مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا یہوواہ کی برکت آپ پر نازل ہوگی؟‏

کیا یہوواہ کی برکت آپ پر نازل ہوگی؟‏

کیا یہوواہ کی برکت آپ پر نازل ہوگی؟‏

‏”‏اگر تُو [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہونگی اور تجھ کو ملینگی۔‏“‏ —‏استثنا ۲۸:‏۲‏۔‏

۱.‏ کس کی بنیاد پر اسرائیلیوں پر برکتیں یا لعنتیں نازل ہونی تھیں؟‏

بیابان میں اپنے ۴۰ سالہ سفر کے اختتام پر اسرائیلی موآب کے میدانوں میں خیمہ‌زن تھے۔‏ ملکِ‌موعود ان کی نظروں کے سامنے تھا۔‏ اس وقت کے دوران موسیٰ نے استثنا کی کتاب لکھی جس میں برکتوں اور لعنتوں یا بددعاؤں کا سلسلہ پایا جاتا ہے۔‏ اگر اسرائیل کے لوگ اسکی فرمانبرداری کرتے ہوئے ’‏یہوواہ کی بات سنتے‘‏ رہینگے تو ان پر برکات ”‏نازل“‏ ہونگی۔‏ یہوواہ اپنی ”‏خاص قوم“‏ کے طور پر ان سے محبت رکھتا تھا اور ان کی خاطر اپنی قدرت ظاہر کرنا چاہتا تھا۔‏ تاہم یہوواہ کی بات نہ سننے کی صورت میں ان پر لعنتیں نازل ہونی تھیں۔‏—‏استثنا ۸:‏۱۰-‏۱۴؛‏ ۲۶:‏۱۸؛‏ ۲۸:‏۲،‏ ۱۵‏۔‏

۲.‏ استثنا ۲۸:‏۲ میں عبرانی فعل ”‏سنے“‏ اور ”‏نازل“‏ کا مفہوم کیا ہے؟‏

۲ استثنا ۲۸:‏۲ میں ”‏سنے“‏ کیلئے عبرانی فعل ایک جاری رہنے والے عمل کو ظاہر کرتا ہے۔‏ یہوواہ کے لوگوں کو صرف کبھی‌کبھار نہیں بلکہ تمام عمر اس کی بات سنتے رہنا چاہئے۔‏ صرف اسی صورت میں ان پر الہٰی برکات نازل ہونگی۔‏ جس عبرانی فعل کا ترجمہ ”‏نازل“‏ کِیا گیا ہے وہ شکار کیلئے استعمال ہونے والی اصطلاح ہے جو اکثر ”‏پکڑنے“‏ یا ”‏جا لینے“‏ کا مفہوم پیش کرتی ہے۔‏

۳.‏ ہم یشوع کی مانند کیسے بن سکتے ہیں اور یہ اہم کیوں ہے؟‏

۳ اسرائیلی راہنما یشوع نے یہوواہ کی بات سننے کا انتخاب کِیا اور اس لئے اُسے برکات حاصل ہوئیں۔‏ یشوع نے کہا:‏ ”‏آج ہی تم اُسے جس کی پرستش کرو گے چن لو۔‏ .‏ .‏ .‏ اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو [‏یہوواہ]‏ کی پرستش کریں گے۔‏“‏ یہ سننے کے بعد،‏ لوگوں نے جواب دیا:‏ ”‏خدا نہ کرے کہ ہم [‏یہوواہ]‏ کو چھوڑ کر اَور معبودوں کی پرستش کریں۔‏“‏ (‏یشوع ۲۴:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ یشوع کے عمدہ رجحان کی وجہ سے وہ اپنی پُشت کے اُن چند لوگوں میں شامل تھا جنہیں ملکِ‌موعود میں داخل ہونے کا شرف بخشا گیا تھا۔‏ آج ہم اس سے کئی گُنا افضل ملکِ‌موعود کی دہلیز پر کھڑے ہیں—‏فردوسی زمین جہاں خدا کی مقبولیت حاصل کرنے والے تمام لوگوں کیلئے یشوع کے زمانہ کی نسبت کہیں زیادہ برکات منتظر ہیں۔‏ کیا ایسی برکات آپ پر نازل ہونگی؟‏ اگر آپ یہوواہ کی بات سنتے رہینگے تو یقیناً ایسا ہوگا۔‏ اس لئے اپنے عزم کو مضبوط کرنے کیلئے قدیم اسرائیل کی قومی تاریخ اور انفرادی اشخاص کی سبق‌آموز مثالوں پر غور کریں۔‏—‏رومیوں ۱۵:‏۴‏۔‏

برکت یا لعنت؟‏

۴.‏ سلیمان کی دُعاؤں کے جواب میں خدا نے اسے کن برکات سے نوازا اور ہمیں ان کی بابت کیسا محسوس کرنا چاہئے؟‏

۴ بادشاہ سلیمان کی حکمرانی کے دوران،‏ اسرائیلیوں کو یہوواہ کی طرف سے حیرت‌انگیز برکات حاصل ہوئیں۔‏ وہ امن‌وسلامتی اور اچھی بخششوں کی افراط سے نہایت خوش تھے۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۴:‏۲۵‏)‏ اگرچہ سلیمان کے مال‌ودولت کا بہت چرچا تھا تاہم اس نے خدا سے مادی دولت کے لئے درخواست نہیں کی تھی۔‏ اسکی بجائے جب وہ ایک ناتجربہ‌کار لڑکا ہی تھا تو اس نے ایک فرمانبردار دل کیلئے دُعا کی—‏یہوواہ نے اس درخواست کے جواب میں اسے حکمت اور سمجھ سے بھی نوازا۔‏ اس برکت نے سلیمان کو نیک‌وبد میں امتیاز کرنے اور لوگوں کا صحیح انصاف کرنے کے قابل بنایا۔‏ اگرچہ ایک نوجوان شخص کے طور پر خدا نے اسے دولت اور عزت بھی عطا کی توبھی سلیمان نے روحانی دولت کی قدروقیمت کو زیادہ عزیز رکھا۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۳:‏۹-‏۱۳‏)‏ مادی طور پر خواہ ہم امیر ہیں یا غریب،‏ تاہم اگر ہمیں یہوواہ کی برکت اور روحانی دولت حاصل ہے تو ہم کتنے شکرگزار ہو سکتے ہیں!‏

۵.‏ جب اسرائیل اور یہوداہ کے لوگ یہوواہ کی بات سننے میں ناکام رہے تو کیا واقع ہوا؟‏

۵ اسرائیلی یہوواہ کی برکت کیلئے قدردانی ظاہر کرنے میں ناکام رہے۔‏ اُنہوں نے خدا کی بات پر دھیان دینا چھوڑ دیا تھا لہٰذا ان پر پہلے سے بیان‌کردہ لعنتیں نازل ہوئیں۔‏ نتیجتاً ان کے دشمنوں نے ان پر فتح حاصل کی اور اسرائیل اور یہوداہ کے باشندے اسیر ہو گئے۔‏ (‏استثنا ۲۸:‏۳۶؛‏ ۲-‏سلاطین ۱۷:‏۲۲،‏ ۲۳؛‏ ۲-‏تواریخ ۳۶:‏۱۷-‏۲۰‏)‏ کیا خدا کے لوگوں نے ایسی تکلیف سے سیکھ لیا کہ الہٰی برکات صرف ان پر نازل ہوتی ہیں جو یہوواہ کی بات سننا جاری رکھتے ہیں؟‏ ۵۳۷ ق.‏س.‏ع.‏ میں وطن لوٹنے والے یہودی بقیے کو یہ ظاہر کرنے کا موقع ملا کہ آیا انہوں نے ”‏دانا دل“‏ حاصل کِیا ہے اور اب وہ خدا کی بات سنتے رہنے کی ضرورت کو سمجھ گئے ہیں۔‏—‏زبور ۹۰:‏۱۲‏۔‏

۶.‏ (‏ا)‏ یہوواہ نے حجی اور زکریاہ کو اپنے لوگوں کے درمیان نبوّت کرنے کیلئے کیوں بھیجا؟‏ (‏ب)‏ حجی کی معرفت خدا کے پیغام نے کس اصول کو نمایاں کِیا؟‏

۶ اپنے وطن واپس لوٹنے والے یہودیوں نے ایک مذبح تیار کِیا اور یروشلیم کی ہیکل پر کام شروع کر دیا۔‏ تاہم جب شدید مخالفت بڑھ گئی تو ان کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور تعمیراتی کام رک گیا۔‏ (‏عزرا ۳:‏۱-‏۳،‏ ۱۰؛‏ ۴:‏۱-‏۴،‏ ۲۳،‏ ۲۴‏)‏ انہوں نے ذاتی آسائشوں کو بھی مقدم رکھنا شروع کر دیا۔‏ پس،‏ خدا نے سچی پرستش کیلئے اپنے لوگوں کے جذبے کو جگانے کیلئے حجی اور زکریاہ نبی کو انکے پاس بھیجا۔‏ یہوواہ نے حجی کی معرفت بیان کِیا:‏ ”‏کیا تمہارے لئے مسقّف گھروں میں رہنے کا وقت ہے جبکہ [‏پرستش کا]‏ یہ گھر ویران پڑا ہے؟‏ .‏ .‏ .‏ تم اپنی روش پر غور کرو۔‏ تم نے بہت سا بویا پر تھوڑا کاٹا۔‏ تم کھاتے ہو پر آسودہ نہیں ہوتے۔‏ .‏ .‏ .‏ اور مزدور اپنی مزدوری سوراخدار تھیلی میں جمع کرتا ہے۔‏“‏ (‏حجی ۱:‏۴-‏۶‏)‏ مادی فوائد کے حصول میں روحانی مفادات کو قربان کر دینا یہوواہ کی برکت پر منتج نہیں ہوتا۔‏—‏لوقا ۱۲:‏۱۵-‏۲۱‏۔‏

۷.‏ یہوواہ نے یہودیوں کو ”‏اپنی روش پر غور“‏ کرنے کیلئے کیوں کہا؟‏

۷ یہودی روزمرّہ کی پریشانیوں میں گِھر کر یہ بھول گئے تھے کہ بارش اور پھلدار موسموں کی برکات صرف اس وقت ان پر نازل ہوں گی جب وہ مخالفت کے باوجود خدا کی فرمانبرداری کرتے رہیں گے۔‏ (‏حجی ۱:‏۹-‏۱۱‏)‏ پس یہ فہمائش کس قدر موزوں تھی:‏ ”‏اپنی روش پر غور کرو“‏!‏ (‏حجی ۱:‏۷‏)‏ باالفاظِ‌دیگر یہوواہ ان سے کہہ رہا تھا:‏ ’‏ذرا سوچو!‏ کھیتوں میں اپنی بےسود محنت اور میری پرستش کے گھر کی ویران حالت کے درمیان تعلق پر غور کرو۔‏‘‏ یہوواہ کے نبیوں کے الہامی الفاظ نے آخرکار سننے والوں کے دلوں پر اثر کِیا کیونکہ لوگوں نے ہیکل کی تعمیر دوبارہ شروع کر دی اور ۵۱۵ ق.‏س.‏ع.‏ میں اسے مکمل کر لیا۔‏

۸.‏ یہوواہ نے ملاکی کے زمانہ میں یہودیوں کو کیا فہمائش کی اور کیوں؟‏

۸ بعدازاں،‏ ملاکی نبی کے زمانہ میں یہودی ایک بار پھر روحانی طور پر ڈگمگانے لگے اور انہوں نے خدا کے حضور ناقابِل‌قبول قربانیاں گزراننا شروع کر دیں۔‏ (‏ملاکی ۱:‏۶-‏۸‏)‏ پس یہوواہ نے انہیں فہمائش کی کہ اپنی پیداوار کا دسواں حصہ اسکے ذخیرہ‌خانہ میں لائیں اور پھر اسے آزمائیں کہ آیا وہ آسمان کے دریچوں کو کھول کر ان پر برکت برساتا ہے کہ نہیں یہانتک کہ ان کے پاس اسے رکھنے کے لئے جگہ نہ رہے گی۔‏ (‏ملاکی ۳:‏۱۰‏)‏ یہودیوں نے ان چیزوں کیلئے جدوجہد کرکے حماقت کا ثبوت دیا جو خدا انہیں باافراط عطا کر سکتا تھا بشرطیکہ وہ اسکی آواز پر دھیان دیتے رہتے!‏—‏۲-‏تواریخ ۳۱:‏۱۰‏۔‏

۹.‏ ہم بائبل ریکارڈ میں کن تین لوگوں کی زندگی کا جائزہ لینگے؟‏

۹ بائبل اسرائیل کی قومی تاریخ کے علاوہ،‏ ایسے کئی اشخاص کی زندگی کا ریکارڈ بھی پیش کرتی ہے جنہیں یہوواہ کی بات سننے یا نہ سننے کی وجہ سے الہٰی برکات یا لعنتوں کا تجربہ ہوا تھا۔‏ آئیے دیکھیں کہ ہم ان میں سے تین لوگوں—‏بوعز،‏ نابال اور حنّہ—‏کی زندگیوں سے کیا سیکھتے ہیں۔‏ اس سلسلے میں آپ روت کی کتاب نیز ۱-‏سموئیل ۱:‏۱–‏۲:‏۲۱ اور ۱-‏سموئیل ۲۵:‏۲-‏۴۲ پڑھ سکتے ہیں۔‏

بوعز نے خدا کی بات سنی

۱۰.‏ بوعز اور نابال میں کونسی باتیں مشترک تھیں؟‏

۱۰ اگرچہ بوعز اور نابال ہمعصر نہیں تھے تاہم ان میں کچھ باتیں مشترک تھیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ دونوں یہوداہ کے ملک میں رہتے تھے۔‏ وہ دولتمند زمیندار تھے اور اُن دونوں کو کسی ضرورتمند شخص کے لئے مہربانی ظاہر کرنے کا خاص موقع دستیاب ہوا۔‏ تاہم ان دونوں میں پائی جانے والی مشترک باتیں یہیں ختم ہو جاتی ہیں۔‏

۱۱.‏ بوعز نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ کی بات پر توجہ دیتا تھا؟‏

۱۱ بوعز اسرائیلی قاضیوں کے دَور میں رہتا تھا۔‏ وہ دوسروں کیساتھ عزت سے پیش آتا تھا اور اسکے مزدور بھی اسکا گہرا احترام کرتے تھے۔‏ (‏روت ۲:‏۴‏)‏ شریعت کی تعمیل میں بوعز اس بات کا خاص خیال رکھتا تھا کہ غریبوں اور محتاجوں کے خوشہ‌چینی کرنے کیلئے اُسکی فصل میں کچھ نہ کچھ ضرور ہو۔‏ (‏احبار ۱۹:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ روت اور نعومی کی بابت جان کر اور اپنی ساس کی دیکھ‌بھال کرنے میں روت کی مستعدی دیکھ کر بوعز نے کیا کِیا؟‏ اس نے روت پر خاص نظرِعنایت کی اور اپنے آدمیوں کو اسکی بابت حکم دیا کہ اسے فصل میں سے خوشہ‌چینی کرنے سے نہ روکیں۔‏ بوعز نے اپنے اقوال اور پُرمحبت افعال سے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ کی باتوں پر دھیان دینے والا ایک روحانی شخص ہے۔‏ پس اُسے خدا کی خوشنودی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔‏—‏احبار ۱۹:‏۱۸؛‏ روت ۲:‏۵-‏۱۶‏۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏ا)‏ بوعز نے یہوواہ کے چھڑانے کے قانون کیلئے گہرا احترام کیسے ظاہر کِیا؟‏ (‏ب)‏ بوعز پر کونسی الہٰی برکات نازل ہوئیں؟‏

۱۲ بوعز نے چھڑانے کے سلسلے میں خدا کی شریعت کی بےلوث اطاعت کرنے سے اس بات کا عمدہ ثبوت دیا کہ وہ یہوواہ کی بات پر دھیان دے رہا تھا۔‏ بوعز نے بھرپور کوشش کی کہ اس کے رشتہ‌دار—‏نعومی کے مُتوَفّی شوہر الیملک—‏کی وراثت اسکے خاندان ہی میں رہے۔‏ ایک بیوہ اپنے مُتوَفّی شوہر کی جائیداد کا وارث پیدا کرنے کے لئے اپنے دیور یا شوہر کے قریبی رشتہ‌دار سے شادی کر سکتی تھی۔‏ (‏استثنا ۲۵:‏۵-‏۱۰؛‏ احبار ۲۵:‏۴۷-‏۴۹‏)‏ نعومی کی جگہ روت نے شادی کے لئے حامی بھر لی کیونکہ نعومی کی عمر اولاد پیدا کرنے کی نہیں تھی۔‏ جب الیملک کے ایک قریبی رشتہ‌دار نے نعومی کی مدد کرنے سے معذرت چاہی تو بوعز نے روت سے شادی کر لی۔‏ انکا بیٹا عوبید نعومی کی اولاد اور الیملک کا قانونی وارث سمجھا گیا۔‏—‏روت ۲:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ ۴:‏۱،‏ ۶،‏ ۹،‏ ۱۳-‏۱۶‏۔‏

۱۳ خدا کے قانون کی بےلوث فرمانبرداری کی وجہ سے بوعز پر بیشمار برکات نازل ہوئیں۔‏ اپنے بیٹے عوبید کے ذریعے اُسے اور روت کو یسوع مسیح کے اَسلاف بننے کا شرف حاصل ہوا۔‏ (‏روت ۲:‏۱۲؛‏ ۴:‏۱۳،‏ ۲۱،‏ ۲۲؛‏ متی ۱:‏۱،‏ ۵،‏ ۶‏)‏ بوعز کے بےلوث کاموں سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ دوسروں کے لئے محبت ظاہر کرنے اور خدا کے تقاضوں کی مطابقت میں عمل کرنے والوں پر برکات نازل ہوتی ہیں۔‏

نابال نے نہیں سنا تھا

۱۴.‏ نابال کس قسم کا شخص تھا؟‏

۱۴ بوعز کے برعکس،‏ نابال یہوواہ کی بات پر دھیان دینے میں ناکام رہا۔‏ اس نے خدا کی شریعت کی خلاف‌ورزی کی:‏ ”‏تُو .‏ .‏ .‏ اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت کرنا۔‏“‏ (‏احبار ۱۹:‏۱۸‏)‏ نابال ایک روحانی شخص نہیں تھا؛‏ وہ ”‏بڑا بےادب اور بدکار تھا۔‏“‏ اُسکے اپنے نوکر بھی اُسے ایک ”‏خبیث آدمی“‏ خیال کرتے تھے۔‏ موزوں طور پر اُسکے نام کا مطلب ”‏احمق“‏ یا ”‏بیوقوف“‏ ہے۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۲۵:‏۳،‏ ۱۷،‏ ۲۵‏)‏ پس جب نابال کو یہوواہ کے ضرورتمند ممسوح خادم،‏ داؤد کیلئے مہربانی ظاہر کرنے کا موقع ملا تو اُس نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟‏—‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۱۳‏۔‏

۱۵.‏ نابال نے داؤد کے ساتھ کیسا سلوک کِیا اور اس سلسلے میں ابیجیل اپنے شوہر سے کیسے مختلف تھی؟‏

۱۵ جب داؤد اور اُس کے آدمی نابال کے گلّوں کے گردونواح میں خیمہ‌زن تھے تو اُنہوں نے بِلامعاوضہ لٹیروں سے انکی حفاظت کی تھی۔‏ نابال کے ایک چرواہے کے مطابق،‏ ”‏وہ رات دن ہمارے لئے گویا دیوار تھے۔‏“‏ تاہم،‏ جب داؤد کے قاصدوں نے اُس سے کھانےپینے کا کچھ سامان مانگا تو نابال ”‏اُن پر جھنجھلایا“‏ اور انہیں خالی ہاتھ بھیج دیا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۲۵:‏۲-‏۱۶‏)‏ تاہم نابال کی بیوی،‏ ابیجیل فوراً خورونوش کا کچھ سامان لیکر داؤد کے پاس پہنچ گئی۔‏ داؤد سخت غصے میں آ کر نابال اور اُسکے آدمیوں کو ختم کرنے والا تھا۔‏ پس ابیجیل کی پیش‌قدمی نے بہتیروں کی جانوں کے علاوہ داؤد کو بھی خونریزی سے بچایا۔‏ تاہم نابال کا لالچ اور بدکاری حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔‏ دس دن بعد،‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے ناؔبال کو مارا اور وہ مر گیا۔‏“‏—‏۱-‏سموئیل ۲۵:‏۱۸-‏۳۸‏۔‏

۱۶.‏ ہم بوعز کی نقل اور نابال کی راہوں کی تردید کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ بوعز اور نابال ایک دوسرے سے کتنے مختلف تھے!‏ ہمیں نابال کی بدکاری اور خودغرضی سے گریز کرتے ہوئے بوعز کی مہربانی اور بےلوثی کی نقل کرنی چاہئے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۶‏)‏ ہم پولس رسول کی مشورت کا اطلاق کرنے سے ایسا کر سکتے ہیں:‏ ”‏جہاں تک موقع ملے سب کے ساتھ نیکی کریں خاصکر اہلِ‌ایمان کے ساتھ۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱۰‏)‏ آجکل،‏ یسوع کی ’‏دوسری بھیڑوں،‏‘‏ زمینی اُمید رکھنے والے مسیحیوں کو آسمان پر غیرفانی زندگی حاصل کرنے والے یہوواہ کے ممسوح،‏ ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ کے بقیہ کیساتھ نیکی کرنے کا شرف حاصل ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۰:‏۱۶؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۵۰-‏۵۳؛‏ مکاشفہ ۱۴:‏۱،‏ ۴‏)‏ یسوع ایسے مشفقانہ کاموں کو اپنے ساتھ کی گئی ذاتی مہربانی خیال کرتا ہے اور یہ کام یہوواہ کی طرف سے بیشمار برکات پر منتج ہوتے ہیں۔‏—‏متی ۲۵:‏۳۴-‏۴۰؛‏ ۱-‏یوحنا ۳:‏۱۸‏۔‏

حنّہ کی آزمائشیں اور برکات

۱۷.‏ حنّہ کو کن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا اور اُس نے کیسا رجحان ظاہر کِیا؟‏

۱۷ یہوواہ کی برکات خداپرست حنّہ پر بھی نازل ہوئیں۔‏ وہ اپنے لاوی شوہر القانہ کے ساتھ افرائیم کے کوہستانی ملک میں رہتی تھی۔‏ القانہ نے شریعت کی حدود میں رہ کر ایک اَور شادی کی تھی اور اس کی دوسری بیوی کا نام فننہ تھا۔‏ فننہ کے کئی بچے تھے جبکہ حنّہ بےاولاد تھی اور ایک اسرائیلی عورت کے لئے یہ بات باعثِ‌رسوائی تھی۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱:‏۱-‏۳؛‏ ۱-‏تواریخ ۶:‏۱۶،‏ ۳۳،‏ ۳۴‏)‏ تاہم،‏ حنّہ کو تسلی دینے کی بجائے فننہ اُس کیساتھ غیرمشفقانہ سلوک کِیا کرتی تھی جسکی وجہ سے حنّہ اسقدر دلبرداشتہ ہوئی کہ اُس نے کھاناپینا چھوڑ دیا۔‏ اس پر طرہ یہ کہ خاندان کے ہر مرتبہ سیلا میں یہوواہ کے گھر جاتے وقت ”‏سال‌بسال“‏ ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱:‏۴-‏۸‏)‏ فننہ کسقدر سنگدل تھی اور حنّہ کیلئے یہ آزمائش کتنی کٹھن تھی!‏ تاہم حنّہ نے یہوواہ پر کبھی الزام نہ لگایا اور نہ ہی جب اُسکا شوہر سیلا جاتا تو وہ پیچھے گھر پر رہا کرتی تھی۔‏ انجام‌کار اُسے ضرور برکت ملنی تھی۔‏

۱۸.‏ حنّہ نے کونسی مثال قائم کی تھی؟‏

۱۸ حنّہ نے آجکل یہوواہ کے لوگوں،‏ بالخصوص دوسروں کی تلخ باتوں سے دلبرداشتہ ہونے والوں کے لئے ایک عمدہ نمونہ قائم کِیا تھا۔‏ ایسے حالات میں خود کو دوسروں سے الگ کرنا مسئلے کا حل نہیں۔‏ (‏امثال ۱۸:‏۱‏)‏ آزمائشوں کی وجہ سے حنّہ اُس جگہ جانے سے کبھی نہ رُکی جہاں لوگ پرستش کیلئے جمع ہوتے تھے اور خدا کے کلام کی تعلیم دی جاتی تھی۔‏ پس وہ روحانی طور پر مضبوط رہی۔‏ اُس کی روحانیت کی پختگی ۱-‏سموئیل ۲:‏۱-‏۱۰ میں درج اُس کی خوبصورت دُعا سے ظاہر ہوتی ہے۔‏ *

۱۹.‏ ہم روحانی چیزوں کیلئے اپنی قدردانی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ یہوواہ کے زمانۂ‌جدید کے خادموں کے طور پر ہم خیمۂ‌اجتماع میں عبادت نہیں کرتے۔‏ اس کے باوجود ہم حنّہ کی طرح روحانی چیزوں کیلئے اپنی قدردانی ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور،‏ مسیحی اجلاسوں،‏ اسمبلیوں اور کنونشنوں پر اپنی باقاعدہ شرکت سے ہم روحانی برکات کے لئے گہری قدردانی ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ آئیے ہم ان مواقع کو یہوواہ کی سچی پرستش میں ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لئے استعمال کریں جس نے ہمیں ”‏[‏اپنے]‏ حضور پاکیزگی اور راستبازی سے .‏ .‏ .‏ بےخوف اُس کی عبادت“‏ کرنے کا شرف عنایت کِیا ہے۔‏—‏لوقا ۱:‏۷۴،‏ ۷۵؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ حنّہ کو اپنی خدائی عقیدت کا اجر کیسے ملا؟‏

۲۰ یہوواہ نے حنّہ کی خدائی عقیدت پر غور کِیا اور اسے اسکے بدلے میں بڑا اجر دیا۔‏ اپنے خاندان کے ساتھ سیلا کے ایک سالانہ دورے پر حنّہ نے روتے ہوئے خلوصدلی سے دُعا میں خدا کے ساتھ وعدہ کِیا:‏ ”‏اَے رب‌الافواج!‏ اگر تُو اپنی لونڈی کی مصیبت پر نظر کرے اور مجھے یاد فرمائے اور اپنی لونڈی کو فراموش نہ کرے اور اپنی لونڈی کو فرزندِنرینہ بخشے تو مَیں اُسے زندگی‌بھر کے لئے [‏یہوواہ]‏ کو نذر کر دونگی۔‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۱:‏۹-‏۱۱‏)‏ خدا نے حنّہ کی التجا سن لی اور اُسے ایک بیٹا بخشا جس کا نام اُس نے سموئیل رکھا۔‏ جب اُس کا دودھ چھڑایا گیا تو وہ اُسے سیلا لے گئی تاکہ وہ بچہ خیمۂ‌اجتماع میں خدمت انجام دے سکے۔‏—‏۱-‏سموئیل ۱:‏۲۰،‏ ۲۴-‏۲۸‏۔‏

۲۱ حنّہ نے خدا کیلئے محبت ظاہر کی اور سموئیل کے سلسلے میں خدا کے حضور اپنی منت پوری کی۔‏ نیز اُن کثیر برکات کا تصور کریں جنکا اس نے اور القانہ نے اسلئے تجربہ کِیا کہ اُنکا عزیز بیٹا یہوواہ کے حضور خیمۂ‌اجتماع میں خدمت کرتا تھا!‏ بہتیرے مسیحی والدین ایسی ہی خوشیوں اور برکتوں کا تجربہ کرتے ہیں کیونکہ ان کے بیٹے اور بیٹیاں کُل‌وقتی پائنیر خادم،‏ بیت‌ایل خاندان کے ارکان کے طور پر یا دیگر ایسے طریقوں سے خدمت کر رہے ہیں جن سے یہوواہ کو جلال ملتا ہے۔‏

یہوواہ کی باتوں پر دھیان دیتے رہیں!‏

۲۲،‏ ۲۳.‏ (‏ا)‏ یہوواہ کی آواز سنتے رہنے سے ہم کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں کس بات پر غور کِیا جائیگا؟‏

۲۲ اگر ہم یہوواہ کی باتوں پر دھیان دیتے رہتے ہیں تو ہم کس چیز کی بابت پُراعتماد ہو سکتے ہیں؟‏ اگر ہم خدا کے لئے پورے دل‌وجان سے محبت ظاہر کرتے اور اس کے لئے اپنی مخصوصیت پر قائم رہتے ہیں تو ہم روحانی طور پر دولتمند ہونگے۔‏ ایسی روش پر قائم رہنے سے اگر ہمیں سخت آزمائشیں بھی برداشت کرنی پڑیں توبھی یہوواہ ہمیں ایسے عجیب‌وغریب طریقوں سے برکت دے گا جس کا ہم تصور بھی نہیں سکتے۔‏—‏زبور ۳۷:‏۴؛‏ عبرانیوں ۶:‏۱۰‏۔‏

۲۳ مستقبل میں یہوواہ کے لوگوں کو کئی برکات سے نوازا جائے گا۔‏ فرمانبرداری سے یہوواہ کی باتوں پر دھیان دینے سے ایک ”‏بڑی بِھیڑ“‏ ”‏بڑی مصیبت“‏ سے بچ نکلے گی اور خدا کی نئی دُنیا میں خوشحال زندگی کا تجربہ کرے گی۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹-‏۱۴؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏)‏ یہاں یہوواہ اپنے لوگوں کی موزوں خواہشات کو پورا کرے گا۔‏ (‏زبور ۱۴۵:‏۱۶‏)‏ تاہم،‏ جیساکہ اگلا مضمون ظاہر کرے گا یہوواہ کی آواز سننے والے لوگوں کو اب بھی عالمِ‌بالا سے ’‏ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام‘‏ سے نوازا جا رہا ہے۔‏—‏یعقوب ۱:‏۱۷‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 18 حنّہ کے اظہارات کنواری لڑکی مریم کے اُن الفاظ سے مشابہت رکھتے ہیں جو اُس نے اس وقت کہے جب اُسے پتہ چلا کہ وہ مسیحا کی ماں بننے والی ہے۔‏—‏لوقا ۱:‏۴۶-‏۵۵‏۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• ہم اسرائیلی تاریخ سے الہٰی برکات کی بابت کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏• بوعز اور نابال ایک دوسرے سے کیسے مختلف تھے؟‏

‏• ہم حنّہ کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں یہوواہ کی آواز کیوں سنتے رہنا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

بادشاہ سلیمان نے فرمانبردار دل کیلئے دُعا کی اور یہوواہ نے اُسے حکمت بخشی

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

بوعز دوسروں کیساتھ عزت اور مہربانی سے پیش آیا

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

حنّہ کو یہوواہ پر توکل کرنے سے بیشمار برکات حاصل ہوئیں