نوح کا ایمان دُنیا کو مجرم ٹھہراتا ہے
نوح کا ایمان دُنیا کو مجرم ٹھہراتا ہے
کیا آپ نے خداترس شخص نوح کی بابت سنا ہے جس نے عالمگیر طوفان سے زندگی کے بچاؤ کیلئے کشتی بنائی تھی؟ یہ کہانی بہت پُرانی ہے مگر لاکھوں لوگ اس سے واقف ہیں۔ تاہم بہتیرے یہ نہیں سمجھتے کہ نوح کی زندگی ہم سب کیلئے پُرمعنی ہے۔
ہمیں ایسے ہزاروں سال پُرانے واقعے میں دلچسپی کیوں لینی چاہئے؟ کیا نوح اور ہمارے حالات میں کوئی مشابہت پائی جاتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہم اُسکی مثال سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟
زمانۂنوح کی دُنیا
بائبل تاریخ کے مطابق نوح کی پیدائش ۲۹۷۰ ق.س.ع. میں آدم کی موت کے ۱۲۶ سال بعد ہوئی۔ نوح کے زمانہ تک زمین تشدد سے پُر تھی اور آدم کی اولاد میں سے اکثریت نے اپنے سرکش جد کے نمونے پر چلنے کا انتخاب کر لیا تھا۔ لہٰذا ”[یہوواہ] نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اُسکے دل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں۔“—پیدایش ۶:۵، ۱۱، ۱۲۔
انسانی بغاوت یہوواہ کی ناپسندیدگی کی واحد وجہ نہیں تھی۔ پیدایش کی سرگزشت وضاحت کرتی ہے: ”خدا کے بیٹوں نے آدمی کی بیٹیوں کو دیکھا کہ وہ خوبصورت ہیں اور جنکو اُنہوں نے چُنا اُن سے بیاہ کر لیا۔ . . . اُن دنوں میں زمین پر جبار تھے اور بعد میں جب خدا کے بیٹے انسان کی بیٹیوں کے پاس گئے تو اُنکے لئے اُن سے اولاد ہوئی۔ یہی قدیم زمانہ کے سُورما ہیں جو بڑے نامور ہوئے ہیں۔“ (پیدایش ۶:۲-۴) ان آیات کا پطرس رسول کے تحریری ریکارڈ کیساتھ موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ ”خدا کے بیٹے“ درحقیقت نافرمان فرشتے تھے۔ جبار انسانی جسم اختیار کرنے والے نافرمان فرشتوں اور عورتوں کے ناجائز ملاپ سے پیدا ہونے والی دوغلی نسل تھے۔—۱-پطرس ۳:۱۹، ۲۰۔
”جبار“ کا مطلب ”مار گِرانے والے“ ہے کیونکہ وہ دوسروں پر تشدد کِیا کرتے تھے۔ یہ ظالم مردمآزار تھے جن کے یہوداہ ۶، ۷) انہوں نے ملکر زمین پر ناقابلِبرداشت بُرائی برپا کر دی تھی۔
شہوتپرست والدوں کے گناہ کو سدوم اور عمورہ کی کجروی سے تشبِیہ دی گئی ہے۔ (”اپنے لوگوں میں بےعیب“
بُرائی اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ خدا نے نسلِانسانی کو تباہ کرنے کی ٹھان لی۔ تاہم الہامی سرگزشت بیان کرتی ہے: ”نوؔح [یہوواہ] کی نظر میں مقبول ہوا۔ . . . نوؔح مردِراستباز اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بےعیب تھا اور نوؔح خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔“ (پیدایش ۶:۸، ۹) تباہی کے لائق بیدین دُنیا میں ’خدا کیساتھ ساتھ چلنا‘ کیسے ممکن تھا؟
بِلاشُبہ نوح نے اپنے باپ لمک سے بہت کچھ سیکھا تھا جو ایک ایماندار شخص اور آدم کا ہمعصر تھا۔ اپنے بیٹے کا نام نوح (مطلب ”آرام“ یا ”تسلی“) رکھتے وقت لمک نے پیشینگوئی کی: ”یہ ہمارے ہاتھوں کی محنت اور مشقت سے جو زمین کے سبب سے ہے جس پر [یہوواہ] نے لعنت کی ہے ہمیں آرام دیگا۔“ خدا نے زمین پر سے لعنت ختم کرکے اس پیشینگوئی کو پورا کِیا۔—پیدایش ۵:۲۹؛ ۸:۲۱۔
خداپرست والدین کا ہونا روحانیت کی کوئی ضمانت نہیں کیونکہ یہوواہ کیساتھ ذاتی رشتہ قائم کرنا ہر شخص کی اپنی ذمہداری ہے۔ نوح ایک ایسی روش اختیار کرکے ’خدا کیساتھ ساتھ چلتا رہا‘ جسے الہٰی خوشنودی حاصل تھی۔ نوح نے خدا کی بابت جو سیکھا اُس سے تحریک پا کر اُس کی خدمت کی۔ ’طوفان سے ہر بشر کو ہلاک‘ کرنے کی بابت خدا کے مقصد سے آگاہ کئے جانے پر نوح کا ایمان ڈانوانڈول نہیں ہوا تھا۔—پیدایش ۶:۱۳، ۱۷۔
اس بات پر اعتماد رکھتے ہوئے کہ یہ غیرمعمولی تباہی یقینی تھی نوح نے یہوواہ کے حکم کی تعمیل کی: ”تُو گوپھر کی لکڑی کی ایک کشتی اپنے لئے بنا۔ اُس کشتی میں کوٹھریاں تیار کرنا اور اُسکے اندر اور باہر رال لگانا۔“ (پیدایش ۶:۱۴) کشتی بنانے کے سلسلے میں خدا کی ہدایات پر عمل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اسکے باوجود ”نوؔح نے یوں ہی کِیا۔ جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا ویسا ہی عمل کِیا۔“ (پیدایش ۶:۲۲) نوح نے اپنی بیوی، تین بیٹوں سم، حام اور یافت اور انکی بیویوں کی مدد سے یہ کام کِیا۔ یہوواہ نے ایسے ایمان کو برکت بخشی۔ آجکل خاندانوں کیلئے کیا ہی شاندار مثالیں!
کشتی کی تعمیر میں کیا کچھ شامل تھا؟ یہوواہ نے نوح کو ایک بہت بڑا تین منزلہ آبروک صندوق بنانے کی ہدایت دی جو ۴۳۷ فٹ لمبا، ۷۳ فٹ چوڑا اور ۴۴ فٹ اُونچا تھا۔ (پیدایش ۶:۱۵، ۱۶) اُس کشتی میں آجکل کے باربردار جہازوں کے برابر گنجائش تھی۔
کتنی بڑی تفویض! ممکنہ طور پر اس کام میں ہزاروں درختوں کو کاٹنا، تعمیر کی جگہ پر منتقل کرنا اور پھر ان سے تختے یا شہتیر بنانا شامل تھا۔ اس کا مطلب ڈھانچہ تیار کرنا، چوبیں یا میخیں بنانا، کشتی کو آبروک بنانے کیلئے رال حاصل کرنا اور مختلف سازوسامان اور آلات وغیرہ بھی جمع کرنا تھا۔ اِس کام کیلئے تاجروں کیساتھ باتچیت کرنے اور خریدی گئی چیزوں اور خدمات کیلئے لیندین کی ضرورت پڑی ہوگی۔ ظاہری طور پر صحیح طریقے سے لکڑیوں کو جوڑنے اور ایک مضبوط ڈھانچہ تیار کرنے کیلئے ماہرانہ نجاری کی ضرورت تھی۔ ذرا یہ بھی تصور کریں کہ تعمیر میں کوئی ۵۰ یا ۶۰ سال لگے!
اس کے بعد نوح کو وافر خوراک اور چارے کی تیاری پر بھی توجہ پیدایش ۶:۲۱) اُسے کشتی میں مختلف جانوروں کو جمع کرنا اور انکی دیکھبھال کرنا تھی۔ نوح نے خدا کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہوئے تمام کام انجام دئے۔ (پیدایش ۶:۲۲) یہوواہ کی برکت نے اسکی مکمل کامیابی کو یقینی بنایا۔
دینی تھی۔ (’راستبازی کا مُناد‘
نوح نے کشتی بنانے کے علاوہ ”راستبازی کے منادی کرنے والے“ کے طور پر ایک آگاہی دیتے ہوئے وفاداری سے خدا کی خدمت بھی کی۔ لیکن ”جب تک طوفان آ کر اُن سب کو بہا نہ لے گیا اُنکو خبر نہ ہوئی۔“—۲-پطرس ۲:۵؛ متی ۲۴:۳۸، ۳۹۔
تاہم اُس زمانہ کی روحانی اور اخلاقی تاریکی کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنا آسان ہے کہ نوح کا خاندان بےاعتقاد پڑوسیوں کے تمسخر اور لعنطعن کا نشانہ بن سکتا تھا۔ لوگوں نے انہیں ضرور پاگل خیال کِیا ہوگا۔ تاہم نوح اپنے گھرانے کو روحانی مدد اور حوصلہافزائی دینے میں کامیاب رہا تھا کیونکہ اُنہوں نے اپنے بیدین ہمعصروں کی پُرتشدد، بداخلاق اور باغی راہوں کو نہیں اپنایا۔ اُس کے باایمان قولوفعل نے اُس زمانہ کی دُنیا کو مجرم ٹھہرایا۔—عبرانیوں ۱۱:۷۔
طوفان سے بچ گئے
خدا نے طوفان سے کچھ دیر پہلے نوح کو تیارکردہ کشتی میں داخل ہونے کا حکم دیا۔ جب نوح کا خاندان اور تمام جانور اندر چلے گئے تو ’یہوواہ نے دروازہ باہر سے بند کر دیا‘ اور یوں تمام تمسخرآمیز آوازیں موقوف ہوئیں۔ جب طوفان آیا تو نافرمان فرشتوں نے بدیہی طور پر اپنے انسانی جسم ترک کر دئے اور تباہی سے بچ گئے۔ تاہم دوسروں کیساتھ کیا واقع ہوا؟ بیشک، کشتی سے باہر خشک زمین پر جباروں سمیت ہر زندہ مخلوق نیستونابود ہو گئی! صرف نوح اور اُسکا خاندان بچ گیا۔—پیدایش ۷:۱-۲۳۔
نوح اور اُسکا خاندان ایک [قمری] سال اور دس دن کشتی میں رہا۔ وہ جانوروں کو خوراک اور پانی دینے، فضلات صاف کرنے اور وقت کا حساب رکھنے میں مصروف رہے۔ ایک جہاز کی رفتار کا حساب رکھنے والے آلے کی طرح پیدایش کی کتاب طوفان کے ہر مرحلے کی درست تاریخ بیان کرتے ہوئے اس سرگزشت کی صداقت کو منعکس کرتی ہے۔—پیدایش ۷:۱۱، ۱۷، ۲۴؛ ۸:۳-۱۴۔
بِلاشُبہ نوح نے کشتی میں روحانی گفتگو اور خدا کا شکر ادا کرنے میں اپنے خاندان کی راہنمائی کی تھی۔ بدیہی طور پر طوفان سے پہلے کی تاریخ کو نوح
اور اُسکے خاندان کے ذریعے محفوظ رکھا گیا تھا۔ اُنکے پاس قابلِاعتبار زبانی روایات یا تحریری تاریخی دستاویزات نے طوفان کے دوران مفید غوروخوض کیلئے عمدہ مواد کا کام انجام دیا۔نوح اور اُسکا خاندان دوبارہ خشک زمین پر قدم رکھ کر کتنا خوش ہوا ہوگا! اُس نے سب سے پہلے ایک مذبح تیار کِیا اور اپنے خاندان کیلئے کہانتی خدمات انجام دیتے ہوئے خدا کے حضور قربانیاں پیش کیں جس نے اُنکی زندگی بچائی تھی۔—پیدایش ۸:۱۸-۲۰۔
”جیسا نوؔح کے دنوں میں ہوا“
یسوع مسیح نے بیان کِیا: ”جیسا نوؔح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابنِآدم کے آنے کے وقت ہوگا۔“ (متی ۲۴:۳۷) اسی طرح آجکل مسیحی راستبازی کے مُنادوں کے طور پر لوگوں کو توبہ کرنے کی حوصلہافزائی دیتے ہیں۔ (۲-پطرس ۳:۵-۹) اس موازنے کے پیشِنظر ہم سوچ سکتے ہیں کہ طوفان سے پہلے نوح کے خیالات کن باتوں پر مُرتکز رہے تھے۔ کیا اُس نے کبھی یہ محسوس کِیا تھا کہ اُس کی منادی بےفائدہ تھی؟ کیا وہ بعضاوقات تھک جاتا تھا؟ بائبل اس سلسلے میں کچھ بیان نہیں کرتی۔ ہمیں محض یہ بتایا گیا ہے کہ نوح نے خدا کی فرمانبرداری کی۔
کیا آپ نوح اور اپنی حالت کا عملی اطلاق دیکھ سکتے ہیں؟ اُس نے مخالفت اور مشکلات کے باوجود یہوواہ کی فرمانبرداری کی۔ اسی لئے یہوواہ نے اُسے راستباز ٹھہرایا۔ نوح کا خاندان یہ نہیں جانتا تھا کہ خدا طوفان کب لائیگا لیکن انہیں اس کے آنے کا پورا یقین تھا۔ خدا کے کلام پر ایمان نے نوح کو سالوں کے دوران مشقتطلب کام اور بظاہر بےپھل منادی میں ثابتقدم رکھا۔ واقعی، ہمیں بتایا جاتا ہے: ”ایمان ہی کے سبب سے نوؔح نے ان چیزوں کی بابت جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تھیں ہدایت پا کر خدا کے خوف سے اپنے گھرانے کے بچاؤ کیلئے کشتی بنائی جس سے اُس نے دُنیا کو مجرم ٹھہرایا اور اُس راستبازی کا وارث ہوا جو ایمان سے ہے۔“—عبرانیوں ۱۱:۷۔
نوح نے ایسا ایمان کیسے حاصل کِیا؟ بدیہی طور پر اُس نے یہوواہ کی بابت اپنے علم پر غوروخوض کرنے کیلئے وقت نکالا اور اس علم سے راہنمائی حاصل کی۔ بِلاشُبہ نوح نے دُعا میں خدا سے باتچیت کی۔ درحقیقت وہ یہوواہ کے اتنا قریب آ گیا تھا کہ وہ ’خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔‘ خاندان کے سربراہ کے طور پر نوح نے خوشی کیساتھ اپنے گھرانے کو وقت اور پُرمحبت توجہ دی۔ اس میں اپنی بیوی، تینوں بیٹوں اور بہوؤں کے روحانی مفادات کو نگاہ میں رکھنا بھی شامل تھا۔
نوح کی طرح آجکل کے سچے مسیحی جانتے ہیں کہ یہوواہ اس بیدین نظاماُلعمل کا خاتمہ جلد لانے والا ہے۔ ہم اُس دن یا گھڑی کی بابت کچھ نہیں جانتے لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ’راستبازی کے منادی کرنے والے‘ اس شخص کے ایمان اور فرمانبرداری کی نقل کرنا ’جان بچانے‘ پر منتج ہوگا۔—عبرانیوں ۱۰:۳۶-۳۹۔
[صفحہ ۲۹ پر بکس]
کیا واقعی ایسا ہوا؟
ماہرِبشریات نے تقریباً تمام قبائل اور قوموں سے طوفان پر مبنی کمازکم ۲۷۰ کہانیاں جمع کی ہیں۔ ایک عالم کلاوس وسٹرمین بیان کرتا ہے: ”پوری دُنیا طوفان کی کہانی سے واقف ہے۔ تخلیق کے بیان کی طرح یہ ہمارے ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ یہ بات واقعی حیرانکُن ہے کہ زمین کے ہر حصے میں ہمیں زمانۂقدیم کے بڑے طوفان کی بابت کہانیاں ملتی ہیں۔“ اسکی کیا وجہ ہے؟ مفسر اینریکو گالبیاٹی بیان کرتا ہے: ”مختلف قوموں اور دُورافتادہ علاقوں کے لوگوں میں طوفان کی روایتی سرگزشت کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ ایسی تمام روایات ایک تاریخی حقیقت پر مبنی ہیں۔“ مسیحیوں کیلئے عالمانہ رائے کی بجائے یہ علم زیادہ اہم ہے کہ یسوع نے خود نسلِانسانی کی تاریخ میں ایک حقیقی واقعے کے طور پر طوفان کا ذکر کِیا تھا۔—لوقا ۱۷:۲۶، ۲۷۔
[صفحہ۳۰ پر بکس]
اساطیر میں جبار کا ذکر؟
دیوتاؤں اور انسانوں کے درمیان تعلقات اور ان سے پیدا ہونے والے ”سُورماؤں“ یا ”نیمدیوتاؤں“ کی کہانیاں یونانی، مصری، اوگرتی، حوری اور مسوپتامی تہذیب میں عام تھیں۔ یونانی اساطیری دیوتا انسانی جسم اور بیمثال خوبصورتی رکھتے تھے۔ وہ کھاتےپیتے، سوتے اور لوگوں کو بہکاتے، مباشرت، لڑائیجھگڑا اور عصمتدری کِیا کرتے تھے۔ مبیّنہ طور پر پاک ہونے کے باوجود وہ فریب دینے اور جُرم کرنے کے قابل تھے۔ آخیلی جیسے سُورما دیوتاؤں اور انسانوں کی نسل سے تھے، وہ فوقالبشر لیاقت رکھنے کے باوجود غیرفانی نہیں تھے۔ لہٰذا جبار کی بابت پیدایش کا بیان ممکنہ طور پر ایسی اساطیری کہانیوں کی ابتدا پر روشنی ڈالتا ہے۔