وفاداری کا کیا مطلب ہے؟
وفاداری کا کیا مطلب ہے؟
دوسری صدی ق.س.ع. کے حسیدی یہودی خود کو حقیقی وفادار خیال کرتے تھے۔ اُن کا نام ”وفادار“ کے لئے استعمال ہونے والی بنیادی عبرانی اصطلاح خاسد سے ماخوذ ہے۔ یہ اسم خیسدھ سے مشتق ہے جسکا ترجمہ اکثر ”شفقت،“ ”محبت،“ ”مہربانی،“ ”نیکی“ اور ”رحم“ کِیا جاتا ہے۔ تھیولاجیکل ڈکشنری آف دی اولڈ ٹسٹامنٹ کے مطابق، خیسدھ ”سرگرمی، ملنساری، برداشت اور انسانی رُجحان کے علاوہ اِس رُجحان سے وقوع میں آنے والے عمل کا مفہوم بھی پیش کرتا ہے۔ یہ زندگی بچانے یا اسے فروغ دینے کا عمل ہے۔ یہ کسی آفت یا تکلیف میں مبتلا شخص کی خاطر مداخلت کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ یہ دوستی کا اظہار ہے۔“
بائبل میں جس طرح یہ عبرانی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اُس کے مطابق بیشتر زبانوں میں اس کا مکمل معنی بیان کرنے والا ایک لفظ ملنا مشکل ہے۔ بہرحال، بائبل مفہوم کے مطابق وفاداری میں اپنے تمام وعدوں کو دیانتداری سے پورا کرنے کے علاوہ اَور بہت کچھ شامل ہے۔ یہ پُرمحبت وابستگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھلائی کے لئے مثبت اقدام اُٹھانے کا خیال بھی پیش کرتی ہے۔ سچی وفاداری کا مطلب سمجھنے کے لئے ابرہام، موسیٰ، داؤد، اسرائیلی قوم اور نوعِانسان کے لئے یہوواہ کی وفاداری پر غور کریں۔
یہوواہ نے وفاداری دکھائی
یہوواہ نے اپنے دوست ابرہام سے کہا: ”مَیں تیری سپر . . . ہوں۔“ (پیدایش ۱۵:۱؛ یسعیاہ ۴۱:۸) یہوواہ نے نہ صرف ایسا کہا بلکہ اسکا ثبوت بھی دیا۔ یہوواہ نے ابرہام اور اُسکے خاندان کو فرعون اور ابیملک کے ہاتھوں سے چھڑایا اور اُنکی حفاظت کی۔ اُس نے لوط کو چار بادشاہوں کے مشترکہ حملے سے بچانے میں ابرہام کی مدد کی۔ یہوواہ نے ۱۰۰ سالہ ابرہام اور ۹۰ سالہ سارہ کی افزائشِ نسل کی صلاحیتیں بحال کیں تاکہ اُن سے موعودہ نسل پیدا ہو سکے۔ یہوواہ نے رویتوں، خوابوں اور ملکوتی پیامبروں کے ذریعے ابرہام کے ساتھ باقاعدہ رابطہ رکھا۔ درحقیقت، یہوواہ نے نہ صرف اُس کی زندگی میں بلکہ اُس کی موت کے بعد بھی ابرہام کے لئے وفاداری ظاہر کی۔ صدیوں کے دوران یہوواہ نے ابرہام کی نسل، اسرائیلی قوم کی سرکشی کے باوجود اس کے سلسلے میں اپنے تمام وعدے پورے کئے۔ ابرہام کے ساتھ یہوواہ کا رشتہ سچی وفاداری—سرگرمِعمل محبت—کا اظہار تھا۔—پیدایش، ۱۲ تا ۲۵ ابواب۔
بائبل بیان کرتی ہے کہ ”[یہوواہ] رُوبُرو ہو کر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا۔“ (خروج ۳۳:۱۱) واقعی، یسوع مسیح سے قبل تمام نبیوں کی نسبت موسیٰ یہوواہ کے ساتھ سب سے زیادہ قریبی رشتہ رکھتا تھا۔ یہوواہ نے موسیٰ کے لئے وفاداری کیسے ظاہر کی؟
ایک طاقتور اور باصلاحیت ۴۰ سالہ شخص کے طور پر موسیٰ نے بڑے فخر سے اپنے لوگوں کو اعمال ۷:۲۳-۳۰) تاہم، یہوواہ نے اُسے تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ مناسب وقت پر موسیٰ کو مصر واپس بلایا گیا تاکہ وہ اسرائیل کو مصر سے آزاد کرا سکے۔
اپنے بلبوتے پر آزاد کرانے کی کوشش کی۔ تاہم، وہ وقت موزوں نہیں تھا۔ اُسے اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ اُس نے ۴۰ سال تک مدیان میں بھیڑبکریوں کی گلّہبانی کی۔ (اسی طرح یہوواہ نے اسرائیل کے دوسرے مشہور بادشاہ داؤد کے لئے وفاداری ظاہر کی۔ داؤد کی جوانی ہی میں یہوواہ نے سموئیل نبی کو بتایا: ”اُٹھ اور اُسے مسح کر کیونکہ وہ یہی ہے۔“ اُس وقت سے یہوواہ نے اسرائیل کے آئندہ بادشاہ کے طور پر داؤد کو تیار کرنے کے لئے وفاداری سے اُس کی حفاظت اور راہنمائی کی۔ یہوواہ نے اُسے ”شیر اور ریچھ کے پنجہ“ اور فلستی دیوہیکل جولیت کے ہاتھ سے بچایا تھا۔ یہوواہ نے داؤد کو اسرائیلی دشمنوں پر کئی فتوحات بخشیں اور اُسے نفرت اور حسد کرنے والے ساؤل کے بھالے سے بھی بچایا۔—۱-سموئیل ۱۶:۱۲؛ ۱۷:۳۷؛ ۱۸:۱۱؛ ۱۹:۱۰۔
بیشک، داؤد کامل انسان نہیں تھا۔ درحقیقت اُس نے سنگین گناہ کِیا۔ تاہم، اُسے ترک کرنے کی بجائے داؤد کے گہرے تائب رُجحان پر یہوواہ نے اُس کیلئے وفادارانہ محبت ظاہر کی۔ یہوواہ نے داؤد کی ساری زندگی میں اُسے بچانے اور فروغ دینے کیلئے بارہا کارروائی کی۔ اُس نے تکلیف میں مبتلا شخص کی خاطر مداخلت کی۔ یہ واقعی اُسکی شفقت تھی!—۲-سموئیل ۱۱:۱–۱۲:۲۵؛ ۲۴:۱-۱۷۔
مجموعی طور پر، اسرائیلی قوم نے جب کوہِسینا پر موسوی شریعتی عہد کے تقاضوں کی پابندی کرنے کے لئے رضامندی ظاہر کی تو وہ یہوواہ کے ساتھ ایک مخصوص رشتے میں بندھ گئے۔ (خروج ۱۹:۳-۸) لہٰذا، اسرائیل کا یہوواہ کے ساتھ ایک ازدواجی بندھن قائم ہو گیا۔ اسرائیل سے کہا گیا: ”[یہوواہ] نے تجھکو . . . بیوی کی مانند . . . بلایا ہے۔“ نیز یہوواہ نے اُس سے کہا: ”مَیں ابدی شفقت سے تجھ پر رحم کرونگا۔“ (یسعیاہ ۵۴:۶، ۸) یہوواہ نے اِس خاص رشتے میں وفاداری کیسے ظاہر کی؟
یہوواہ نے اسرائیلیوں کی ضروریات کا خیال رکھنے اور اپنے ساتھ اُن کے تعلقات مضبوط کرنے میں پہل کی۔ اُس نے اُنہیں مصر سے آزاد کرایا، بحیثیت ایک قوم منظم کِیا اور اُس ملک میں پہنچایا ”جہاں دُودھ اور شہد بہتا“ تھا۔ (خروج ۳:۸) اُس نے کاہنوں، لاویوں، نبیوں اور پیامبروں کے ذریعے انہیں باقاعدہ روحانی ہدایت فراہم کی۔ (۲-تواریخ ۱۷:۷-۹؛ نحمیاہ ۸:۷-۹؛ یرمیاہ ۷:۲۵) جب قوم غیرمعبودوں کی پرستش کرنے لگی تو یہوواہ نے اس کی اصلاح کی۔ ان کے تائب ہونے پر اُس نے اُنہیں معاف کِیا۔ بیشک، اسرائیلی قوم ایک سرکش ”بیوی“ ثابت ہوئی۔ تاہم، یہوواہ نے اُسے رد کرنے میں جلدبازی نہ کی۔ ابرہام کیساتھ اپنے وعدوں کی بِنا پر وہ اسرائیلیوں سے وابستہ اپنے تمام مقاصد کے پورے ہو جانے تک وفاداری کیساتھ ان کی حمایت کرتا رہا۔ (استثنا ۷:۷-۹) آجکل شادیشُدہ جوڑوں کے لئے یہ کیا ہی عمدہ نمونہ ہے!
یہوواہ تمام راست اور ناراست لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے نوعِانسان کے لئے بھی وفاداری ظاہر کرتا ہے۔ (متی ۵:۴۵؛ اعمال ۱۷:۲۵) اس سے بھی بڑھ کر اُس نے اپنے بیٹے کے فدیے کی قربانی فراہم کی ہے تاکہ تمام نوعِانسان کو گناہ اور موت کی غلامی سے رہائی اور فردوس میں کامل ابدی زندگی کے شاندار امکانات سے مستفید ہونے کا موقع مل سکے۔ (متی ۲۰:۲۸؛ یوحنا ۳:۱۶) فدیے کی فراہمی زندگی بچانے اور اُسے فروغ دینے کا عظیمترین اظہار تھا۔ یہ واقعی ”کسی آفت یا تکلیف میں مبتلا شخص کی خاطر مداخلت“ کرنا تھا۔
مثبت کاموں سے وفاداری کا ثبوت
شفقت کے مترادف ہونے کے باعث وفاداری میں تعاون کا پُرزور احساس بھی شامل ہے۔ اگر آپ کے لئے شفقت ظاہر کی جائے تو بدلے میں آپ سے بھی اس کی توقع کی جاتی ہے۔ پس، وفاداری کا عوضانہ وفاداری ہی ہے۔ داؤد کے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خیسدھ کے مکمل مفہوم کو سمجھتا تھا: ”مَیں تیری مُقدس ہیکل کی طرف رُخ کرکے سجدہ کروں گا اور . . . تیرے نام کا شکر کروں گا۔“ کیوں؟ ”تیری شفقت اور سچائی کی خاطر۔“ (زبور ۱۳۸:۲) یہوواہ کی شفقت کا تجربہ کرنے کی وجہ سے داؤد کو واضح طور پر اُس کی پرستش اور تمجید کرنے کی تحریک ملی۔ لہٰذا، جب ہم یہوواہ کی شفقت پر غور کرتے ہیں جو اُس نے ہمارے لئے ظاہر کی ہے تو کیا ہمیں اُس کے لئے جوابیعمل ظاہر کرنے کی تحریک ملتی ہے؟ مثال کے طور پر، اگر یہوواہ کے نام کو رُسوا کِیا جاتا ہے تو کیا اُس کی ساکھ کے لئے فکرمندی آپ کو اُسکا دفاع کرنے کی تحریک دیتی ہے؟
حال ہی میں مسیحی بننے والے ایک بھائی اور اُسکی بیوی کیساتھ کچھ ایسا ہی واقع ہوا جب وہ موٹرسائیکل کے حادثے میں ہلاک ہونے والے ایک رشتہدار کے جنازے پر گئے۔ یہ ایک غیرمذہبی اجتماع تھا جس میں حاضرین کو مُتوَفّی کی یاد میں کچھ کہنے کی دعوت دی گئی۔ ایک مقرر نے یہ بیان کرتے ہوئے خدا کو اس نوجوان کی غیرمتوقع موت کا ذمہدار ٹھہرایا کہ ’خدا اسے آسمان پر اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا لہٰذا اُس نے اسے اُٹھا لیا۔‘ ہمارا مسیحی بھائی خاموش نہ رہ سکا۔ اگرچہ اُسکے پاس بائبل یا نوٹس نہیں تھے توبھی وہ منبر پر چڑھ گیا۔ اُس نے استفسار کِیا، ”کیا آپکے خیال میں ایک رحیم، مہربان قادرِمطلق خدا ایسی حالتوں کو پسند کرتا ہے؟“ اسکے بعد اُس نے کسی تیاری کے بغیر صحیفوں کا حوالہ دیتے ہوئے دس منٹ تک باتچیت کی اور موت کی وجہ، نوعِانسان کو موت سے بچانے کیلئے خدا کے بندوبست اور قیامت کے بعد فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کے شاندار امکان کی وضاحت کی۔ سو سے زائد حاضرین نے ایک ساتھ کافی دیر تک تالیاں بجائیں۔ بعدازاں بھائی نے بیان کِیا: ”مجھے پہلی بار اتنی زیادہ باطنی خوشی کا احساس ہوا۔ مَیں نے پُرحکمت تعلیم دینے اور اپنے مُقدس نام کا دفاع کرنے کا موقع بخشنے کیلئے یہوواہ کا شکر ادا کِیا۔“
یہوواہ کیساتھ وفاداری میں اُسکے کلام بائبل کیلئے وفاداری بھی شامل ہے۔ کیوں؟ اسلئے کہ یہوواہ بائبل کے ذریعے ہمیں زندہ رہنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔ اس میں درج قوانین اور اُصول واقعی زندگی کیلئے سب سے عمدہ اور فائدہمند ہیں۔ (یسعیاہ ۴۸:۱۷) دوسروں کے دباؤ یا اپنی ذاتی کمزوریوں کو یہوواہ کے قوانین کی پیروی میں رکاوٹ پیدا کرنے کی اجازت نہ دیں۔ خدا کے کلام کے وفادار رہیں۔
خدا کے ساتھ وفاداری میں اُسکی تنظیم کیساتھ وفاداری بھی شامل ہے۔ ضروری طور پر، سالوں کے دوران بعض صحائف سے متعلق ہماری سمجھ میں تبدیلی اور بہتری واقع ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی شخص ہماری طرح روحانی خوراک سے سیر نہیں۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) بیشک، یہوواہ نے اپنی جدید تنظیم کی حمایت کی ہے۔ کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟ اے. ایچ. میکملن نے ایسا کِیا تھا۔ اپنی موت سے کچھ دیر پہلے اُس نے بیان کِیا: ”مَیں نے ستمبر ۱۹۰۰ میں تیئیس سال کی عمر میں خدا کے لئے اپنی مخصوصیت کے وقت سے لیکر یہوواہ کی تنظیم کو ایک چھوٹے سے آغاز سے گرمجوشی کے ساتھ اُس کی بابت سچائیاں بیان کرنے والے پُرمسرت لوگوں کے ایک عالمگیر معاشرے میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ . . . جیسے جیسے خدا کے لئے زمین پر میری خدمت اختتام کو پہنچ رہی ہے مَیں پہلے سے کہیں زیادہ پُراعتماد ہوتا جا رہا ہوں کہ یہوواہ اپنے لوگوں کی راہنمائی کر رہا ہے اور انہیں موزوں وقت پر وہی چیز عطا کرتا ہے جس کی اُنہیں ضرورت ہے۔“ بھائی میکملن نے اگست ۲۶، ۱۹۶۶ میں اپنی موت تک تقریباً ۶۶ سال دیانتداری اور وفاداری سے خدمت کی۔ وہ خدا کی دیدنی تنظیم کے لئے وفاداری کی ایک عمدہ مثال تھا۔
تنظیم کے ساتھ وفادار رہنے کے علاوہ، کیا ہم ایک دوسرے کے ساتھ بھی وفادار رہیں گے؟ اگر شدید اذیت کا سامنا ہو تو کیا ہم اپنے بہنبھائیوں کے وفادار رہینگے؟ دوسری جنگِعظیم کے دوران نیدرلینڈز میں ہمارے بھائیوں نے وفاداری کی ایک عمدہ مثال قائم کی۔ اپنی تفتیش کے دوران نازی گسٹاپو نے گروننجن کلیسیا کے ایک بزرگ، کلاس ڈوریس کیساتھ بیرحم اور ظالمانہ سلوک کِیا اور اُسے ۱۲ دنوں تک قیدخانہ میں تنہا رکھنے اور صرف روٹی اور پانی دینے کے بعد ایک بار پھر پوچھگچھ کی۔ اُس کو بندوق دکھا کر موت کی دھمکی دی گئی اور دو منٹ کے اندر اندر ذمہدار بھائیوں کے نام، پتے اور دیگر اہم معلومات بتانے کا حکم دیا۔ کلاس محض یہ کہتا رہا: ”مَیں تمہیں کچھ نہیں بتاؤنگا۔ . . . مَیں غدار نہیں۔“ تین مرتبہ اُس پر بندوق تان کر دھمکی دی گئی۔ آخرکار گسٹاپو نے ہمت ہار کر کلاس کو کسی دوسرے قیدخانے بھیج دیا۔ اُس نے اپنے بھائیوں سے ہرگز بیوفائی نہ کی۔
کیا ہم اپنے قریبی رشتہدار—اپنے بیاہتا ساتھی—کے لئے بھی وفاداری ظاہر کرتے ہیں؟ جیسے یہوواہ نے اسرائیلی قوم کیساتھ اپنے عہد کی قدر کی کیا ہم وفاداری کے ساتھ اپنے بیاہتا ساتھی سے کئے ہوئے شادی کے عہدوپیمان نبھاتے ہیں؟ ہمیں نہ صرف وفاداری سے اپنی ذمہداری پوری کرنی چاہئے بلکہ اپنے ساتھی کے ساتھ ایک قریبی رشتہ اُستوار کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ اپنی شادی کو مضبوط بنانے میں پہل کریں۔ ایک ساتھ وقت گزاریں، آپس میں اچھا رابطہ رکھیں، ایک دوسرے کی حمایت اور حوصلہافزائی کریں، ایک دوسرے کو توجہ دیں، اپنے دُکھسکھ بانٹیں، اکٹھے تفریح کریں، باہمی نشانوں کے حصول کیلئے ملکر کام کریں اور دوست بنکر ایک دوسرے کو خوش رکھیں۔ بالخصوص دوسروں کے لئے رومانی احساسات کو اپنے دل میں جگہ دینے سے گریز کریں۔ اگرچہ بیاہتا ساتھی کے علاوہ دوسروں کے ساتھ واقفیت اور قریبی دوستی قائم کرنا درست اور مناسب ہے توبھی رومانی احساسات اپنے بیاہتا ساتھی تک ہی محدود رکھے جانے چاہئیں۔ اپنے اور اپنے بیاہتا ساتھی کے درمیان کسی دوسرے کو آنے کی اجازت نہ دیں۔—امثال ۵:۱۵-۲۰۔
ہمایمان دوستوں اور خاندان کیساتھ وفادار رہیں۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ انہیں فراموش نہ کریں۔ ان کیساتھ خطوکتابت، ٹیلیفون اور ذاتی ملاقات کے ذریعے رابطہ رکھیں۔ زندگی میں آپکی صورتحال جو بھی ہو، انہیں مایوس نہ ہونے دیں۔ انہیں خوشی کیساتھ یہ کہنے کی وجہ فراہم کریں کہ وہ آپکو جانتے ہیں یا آپ انکے عزیز ہیں۔ اُن کیساتھ وفاداری درست کام کرنے میں آپ کے عزم کو مضبوط کریگی اور آپ کے لئے حوصلہافزائی کا باعث بنے گی۔—آستر ۴:۶-۱۶۔
جیہاں، سچی وفاداری میں بیشقیمت رشتوں کو قائم رکھنے کے لئے مثبت اقدام اُٹھانا شامل ہے۔ یہوواہ کی شفقت کیلئے جوابیعمل ظاہر کرنے کی پوری کوشش کریں۔ مسیحی کلیسیا، اپنے بیاہتا ساتھی، خاندان اور دوستوں کیساتھ اپنے برتاؤ میں یہوواہ کی وفاداری کی نقل کریں۔ اپنے پڑوسیوں کو یہوواہ کی خوبیوں کی بابت بتائیں۔ زبورنویس نے موزوں طور پر بیان کِیا: ”مَیں ہمیشہ [یہوواہ] کی شفقت کے گیت گاؤنگا۔ مَیں پُشتدرپُشت اپنے مُنہ سے تیری وفاداری کا اعلان کرونگا۔“ (زبور ۸۹:۱) کیا ہمارے دل میں ایسے خدا کیلئے محبت پیدا نہیں ہوتی؟ واقعی، ”اُسکی شفقت ابدی ہے۔“—زبور ۱۰۰:۵۔
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
اے. ایچ. میکملن