباً ہر مذہب میں سچائی سے محبت رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ سچائی کے قدردان اور متلاشی ہندو، کیتھولک، یہودی اور دیگر مذاہب میں پائے جا سکتے ہیں۔ تاہم، مذہب بظاہر نسلِانسانی میں تفرقہ پیدا کرتا ہے۔ بعض لوگ مذہب کے درپردہ بُرے مقاصد کو بھی انجام دیتے ہیں۔ کیا تمام مذاہب میں راستی اور سچائی سے محبت رکھنے والے خلوصدل لوگ کبھی متحد ہو پائینگے؟ کیا وہ ایک مشترکہ مقصد کیلئے اکٹھے ہو سکیں گے؟
یہ دیکھنا کسقدر پریشانکُن ہے کہ مذہب بڑی حد تک تفرقے کا باعث ہے! ان میں سے چند آویزشوں پر غور کریں۔ سریلنکا میں ہندو اور بدھسٹ آپس میں لڑتے ہیں۔ پروٹسٹنٹوں، کیتھولکوں اور یہودیوں نے مختلف لڑائیوں میں ایک دوسرے کا خون بہایا ہے۔ انڈونیشیا، بوسنیا، چیچنیا اور کوسوو میں مسلم اور ”کرسچین“ لڑتے ہیں۔ نیز، مارچ ۲۰۰۰ میں دو دن کے فساد نے نائیجیریا کے ۳۰۰ لوگوں کی جانیں لے لیں جسے مذہب سے منسوب کِیا گیا ہے۔ واقعی، مذہبی منافرت نے ان جھگڑوں میں جلتی آگ پر تیل کا کام کِیا ہے۔
خلوصدل لوگ مذہب کی آڑ میں کئے جانے والے بُرے کاموں پر اکثر حیرانوپریشان ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بہتیرے چرچ جانے والے اس بات سے حیرتزدہ ہیں کہ بعض چرچوں نے بچوں کیساتھ جنسی بدسلوکی کرنے والے پادریوں کو ان کے عہدوں سے برطرف نہیں کِیا ہے۔ دیگر معتقدین ہمجنسپسندی اور اسقاطِحمل جیسے معاملات پر نامنہاد مسیحی فرقوں کے اندر پائے جانے والے اختلافات سے سخت پریشان ہوتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ مذہب نے نسلِانسانی کو متحد نہیں کِیا۔ تاہم، بہتیرے مذاہب میں سچائی سے محبت رکھنے والے خلوصدل اشخاص ابھی موجود ہیں جیسے درج ذیل تجربات سے ظاہر ہے۔
وہ سچائی کے مشتاق تھے
فیڈیلیا لا پاز، بولیویا میں کیتھولک چرچ آف سان فرانسسکو کی ایک سرگرم اور عقیدتمند رُکن تھی۔ وہ مریم کے بُت کے آگے سجدہ کرتی اور صلیب کے آگے اپنی استطاعت کے مطابق بہترین مومبتیاں خرید کر جلاتی تھی۔ ہر ہفتے وہ پادری کو حاجتمندوں میں تقسیم کرنے کیلئے کافی زیادہ خوراک کا عطیہ دیتی تھی۔ تاہم، فیڈیلیا کے پانچ بچے بپتسمہ سے پہلے ہی فوت ہو گئے۔ جب پادری نے اُسے بتایا کہ اُسکے بچے برزخ کی تاریکی میں تکلیف میں مبتلا ہیں تو فیڈیلیا نے سوچا، ’اگر خدا شفیق اور مہربان ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘
ایک میڈیکل ڈاکٹر تارا نے نیپال، کھٹمنڈو میں ایک ہندو کے طور پر پرورش پائی تھی۔ اپنے آباؤاجداد کی صدیوں پُرانی رسومات کی تقلید میں، وہ ہندو مندروں میں اپنے دیوتاؤں اور اپنے گھر پر موجود مورتوں کی پوجا کرتی تھی۔ تاہم تارا کو ایسے سوالات پریشان کر دیتے تھے: آخر اس قدر تکلیف کیوں ہے؟ لوگ کیوں مرتے ہیں؟ اسے اپنے مذہب سے ان سوالوں کے کوئی تسلیبخش جواب نہیں ملے۔
دوسری طرف، پانیا نے بنکاک، تھائیلینڈ میں ایک نہر کے قریب واقع گھر میں ایک بدھسٹ کے طور پر پرورش پائی تھی۔ اُسے سکھایا گیا تھا کہ سابقہ زندگی میں کئے جانے والے کاموں
کے باعث تکلیف آتی ہے اور تمام خواہشات سے پیچھا چھڑانے کی صورت میں ہی اس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ اُسے بھی دیگر خلوصدل بدھسٹ لوگوں کی طرح، زرد چوغے پہننے والے راہبوں کیلئے گہرا احترام ظاہر کرنے کی تعلیم دی گئی تھی جو ہر صبح چندے کیلئے اُسکے گھر پر آیا کرتے تھے۔ وہ مراقبہ کِیا کرتا تھا اور اِس اعتقاد کیساتھ بدھا کے مجسّمے جمع کرتا تھا کہ اِن سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ ایک سنگین حادثے میں اُس کے جسم کا نچلا حصہ بالکل مفلوج ہو گیا، جس کے بعد پانیا معجزانہ شفا پانے کی خلوصدلی سے اُمید رکھتے ہوئے کئی بدھسٹ خانقاہوں میں گیا۔ اسے کوئی شفا یا روحانی بصیرت نہ ملی۔ اسکے برعکس، وہ ارواحپرستی میں پڑ گیا اور اِن کاموں سے دل بہلانے لگا۔ورجل ریاستہائےمتحدہ میں پیدا ہوا اور اس نے کالج میں خود کو سیاہفام مسلمانوں کے ساتھ منسلک کر لیا۔ وہ گرمجوشی سے انکا لٹریچر تقسیم کِیا کرتا تھا جو اس عقیدے پر مبنی تھا کہ سفیدفام شخص درحقیقت ابلیس ہے۔ ان کے خیال میں سفیدفاموں کا سیاہفاموں پر اسقدر ظلم ڈھانے کا یہی سبب تھا۔ اگرچہ ورجل اپنے اعتقادات میں مخلص تھا توبھی وہ ان سوالات سے پریشان ہو جاتا تھا: تمام سفیدفام لوگ کیسے بُرے ہو سکتے ہیں؟ اِسکے علاوہ بیشتر خطبے روپےپیسے کے متعلق ہی کیوں ہوتے ہیں؟
چیرو کی پرورش جنوبی امریکہ کے اس خطے میں ہوئی تھی جہاں اکثریت کیتھولکوں کی تھی لیکن وہ ایک خلوصدل پروٹسٹنٹ تھی۔ وہ خوش تھی کہ وہ اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی بُتپرستی میں شریک نہیں ہے۔ چیرو ہیجانخیز عبادت کیلئے ہر اتوار چرچ جانے سے خوش ہوتی تھی جہاں وہ بلند آواز میں ”ہللویاہ!“ پکارتی اور اس کے بعد گیتوں اور ناچ میں حصہ لیتی تھی۔ چیرو خلوصدلی سے ایمان رکھتی تھی کہ وہ نجاتیافتہ ہے اور وہ نئے سرے سے پیدا ہو چکی ہے۔ وہ اپنی آمدنی کا دسواں حصہ چرچ کو دیتی تھی اور جب ٹیلیویژن پر اُسکا پسندیدہ مبشر عطیات کی درخواست کرتا تو وہ اُسے افریقہ کے بچوں کیلئے پیسے بھیجتی تھی۔ جب اُس نے اپنے پادری سے پوچھا کہ ایک پُرمحبت خدا لوگوں کو دوزخ میں اذیت کیوں دیتا ہے تو اُسے اپنے سوال کا کوئی معنیخیز جواب نہ ملا۔ بعدازاں اُسے یہ بھی پتہ چلا کہ اُس کے عطیات افریقہ کے بچوں کی مدد کے لئے استعمال نہیں کئے جاتے تھے۔
مختلف پسمنظر سے تعلق رکھنے کے باوجود اِن پانچوں اشخاص میں ایک بات ضرور مشترک تھی۔ وہ سچائی کے بھوکے اور خلوصدلی سے اپنے سوالوں کا صحیح جواب چاہتے تھے۔ تاہم کیا وہ سچی پرستش میں واقعی متحد ہو سکتے تھے؟ اگلا مضمون اس سوال کا جواب دیگا۔
[صفحہ ۴ پر تصویر]
کیا مختلف پسمنظر سے تعلق رکھنے والے لوگ واقعی متحد ہو سکتے ہیں؟
[صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]
G.P.O., Jerusalem