مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کی خدمت میں حیرت‌انگیز واقعات سے پُر زندگی

یہوواہ کی خدمت میں حیرت‌انگیز واقعات سے پُر زندگی

میری کہانی میری زبانی

یہوواہ کی خدمت میں حیرت‌انگیز واقعات سے پُر زندگی

از ایرک اور ہیزل بیورج

‏”‏مَیں تمہیں چھ ماہ قید کی سزا سناتا ہوں۔‏“‏ جب مجھے انگلینڈ،‏ مانچسٹر کے سٹرینجویز قیدخانے لیجایا جا رہا تھا تو یہ الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔‏ یہ دسمبر ۱۹۵۰ کا واقعہ ہے جب میری عمر ۱۹ سال تھی۔‏ مجھے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کی وجہ سے اپنی جوانی کی سب سے کٹھن آزمائش کا سامنا ہوا تھا۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۳-‏۵‏۔‏

مَیں یہوواہ کے گواہوں کا ایک کُل‌وقتی پائنیر خادم تھا جس کے باعث مجھے فوجی خدمت سے مستثنیٰ قرار دیا جانا تھا لیکن برطانوی قانون نے ہماری مذہبی حیثیت تسلیم نہیں کی تھی۔‏ پس،‏ مجھے قیدخانہ میں ڈال دیا گیا۔‏ یہاں مجھے میرا والد بہت یاد آیا کیونکہ کسی حد تک مَیں اُنہی کی وجہ سے قید کاٹ رہا تھا۔‏

مَیں آپ کو بتانا چاہونگا کہ میرے والد یارک‌شائر میں ایک قیدخانہ کے افسر تھے اور پُختہ اعتقادات اور اُصولوں کے مالک تھے۔‏ فوج اور قیدخانہ میں اپنی خدمت کے تجربات کی وجہ سے وہ کیتھولک مذہب سے سخت نفرت کرتے تھے۔‏ گواہوں کیساتھ اُنکا پہلا رابطہ ۱۹۳۰ کے دہے کے اوائل میں ہوا جب وہ دروازے ہی سے انہیں چلتا کرنے کیلئے گئے لیکن جب واپس آئے تو انکے ہاتھ میں انکی کچھ کتابیں تھیں!‏ بعدازاں اُنہوں نے کونسولیشن ‏(‏اب جاگو!‏‏)‏ رسالے کا سالانہ چندہ لگوایا۔‏ گواہ ہر سال انکے سالانہ چندے کی تجدید میں ان کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لئے ان سے ملاقات کرتے تھے۔‏ جب مَیں تقریباً ۱۵ سال کا تھا تو اُنہوں نے میرے والد کو ایک اَور مباحثے میں اُلجھا لیا اور مَیں نے گواہوں کی حمایت کی۔‏ اُسی وقت سے مَیں نے بائبل مطالعہ شروع کر دیا۔‏

مَیں نے ۱۷ سال کی عمر میں،‏ یہوواہ کیلئے اپنی مخصوصیت کے اظہار میں مارچ ۱۹۴۹ میں بپتسمہ لیا۔‏ بعدازاں اُسی سال مَیں گلئیڈ مشنری سکول کے حالیہ گریجویٹس جان اور مائیکل شارک سے ملا جو نائیجیریا جا رہے تھے۔‏ مَیں انکے مشنری جذبے کو دیکھ کر بڑا متاثر ہوا۔‏ وہ شاید اس سے واقف ہوں یا نہ ہوں،‏ اُنہوں نے میرے دل میں بھی یہ جذبہ پیدا کر دیا تھا۔‏

مَیں نے بائبل مطالعے کے دوران،‏ یونیورسٹی میں جانے کا خیال ترک کر دیا۔‏ لندن میں کسٹمز اور ایکسائز آفس میں کام کرنے کے لئے گھر چھوڑنے کے ایک سال بعد،‏ مَیں نے محسوس کِیا کہ مَیں سول سروس میں رہ کر خدا کیلئے اپنے مخصوصیت پوری نہیں کر سکتا۔‏ جب مَیں نے ملازمت چھوڑی تو میرے آفس کے ایک تجربہ‌کار ساتھی کارکُن نے مجھے ”‏دل‌شکستہ کر دینے والی ملازمت“‏ چھوڑنے کیلئے مبارکباد دی۔‏

اس سے پہلے مجھے ایک اَور آزمائش کا سامنا ہوا اور وہ یہ کہ مَیں اپنے والد کو کیسے بتاؤں کہ مَیں ایک کُل‌وقتی خادم بننے کیلئے دُنیاوی ملازمت چھوڑنا چاہتا ہوں۔‏ اپنی چھٹیوں کے دوران ایک شام گھر پر مَیں نے یہ دھماکاخیز خبر سنا ہی دی۔‏ مَیں اپنے والد کی جھڑکیوں کا انتظار کر منتظر تھا۔‏ لیکن مجھے بڑی حیرانی ہوئی جب اُنہوں نے محض یہ کہا:‏ ”‏یہ تمہارا فیصلہ ہے،‏ لہٰذا اسکا انجام بھی تم خود ہی بھگتنا۔‏ لیکن اگر تم ناکام ہوئے تو مدد کیلئے میرے پاس مت آنا۔‏“‏ جنوری ۱،‏ ۱۹۵۰ کی تاریخ کے لئے میری ڈائری بیان کرتی ہے:‏ ”‏آج مَیں نے والد کو پائنیرنگ کی بابت بتایا۔‏ اُنکے معقول اور معاون رُجحان پر مجھے بڑی حیرت ہوئی۔‏ انکی مہربانی پر مَیں اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکا۔‏“‏ مَیں نے سول سروس سے استعفیٰ دیا اور کُل‌وقتی پائنیر خادم بننے کی تفویض قبول کر لی۔‏

تفویض کیساتھ ایک چھوٹا سا ”‏گھر“‏

اسکے بعد خدا کیلئے میری عقیدت کی ایک اَور آزمائش ہوئی۔‏ مجھے پائنیر تفویض ملی جس میں مجھے ویلز کے ایک ساتھی مسیحی لائیڈ گرف‌تھس کے ساتھ لنکاشائر میں ایک چھوٹے سے ”‏گھر“‏ میں رہنا تھا۔‏ مَیں اس گھر کے خواب سجائے بےکپ نامی بےرونق شہر پہنچا جو بارش کی وجہ سے تربتر تھا۔‏ جب مَیں نے اس گھر کو دیکھا جو دراصل ایک تہ‌خانہ تھا تو میرے سارے خواب ٹوٹ گئے!‏ چوہے اور لال‌بیگ رات‌بھر ہمارے ساتھ آنکھ‌مچولی کھیلتے تھے۔‏ مَیں اپنا ارادہ بدل کر واپس گھر لوٹنے کیلئے بالکل تیار تھا۔‏ تاہم،‏ مَیں نے اس آزمائش میں طاقت کیلئے خاموشی سے دُعا کی۔‏ مَیں اچانک بالکل مطمئن محسوس کرنے لگا اور صورتحال کا حقیقت‌پسندی سے جائزہ لینے کے قابل ہو گیا۔‏ مجھے یہ تفویض یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے ملی تھی۔‏ مَیں مدد کیلئے یہوواہ پر بھروسا رکھونگا۔‏ مَیں کتنا شکرگزار ہوں کہ مَیں نے اس صورتحال کو برداشت کِیا ورنہ اگر مَیں ہمت ہار جاتا تو میری ساری زندگی ہمیشہ کیلئے بدل جاتی!‏—‏یسعیاہ ۲۶:‏۳،‏ ۴‏۔‏

فوجی خدمت سے انکار کرنے کی وجہ سے قیدخانہ میں ڈالے جانے سے پہلے مَیں نے روزنڈیل ویلی میں تقریباً نو مہینوں تک منادی کی جہاں پر اس وقت معاشی مشکلات عام تھیں۔‏ سٹرینجویز کے قیدخانے میں دو ہفتوں کے بعد،‏ مجھے انگلینڈ کے جنوبی ساحل پر لوئس قیدخانے میں منتقل کر دیا گیا۔‏ آخرکار یہاں ہم پانچ گواہ ہو گئے اور قیدخانے میں مسیح کی موت کی یادگار منانے کے قابل ہوئے۔‏

میرے والد ایک بار مجھ سے ملنے آئے۔‏ وہ قیدخانے کے ایک مشہور اور اَناپرست افسر تھے اسلئے اپنے قیدی بیٹے سے ملنے کیلئے آنا واقعی اُن کیلئے ایک بہت بڑی آزمائش تھی!‏ مَیں اس ملاقات کیلئے ہمیشہ انکا ممنون رہونگا۔‏ آخرکار اپریل ۱۹۵۱ میں میری رہائی کا دن آ ہی گیا۔‏

لوئس سے رہائی کے بعد مَیں ریل میں ویلز،‏ کارڈف کی طرف روانہ ہوا جہاں میرے والد قیدخانے کے اعلیٰ افسر کے طور پر مامور تھے۔‏ مَیں چار بچوں میں سب سے بڑا تھا اور میرے دو بھائی اور ایک بہن تھی۔‏ مجھے پائنیرنگ کیساتھ ساتھ اپنی کفالت کرنے کیلئے جزوقتی ملازمت تلاش کرنی تھی۔‏ مَیں نے ایک کپڑے کی دُکان پر ملازمت اختیار کر لی مگر مسیحی خدمتگزاری میری زندگی کا بنیادی مقصد تھی۔‏ غالباً انہی دنوں میں ہماری والدہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی۔‏ یہ میرے والد اور ۸ سے ۱۹ سال کی عمر کے ہم بچوں کیلئے ایک شدید صدمہ تھا۔‏ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے والدین کی طلاق ہو گئی۔‏

جسے نیکوکار بیوی ملتی ہے  .‏ .‏ .‏

کلیسیا میں بہتیرے پائنیر تھے۔‏ ان میں سے ایک بہن کوئلے کی کانوں والی رونڈا ویلی سے روزانہ اپنی نوکری اور منادی کیلئے یہاں آیا کرتی تھی۔‏ اُس کا نام ہیزل گرین تھا اور وہ ایک عمدہ پائنیر تھی۔‏ ہیزل نے مجھ سے کافی سال پہلے سچائی حاصل کی تھی اور اُسکے والدین بائبل طالبعلموں (‏اب یہوواہ کے گواہ)‏ کے اجلاسوں پر ۱۹۲۰ کے دہے سے حاضر ہو رہے تھے۔‏ اب وہ اپنی کہانی خود سنانا چاہیگی۔‏

‏”‏مَیں ۱۹۴۴ تک کتابچہ ریلیجن ریپس دی وِرل‌ونڈ پڑھنے سے پہلے بائبل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتی تھی۔‏ میری ماں نے مجھے کارڈف میں سرکٹ اسمبلی پر جانے کیلئے آمادہ کر لیا۔‏ بائبل کا محدود علم رکھنے کے باوجود،‏ میرے گلے میں عوامی تقریر کی تشہیر کرنے والے پلےکارڈ ڈال کر مجھے ایک بڑے شاپنگ سینٹر میں کھڑا کر دیا گیا۔‏ پادریوں اور دیگر لوگوں نے مجھے پریشان کرنے کی بہت کوشش کی مگر مَیں نے کامیابی سے صورتحال کا مقابلہ کِیا۔‏ مَیں نے ۱۹۴۶ میں بپتسمہ لیا اور اسی سال دسمبر میں پائنیرنگ شروع کر دی۔‏ پھر ۱۹۵۱ میں ایک نوجوان پائنیر قیدخانہ سے رہا ہو کر کارڈف آیا۔‏ وہ ایرک تھا۔‏

‏”‏ہم اکٹھے منادی کرتے تھے۔‏ ہماری اچھی دوستی تھی۔‏ خدا کے بادشاہتی مفادات کو فروغ دینا ہم دونوں کی زندگی کا نصب‌العین تھا۔‏ لہٰذا،‏ ہم نے دسمبر ۱۹۵۲ میں شادی کر لی۔‏ اگرچہ ہم دونوں کُل‌وقتی پائنیر خدمت کر رہے تھے اور ہماری آمدنی محدود تھی توبھی ہمیں ضروریاتِ‌زندگی کی کمی کبھی محسوس نہ ہوئی۔‏ بعض‌اوقات ہمیں کسی ایسے گواہ سے تحفہ ملتا جس نے اپنی خریداری میں ضرورت سے زیادہ جام یا صابن خرید لیا ہوتا اور یہ چیزیں ہمیں عین اُس وقت ملتیں جب ہمیں ان کی واقعی ضرورت ہوتی تھی!‏ ہم ان تحائف کی بہت قدر کرتے تھے۔‏ تاہم ان سے بھی زیادہ حیرت‌انگیز باتیں ابھی ہماری منتظر تھیں۔‏“‏

ہماری زندگی بدل دینے والی حیران‌کُن دعوت

نومبر ۱۹۵۴ میں میری اور ہیزل کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب لندن میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ آفس کی طرف سے مجھے بطور سفری نگہبان تعینات کرنے کیلئے ایک درخواست موصول ہوئی جسکے مطابق مجھے ہر ہفتے ایک مختلف کلیسیا کا دورہ کرنا تھا۔‏ ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ خط ہمیں غلطی سے ملا ہے لہٰذا ہم نے کلیسیا میں کسی کو اسکی بابت کچھ نہ بتایا۔‏ بہرحال مَیں نے درخواست پُر کی اور اسے ارسال کرکے ہم بڑی بیتابی سے جواب کا انتظار کرنے لگے۔‏ کچھ دنوں بعد ہمیں جواب موصول ہوا کہ ”‏تربیت کیلئے لندن آ جائیں“‏!‏

لندن آفس میں مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ مَیں ۲۳ سال کی عمر میں ایسے ممتاز بھائیوں کے درمیان موجود تھا جو میری نظر میں عظیم روحانی ہستیاں تھیں—‏پرائس ہیوز،‏ ایم‌لن وائنز،‏ ارنی بیور،‏ ارنی گائیور،‏ بوب گوف،‏ گلین پار،‏ سٹین اور مارٹن ووڈبرن اور دیگر اشخاص جن میں سے بیشتر اب اس دُنیا میں نہیں رہے۔‏ ان بھائیوں نے ۱۹۴۰ اور ۱۹۵۰ کے دہوں کے دوران برطانیہ میں گرمجوشی اور راستی کی مضبوط بنیاد قائم کی۔‏

انگلینڈ میں اکتاہٹ سے مبرا سرکٹ کا کام

ہمارے سفری کام کی شروعات ۱۹۵۴/‏۱۹۵۵ کے برفانی موسم میں ہوئی۔‏ ہمیں انگلینڈ کے ہموار علاقے،‏ ایسٹ اینگ‌لیا میں تعینات کِیا گیا جو سرد شمالی سمندری ہواؤں کی لپیٹ میں رہتا ہے۔‏ اُس وقت برطانیہ میں صرف ۰۰۰،‏۳۱ گواہ تھے۔‏ سرکٹ کا پہلا دورہ ہمارے لئے ایک مشکل اور سبق‌آموز تجربہ رہا مگر یہ ان بھائیوں کیلئے بھی آسان نہیں تھا جن سے ہم نے ملاقات کی تھی۔‏ اپنی ناتجربہ‌کاری اور یارک‌شائر کا باشندہ ہونے کے باعث دوٹوک بات کرنے کی عادت کی وجہ سے مَیں کبھی‌کبھار دوسروں کو خفا کر دیتا تھا۔‏ تاہم،‏ ان سالوں کے دوران مجھے یہ سیکھنا پڑا کہ شفقت اعلیٰ کارکردگی سے اور لوگ قواعدوضوابط سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔‏ مَیں دوسروں کو تازگی دینے کے سلسلے میں یسوع کے نمونہ پر چلنے کی اب بھی پوری کوشش کرتا ہوں لیکن اس میں مجھے ہمیشہ کامیابی نہیں ہوتی۔‏—‏متی ۱۱:‏۲۸-‏۳۰‏۔‏

ایسٹ اینگ‌لیا میں ۱۸ مہینے گزارنے کے بعد ہمیں انگلینڈ کے شمال‌مشرق،‏ نیوکیسل اپون ٹائن اور نارتھ‌امبرلینڈ میں سرکٹ کی خدمات انجام دینے کے لئے تعینات کِیا گیا۔‏ مجھے اس خوبصورت علاقے کے پُرتپاک لوگوں سے بڑی محبت تھی۔‏ سیٹل،‏ واشنگٹن،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ سے یہاں دورے پر آنے والے ڈسٹرکٹ اوورسیئر ڈان وارڈ نے میری بڑی مدد کی۔‏ وہ گلئیڈ کی ۲۰ ویں کلاس کا گریجویٹ تھا۔‏ بطور ایک مقرر،‏ مواد کو تیزی سے ادا کرنا میری عادت تھی۔‏ اُس نے مجھے آہستہ بولنا،‏ وقفہ دینا اور تعلیم دینے کا طریقہ سکھایا۔‏

ہماری زندگی بدلنے والی ایک اَور حیرت‌انگیز دعوت

ہمیں ۱۹۵۸ میں ایک اَور خط موصول ہوا جس نے ہماری زندگی بدل ڈالی۔‏ ہمیں ساؤتھ لانسنگ،‏ نیو یارک،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ میں گلئیڈ سکول میں شرکت کرنے کی دعوت دی گئی۔‏ ہم نے اپنی چھوٹی ۱۹۳۵ ماڈل آسٹن سیون گاڑی بیچ کر نیو یارک کے بحری سفر کے ٹکٹ خریدے۔‏ سب سے پہلے ہم نیو یارک شہر میں یہوواہ کے گواہوں کے بین‌الاقوامی کنونشن پر حاضر ہوئے۔‏ وہاں سے ہم چھ مہینے تک پائنیرنگ کرنے کیلئے پیٹربرو،‏ اونٹاریو چلے گئے اور اسکے بعد جنوب میں گلئیڈ سکول کیلئے روانہ ہوئے۔‏

سکول کے اساتذہ میں اِس وقت گورننگ باڈی کے رُکن،‏ البرٹ شروڈر کے علاوہ،‏ میکس‌ول فرینڈ اور جیک ریڈفورڈ بھی شامل تھے جو اب وفات پا چکے ہیں۔‏ ۱۴ ممالک سے آنے والے ۸۲ طالبعلموں کی رفاقت واقعی بہت تقویت‌بخش رہی۔‏ ہم ایک دوسرے کی ثقافتوں کو بہتر طور پر سمجھنے لگے۔‏ انگریزی زبان بولنے میں مشکل کا سامنا کرنے والے غیرملکی طالبعلموں کیساتھ باہمی تعلقات نے ہمیں ان مسائل سے باخبر کِیا جنکا ایک نئی زبان سیکھتے وقت ہمیں تجربہ ہونا تھا۔‏ پانچ مہینوں میں ہماری تربیت مکمل ہوئی اور ہمیں ۲۷ ممالک میں تعینات کِیا گیا۔‏ اس کے بعد ہم فارغ‌التحصیل ہوئے اور کچھ ہی دنوں میں ہم واپس یورپ جانے کیلئے نیو یارک شہر میں اپنے جہاز کوئین الزبتھ کا انتظار کر رہے تھے۔‏

ہماری پہلی غیرملکی تفویض

ہمیں کس جگہ تعینات کِیا گیا تھا؟‏ پُرتگال!‏ ہم نومبر ۱۹۵۹ میں لزبن پہنچے۔‏ اب ایک نئی زبان اور ثقافت سے مطابقت پیدا کرنے کی ہماری آزمائش شروع ہوئی۔‏ پُرتگال کی آبادی ۱۹۵۹ میں تقریباً ۹ ملین تھی اور سرگرم گواہوں کی تعداد صرف ۶۴۳ تھی۔‏ تاہم ہمارے منادی کے کام کو قانونی منظوری حاصل نہیں ہوئی تھی۔‏ ہمارے پاس کنگڈم‌ہالز تو تھے مگر ہم انکے باہر سائن بورڈ وغیرہ نہیں لگا سکتے تھے۔‏

مشنری الزا پکونی سے پُرتگالی زبان سیکھنے کے بعد ہیزل اور مَیں نے لزبن،‏ فیرو،‏ ایویرا اور بیزا کے گرد مختلف کلیسیاؤں اور گروپوں کا دورہ کِیا۔‏ پھر ۱۹۶۱ میں حالات کچھ بدلنے لگے۔‏ مَیں زوان گونکالوز میتویس نامی ایک نوجوان شخص کے ساتھ مطالعہ کر رہا تھا۔‏ اُس نے فوجی خدمت کے سلسلے میں ایک غیرجانبدار مسیحی کے طور پر اپنے مؤقف پر قائم رہنے کا فیصلہ کِیا۔‏ کچھ ہی دیر بعد مجھے پوچھ‌گچھ کے لئے پولیس ہیڈکوارٹرز بلایا گیا۔‏ ایک اَور حیران‌کُن بات!‏ کچھ دنوں بعد ہمیں خبر ملی کہ ہمیں ۳۰ دنوں کے اندر اندر ملک چھوڑنا ہے!‏ ساتھی مشنریوں ایرک اور کرس‌ٹینا برٹن اور ڈومی‌نک اور الزا پکونی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔‏

مَیں نے عدالت میں اپیل درج کرائی اور ہمیں خفیہ پولیس کے چیف سے ملنے کی اجازت دے دی گئی۔‏ اُس نے ہمیں واضح الفاظ میں بتایا کہ ہمیں ملک چھوڑنے کے لئے کیوں کہا گیا ہے اور ایک شخص—‏زوان گونکالوز میتویس—‏کا ذکر کِیا جو میرا بائبل طالبعلم تھا!‏ اُس نے بتایا کہ پُرتگال برطانیہ سے مختلف ہے اور یہاں اپنے غیرجانبدارانہ مؤقف کی بنیاد پر فوجی خدمت سے انکار کرنے کی آزادی کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔‏ لہٰذا،‏ ہمیں پُرتگال چھوڑنا پڑا اور زوان سے میرا رابطہ منقطع ہو گیا۔‏ پھر ۲۶ سال بعد اُسے اپنی بیوی اور تین بیٹیوں کے ہمراہ پُرتگال کے نئے بیت‌ایل کی مخصوصیت پر دیکھ کر ہمیں بڑی خوشی ہوئی۔‏ پُرتگال میں ہماری خدمتگزاری رائیگاں نہیں گئی تھی!‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۶-‏۹‏۔‏

ہماری اگلی تفویض کیا تھی؟‏ ہمارا پڑوسی ملک سپین۔‏ ہماری یہ تفویض بھی نہایت حیرت‌انگیز تھی۔‏ پس،‏ فروری ۱۹۶۲ میں اپنی آنکھوں میں آنسو لئے ہم نے ریل پکڑی اور لزبن سے میڈرِڈ روانہ ہو گئے۔‏

ایک اَور ثقافت میں ڈھلنا

سپین میں ہمیں منادی اور اجلاس منعقد کرنے کے خفیہ طریقے سیکھنے پڑے۔‏ منادی کرتے وقت ہم عموماً ایک ساتھ بنے ہوئے دو گھروں میں نہیں جاتے تھے۔‏ ایک دروازے پر گواہی دینے کے بعد ہم کسی اَور گلی،‏ کسی اَور گھر میں گواہی دیتے تھے۔‏ اس طرح پولیس—‏یا پادری—‏ہمیں پکڑ نہیں سکتے تھے۔‏ یاد رکھیں کہ ہم ایک فسطائی،‏ کیتھولک آمریت کے تحت رہتے تھے اور منادی کے کام پر پابندی عائد تھی۔‏ غیرملکی ہونے کی وجہ سے ہم نے ہسپانوی نام اپنا لئے تاکہ اپنی شناخت سے بچ سکیں۔‏ مَیں نے پابلو اور ہیزل نے کوانا نام اختیار کر لیا۔‏

میڈرِڈ میں کچھ مہینوں بعد،‏ ہمیں سرکٹ کے کام کیلئے بارسیلونا تعینات کِیا گیا۔‏ ہم نے اس شہر کی مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کِیا اور ہر کلیسیا میں دو یا تین ہفتے گزارے۔‏ ان دوروں میں اتنا زیادہ وقت صرف ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں ہر کتابی مطالعے کے گروپ کا دورہ ایسے کرنا پڑا جیسے وہ کلیسیا ہو اور یوں ہمیں دو گروپوں پر ایک ہفتہ لگ جاتا تھا۔‏

ایک غیرمتوقع آزمائش

ہمیں ۱۹۶۳ میں سپین میں ڈسٹرکٹ کام سنبھالنے کی دعوت دی گئی۔‏ تقریباً ۰۰۰،‏۳ سرگرم گواہوں کی خدمت کرنے کیلئے ہمیں پورے ملک کا احاطہ کرتے ہوئے اُس وقت موجود نو سرکٹوں کا دورہ کرنا تھا۔‏ ہم نے سیول کے نزدیک جنگلات میں،‏ کی‌کون کے ایک فارم میں اور میڈرِڈ،‏ بارسیلونا اور لوگرونو کے دریاؤں کے قریب خفیہ طور پر کچھ یادگار اسمبلیاں منعقد کیں۔‏

مَیں گھرباگھر منادی کرتے وقت احتیاط کے طور پر گردونواح کی سڑکوں کا جائزہ لیا کرتا تھا تاکہ حالات بگڑنے کی صورت میں فوراً فرار ہونے کے راستے کا تعیّن کِیا جا سکے۔‏ ایک مرتبہ میڈرِڈ میں منادی کرتے وقت مَیں ایک گواہ کیساتھ ایک عمارت کی اُوپر والی منزل پر تھا جب ہم نے نیچے سے چلّانے اور شوروغل کی آوازیں سنیں۔‏ جب ہم نیچے اُترے تو وہاں کچھ نوجوان لڑکیاں موجود تھیں جو ایکاس ڈی ماریہ (‏مریم کی بیٹیاں)‏ کہلانے والے ایک کیتھولک گروپ کی رُکن تھیں۔‏ وہ پڑوسیوں کو ہماری بابت خبردار کر رہی تھیں۔‏ ہم ان سے استدلال نہ کر سکے اور مَیں جانتا تھا کہ اگر ہم جلدازجلد وہاں سے نہ نکلے تو پولیس ہمیں گرفتار کر لیگی۔‏ لہٰذا ہم فوراً وہاں سے بھاگ نکلے!‏

سپین میں وہ سال ہیجان‌خیز تھے۔‏ ہم وہاں کے سپیشل پائنیر خادموں سمیت عمدہ بہن‌بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‏ وہ خدا کی بادشاہتی خوشخبری کی منادی اور کلیسیاؤں کے قیام اور ترقی کیلئے قید کا خطرہ مول لیتے تھے اور اکثر غربت میں دن کاٹتے تھے۔‏

اسی وقت کے دوران ہمیں ایک بُری خبر بھی ملی۔‏ ہیزل وضاحت کرتی ہے:‏ ”‏۱۹۶۴ میں میری والدہ وفات پا گئیں جو ایک وفادار گواہ تھیں۔‏ یہ ایک نہایت افسوسناک تجربہ تھا کیونکہ ہم اُسے آخری مرتبہ دیکھ بھی نہ سکے۔‏ یہ مشنری خدمت کی ایک ایسی قیمت ہے جو بہتیروں نے چُکائی ہے۔‏“‏

بالآخر آزادی

سالوں کی اذیت کے بعد،‏ جولائی ۱۹۷۰ میں فرینکو حکومت نے آخرکار ہمارے کام کیلئے قانونی اجازت دے دی۔‏ مجھے اور ہیزل کو سب سے پہلے میڈرِڈ میں اور پھر لےسپس،‏ بارسیلونا میں کنگڈم‌ہالز کا افتتاح دیکھ کر بیحد خوشی ہوئی۔‏ انکے باہر سائن بورڈ لگائے گئے تھے۔‏ ہم لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ اب ہمیں قانونی حیثیت حاصل ہے اور ہم سپین میں ہی رہینگے!‏ اس وقت ۱۹۷۲ میں سپین میں تقریباً ۰۰۰،‏۱۷ گواہ تھے۔‏

ہمیں اس وقت کے دوران انگلینڈ سے بڑی حوصلہ‌افزا خبر ملی۔‏ میرے والد ۱۹۶۹ میں ہم سے ملنے سپین آئے تھے۔‏ وہ ہسپانوی گواہوں کے رویے سے اسقدر متاثر ہوئے کہ انگلینڈ لوٹنے کے بعد اُنہوں نے بائبل مطالعہ شروع کر دیا۔‏ پھر ۱۹۷۱ میں مجھے پتہ چلا کہ میرے والد نے بپتسمہ لے لیا ہے!‏ وہ ایک یادگار اور دل کو گرما دینے والا لمحہ تھا جب ہم اپنے گھر گئے اور والد نے میرے مسیحی بھائی کے طور پر کھانے پر برکت کیلئے دُعا کی۔‏ مَیں نے ۲۰ سال سے زائد عرصہ تک اس دن کا انتظار کِیا تھا۔‏ میرا بھائی بوب اور اُسکی بیوی آئرس ۱۹۵۸ میں گواہ بنے۔‏ انکا بیٹا فلپ اپنی بیوی جین کے ہمراہ سپین میں سرکٹ اوورسیئر کے طور پر خدمت کر رہا ہے۔‏ اُنہیں اس شاندار ملک میں خدمت کرتے ہوئے دیکھ کر ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے۔‏

حالیہ حیرت‌انگیز دعوت

فروری ۱۹۸۰ میں گورننگ باڈی کے ایک رُکن نے زون اوورسیئر کے طور پر سپین کا دورہ کِیا۔‏ جب اُس نے میرے ساتھ خدمتگزاری میں کام کرنا چاہا تو مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔‏ مَیں نہیں جانتا تھا کہ وہ مجھے جانچ رہا ہے!‏ پھر ستمبر میں ہمیں بروکلن،‏ نیو یارک کے عالمی ہیڈکوارٹرز میں منتقل ہونے کی دعوت دی گئی!‏ ہم ہکابکا رہ گئے۔‏ ہم نے یہ دعوت قبول کر لی مگر اپنے ہسپانوی بھائیوں کو چھوڑنا نہایت تکلیف‌دہ تھا۔‏ اُس وقت گواہوں کی تعداد ۰۰۰،‏۴۸ تھی!‏

جب ہم سپین سے روانہ ہوئے تو ایک بھائی نے مجھے ایک جیبی گھڑی تحفے میں دی۔‏ اس پر دو آیات کندہ تھیں—‏”‏لوقا ۱۶:‏۱۰؛‏ لوقا ۱۷:‏۱۰‏۔‏“‏ اُس کے مطابق یہ میری کلیدی آیات تھیں۔‏ لوقا ۱۶:‏۱۰ زور دیتی ہے کہ ہمیں تھوڑے میں دیانتدار بننا چاہئے اور لوقا ۱۷:‏۱۰ بیان کرتی ہے کہ ہم ”‏نکمّے نوکر“‏ ہیں اسلئے ہمارے پاس شیخی بگھارنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‏ مَیں نے ہمیشہ یہ خیال کِیا ہے کہ ہم یہوواہ کی خدمت میں جو بھی کرتے ہیں وہ بپتسمہ‌یافتہ گواہوں کے طور پر ہماری ذمہ‌داری ہے۔‏

صحت کا حیرت‌انگیز مسئلہ

سن ۱۹۹۰ میں مجھے امراضِ‌قلب کا سامنا ہوا۔‏ آخرکار مجھے دل کی ایک بند شریان کو کھولنے کیلئے سٹنٹ لگوانا پڑا۔‏ جسمانی کمزوری کے اس کٹھن وقت میں ہیزل نے کئی طریقوں سے مجھے سہارا دیا ہے اور اکثر میرے لئے بیگ اور سوٹ‌کیس اُٹھاتی ہے جنہیں مَیں اُٹھانا مشکل پاتا ہوں۔‏ پھر مَیں نے مئی ۲۰۰۰ میں اپنے سینے میں پیس‌میکر لگوایا۔‏ اس سے واقعی بہت فرق پڑا!‏

گزشتہ ۵۰ سالوں سے مَیں نے اور ہیزل نے یہ تجربہ کِیا ہے کہ یہوواہ کا ہاتھ کبھی چھوٹا نہیں ہوا اور اُسکے مقاصد ہمارے وقت کی بجائے اُسکے مقررہ وقت پر پورے ہوتے ہیں۔‏ (‏یسعیاہ ۵۹:‏۱؛‏ حبقوق ۲:‏۳‏)‏ ہمیں اپنی زندگی میں نہایت حیرت‌انگیز واقعات کا تجربہ ہوا ہے جن میں سے بیشتر پُرمسرت اور کچھ غمناک بھی تھے لیکن ان سب کے دوران یہوواہ نے ہمیشہ ہمیں سنبھالا ہے۔‏ یہوواہ کے لوگوں کے عالمی ہیڈکوارٹرز میں ہمیں روزانہ گورننگ باڈی کے ارکان کی رفاقت سے محظوظ ہونے کا موقع ملتا ہے۔‏ بعض‌اوقات مَیں خود سے پوچھتا ہوں،‏ ’‏کیا ہم واقعی یہاں ہیں؟‏‘‏ یہ خدا کا فضل ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۹‏)‏ ہمیں بھروسا ہے کہ یہوواہ ہمیں شیطان کے عیارانہ کاموں سے بچاتا رہیگا اور ہمیں اپنی پناہ میں رکھیگا تاکہ ہم زمین پر اُسکی راست حکومت سے لطف‌اندوز ہو سکیں۔‏—‏افسیوں ۶:‏۱۱-‏۱۸؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۱-‏۴‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

سٹرینجویز قیدخانہ،‏ مانچسٹر،‏ جہاں میری قید کا آغاز ہوا

‏[‏صفحہ ۲۷ پر تصویر]‏

انگلینڈ میں سرکٹ کے کام کے دوران اپنی آسٹن سیون کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

سن ۱۹۶۲ میں میڈرِڈ،‏ سپین میں تھرسیڈیلیا کی ایک خفیہ اسمبلی

‏[‏صفحہ ۲۹ پر تصویر]‏

بروکلن میں بائبل لٹریچر ٹیبل کے پاس