مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اپنے دل کی خوب حفاظت کریں

اپنے دل کی خوب حفاظت کریں

اپنے دل کی خوب حفاظت کریں

‏”‏اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ہے۔‏“‏—‏امثال ۴:‏۲۳‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ہمیں اپنے دل کی حفاظت کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟‏

ایک عمررسیدہ شخص ایک کریبیئن جزیرے پر طوفانِ‌بادوباراں کے بعد اپنی جائےپناہ سے باہر نکلا۔‏ جب اُس نے اپنے اردگرد ہونے والے نقصان کو دیکھا تو اس نے غور کِیا کہ اُس کے گھر کے سامنے والے دروازے کے قریب دہوں سے کھڑا بہت بڑا درخت گِر پڑا ہے۔‏ اس نے سوچا ’‏ایسا کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ چھوٹے درخت اس کے اردگرد کھڑے ہیں؟‏‘‏ گِرے ہوئے درخت کے ٹنڈ نے اُسے اس بات کا جواب دیا۔‏ بظاہر ناقابلِ‌حرکت درخت اندر سے کھوکھلا ہو چکا تھا اور طوفان نے اس پوشیدہ بوسیدگی کو بےنقاب کر دیا تھا۔‏

۲ جب مسیحی طرزِزندگی میں مضبوط نظر آنے والا ایک سچا پرستار ایمان کی آزمائش میں جھک جاتا ہے تو یہ کتنا المناک ہوتا ہے۔‏ بائبل بجا طور پر کہتی ہے کہ ”‏انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے۔‏“‏ (‏پیدایش ۸:‏۲۱‏)‏ اس کا مطلب ہے کہ مسلسل مستعدی کے بغیر بہترین سے بہترین دل بھی بُرائی میں پھنس سکتا ہے۔‏ جب کوئی ناکامل انسانی دل کجروی سے محفوظ نہیں ہے لہٰذا،‏ ہمیں اس مشورت پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے:‏ ”‏اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ہے۔‏“‏ (‏امثال ۴:‏۲۳‏)‏ پس،‏ ہم اپنے علامتی دل کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟‏

باقاعدہ معائنہ لازمی ہے

۳،‏ ۴.‏ (‏ا)‏ حقیقی دل کی بابت کونسے سوال پوچھے جا سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ علامتی دل کا معائنہ کرنے کیلئے کیا چیز ہماری مدد کرے گی؟‏

۳ اگر آپ کسی معالج کے پاس اپنا معائنہ کرانے کیلئے جاتے ہیں تو غالباً وہ آپ کے دل کا بھی معائنہ کرتا ہے۔‏ کیا آپ کے دل کے ساتھ آپکی عمومی صحت یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ معقول غذائیت حاصل کر رہے ہیں؟‏ آپ کا فشارِخون [‏بلڈپریشر]‏ کیسا ہے؟‏ کیا آپ کے دل کی دھڑکن یکساں اور مستحکم ہے؟‏ کیا آپ مناسب ورزش کرتے ہیں؟‏ کیا آپ کا دل غیرضروری تناؤ کا شکار ہے؟‏

۴ اگر حقیقی دل کو باقاعدہ معائنے کی ضرورت پڑتی ہے تو آپ کے علامتی دل کی بابت کیا ہے؟‏ یہوواہ اس کا معائنہ کرتا ہے۔‏ (‏۱-‏تواریخ ۲۹:‏۱۷‏)‏ ہمیں خود بھی ایسا کرنا چاہئے۔‏ کیسے؟‏ ایسے سوالات پوچھنے سے:‏ کیا میرا دل باقاعدہ ذاتی مطالعے اور اجلاسوں پر حاضری کے ذریعے کافی روحانی خوراک حاصل کر رہا ہے؟‏ (‏زبور ۱:‏۱،‏ ۲؛‏ عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ کیا یہوواہ کا پیغام میرے دل میں ”‏جلتی آگ کی مانند ہے جو میری ہڈیوں میں پوشیدہ ہے“‏ اور مجھے بادشاہتی منادی اور شاگرد بنانے کے کام میں شرکت کرنے کی تحریک دیتا ہے؟‏ (‏یرمیاہ ۲۰:‏۹؛‏ متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ رومیوں ۱:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ کیا مَیں جانفشانی کرنے کی تحریک پاتا ہوں اور جب ممکن ہو تو کُل‌وقتی خدمت میں شرکت کرتا ہوں؟‏ (‏لوقا ۱۳:‏۲۴‏)‏ مَیں اپنے علامتی دل کیلئے کس قسم کا ماحول فراہم کر رہا ہوں؟‏ کیا مَیں ان اشخاص کیساتھ رفاقت رکھتا ہوں جن کے دل سچی پرستش میں متحد ہیں؟‏ (‏امثال ۱۳:‏۲۰؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۳‏)‏ دُعا ہے کہ ہم ہر قسم کی کمزوری کو فوراً پہچان لیں اور بِلاتاخیر اصلاحی اقدام اُٹھائیں۔‏

۵.‏ ایمان کی آزمائشیں کونسا مفید مقصد انجام دے سکتی ہیں؟‏

۵ ہمیں اکثراوقات ایمان کی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ یہ ہمیں اپنے دل کی حالت کو سمجھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔‏ ملکِ‌موعود میں داخل ہونے والے اسرائیلیوں سے موسیٰ نے کہا:‏ ”‏اِن چالیس برسوں میں [‏یہوواہ]‏ تیرے خدا نے تجھ کو اُس بیابان میں چلایا تاکہ وہ تجھ کو عاجز کرکے آزمائے اور تیرے دل کی بات دریافت کرے کہ تُو اُسکے حکموں کو مانیگا یا نہیں۔‏“‏ (‏استثنا ۸:‏۲‏)‏ کیا ہم غیرمتوقع حالتوں اور آزمائشوں کے تحت جذبات،‏ خواہشات یا ردِعمل پر اکثر حیران نہیں ہوتے؟‏ جن آزمائشوں کے واقع ہونے کی یہوواہ اجازت دیتا ہے وہ یقیناً ہمیں ہماری کمزوریوں سے باخبر رکھتی اور بہتری لانے کا موقع دیتی ہیں۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۲-‏۴‏)‏ دُعا ہے کہ ہم کبھی بھی آزمائشوں کیلئے اپنے ردِعمل پر دُعائیہ غوروفکر کرنے میں ناکام نہ ہوں!‏

ہماری گفتگو کیا ظاہر کرتی ہے؟‏

۶.‏ جن موضوعات کی بابت ہم بات کرنا چاہتے ہیں ان کی بابت ہمارے دل کیا ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۶ ہم اس کا تعیّن کیسے کر سکتے ہیں کہ ہمارے دل میں کیا ہے؟‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏اچھا آدمی اپنے دل کے اچھے خزانہ سے اچھی چیزیں نکالتا ہے اور بُرا آدمی بُرے خزانہ سے بُری چیزیں نکالتا ہے کیونکہ جو دل میں بھرا ہے وہی اُسکے مُنہ پر آتا ہے۔‏“‏ (‏لوقا ۶:‏۴۵‏)‏ ہم عموماً جس چیز کی بابت گفتگو کرتے ہیں اُس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے۔‏ کیا ہم اکثر مادی چیزوں اور دُنیاوی کامرانیوں کی بابت بات کرتے رہتے ہیں؟‏ یا کیا ہماری بات‌چیت عام طور پر روحانی باتوں اور تھیوکریٹک نصب‌العین پر مُرتکز ہوتی ہے؟‏ دوسروں کی غلطیوں کی تشہیر کرنے کی بجائے،‏ کیا ہم اُنہیں محبت سے ڈھانپنے کی طرف مائل ہوتے ہیں؟‏ (‏امثال ۱۰:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ کیا ہم اصولوں اور نظریات کی بابت گفتگو کرنے کی بجائے لوگوں اور ان کی زندگیوں میں جوکچھ واقع ہو رہا ہے اس کی بابت بہت زیادہ بات‌چیت کرنے کی طرف مائل ہیں؟‏ کیا یہ اس بات کا اشارہ نہیں کہ ہم دیگر لوگوں کے ذاتی معاملات میں غیرواجب دلچسپی لے رہے ہیں؟‏—‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۵‏۔‏

۷.‏ اپنے دل کی حفاظت کرنے کی بابت ہم یوسف کے دس بھائیوں کی سرگزشت سے کونسا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

۷ غور کریں کہ ایک بڑے خاندان میں کیا واقع ہوا۔‏ یعقوب کے دس بڑے بیٹے اپنے چھوٹے بھائی یوسف کیساتھ ”‏ٹھیک طور سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔‏“‏ کیوں؟‏ وہ اُس سے حسد کرتے تھے کیونکہ وہ اپنے باپ کا چہیتا بیٹا تھا۔‏ بعدازاں،‏ جب یوسف کو خدا کی طرف سے خوابوں کی نعمت عطا ہوئی تو اس نے ثابت کر دیا کہ اُسے یہوواہ کی کرمفرمائی حاصل ہے تب ”‏وہ اُس سے اَور بھی بغض رکھنے لگے۔‏“‏ (‏پیدایش ۳۷:‏۴،‏ ۵،‏ ۱۱‏)‏ بےرحمی سے انہوں نے اپنے بھائی کو غلامی میں بیچ دیا۔‏ اس کے بعد انہوں نے اپنی غلطی کو چھپانے کیلئے اپنے باپ کو دھوکا دیا اور یہ کہا کہ یوسف کو کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہے۔‏ اس موقع پر یوسف کے دس بھائی اپنے دل کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو گئے تھے۔‏ اگر ہم فوراً دوسروں کی نکتہ‌چینی کرتے ہیں تو کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ہمارے دل میں کینہ یا حسد ہے؟‏ ہمارے مُنہ سے جسطرح کی باتیں نکلتی ہیں ہمیں اُن کی بابت محتاط رہنے اور نامناسب رُجحانات کو فوراً مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔‏

۸.‏ اگر ہم جھوٹ بولنے کی بُری عادت کا شکار ہیں تو اپنے دل کی جانچ کرنے میں کیا چیز ہماری مدد کریگی؟‏

۸ اگرچہ ”‏خدا کا جھوٹ بولنا ممکن نہیں“‏ توبھی ناکامل انسان جھوٹ بولنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۶:‏۱۸‏)‏ زبورنویس نے نہایت افسوس سے کہا:‏ ”‏سب آدمی جھوٹے ہیں۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۶:‏۱۱‏)‏ پطرس رسول نے بھی جھوٹ بولتے ہوئے تین مرتبہ یسوع کا انکار کِیا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۶۹-‏۷۵‏)‏ بِلاشُبہ،‏ ہمیں جھوٹ بولنے سے گریز کرنے میں محتاط رہنا چاہئے کیونکہ یہوواہ ”‏جھوٹی زبان“‏ سے نفرت کرتا ہے۔‏ (‏امثال ۶:‏۱۶-‏۱۹‏)‏ اگر ہم کبھی جھوٹ بولتے ہیں تو اس کی وجہ کا تجزیہ کرنا دانشمندی ہوگی۔‏ کیا یہ انسان کے ڈر کی وجہ سے تھا؟‏ کیا سزا کا خوف اس کی وجہ تھا؟‏ شاید مسئلے کی اصل وجہ ساکھ بحال رکھنے کی کوشش یا سراسر خودغرضی تھی؟‏ معاملہ خواہ کچھ بھی ہو،‏ کتنا اچھا ہے کہ ہم معاملے پر غور کریں،‏ فروتنی سے اپنی کمزوری کو تسلیم کریں اور یہوواہ سے اس کمزوری کے لئے معافی مانگیں اور اس پر قابو پانے کے لئے مدد کی درخواست کریں!‏ ’‏کلیسیا کے بزرگ‘‏ ایسی مدد فراہم کرنے والے بہترین اشخاص ثابت ہو سکتے ہیں۔‏—‏یعقوب ۵:‏۱۴‏۔‏

۹.‏ ہمارے دل میں جوکچھ ہے اس کی بابت ہماری دُعائیں کیا آشکارا کر سکتی ہیں؟‏

۹ حکمت اور علم کے سلسلے میں بادشاہ سلیمان کی درخواست کے جواب میں یہوواہ نے فرمایا:‏ ”‏چونکہ تیرے دل میں یہ بات تھی اور تُو نے نہ تو دولت نہ مال نہ عزت .‏ .‏ .‏ طلب کی .‏ .‏ .‏ سو حکمت‌ومعرفت تجھے عطا ہوئی اور مَیں تجھے .‏ .‏ .‏ دولت اور مال اور عزت بخشونگا۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۱:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ سلیمان نے جوکچھ مانگا اور جوکچھ مانگنے سے گریز کِیا اس سے یہوواہ جانتا تھا کہ سلیمان کے دل میں کیا ہے۔‏ خدا کے حضور ہماری دُعائیں ہمارے دل کی بابت کیا آشکارا کرتی ہیں؟‏ کیا ہماری دُعائیں علم،‏ حکمت اور فہم کی تشنگی ظاہر کرتی ہیں؟‏ (‏امثال ۲:‏۱-‏۶؛‏ متی ۵:‏۳‏)‏ کیا ہمارے دل میں بادشاہتی مفادات ہیں؟‏ (‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ اگر ہماری دُعائیں جذبات سے عاری یعنی میکانکی اور سطحی بن گئی ہیں تو یہ اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں یہوواہ کے کاموں پر غوروخوض کرنے کیلئے وقت نکالنے کی ضرورت ہے۔‏ (‏زبور ۱۰۳:‏۲‏)‏ تمام مسیحیوں کو یہ جاننے کیلئے چوکس رہنا چاہئے کہ ان کی دُعائیں کیا ظاہر کرتی ہیں۔‏

ہمارے افعال کیا ظاہر کرتے ہیں؟‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏ زناکاری اور حرامکاری کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ کیا چیز ’‏اپنے دل میں زنا‘‏ نہ کرنے کے سلسلے میں ہماری مدد کریگی؟‏

۱۰ عام مقولہ ہے کہ اقوال سے زیادہ افعال اثرآفرین ہوتے ہیں۔‏ ہمارے افعال یقیناً یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے دل میں کیا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اخلاقی معاملات میں اپنے دل کی حفاظت کرنے میں محض حرامکاری یا زناکاری سے بچنے سے زیادہ کچھ شامل ہے۔‏ اپنے پہاڑی وعظ میں یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُسکے ساتھ زنا کر چکا۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۲۸‏)‏ ہم اپنے دل میں زنا کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

۱۱ وفادار آبائی بزرگ ایوب نے شادی‌شُدہ مسیحی مردوزن کیلئے ایک نمونہ قائم کِیا۔‏ بِلاشُبہ،‏ ایوب نوجوان عورتوں کیساتھ بات‌چیت کرتا تھا اور بوقتِ‌ضرورت انکی مدد بھی کِیا کرتا تھا۔‏ لیکن راستی برقرار رکھنے والا یہ شخص ان میں رومانوی دلچسپی رکھنے کا تو تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔‏ کیوں؟‏ اسلئے کہ اُس نے کسی عورت پر ہوس‌بھری نگاہ نہ ڈالنے کا پُختہ عزم کِیا ہوا تھا۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں نے اپنی آنکھوں سے عہد کِیا ہے۔‏ پھر مَیں کسی کنواری پر کیونکر نظر کروں؟‏“‏ (‏ایوب ۳۱:‏۱‏)‏ دُعا ہے کہ ہم بھی اپنی آنکھوں سے ایسا ہی عہد باندھیں اور اپنے دل کی خوب حفاظت کریں۔‏

۱۲.‏ آپ اپنے دل کی حفاظت کرنے کے سلسلے میں لوقا ۱۶:‏۱۰ کا اطلاق کس طرح کریں گے؟‏

۱۲ خدا کے بیٹے نے کہا:‏ ”‏جو تھوڑے میں دیانتدار ہے وہ بہت میں بھی دیانتدار ہے اور جو تھوڑے میں بددیانت ہے وہ بہت میں بھی بددیانت ہے۔‏“‏ (‏لوقا ۱۶:‏۱۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہمیں روزمرّہ زندگی میں بظاہر معمولی نوعیت کے معاملات میں حتیٰ‌کہ گھر کے اندر خلوت میں واقع ہونے والے معاملات میں بھی اپنے چال‌چلن کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔‏ (‏زبور ۱۰۱:‏۲‏)‏ جب ہم اپنے گھر میں بیٹھے ٹیلیویژن دیکھ رہے ہوں یا انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہوں تو کیا ہم اس صحیفائی نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:‏ ”‏جیساکہ مُقدسوں کو مناسب ہے تم میں حرامکاری اور کسی طرح کی ناپاکی یا لالچ کا ذکر تک نہ ہو۔‏ اور نہ بےشرمی اور بیہودہ‌گوئی اور ٹھٹھابازی کا کیونکہ یہ لائق نہیں“‏؟‏ (‏افسیوں ۵:‏۳،‏ ۴‏)‏ نیز اُس تشدد کی بابت کیا ہے جو ٹیلیویژن یا ویڈیو گیمز میں دکھایا جاتا ہے؟‏ زبورنویس نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ صادق کو پرکھتا ہے پر شریر اور ظلم دوست سے اُسکی رُوح کو نفرت ہے۔‏“‏—‏زبور ۱۱:‏۵‏۔‏

۱۳.‏ جوکچھ ہمارے دل سے نکلتا ہے اُس پر غور کرتے وقت کیا احتیاط ضروری ہے؟‏

۱۳ یرمیاہ نے آگاہ کِیا:‏ ”‏دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ‌باز اور لاعلاج ہے۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۱۷:‏۹‏)‏ دل کی حیلہ‌بازی اُس وقت نمایاں ہو سکتی ہے جب ہم اپنی خطاؤں کیلئے عذر پیش کرتے،‏ اپنی تقصیروں کی سنگینی کو کم کرتے،‏ سنگین شخصیتی عیبوں کا الزام دوسروں پر لگاتے یا اپنی کامرانیوں کے سلسلے میں مبالغہ‌آرائی کرتے ہیں۔‏ ایک بُرا دل دُہری شخصیت کا مالک بھی ہوتا ہے یعنی اُسکے قول‌وفعل میں تضاد ہو سکتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۲:‏۲؛‏ امثال ۲۳:‏۷‏)‏ یہ کتنا ضروری ہے کہ جوکچھ ہمارے دل سے نکلتا ہے دیانتداری سے اُس کی جانچ کریں!‏

کیا ہماری آنکھ سادہ ہے؟‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ ایک ’‏سادہ‘‏ آنکھ سے کیا مُراد ہے؟‏ (‏ب)‏ آنکھ سادہ رکھنا دل کی حفاظت کرنے میں کیسے ہماری مدد کرتا ہے؟‏

۱۴ یسوع نے کہا:‏ ”‏بدن کا چراغ آنکھ ہے۔‏“‏ اُس نے مزید کہا:‏ ”‏پس اگر تیری آنکھ درست ہو تو تیرا سارا بدن روشن ہوگا۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۲۲‏)‏ سادہ آنکھ ایک نشانے یا مقصد پر مُرتکز ہوتی ہے اور اُس سے دائیں یا بائیں نہیں ہٹتی۔‏ واقعی،‏ ہماری آنکھ کو ”‏[‏خدا]‏ کی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش“‏ کرنے پر مُرتکز ہونا چاہئے۔‏ (‏متی ۶:‏۳۳‏)‏ اگر ہماری آنکھ سادہ نہیں رہتی تو کیا واقع ہو سکتا ہے؟‏

۱۵ روزی‌روٹی کمانے کے معاملے پر غور کریں۔‏ اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنا ایک مسیحی تقاضا ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۸‏)‏ لیکن جب ہم خوراک،‏ لباس،‏ رہائش اور دیگر چیزوں کے سلسلے میں جدیدترین اور بہترین کی جستجو میں لگ جاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟‏ کیا یہ واقعی ہمارے دل‌ودماغ کو اپنا غلام بناتے ہوئے ہمیں اپنی پرستش میں دو دِلا نہیں بنا دیگی؟‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۱۳؛‏ رومیوں ۱۶:‏۱۸‏)‏ ہمیں جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کے معاملے میں اس قدر مگن کیوں نہیں ہونا چاہئے کہ ہمارا خاندان،‏ کاروبار اور مادی چیزیں ہی ہماری زندگی کا محور بن جائیں؟‏ الہامی مشورت کو یاد رکھیں:‏ ”‏خبردار رہو۔‏ ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل خمار اور نشہ‌بازی اور اِس زندگی کی فکروں سے سُست ہو جائیں اور وہ دن تم پر پھندے کی طرح ناگہاں آ پڑے۔‏ کیونکہ جتنے لوگ تمام رویِ‌زمین پر موجود ہونگے اُن سب پر وہ اِسی طرح آ پڑیگا۔‏“‏—‏لوقا ۲۱:‏۳۴،‏ ۳۵‏۔‏

۱۶.‏ یسوع نے آنکھ سے متعلق کیا آگاہی دی اور کیوں؟‏

۱۶ آنکھ دل‌ودماغ تک رسائی کرنے میں رابطے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔‏ یہ جس چیز پر بھی مُرتکز ہوتی ہے وہ ہمارے خیالات،‏ جذبات اور افعال پر بہت زیادہ اثرانداز ہو سکتی ہے۔‏ یسوع نے تمثیلی زبان استعمال کرتے ہوئے،‏ بصری تحریص کی طاقت کے حوالے سے کہا:‏ ”‏پس اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اُسے نکالکر اپنے پاس سے پھینک دے کیونکہ تیرے لئے یہی بہتر ہے کہ تیرے اعضا میں سے ایک جاتا رہے اور تیرا سارا بدن جہنم میں نہ ڈالا جائے۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۲۹‏)‏ لازم ہے کہ ہم اپنی آنکھ کو نامناسب مناظر پر توجہ دینے سے باز رکھیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ اسے ایسا مواد پڑھنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے جو شہوت اور بُری خواہشات کو اُبھارنے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔‏

۱۷.‏ کلسیوں ۳:‏۵ کا اطلاق ہمارے دل کی حفاظت کرنے میں کیسے معاون ثابت ہوتا ہے؟‏

۱۷ بِلاشُبہ،‏ نظر ہی بیرونی دُنیا کے ساتھ رابطے کی ہماری واحد حس نہیں ہے۔‏ دیگر حواس جیسے کہ چُھونا اور سننا بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور ہمیں ان سے متعلقہ جسمانی اعضا کے سلسلے میں حفاظتی اقدام اُٹھانے کی ضرورت ہے۔‏ پولس رسول نے اس سلسلے میں یہ عمدہ نصیحت کی:‏ ”‏اپنے اُن اعضا کو مُردہ کرو جو زمین پر ہیں یعنی حرامکاری اور ناپاکی اور شہوت اور بُری خواہش اور لالچ کو جو بُت‌پرستی کے برابر ہے۔‏“‏—‏کلسیوں ۳:‏۵‏۔‏

۱۸.‏ نامناسب خیالات کے متعلق ہمیں کونسے اقدام اُٹھانے چاہئیں؟‏

۱۸ ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں کوئی نامناسب خواہش جنم لے سکتی ہے۔‏ اس پر غیرمعمولی توجہ دینا عام طور پر غلط خواہش کے بڑھنے اور دل پر اثرانداز ہونے کا موجب بن سکتا ہے۔‏ ”‏پھر خواہش حاملہ ہو کر گناہ کو جنتی ہے۔‏“‏ (‏یعقوب ۱:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ بہتیرے تسلیم کرتے ہیں کہ یہ اکثراوقات مشت‌زنی پر منتج ہوتی ہے۔‏ اپنے ذہن کو روحانی باتوں سے معمور کرتے رہنا کتنا اہم ہے!‏ (‏فلپیوں ۴:‏۸‏)‏ نیز اگر کوئی نامناسب خیال ہمارے ذہن میں آ جاتا ہے تو ہمیں اُسے فوراً نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏

‏’‏پورے دل سے یہوواہ کی خدمت کریں‘‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ ہم پورے دل کیساتھ یہوواہ کی خدمت کرنے میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟‏

۱۹ اپنے بڑھاپے میں بادشاہ داؤد نے اپنے بیٹے سے کہا:‏ ”‏اَے میرے بیٹے سلیماؔن اپنے باپ کے خدا کو پہچان اور پورے دل اور روح کی مستعدی سے اُسکی عبادت کر کیونکہ [‏یہوواہ]‏ سب دلوں کو جانچتا ہے اور جوکچھ خیال میں آتا ہے اُسے پہچانتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏تواریخ ۲۸:‏۹‏)‏ سلیمان نے بذاتِ‌خود ’‏ایک فرمانبردار دل‘‏ کیلئے دُعا کی۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۳:‏۹‏)‏ تاہم،‏ اپنی ساری زندگی ایسا دل قائم رکھنے کیلئے اُسے واقعی جدوجہد کرنی پڑی۔‏

۲۰ اگر ہمیں اس سلسلے میں کامیاب ہونا ہے تو نہ صرف یہوواہ کو خوش کرنے والا دل پیدا کرنے بلکہ اسکی حفاظت کرنے کی بھی ضرورت ہے۔‏ ایسا کرنے کے لئے ہمیں خدا کے کلام کی یاددہانیوں کو اپنے دل کے قریب—‏’‏اپنے اندر‘‏—‏رکھنا لازمی ہے۔‏ (‏امثال ۴:‏۲۰-‏۲۲‏)‏ ہمارے اقوال اور افعال جوکچھ ظاہر کرتے ہیں اُس پر دُعائیہ غور کرتے ہوئے ہمیں اپنے دل کی جانچ کرتے رہنا چاہئے۔‏ اگر ہم کمزوری کا پتہ چلنے کے بعد جلدازجلد اس کی اصلاح کرنے کے لئے یہوواہ کی مدد کے طالب نہیں ہوتے تو ایسے غوروخوض کا کیا فائدہ؟‏ اس کے علاوہ،‏ یہ کتنا اہم ہے کہ ہم اپنے حواس سے جوکچھ بھی سیکھ رہے ہیں اس پر کڑی نظر رکھیں!‏ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمیں یقین‌دہانی کرائی گئی ہے کہ ”‏خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے [‏ہمارے]‏ دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھے گا۔‏“‏ (‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ پس آئیے پُرعزم رہیں کہ ہم سب چیزوں سے زیادہ اپنے دل کی حفاظت کریں گے اور پورے دل سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں گے۔‏

کیا آپ کو یاد ہے؟‏

‏• دل کی حفاظت کرنا کیوں ضروری ہے؟‏

‏• اپنی باتوں کا جائزہ لینا دل کی حفاظت کرنے میں کیسے ہماری مدد کرتا ہے؟‏

‏• ہمیں اپنی آنکھ کو ’‏سادہ‘‏ کیوں رکھنا چاہئے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویریں]‏

ہم عام طور پر میدانی خدمت،‏ اجلاسوں اور گھر میں کیا باتیں کرتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویریں]‏

سادہ آنکھ انتشارِخیال کا شکار نہیں ہوتی