آپکو ایک تربیتیافتہ ضمیر کی ضرورت ہے
آپکو ایک تربیتیافتہ ضمیر کی ضرورت ہے
ایئر نیوزیلینڈ کی انٹارکٹیکا جانے والی فلائٹ ۹۰۱ کے مسافروں کا خیال تھا کہ یہ دن اُنکی زندگی کا یادگار دن ہوگا۔ جب یہ تین انجنوں والا ڈیسی-۱۰ ہوائی جہاز اپنے مسافروں کو انٹارکٹیکا کے شاندار برفانی نظاروں سے محظوظ ہونے کا موقع مہیا کرنے کی غرض سے کم اُونچائی پر پرواز کرتا ہوا اِس برّاعظم کے قریب پہنچا تو تمام کیمرے تصاویر کیلئے تیار ہو گئے اور ایک جشن کا سا سماں پیدا ہو گیا۔
جہاز کا کپتان ۱۵ سال سے پائلٹ تھا اور ۰۰۰،۱۱ گھنٹوں کے ہوائی سفر کا تجربہ رکھتا تھا۔ اُس نے پرواز سے پہلے اپنے جہاز کے کمپیوٹر میں ہوائی سفر کی بابت تمام اہم تفصیلات بڑی احتیاط کیساتھ محفوظ کر لی تھیں لیکن وہ اس بات سے بےخبر تھا کہ اُسے غلط اعدادوشمار دئے گئے ہیں۔ تقریباً ۰۰۰،۲ فٹ سے کم بلندی پر ایک بادل سے گزرتے ہوئے ڈیسی-۱۰ ماؤنٹ ایریبس سے ٹکرا گیا اور اس میں موجود تمام ۲۵۷ مسافر ہلاک ہو گئے۔
آجکل جس طرح ہوائی جہاز بادلوں میں اُڑتے ہوئے راہنمائی کے لئے کمپیوٹرز پر بھروسا کرتے ہیں اسی طرح انسانوں کو بھی زندگی کے سفر میں راہنمائی کے لئے ضمیر عطا کِیا گیا ہے۔ فلائٹ ۹۰۱ کا افسوسناک حادثہ ہمیں اپنے ضمیر کی بابت اہم سبق سکھا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، جس طرح محفوظ پرواز کیلئے جہاز کی رفتاروسمت کے نظام کی مناسب کارکردگی اور درست راہنما اُصولوں کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ہماری روحانی، اخلاقی اور جسمانی خوشحالی کا انحصار بھی درست اخلاقی راہنما اصول قبول کرنے والے ضمیر پر ہوتا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ آجکل کی دُنیا میں ایسے راہنما اصول بڑی تیزی سے معدوم یا غفلت کا شکار ہو رہے ہیں۔ امریکہ کی ایک ماہرِتعلیم بیان کرتی ہے: ”ہم آجکل ایسی باتیں عموماً سنتے ہیں کہ ریاستہائےمتحدہ میں اوسطاً سکول جانے والے بچے کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا اور اُسے نقشے پر فرانس کی شناخت کرنا بھی مشکل لگتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ عام طور پر ایسے بچے صحیح اور غلط میں امتیاز بھی نہیں کر پاتے۔ ہمیں ناخواندگی، سائنس اور ریاضی کے علم میں کمی کے علاوہ بیشمار تعلیمی مسائل میں شدید اخلاقی ابتری کو بھی شامل کر لینا چاہئے۔“ اس نے یہ بھی بیان کِیا کہ ”آجکل کے نوجوان لوگ اخلاقی جہالت میں رہتے ہیں۔ اگر کسی نوجوان سے ’صحیح اور غلط‘ کی بابت پوچھا جائے تو وہ پریشان، گمسُم اور گھبرایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ . . . کالج جانے کے بعد یہ ابتری کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ جاتی ہے۔“
اس ابتری کی ایک وجہ اخلاقی نسبتیت کا مقبول نظریہ ہے۔ اس نظریے کے مطابق معیاروں کا انحصار ذاتی یا ثقافتی ترجیحات پر ہوتا ہے۔ تصور کریں کہ اگر پائلٹ کو مُتعیّن راہنما اُصولوں کی بجائے نظروں سے اوجھل ہو جانے والے ناقابلِبھروسا اشاروں کے مطابق جہاز اُڑانا پڑتا تو کیا ہوتا! ایسی صورت میں بِلاشُبہ ماؤنٹ ایریبس جیسے حادثات بہت ہی عام ہوتے۔ اسی طرح مُتعیّن اخلاقی معیار ترک کرنے کے باعث دُنیا مصیبت اور موت کی فصل کاٹ رہی ہے کیونکہ بےوفائی کی وجہ سے خاندان شکستوریخت اور لاکھوں لوگ ایڈز یا دیگر جنسی تعلقات سے لگنے والی بیماریوں کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
اخلاقی نسبتیت بظاہر ایک جدید نظریہ دکھائی دے سکتا ہے لیکن درحقیقت اس کے پیروکار قدیم نینوہ کے لوگوں کی طرح ہیں جو ’اپنے دہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کر سکتے تھے۔‘ اخلاقی نسبتیت پر عمل کرنے والے اُن برگشتہ اسرائیلیوں کی مانند ہیں جو ”بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی کہتے“ تھے۔—یوناہ ۴:۱۱؛ یسعیاہ ۵:۲۰۔
۲-تیمتھیس ۳:۱۶) یہ صدیوں سے مکمل طور پر قابلِبھروسا ثابت ہوئی ہے۔ بائبل کے اخلاقی معیار چونکہ بلندترین اقتدار کے مالک ہمارے خالق نے وضع کئے ہیں اسلئے یہ تمام انسانوں کیلئے موزوں ہیں۔ پس ہمارے پاس اخلاقی طور پر ابتر زندگی بسر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
پس، ہم ایک محفوظ راہنما کے طور پر اپنے ضمیر کی تربیت کیلئے واضح اور قابلِفہم قوانین اور اصول کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟ ہزارہا لوگوں نے محسوس کِیا ہے کہ بائبل اس ضرورت کو بخوبی پورا کرتی ہے۔ اخلاقیت سے لیکر آدابواطوار اور بچوں کی تربیت سے لیکر خدا کی پرستش تک بائبل ہر اہم پہلو پر روشنی ڈالتی ہے۔ (تاہم، آجکل آپکا ضمیر پہلے سے کہیں زیادہ حملوں کا نشانہ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ نیز آپ اپنے ضمیر کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں پہلے اس حملے کے ماخذ اور اس کے ہتھکنڈوں کا علم حاصل کرنا دانشمندانہ روش ہوگی۔ اگلا مضمون انہی باتوں کو زیرِبحث لائیگا۔