مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کو خوش کرنے والا دل پیدا کریں

یہوواہ کو خوش کرنے والا دل پیدا کریں

یہوواہ کو خوش کرنے والا دل پیدا کریں

‏”‏اَے خدا!‏ میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے باطن میں ازسرِنو مستقیم روح ڈال۔‏“‏ —‏زبور ۵۱:‏۱۰‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ ہمیں اپنے دل میں کیوں دلچسپی لینی چاہئے؟‏

وہ دراز قد اور خوب‌رُو جوان تھا۔‏ اُسے دیکھکر سموئیل نبی اسقدر متاثر ہوا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یسی کے اس سب سے بڑے بیٹے ہی کو خدا نے ساؤل کے بعد بادشاہ ہونے کیلئے چُنا ہے۔‏ لیکن یہوواہ نے بیان کِیا:‏ ”‏اُس [‏بیٹے]‏ کے چہرہ اور اُسکے قد کی بلندی کو نہ دیکھ اِسلئےکہ مَیں نے اُسے ناپسند کِیا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر [‏یہوواہ]‏ دل پر نظر کرتا ہے۔‏“‏ یہوواہ نے یسی کے سب سے چھوٹے بیٹے داؤد کو جو—‏”‏اُس کے دل کے مطابق ہے“‏—‏چن لیا۔‏—‏۱-‏سموئیل ۱۳:‏۱۴؛‏ ۱۶:‏۷‏۔‏

۲ خدا انسان کا دل پڑھ سکتا ہے جیسے کہ اس نے بعدازاں واضح کِیا:‏ ”‏مَیں [‏یہوواہ]‏ دل‌ودماغ کو جانچتا اور آزماتا ہوں تاکہ ہر ایک آدمی کو اُس کی چال کے موافق اور اُس کے کاموں کے پھل کے مطابق بدلہ دوں۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۱۷:‏۱۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ ”‏دلوں کو [‏یہوواہ]‏ پرکھتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۷:‏۳‏)‏ تاہم،‏ یہوواہ انسان کے دل میں کس بات کو پرکھتا ہے؟‏ نیز ہم اُس کو خوش کرنے والا دل پیدا کرنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟‏

‏”‏باطنی اور پوشیدہ انسانیت“‏

۳،‏ ۴.‏ بائبل میں لفظ ”‏دل“‏ بنیادی طور پر کس مفہوم میں استعمال ہوا ہے؟‏ مثالیں دیں۔‏

۳ لفظ ”‏دل“‏ پاک صحائف میں تقریباً ایک ہزار مرتبہ آتا ہے۔‏ بیشتر معاملات میں اسے علامتی مفہوم میں استعمال کِیا گیا ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ یہوواہ نے موسیٰ نبی سے فرمایا:‏ ”‏بنی اِسرائیل سے یہ کہنا کہ میرے لئے نذر لائیں اور تم اُن ہی سے میری نذر لینا جو اپنے دل کی خوشی سے دیں۔‏“‏ اور ”‏جس جس کے دل میں رغبت ہوئی“‏ وہ ہدیہ لایا۔‏ (‏خروج ۲۵:‏۲؛‏ ۳۵:‏۲۱‏)‏ واضح طور پر،‏ علامتی دل کا ایک پہلو تحریک یعنی وہ باطنی قوت ہے جو ہمیں کچھ کرنے کی اُکساہٹ دیتی ہے۔‏ ہمارا علامتی دل ہمارے جذبات‌واحساسات،‏ ہماری خواہشات اور چاہتوں کی عکاسی کرتا ہے۔‏ دل قہرآلود یا خوفزدہ،‏ غمزدہ یا مسرور بھی ہو سکتا ہے۔‏ (‏زبور ۲۷:‏۳؛‏ ۳۹:‏۳؛‏ یوحنا ۱۶:‏۲۲؛‏ رومیوں ۹:‏۲‏)‏ یہ مغرور یا فروتن،‏ محبت‌آمیز یا نفرت‌انگیز بھی ہو سکتا ہے۔‏—‏امثال ۱۶:‏۵؛‏ متی ۱۱:‏۲۹؛‏ ۱-‏پطرس ۱:‏۲۲‏۔‏

۴ چنانچہ،‏ ”‏دل“‏ کا تعلق اکثر تحریک اور جذبات سے جبکہ ’‏دماغ‘‏ کا تعلق بالخصوص ”‏ذہانت“‏ سے ہوتا ہے۔‏ جب صحائف میں یہ اصطلاحیں ایک ہی عبارت میں آتی ہیں تو ان سے یہی مفہوم لینا چاہئے۔‏ (‏متی ۲۲:‏۳۷؛‏ فلپیوں ۴:‏۷‏)‏ لیکن دل‌ودماغ ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ موسیٰ نے اسرائیلیوں کو تاکید کی:‏ ”‏تُو .‏ .‏ .‏ اِس بات کو اپنے دل [‏یا ”‏ذہن میں بٹھا لے،‏“‏ فٹ‌نوٹ،‏ این‌ڈبلیو‏]‏ میں جما لے کہ .‏ .‏ .‏ [‏یہوواہ]‏ ہی خدا ہے۔‏“‏ (‏استثنا ۴:‏۳۹‏)‏ یسوع نے اپنے خلاف منصوبے بنانے والے فریسیوں سے کہا:‏ ”‏تم کیوں اپنے دلوں میں بُرے خیال لاتے ہو؟‏“‏ (‏متی ۹:‏۴‏)‏ ’‏سمجھ،‏‘‏ ”‏علم“‏ اور ’‏استدلال کرنے‘‏ کا تعلق بھی دل سے ہے۔‏ (‏۱-‏سلاطین ۳:‏۱۲؛‏ امثال ۱۵:‏۱۴؛‏ مرقس ۲:‏۶‏)‏ لہٰذا،‏ علامتی دل میں ہماری عقل،‏ ہماری سوچ یا ہماری سمجھ بھی شامل ہو سکتی ہے۔‏

۵.‏ علامتی دل کس کی نمائندگی کرتا ہے؟‏

۵ ایک کتاب کے مطابق،‏ علامتی دل ”‏عموماً مرکزی حصہ،‏ باطن کی علامت ہوتا ہے لہٰذا،‏ یہ باطنی شخص اپنی تمام کارگزاریوں،‏ خواہشات،‏ چاہتوں،‏ احساسات،‏ جذبات،‏ مقاصد،‏ خیالات،‏ نظریات،‏ تصورات،‏ دانش،‏ علم،‏ مہارت،‏ اعتقادات،‏ استدلال،‏ یادداشت اور شعور میں خود کو ظاہر کرتا ہے۔‏“‏ یہ درحقیقت ہمارے باطن یعنی ہماری ”‏باطنی اور پوشیدہ انسانیت“‏ کی نمائندگی کرتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۴‏)‏ یہوواہ اسی کو دیکھتا اور جانچتا ہے۔‏ چنانچہ،‏ داؤد دُعا کر سکتا تھا:‏ ”‏اَے خدا!‏ میرے اندر پاک دل پیدا کر اور میرے باطن میں ازسرِنو مستقیم روح ڈال۔‏“‏ (‏زبور ۵۱:‏۱۰‏)‏ ہم پاک دل کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

خدا کے کلام پر ”‏دل لگانا“‏

۶.‏ جب اسرائیلی موآب کے میدانوں میں خیمہ‌زن تھے تو موسیٰ نے انہیں کیا نصیحت کی تھی؟‏

۶ ملکِ‌موعود میں داخل ہونے سے پہلے،‏ موآب کے میدانوں میں بنی اسرائیل کی جماعت کو نصیحت کرتے وقت موسیٰ نے کہا:‏ ”‏جو باتیں مَیں نے تم سے آج کے دن بیان کی ہیں اُن سب سے تم دل لگانا اور اپنے لڑکوں کو حکم دینا کہ وہ احتیاط رکھ کر اس شریعت کی سب باتوں پر عمل کریں۔‏“‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴۶‏)‏ اسرائیلیوں کو ”‏خوب دھیان دینا“‏ تھا۔‏ ‏(‏نوکس)‏ خدا کے احکام سے اچھی طرح واقف ہونے ہی سے وہ انہیں اپنی اولاد کے دل میں جاگزین کر سکتے تھے۔‏—‏استثنا ۶:‏۶-‏۸‏۔‏

۷.‏ خدا کے کلام پر ’‏اپنا دل لگانے‘‏ میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۷ ایک پاک دل پیدا کرنے کے لئے ایک کلیدی تقاضا یہ ہے کہ خدا کی مرضی اور مقاصد کی بابت صحیح علم حاصل کریں۔‏ صرف خدا کا الہامی کلام ہی ایسے علم کا واحد ماخذ ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ تاہم،‏ محض دماغی علم یہوواہ کو خوش کرنے والا دل پیدا کرنے میں ہماری مدد نہیں کرے گا۔‏ علم کو اپنے باطن پر اثرانداز ہونے کی اجازت دینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جوکچھ ہم سیکھ رہے ہیں ’‏اپنے دل اُس پر لگائیں۔‏‘‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴۶‏)‏ یہ کیسے کِیا جا سکتا ہے؟‏ زبورنویس داؤد نے بیان کِیا:‏ ”‏مَیں گذشتہ زمانوں کو یاد کرتا ہوں۔‏ مَیں تیرے سب کاموں پر غور کرتا ہوں اور تیری دستکاری پر دھیان کرتا ہوں۔‏“‏—‏زبور ۱۴۳:‏۵‏۔‏

۸.‏ ہمیں مطالعہ کرتے وقت کن سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۸ ہمیں بھی قدردانی کے ساتھ یہوواہ کے کاموں پر غوروخوض کرنا چاہئے۔‏ بائبل یا بائبل پر مبنی مطبوعات پڑھتے وقت،‏ ہمیں ایسے سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے:‏ ’‏یہ مجھے یہوواہ کی بابت کیا سکھاتا ہے؟‏ مَیں یہاں یہوواہ کی کن صفات کو نمایاں دیکھتا ہوں؟‏ یہ سرگزشت مجھے یہوواہ کی پسند اور ناپسند کی بابت کیا تعلیم دیتی ہے؟‏ یہوواہ کی پسندیدہ اور ناپسندیدہ روش پر چلنے کے کیا نتائج ہیں؟‏ جو کچھ مَیں پہلے سے جانتا ہوں یہ معلومات اس سے کیسے تعلق رکھتی ہے؟‏‘‏

۹.‏ ذاتی مطالعہ اور غوروخوض کتنا قابلِ‌قدر ہے؟‏

۹ بتیس سالہ لیزا * بیان کرتی ہے کہ کیسے وہ بامقصد مطالعے اور غوروخوض کی قدروقیمت کو عزیز رکھنے کے قابل ہوئی تھی:‏ ”‏سن ۱۹۹۴ میں اپنے بپتسمے کے بعد،‏ مَیں دو سال تک سچائی میں کافی سرگرم تھی۔‏ مَیں تمام مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوتی،‏ میدانی خدمتگزاری میں ہر ماہ ۳۰ تا ۴۰ گھنٹے صرف کرتی اور ساتھی مسیحیوں کیساتھ رفاقت رکھتی تھی۔‏ اس کے بعد،‏ مَیں نے دُور ہونا شروع کر دیا۔‏ مَیں اسقدر تنزلی کا شکار ہو گئی کہ مَیں نے خدا کے قانون کی خلاف‌ورزی بھی کی۔‏ لیکن مَیں ہوش میں آ گئی اور مَیں نے اپنی زندگی پاک‌صاف بنانے کا فیصلہ کِیا۔‏ مَیں کسقدر خوش ہوں کہ یہوواہ نے میری توبہ کو تسلیم کرتے ہوئے مجھے دوبارہ قبول کر لیا ہے!‏ مَیں اکثر سوچتی ہوں:‏ ’‏مَیں کیوں گِر گئی تھی؟‏‘‏ میرے ذہن میں ہمیشہ یہی جواب آیا کہ مَیں نے بامقصد مطالعہ اور غوروخوض کرنے میں کوتاہی کی تھی۔‏ بائبل سچائی میرے دل تک نہیں پہنچی تھی۔‏ اب سے لیکر ذاتی مطالعہ اور غوروخوض میری زندگی کا نمایاں حصہ رہیگا۔‏“‏ جوں جوں یہوواہ،‏ اس کے بیٹے اور اُسکے کلام کی بابت ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ کتنا ضروری ہے کہ ہم معنی‌خیز غوروخوض کیلئے وقت نکالیں!‏

۱۰.‏ یہ اشد ضروری کیوں ہے کہ ہم ذاتی مطالعے اور غوروخوض کیلئے وقت نکالیں؟‏

۱۰ اس مصروف دُنیا میں،‏ مطالعے اور غوروخوض کے لئے وقت نکالنا واقعی ایک چیلنج ہے۔‏ تاہم،‏ آجکل مسیحی شاندار ملکِ‌موعود—‏خدا کی راست نئی دُنیا—‏کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏)‏ ’‏بڑے بابل‘‏ کی تباہی اور یہوواہ کے لوگوں پر ”‏جُوؔج .‏ .‏ .‏ جو ماجوؔج کی سرزمین کا ہے“‏ کے حملے جیسے چونکا دینے والے واقعات بالکل قریب ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۱۷:‏۱،‏ ۲،‏ ۵،‏ ۱۵-‏۱۷؛‏ حزقی‌ایل ۳۸:‏۱-‏۴،‏ ۱۴-‏۱۶؛‏ ۳۹:‏۲‏)‏ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات یہوواہ کیلئے ہماری محبت کا امتحان لے سکتے ہیں۔‏ یہ اشد ضروری ہے کہ ہم اب خدا کے کلام پر اپنا دل لگانے کیلئے وقت نکالیں!‏—‏افسیوں ۵:‏۱۵،‏ ۱۶‏۔‏

‏’‏اپنے دل کو خدا کے کلام کا طالب ہونے کیلئے آمادہ کریں‘‏

۱۱.‏ ہمارے دل کو مٹی سے تشبِیہ کیسے دی جا سکتی ہے؟‏

۱۱ علامتی دل کو مٹی سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے جس میں سچائی کا بیج بویا جا سکتا ہے۔‏ (‏متی ۱۳:‏۱۸-‏۲۳‏)‏ فصل کی اچھی نشوونما کیلئے عام طور پر زمین تیار کی جاتی ہے۔‏ اسی طرح،‏ دل کو بھی تیار کرنا چاہئے تاکہ یہ خدا کے کلام کے لئے اَور زیادہ اثرپذیر ہو جائے۔‏ عزرا کاہن ”‏آمادہ ہو گیا تھا کہ [‏یہوواہ]‏ کی شریعت کا طالب ہو۔‏“‏ (‏عزرا ۷:‏۱۰‏)‏ ہم اپنے دل کو کیسے آمادہ کر سکتے ہیں؟‏

۱۲.‏ مطالعے کیلئے دل کو تیار کرنے میں کیا چیز ہماری مدد کریگی؟‏

۱۲ جب ہم خدا کے کلام کے طالب ہوتے ہیں تو دل کو آمادہ کرنے کیلئے ایک شاندار تیاری دلی دُعا ہے۔‏ سچے پرستاروں کے مسیحی اجلاسوں کا آغازوبرخاست دُعا سے ہوتا ہے۔‏ یہ بات کس قدر موزوں ہے کہ ہم ذاتی بائبل مطالعے کے ہر دَور کا آغاز مخلصانہ دُعا سے کریں اور اس کے بعد اپنے مطالعے کے دوران دُعائیہ رُجحان برقرار رکھیں!‏

۱۳.‏ ہمیں یہوواہ کو خوش کرنے والا دل پیدا کرنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟‏

۱۳ علامتی دل کو پہلے سے قائم‌شُدہ نظریات کو بالائےطاق رکھ کر تیار کرنا چاہئے۔‏ یسوع کے زمانہ کے مذہبی لیڈر ایسا کرنے کیلئے رضامند نہیں تھے۔‏ (‏متی ۱۳:‏۱۵‏)‏ اس کے برعکس،‏ یسوع کی ماں مریم نے سچائی کی بنیاد پر جو باتیں سنی تھیں ”‏اِن سب باتوں کو اپنے دل میں رکھ کر غور“‏ کِیا۔‏ (‏لوقا ۲:‏۱۹،‏ ۵۱‏)‏ وہ یسوع کی وفادار شاگرد بن گئی۔‏ تھواتیرہ کی لدیہ نے پولس کی باتوں پر دھیان دیا اور ”‏اُسکا دل [‏یہوواہ]‏ نے کھولا تاکہ .‏ .‏ .‏ توجہ کرے۔‏“‏ وہ بھی ایمان لے آئی۔‏ (‏اعمال ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ دُعا ہے کہ ہم کبھی بھی پسندیدہ ذاتی رائے یا نظری عقائد کے ساتھ چمٹے نہ رہیں۔‏ اس کے برعکس،‏ ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے کہ ”‏خدا سچا ٹھہرے اور ہر ایک آدمی جھوٹا۔‏“‏—‏رومیوں ۳:‏۴‏۔‏

۱۴.‏ ہم مسیحی اجلاسوں پر سننے کیلئے اپنے دلوں کو کیسے تیار کر سکتے ہیں؟‏

۱۴ مسیحی اجلاسوں پر سننے والا دل تیار کرنا خاص طور پر اہم ہے۔‏ انتشارِخیال جوکچھ کہا جا رہا ہے اس سے ہماری توجہ ہٹا سکتا ہے۔‏ اگر ہمارے ذہن اس سوچ میں غرق ہیں کہ دن کے دوران کیا واقع ہوا ہے یا کل کیا ہوگا تو جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ ہم پر زیادہ اثر نہیں کریگا۔‏ جوکچھ کہا جا رہا ہے اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کیلئے ہمیں سننے اور سیکھنے کا عزمِ‌مُصمم کرنے کی ضرورت ہے۔‏ جن صحائف کی وضاحت کی جا رہی ہے اور معنی سمجھائے جا رہے ہیں اگر ہم اُنہیں سمجھنے کیلئے پُرعزم ہیں تو ہم بہت زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں!‏—‏نحمیاہ ۸:‏۵-‏۸،‏ ۱۲‏۔‏

۱۵.‏ فروتنی ہمیں اَور زیادہ سیکھنے والا بننے میں کیسے مدد دیتی ہے؟‏

۱۵ جیسے مٹی میں مناسب اجزا شامل کرنے سے اس کی خاصیت بڑھ جاتی ہے اُسی طرح ہمارا فروتنی،‏ روحانیت کیلئے اشتہا،‏ توکل،‏ خدائی خوف اور خدا کیلئے محبت پیدا کرنا ہمارے علامتی دلوں کو توانا بنا سکتا ہے۔‏ فروتنی دل کو نرم کرتی ہے اور ہمیں زیادہ سیکھنے والا بناتی ہے۔‏ یہوواہ نے شاہِ‌یہوداہ یوسیاہ سے فرمایا:‏ ”‏چونکہ تیرا دل نرم ہے اور جب تُو نے وہ بات سنی جو مَیں نے .‏ .‏ .‏ کہی .‏ .‏ .‏ عاجزی کی .‏ .‏ .‏ اور میرے آگے رویا۔‏ سو مَیں نے بھی تیری سُن لی۔‏“‏ (‏۲-‏سلاطین ۲۲:‏۱۹‏)‏ یوسیاہ کا دل فروتن اور اثرپذیر تھا۔‏ فروتنی نے یسوع کے ”‏اَن‌پڑھ اور ناواقف“‏ شاگردوں کو ایسی روحانی سچائیاں سمجھنے اور اُنکا اطلاق کرنے کے قابل بنایا جنہیں ’‏دانا اور عقلمند‘‏ آدمی نہیں سمجھ پائے تھے۔‏ (‏اعمال ۴:‏۱۳؛‏ لوقا ۱۰:‏۲۱‏)‏ دُعا ہے کہ جب ہم یہوواہ کو خوش کرنے والا دل پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم ”‏اپنے خدا کے حضور .‏ .‏ .‏ فروتن بنیں۔‏“‏—‏عزرا ۸:‏۲۱‏۔‏

۱۶.‏ روحانی خوراک کیلئے بھوک پیدا کرنے کیلئے کوشش کیوں درکار ہوتی ہے؟‏

۱۶ یسوع نے فرمایا:‏ ”‏مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۳‏)‏ اگرچہ ہمیں روحانیت عطا کی گئی ہے توبھی اس بدکار دُنیا کے دباؤ یا سُستی جیسے خصائل ہمیں اپنی ضرورت سے غافل کر سکتے ہیں۔‏ (‏متی ۴:‏۴‏)‏ ہمیں روحانی خوراک کیلئے صحتمندانہ بھوک کو بڑھانا چاہئے۔‏ اگر ہمیں شروع شروع میں بائبل پڑھائی اور ذاتی مطالعہ کرنا اچھا نہ بھی لگے توبھی مستقل‌مزاجی سے ہم یہ دیکھینگے کہ علم ’‏ہماری جان کو اسقدر مرغوب ہوگا‘‏ کہ ہم مطالعے کے اوقات کا شدت سے انتظار کرینگے۔‏—‏امثال ۲:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

۱۷.‏ (‏ا)‏ یہوواہ ہمارے پورے بھروسے کے لائق کیوں ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم خدا پر بھروسے کو کیسے فروغ دیتے ہیں؟‏

۱۷ سلیمان بادشاہ نے تاکید کی:‏ ”‏سارے دل سے [‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔‏“‏ (‏امثال ۳:‏۵‏)‏ یہوواہ پر توکل کرنے والا دل جانتا ہے کہ اپنے کلام کے ذریعے خدا کی ہدایت‌وراہنمائی ہمیشہ درست ہوتی ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۸:‏۱۷‏)‏ یہوواہ واقعی قابلِ‌بھروسا ہے۔‏ وہ اپنے تمام مقاصد کو پورا کرنے کے قابل ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۶،‏ ۲۹‏)‏ اس کے نام کا لفظی مطلب ”‏مسبّب‌الاسباب“‏ ہے جو کہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی اس کی صلاحیت پر اعتماد کو مضبوط کرتا ہے!‏ وہ ”‏اپنی سب راہوں میں صادق اور اپنے سب کاموں میں رحیم ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۴۵:‏۱۷‏)‏ یقیناً،‏ اس پر بھروسا رکھنے کیلئے جو کچھ ہم بائبل سے سیکھتے ہیں اس کا اپنی زندگی پر اطلاق کرنے اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد پر غور کرنے سے ہمیں ”‏آزما کر“‏ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کیسا مہربان ہے۔‏“‏—‏زبور ۳۴:‏۸‏۔‏

۱۸.‏ خدائی خوف خدا کی ہدایت سے اثرپذیر ہونے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏

۱۸ ہمارے دل کو الہٰی ہدایت سے اثرپذیر ہونے کی طرف مائل کرنے والی ایک اَور خوبی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلیمان نے بیان کِیا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ سے ڈر اور بدی سے کنارہ کر۔‏“‏ (‏امثال ۳:‏۷‏)‏ یہوواہ نے قدیم اسرائیل کی بابت بیان کِیا:‏ ”‏کاش اُن میں ایسا ہی دل ہو تاکہ وہ میرا خوف مانکر ہمیشہ میرے سب حکموں پر عمل کرتے تاکہ سدا اُن کا اور اُن کی اولاد کا بھلا ہوتا!‏“‏ (‏استثنا ۵:‏۲۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ خدا کا خوف ماننے والے اُس کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔‏ یہوواہ ”‏اُن کی امداد میں جنکا دل اُس کی طرف کامل ہے اپنے تیئں قوی [‏دکھانے]‏“‏ اور اس کی نافرمانی کرنے والوں کو سزا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۶:‏۹‏)‏ دُعا ہے کہ خدا کو ناراض کرنے کا مؤدبانہ خوف ہمارے تمام کاموں،‏ خیالوں اور جذبوں پر اثرانداز ہو۔‏

‏’‏اپنے سارے دل سے یہوواہ سے محبت کریں‘‏

۱۹.‏ یہوواہ کی ہدایت کیلئے اپنے دلوں کو اثرپذیر ہونے کی طرف مائل کرنے میں محبت کیا کردار ادا کرتی ہے؟‏

۱۹ محبت دیگر تمام خوبیوں سے زیادہ ہمارے دل کو یہوواہ کی ہدایت سے واقعی اثرپذیر ہونے کی طرف مائل کرتی ہے۔‏ خدا کیلئے محبت سے معمور دل ایک شخص کو یہ جاننے کا مشتاق بناتا ہے کہ خدا کن چیزوں سے خوش اور ناراض ہوتا ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏)‏ یسوع نے فرمایا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔‏“‏ (‏متی ۲۲:‏۳۷‏)‏ دُعا ہے کہ ہم خدا کی نیکی پر غور کرنے کو اپنا شعار بناتے ہوئے،‏ ایک قریبی دوست کی طرح اس سے باقاعدہ گفتگو کرتے ہوئے اور اشتیاق کیساتھ اس کی بابت دوسروں کو بتانے سے خدا کیلئے اپنی محبت کو فروغ دیں۔‏

۲۰.‏ ہم یہوواہ کو خوش کرنے والا دل کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟‏

۲۰ بطور اعادہ:‏ خدا کو خوش کرنے والا دل پیدا کرنے میں خدا کے کلام کو اپنے باطن یعنی باطنی اور پوشیدہ انسانیت پر اثرانداز ہونے کی اجازت دینا شامل ہے۔‏ صحائف کا معنی‌خیز ذاتی مطالعہ اور قدردانی کے ساتھ غوروخوض لازمی ہے۔‏ ایک آمادہ دل سے ایسا کرنا آسان ہے—‏ایک ایسا دل جو پہلے سے قائم‌شُدہ نظریات سے پاک اور ایسی خوبیوں سے معمور ہوتا ہے جو ہمیں قابلِ‌آموز بناتی ہیں!‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ کی مدد کیساتھ ایک اچھا دل پیدا کِیا جا سکتا ہے۔‏ تاہم،‏ ہم اپنے دل کی حفاظت کرنے کیلئے کونسے اقدام اُٹھا سکتے ہیں؟‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 نام تبدیل کر دئے گئے ہیں۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• علامتی دل کیا ہے جسے یہوواہ دیکھتا ہے؟‏

‏• ہم کیسے خدا کے کلام پر ’‏اپنا دل لگا‘‏ سکتے ہیں؟‏

‏• ہمیں خدا کے کلام کے طالب ہونے کیلئے اپنے دلوں کو کیسے آمادہ کرنا چاہئے؟‏

‏• اس مواد پر غوروخوض کرنے کے بعد،‏ آپ کیا کرنے کی تحریک پاتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

داؤد نے روحانی باتوں پر قدردانی سے غوروخوض کِیا۔‏ کیا آپ بھی ایسا کرتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویریں]‏

خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے سے پہلے اپنے دل کو تیار کریں