مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ایک خوش‌آئند دُنیا کی کُنجی

ایک خوش‌آئند دُنیا کی کُنجی

ایک خوش‌آئند دُنیا کی کُنجی

‏”‏یسوع ناصری نہ صرف ان دو ہزار سالوں میں بلکہ پوری انسانی تاریخ میں ایک ذی‌اثر شخصیت کا مالک رہا ہے،‏“‏ ”‏ٹائم“‏ میگزین بیان کرتا ہے۔‏ جب یسوع زمین پر تھا تو ہزاروں خلوصدل لوگوں نے اُسکی عظمت کے علاوہ دوسروں کیلئے اُسکی فکرمندی کو بھی محسوس کِیا تھا۔‏ لہٰذا،‏ لوگوں کا اسے بادشاہ بنانے کی کوشش کرنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔‏ (‏یوحنا ۶:‏۱۰،‏ ۱۴،‏ ۱۵‏)‏ تاہم،‏ پھچلے مضمون کے بیان کے مطابق یسوع نے سیاست میں حصہ لینے کی پیشکش مسترد کر دی تھی۔‏

یسوع کے ردِعمل کی کم‌ازکم تین وجوہات تھیں:‏ انسانی حکمرانی سمیت انسانی خودمختاری کے اظہارات کی بابت اسکے باپ کا نظریہ؛‏ یسوع کی حکمرانی کرنے کے سلسلے میں بہترین انسانی کوششوں کے خلاف کارفرما طاقتور خفیہ قوتوں سے واقفیت؛‏ اور پوری زمین پر حکمرانی کرنے کیلئے آسمانی حکومت کے قیام کی بابت خدا کا مقصد۔‏ جب ہم ان تینوں باتوں کا بغور جائزہ لینگے تو ہم جان جائینگے کہ اس دُنیا کو بہتر جگہ بنانے کے سلسلے میں نسلِ‌انسان کی تمام کوششیں کیوں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔‏ ہم یہ بھی سمجھ جائینگے کہ کامیابی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔‏

کیا انسان اپنے اُوپر حکومت کر سکتا ہے؟‏

جب خدا نے انسانوں کو خلق کِیا تو اُنہیں حیوانات پر اختیار بخشا گیا تھا۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۶‏)‏ تاہم نوعِ‌انسان خدا کی حاکمیت کے ماتحت تھے۔‏ پہلے انسانی جوڑے کو خدا کی اطاعت کے اظہار میں ایک خاص درخت،‏ ”‏نیک‌وبد کی پہچان کے درخت“‏ کا پھل کھانے سے گریز کرنا تھا۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۷‏)‏ افسوس آدم اور حوا نے اپنی آزاد مرضی کا غلط استعمال کرتے ہوئے خدا کی نافرمانی کی۔‏ ممنوعہ پھل کھانا صرف بددیانتی ہی نہیں تھی۔‏ یہ خدا کی حاکمیت کے خلاف بغاوت بھی تھی۔‏ دی نیو جیروصلم بائبل میں پیدایش ۲:‏۱۷ پر ایک فٹ‌نوٹ بیان کرتا ہے کہ آدم اور حوا نے ”‏مکمل اخلاقی آزادی“‏ کا مطالبہ کرنے سے ”‏اپنے مخلوق ہونے سے انکار کِیا .‏ .‏ .‏ پہلا گناہ خدا کی حاکمیت پر حملہ تھا۔‏“‏

سنگین اخلاقی مسئلے کے الجھاؤ کی وجہ سے خدا نے آدم اور حوا اور انکی اولاد کو اپنی مرضی سے زندگی بسر کرنے کی اجازت دی اور اُنہوں نے اپنے لئے صحیح اور غلط کے معیار قائم کئے۔‏ (‏زبور ۱۴۷:‏۱۹،‏ ۲۰؛‏ رومیوں ۲:‏۱۴‏)‏ بنیادی طور پر اس وقت سے انسانوں نے خودمختاری کا تجربہ کرنا شروع کر دیا۔‏ کیا یہ کامیاب رہا ہے؟‏ گزشتہ ہزارہا سال کے مشاہدے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ نہیں!‏ واعظ ۸:‏۹ بیان کرتی ہے:‏ ”‏ایک شخص دوسرے پر حکومت کرکے اپنے اوپر بلا لاتا ہے۔‏“‏ انسانی حکمرانی کا افسوسناک ریکارڈ یرمیاہ ۱۰:‏۲۳ کی صداقت کی توثیق کرتا ہے:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ مَیں جانتا ہوں کہ انسان کی راہ اُسکے اختیار میں نہیں۔‏ انسان اپنی روش میں اپنے قدموں کی راہنمائی نہیں کر سکتا۔‏“‏ تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ انسان اپنے خالق کے بغیر کامیابی سے حکمرانی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔‏

یسوع پوری طرح اس بات سے متفق تھا۔‏ خدا سے خودمختاری سے اُسے سخت نفرت تھی۔‏ ”‏[‏مَیں]‏ اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتا،‏“‏ اُس نے کہا۔‏ ”‏مَیں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اُسے [‏خدا کو]‏ پسند آتے ہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۴:‏۳۴؛‏ یوحنا ۸:‏۲۸،‏ ۲۹‏)‏ پس انسانوں سے بادشاہی حاصل کرنے کا الہٰی اختیار نہ ہونے کی وجہ سے یسوع نے اسے قبول کرنے کی بابت کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔‏ تاہم اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ ساتھی انسانوں کی مدد کرنے سے ہچکچاتا تھا۔‏ اسکے برعکس اُس نے اُس وقت زیادہ سے زیادہ خوشی حاصل کرنے کیلئے لوگوں کی خوب مدد کی تھی اور وہ مستقبل میں بھی ایسا ہی کریگا۔‏ اُس نے تو نسلِ‌انسانی کیلئے اپنی جان بھی دے دی تھی۔‏ (‏متی ۵:‏۳-‏۱۱؛‏ متی ۷:‏۲۴-‏۲۷؛‏ یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ تاہم یسوع جانتا تھا کہ ”‏ہر چیز کا .‏ .‏ .‏ ایک وقت“‏ ہے جس میں نوعِ‌انسان پر اپنی حاکمیت کو قائم کرنے کے لئے خدا کا مقررہ وقت بھی شامل ہے۔‏ (‏واعظ ۳:‏۱؛‏ متی ۲۴:‏۱۴،‏ ۲۱،‏۲۲،‏ ۳۶-‏۳۹‏)‏ تاہم یاد کریں کہ ہمارے پہلے والدین نے عدن میں ایک حقیقی سانپ کے ذریعے ہمکلام ہونے والی ایک شریر روحانی مخلوق کی اطاعت کی تھی۔‏ اس سے ہمیں یسوع کے سیاست میں حصہ نہ لینے کی ایک اَور وجہ کا پتہ چلتا ہے۔‏

اس دُنیا کا نادیدہ حکمران

بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ شیطان نے یسوع کو ایک سجدے کے عوض ”‏دُنیا کی سب سلطنتیں اور اُنکی شان‌وشوکت“‏ پیش کی تھی۔‏ (‏متی ۴:‏۸-‏۱۰‏)‏ بنیادی طور پر یسوع کو ابلیس کی شرائط کے مطابق عالمی حکمرانی کی پیشکش کی گئی تھی۔‏ یسوع اس آزمائش سے مغلوب نہیں ہوا تھا۔‏ تاہم کیا یہ واقعی ایک آزمائش تھی؟‏ کیا شیطان حقیقت میں ایسی عظیم‌الشان پیشکش کر سکتا تھا؟‏ جی‌ہاں،‏ کیونکہ یسوع نے بذاتِ‌خود ابلیس کو ”‏دُنیا کا سردار“‏ کہا اور پولس رسول نے اُسے ”‏اِس جہان کے خدا“‏ کے طور پر بیان کِیا۔‏—‏یوحنا ۱۴:‏۳۰؛‏ ۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴؛‏ افسیوں ۶:‏۱۲‏۔‏

بِلاشُبہ یسوع جانتا تھا کہ ابلیس درحقیقت نسلِ‌انسانی کے بہترین مفادات کا خواہاں نہیں ہے۔‏ اُس نے شیطان کو ”‏خونی“‏ اور ”‏تمام جھوٹ اور فریب کا باپ“‏ بیان کِیا۔‏ (‏یوحنا ۸:‏۴۴‏،‏ دی ایمپلی‌فائید بائبل‏)‏ صاف ظاہر ہے کہ ایسی شریر رُوح کے ”‏قبضہ میں پڑی ہوئی“‏ دُنیا کبھی حقیقی طور پر خوش نہیں رہ سکتی۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ تاہم یہ اختیار شیطان کے پاس ہمیشہ نہیں رہیگا۔‏ یسوع جو اب ایک طاقتور روحانی مخلوق ہے بہت جلد شیطان کو ہٹا کر اسکے اختیار کو مکمل طور پر ختم کر دیگا۔‏—‏عبرانیوں ۲:‏۱۴؛‏ مکاشفہ ۲۰:‏۱-‏۳‏۔‏

شیطان خود بھی جانتا ہے کہ دُنیا کے حاکم کے طور پر اُس کے دن ختم ہونے والے ہیں۔‏ لہٰذا طوفانِ‌نوح سے پہلے کی طرح وہ آج بھی انسانوں کے اندر ناقابلِ‌اصلاح بگاڑ پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔‏ (‏پیدایش ۶:‏۱-‏۵؛‏ یہوداہ ۶‏)‏ مکاشفہ ۱۲:‏۱۲ بیان کرتی ہے،‏ ”‏اَے خشکی اور تری تم پر افسوس!‏ کیونکہ ابلیس بڑے قہر میں تمہارے پاس اُتر کر آیا ہے۔‏ اِسلئےکہ جانتا ہے کہ میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔‏“‏ بائبل پیشینگوئی اور دُنیا کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اس ’‏تھوڑے سے وقت‘‏ کے اختتامی دور میں رہ رہے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ نجات بہت قریب ہے۔‏

خوشی کی مظہر حکومت

یسوع کے سیاست میں حصہ نہ لینے کی تیسری وجہ یہ تھی کہ وہ جانتا تھا کہ خدا مستقبل میں ایک مقررہ وقت پر زمین پر حکمرانی کیلئے ایک آسمانی حکومت قائم کریگا۔‏ بائبل اس حکومت کو خدا کی بادشاہت کا نام دیتی ہے اور یہ یسوع کی تعلیمات کا بنیادی موضوع تھی۔‏ (‏لوقا ۴:‏۴۳؛‏ مکاشفہ ۱۱:‏۱۵‏)‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو اُس بادشاہت کے قیام کیلئے دُعا کرنا سکھائی کیونکہ فقط اسی کے تحت ’‏خدا کی مرضی جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی پوری ہوگی۔‏‘‏ (‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ آپ شاید سوچیں،‏ ’‏اگر یہ بادشاہت پوری زمین پر حکمرانی کریگی توپھر انسان‌ساختہ حکومتوں کا کیا ہوگا؟‏‘‏

اسکا جواب دانی‌ایل ۲:‏۴۴ میں ملتا ہے:‏ ”‏اُن بادشاہوں [‏موجودہ نظام کے خاتمے کے وقت حکمرانی کرنے والے حکمران]‏ کے ایّام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کریگا جو تاابد نیست نہ ہوگی اور اُسکی حکومت کسی دوسری قوم کے حوالہ نہ کی جائیگی بلکہ وہ اِن تمام [‏انسان‌ساختہ]‏ مملکتوں کو ٹکڑےٹکڑے اور نیست کریگی اور وہی ابدتک قائم رہیگی۔‏“‏ خدا کی بادشاہت زمینی حکومتوں کو کیوں ”‏نیست“‏ کریگی؟‏ اِسلئے کہ یہ خدا کی مخالف خودمختاری کی اُس روح کی پیروی کی حمایت کرتی ہیں جس کا آغاز شیطان نے باغِ‌عدن میں کِیا تھا۔‏ اِس روح کے پیروکار نسلِ‌انسانی کے بہترین مفادات کے خلاف کام کرنے کے علاوہ خالق کی مخالفت کرنے والی تباہ‌کُن روش پر چلتے ہیں۔‏ (‏زبور ۲:‏۶-‏۱۲؛‏ مکاشفہ ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۶‏)‏ پس ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے،‏ ’‏کیا ہم خدا کی حکمرانی کی حمایت کرتے ہیں یا اسکی مخالفت کرتے ہیں؟‏‘‏

آپ کس کی حاکمیت کا انتخاب کرینگے؟‏

یسوع نے اپنے شاگردوں کو حکمرانی کی بابت ایک باشعور فیصلہ کرنے میں لوگوں کی مدد کرنے کیلئے اس نظام‌اُلعمل کے خاتمے سے پہلے ’‏تمام دُنیا میں سب قوموں کو بادشاہی کی اِس خوشخبری کی گواہی‘‏ دینے کی تفویض سونپی تھی۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ آجکل کون لوگ تمام دُنیا میں خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے کے لئے مشہور ہیں؟‏ یہ یہوواہ کے گواہ ہیں۔‏ درحقیقت،‏ اس رسالے کے سرِورق پر عرصۂ‌دراز سے یہ الفاظ نظر آتے ہیں،‏ ”‏یہوواہ کی بادشاہت کا اعلان کر رہا ہے۔‏“‏ آج تقریباً چھ ملین گواہ ۲۳۰ سے زائد ممالک میں لوگوں کی اس بادشاہت کی بابت صحیح علم حاصل کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔‏ *

بادشاہتی رعایا کیلئے برکات

یسوع نے ہمیشہ خدائی طریقے سے کام کِیا۔‏ لہٰذا،‏ اُس نے ایک خودمختارانہ روش کا انتخاب کرنے اور سیاسی ذرائع سے موجودہ نظام‌اُلعمل کی حمایت کرنے یا بہتری لانے کی کوشش کرنے کی بجائے دُنیا کے مسائل کے واحد حل،‏ خدائی بادشاہت کے مفادات کو فروغ دینے کیلئے سخت جدوجہد کی تھی۔‏ اُسکی وفاداری کیلئے اُسے اس بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر آسمان میں جلالی تخت عطا کِیا گیا تھا۔‏ خدا کے لئے اُس کی اطاعت کا کیا ہی شاندار اجر!‏—‏دانی‌ایل ۷:‏۱۳،‏ ۱۴‏۔‏

آجکل خدا کی بادشاہت کو مقدم رکھنے اور اسکی مرضی بجا لانے میں یسوع کی نقل کرنے والے ہزاروں لوگ بھی ایک شاندار اجر،‏ خدائی بادشاہت کی زمینی رعایا بننے کے شرف سے مستفید ہونگے۔‏ (‏متی ۶:‏۳۳‏)‏ انہیں اس پُرمحبت حکمرانی کے تحت ہمیشہ کی زندگی کے امکان کیساتھ انسانی کاملیت تک پہنچایا جائیگا۔‏ (‏مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏)‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۱۷ بیان کرتی ہے:‏ ”‏دُنیا اور اُس کی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔‏“‏ شیطان اور اُس کے پیروکاروں کی تباہی اور تفرقہ پیدا کرنے والی قوم‌پرستی،‏ بدکار تجارتی نظام اور جھوٹے مذہب سے پاک زمین کے ایک عالمگیر فردوس میں تبدیل ہو جانے کے بعد یہاں ہمیشہ زندہ رہنا کس قدر پُرمسرت تجربہ ہوگا!‏—‏زبور ۳۷:‏۲۹؛‏ ۷۲:‏۱۶‏۔‏

جی‌ہاں،‏ خدا کی بادشاہت ایک خوش‌آئند دُنیا کی حقیقی کُنجی ہے اور اسکا اعلان کرنے والے پیغام کو موزوں طور پر خوشخبری کہا گیا ہے۔‏ اگر آپ نے ابھی تک ایسا نہیں کِیا تو اگلی بار جب یہوواہ کے گواہ آپکے گھر آئیں تو کیوں نہ اس خوشخبری کو قبول کرنے کا عزم کریں؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 16 خدا کی بادشاہت کی حمایت کرتے ہوئے یہوواہ کے گواہ ایسے ممالک میں بھی سیاست میں حصہ نہیں لیتے یا دُنیوی حکومتوں کے خلاف بغاوت کو ہوا نہیں دیتے جہاں انہیں پابندی یا اذیت کا سامنا ہے۔‏ (‏ططس ۳:‏۱‏)‏ اس کے برعکس وہ یسوع اور اُس کے پہلی صدی کے شاگردوں کی طرح مفید روحانی اور غیرسیاسی مدد پیش کرتے ہیں۔‏ گواہ خلوصدل لوگوں کو اپنے مختلف علاقوں میں خاندانی محبت،‏ دیانتداری،‏ اخلاقی پاکیزگی اور کام کی اچھی عادات جیسی بائبل کی صحتمندانہ اقدار اپنانے میں مدد دیتے ہیں۔‏ بنیادی طور پر وہ انہیں بائبل اُصولوں کی پیروی کرنے نیز نسلِ‌انسانی کی حقیقی اُمید کے طور پر خدا کی بادشاہت پر توکل کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویریں]‏

تاریخ ثابت کرتی ہے کہ انسان خدا کے بغیر کامیابی سے حکمرانی نہیں کر سکتا

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

شیطان اس موجودہ ”‏جہان“‏ پر حکمرانی کرتا ہے لہٰذا وہ یسوع کو ”‏دُنیا کی سب سلطنتیں“‏ پیش کر سکتا تھا

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویریں]‏

یسوع نے یہ تعلیم دی کہ خدا کے بادشاہتی نظام میں یہ دُنیا ایک شاندار جگہ ہوگی