مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یسوع بچاتا ہے—‏کیسے؟‏

یسوع بچاتا ہے—‏کیسے؟‏

یسوع بچاتا ہے—‏کیسے؟‏

‏”‏یسوع بچاتا ہے!‏“‏ ”‏یسوع ہمارا نجات‌دہندہ ہے!‏“‏ پوری دُنیا میں متعدد ملکوں میں دیواروں اور دیگر عوامی جگہوں پر ایسے پیغام چسپاں کئے جاتے ہیں۔‏ ہزاروں لوگ خلوصدلی سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ یسوع اُنکا نجات‌دہندہ ہے۔‏ اگر آپ اُن سے یہ پوچھیں،‏ ”‏یسوع کیسے بچاتا ہے؟‏“‏ تو شاید وہ جواباً یہ کہیں کہ ”‏یسوع نے ہماری خاطر اپنی جان دی ہے،‏“‏ یا ”‏یسوع نے ہمارے گناہوں کے واسطے اپنی جان قربان کی ہے۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ یسوع کی موت نے ہماری نجات ممکن بنائی ہے۔‏ تاہم ایک شخص کی موت لاتعداد لوگوں کے گناہوں کی قیمت کیسے چکا سکتی ہے؟‏ اگر آپ سے یہ پوچھا جائے کہ ”‏یسوع کی موت ہمیں کیسے بچا سکتی ہے؟‏“‏ تو آپ کیا جواب دینگے؟‏

بائبل اس سوال کا بہت سادہ مگر واضح اور نہایت اہم جواب دیتی ہے۔‏ تاہم اُسکی اہمیت کو سمجھنے کیلئے سب سے پہلے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یسوع کی زندگی اور موت ایک بڑے پیچیدہ مسئلے کا حل ہے۔‏ تب ہی ہم یسوع کی موت کی اہمیت کو مناسب طور پر سمجھ پائینگے۔‏

یسوع کی زندگی کی قربانی کے ذریعے خدا ایک ایسی صورتحال سے نپٹ رہا تھا جو آدم کے گناہ کرنے سے پیدا ہوئی۔‏ وہ گناہ بڑا المناک تھا!‏ پہلا انسان اور اُسکی بیوی کامل تھے۔‏ خوبصورت باغِ‌عدن اُنکا گھر تھا۔‏ خدا نے انہیں اس باغ‌نما گھر کی دیکھ‌بھال کرنے کا بامقصد کام سونپا تھا۔‏ اُنہوں نے زمین پر دوسرے جانداروں کی پُرمحبت نگرانی کرنی تھی۔‏ نیز انسانوں کی تعداد میں اضافے اور زمین پر ہزاروں لوگوں کے آباد ہو جانے کے ساتھ اُنہوں نے پوری زمین کو فردوس بنا دینا تھا۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۸‏)‏ اُنہیں کتنا خوشگوار اور پُرمسرت کام سونپا گیا تھا!‏ اسکے علاوہ،‏ وہ ایک دوسرے کی پُرتپاک رفاقت سے بھی محظوظ ہو سکتے تھے۔‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۸‏)‏ اُن کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی۔‏ خوش‌آئند ابدی زندگی اُنکی نظروں کے سامنے تھی۔‏

آدم اور حوا کا گناہ کرنا ناقابلِ‌تصور تھا۔‏ تاہم پہلے انسانی جوڑے نے اپنے خالق یہوواہ خدا سے بغاوت کی۔‏ روحانی مخلوق شیطان ابلیس نے ایک سانپ کو استعمال کرتے ہوئے حوا کو یہوواہ کی نافرمانی کرنے پر اُکسایا اور آدم نے بھی اپنی بیوی کا ساتھ دیا۔‏—‏پیدایش ۳:‏۱-‏۶‏۔‏

یہ بات بالکل واضح تھی کہ خالق نے آدم اور حوا کے ساتھ کیسے نپٹنا تھا۔‏ اُس نے پہلے ہی سے نافرمانی کے نتائج واضح کر دئے تھے:‏ ”‏تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بےروک‌ٹوک کھا سکتا ہے۔‏ لیکن نیک‌وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔‏“‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ پس ایک نہایت اہم سوال کا جواب ابھی باقی تھا۔‏

نسلِ‌انسانی کو ایک مسئلہ درپیش ہے

پہلے گناہ نے نسلِ‌انسانی کیلئے ایک سنگین مسئلہ پیدا کِیا۔‏ آدم نے ایک کامل انسان کے طور پر زندگی کا آغاز کِیا تھا۔‏ لہٰذا،‏ اُسکے بچے کاملیت کیساتھ ہمیشہ کی زندگی سے مستفید ہو سکتے تھے۔‏ تاہم،‏ آدم نے افزائشِ‌نسل سے پہلے ارتکابِ‌گناہ کِیا۔‏ جب اُسے سزا سنائی گئی تو پوری انسانی نسل اُسکے صلب میں تھی:‏ ”‏تُو اپنے مُنہ کے پسینے کی روٹی کھائیگا جب تک کہ زمین میں تُو پھر لوٹ نہ جائے اسلئےکہ تُو اُس سے نکالا گیا ہے کیونکہ تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائیگا۔‏“‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۹‏)‏ لہٰذا جب آدم پر خدا کے سخن کے مطابق گناہ کی وجہ سے بتدریج موت آنے لگی تو اُس کیساتھ ساتھ تمام نسلِ‌انسانی کو بھی موت کی سزا ملی۔‏

موزوں طور پر،‏ پولس رسول نے بعدازاں لکھا:‏ ”‏ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اسلئےکہ سب نے گُناہ کِیا۔‏“‏ (‏رومیوں ۵:‏۱۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ جن بچوں کو ابدی زندگی کے پیشِ‌نظر کاملیت میں پیدا ہونا تھا وہ پہلے گناہ کی وجہ سے بیماری،‏ بڑھاپے اور موت کے امکان کیساتھ پیدا ہوئے۔‏

شاید کوئی کہے،‏ ”‏یہ ناانصافی ہے۔‏ ہم نے آدم کی طرح خدا کی نافرمانی کرنے کا انتخاب نہیں کِیا تھا۔‏ لہٰذا ہم کیوں ہمیشہ کی زندگی اور خوشی کے امکان سے محروم ہوں؟‏“‏ ہم جانتے ہیں کہ اگر عدالت ایک بیٹے کو قید میں ڈال دیتی ہے کیونکہ اُسکے باپ نے کوئی گاڑی چرائی ہے تو بیٹا درست طور پر احتجاج کر سکتا ہے،‏ ”‏یہ ناانصافی ہے!‏ مَیں نے کوئی غلط کام نہیں کِیا۔‏“‏—‏استثنا ۲۴:‏۱۶‏۔‏

پہلے مرد اور عورت کو گناہ کرنے پر اُکسانے سے شیطان نے یہ نتیجہ اخذ کِیا ہوگا کہ وہ خدا کو ایک اُلجھن میں ڈال دیگا۔‏ شیطان نے انسانی تاریخ کے شروع ہی میں،‏ افزائشِ‌نسل سے بھی پہلے حملہ کر دیا۔‏ جب آدم نے گناہ کِیا تو ایک اہم سوال پیدا ہو گیا کہ یہوواہ آدم اور حوا کے پیدا ہونے والے بچوں کے سلسلے میں کیا کریگا؟‏

یہوواہ خدا نے واجب اور منصفانہ کام کِیا۔‏ راستباز شخص الیہو نے بیان کِیا،‏ ”‏یہ ہرگز ہو نہیں سکتا کہ خدا شرارت کا کام کرے اور قادرِمطلق بدی کرے۔‏“‏ (‏ایوب ۳۴:‏۱۰‏)‏ اِسکے علاوہ موسیٰ نبی نے یہوواہ کی بابت لکھا:‏ ”‏وہ وہی چٹان ہے۔‏ اُس کی صنعت کامل ہے۔‏ کیونکہ اُس کی سب راہیں انصاف کی ہیں۔‏ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔‏ وہ منصف اور برحق ہے۔‏“‏ (‏استثنا ۳۲:‏۴‏)‏ خدائےبرحق نے آدم کے گناہ سے پیدا ہونے والے مسئلے کا جو حل پیش کِیا وہ ہم سے فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کا موقع نہیں چھینتا۔‏

خدا ایک دائمی حل پیش کرتا ہے

خدا نے شیطان ابلیس کو سزا سناتے وقت جو حل پیش کِیا اس پر غور کریں۔‏ یہوواہ نے شیطان سے کہا:‏ ”‏مَیں تیرے اور عورت [‏خدا کی آسمانی تنظیم]‏ کے درمیان اور تیری نسل [‏شیطان کے زیرِاختیار دُنیا]‏ اور عورت کی نسل [‏یسوع مسیح]‏ کے درمیان عداوت ڈالونگا۔‏ وہ تیرے [‏شیطان کے]‏ سر کو کچلے گا اور تُو اُسکی ایڑی پر کاٹیگا [‏یسوع کی موت]‏۔‏“‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۵‏)‏ یہوواہ نے بائبل کی اس پہلی پیشینگوئی میں ایک کامل انسان کے طور پر اپنے آسمانی بیٹے کی زمینی زندگی اور پھر اُسی کامل حالت میں اُسکی موت—‏ایڑی پر کاٹے جانے—‏کی بابت اپنے مقصد کا اشارہ دیا۔‏

خدا نے ایک کامل انسان کی موت کا تقاضا کیوں کِیا؟‏ یہوواہ خدا نے آدم کے گناہ کرنے کی صورت میں اُسے کیا سزا دینی تھی؟‏ کیا یہ موت کی سزا نہیں تھی؟‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ ”‏گناہ کی مزدوری موت ہے۔‏“‏ (‏رومیوں ۶:‏۲۳‏)‏ آدم کو اپنے گناہ کیلئے اپنی جان دینی پڑی۔‏ اُسے زندگی بخشی گئی تھی تاہم اُس نے گناہ کا انتخاب کِیا اور اُسکے بدلے میں اُسے موت ملی۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۹‏)‏ تاہم اُس گناہ کی وجہ سے تمام نسلِ‌انسانی کو جو سزا بھگتنی پڑی اُسکی بابت کیا ہے؟‏ اُنکے گناہوں کے کفارے کیلئے ایک موت کی ضرورت تھی۔‏ تاہم کس کی موت تمام نسلِ‌انسانی کے گناہوں کو جائز طور پر ڈھانپ سکتی تھی؟‏

قدیم بنی‌اسرائیل سے خدا کی شریعت نے ”‏جان کے بدلے جان“‏ کا تقاضا کِیا تھا۔‏ (‏خروج ۲۱:‏۲۳‏)‏ اِس قانونی اصول کے مطابق،‏ نسلِ‌انسانی کے گناہوں کو ڈھانپنے والی زندگی کو اُس زندگی کے مساوی ہونا تھا جو آدم کھو چکا تھا۔‏ ایک دوسرے کامل آدمی کی موت ہی گناہ کی قیمت ادا کر سکتی تھی۔‏ یسوع ایک ایسا ہی آدمی تھا۔‏ واقعی،‏ یسوع نے آدم کی اس تمام اولاد کی نجات کیلئے ”‏فدیہ“‏ دیا جو چھٹکارا پانے کے قابل تھی۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۶؛‏ رومیوں ۵:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

یسوع کی موت کی بڑی قدروقیمت ہے

آدم کی موت کی کوئی قدروقیمت نہیں تھی؛‏ وہ اپنے گناہ کیلئے موت کا سزاوار تھا۔‏ تاہم یسوع کی موت کی بڑی قدروقیمت تھی کیونکہ اُس نے بیگناہ حالت میں وفات پائی تھی۔‏ یہوواہ خدا گنہگار آدم کی فرمانبردار اولاد کیلئے یسوع کی کامل زندگی کی قیمت فدیے کے طور پر قبول کر سکتا تھا۔‏ نیز یسوع کی قربانی کی قدروقیمت صرف ہمارے ماضی کے گناہوں کی قیمت چکانے تک ہی محدود نہیں۔‏ اگر ایسا ہوتا تو ہمارا کوئی مستقبل نہ ہوتا۔‏ گناہ کی حالت میں پیدا ہونے کی وجہ سے ہم یقیناً دوبارہ غلطی کرتے۔‏ (‏زبور ۵۱:‏۵‏)‏ ہم کسقدر شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ یسوع کی موت نے ہمارے لئے اس کاملیت کو حاصل کرنا ممکن بنایا ہے جو آدم اور حوا کی اولاد کیلئے یہوواہ کا ابتدائی مقصد تھا!‏

آدم کو ایک ایسے باپ سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے جو مرتے وقت ہمیں ایک ایسے مالی قرضے (‏گناہ)‏ میں ڈبو گیا جسے ہم کسی بھی صورت میں ادا نہیں کر سکتے۔‏ اسکے برعکس،‏ یسوع ایک اچھے باپ کی طرح اپنی موت کے بعد ہمارے لئے ایک بڑا ورثہ چھوڑ گیا جو نہ صرف ہمیں آدم کے بڑے قرضے سے آزاد کراتا ہے بلکہ ہمیشہ کی زندگی فراہم کرنے کیلئے بھی کافی ہے۔‏ یسوع کی موت ماضی کے گناہوں کو موقوف کرنے کے علاوہ مستقبل کیلئے بھی ایک شاندار فراہمی ہے۔‏

یسوع نجات‌دہندہ ہے کیونکہ اُس نے ہماری خاطر اپنی جان دی ہے۔‏ نیز اُسکی موت کیا ہی بیش‌قیمت فراہمی ہے!‏ جب ہم اِسے آدم کے گناہ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کیلئے خدا کے مقصد کا حصہ خیال کرتے ہیں تو یہوواہ اور معاملات سے نپٹنے کے اُسکے طریقوں پر ہمارا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ یسوع کی موت وہ ذریعہ ہے جس سے ’‏اس پر ایمان لانے والے‘‏ تمام لوگ گناہ،‏ بیماری،‏ بڑھاپے اور موت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ کیا آپ نجات کے اس پُرمحبت بندوبست کیلئے خدا کے شکرگزار ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

آدم نسلِ‌انسانی پر گناہ اور موت لے آیا

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

یہوواہ نے ایک کامل حل پیش کِیا