مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ ہماری پناہ ہے

یہوواہ ہماری پناہ ہے

یہوواہ ہماری پناہ ہے

‏”‏تو نے حق‌تعالیٰ کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔‏ تجھ پر کوئی آفت نہ آئیگی۔‏“‏ —‏زبور ۹۱:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۱.‏ ہم یہوواہ کو اپنی پناہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏

یہوواہ اپنے لوگوں کیلئے ایک حقیقی پناہ ہے۔‏ اگر ہم پورے دل سے اُسکی خدمت کرتے ہیں تو ہم ’‏ہر طرف سے مصیبت تو اُٹھا سکتے ہیں لیکن لاچار نہیں ہونگے،‏ حیران تو ہو سکتے ہیں مگر نااُمید نہیں ہونگے،‏ ستائے تو جا سکتے ہیں مگر اکیلے نہیں چھوڑے جائینگے،‏ گِرائے تو جا سکتے ہیں لیکن ہلاک نہیں ہونگے۔‏‘‏ وہ کیوں؟‏ اسلئے کہ یہوواہ ہمیں ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ عطا کرتا ہے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷-‏۹‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہمارا آسمانی باپ ایک خداپرستانہ زندگی بسر کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے اور ہم زبورنویس کے اِن الفاظ سے تقویت حاصل کر سکتے ہیں:‏ ”‏تُو اَے [‏یہوواہ]‏!‏ میری پناہ ہے!‏ تُو نے حق‌تعالیٰ کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔‏ تجھ پر کوئی آفت نہ آئیگی۔‏“‏—‏زبور ۹۱:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

۲.‏ زبور ۹۱ اور اُس کے وعدوں کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟‏

۲ زبور ۹۱ کے یہ الفاظ غالباً موسیٰ نے لکھے تھے۔‏ زبور ۹۰ کی بالائی عبارت میں اُسے مصنف قرار دیا گیا ہے اور زبور ۹۱ کی ابتدا میں کسی دوسرے مصنف کا نام نہیں دیا گیا۔‏ زبور ۹۱ شاید مکالمہ‌سرائی کی صورت میں گایا گیا ہے یعنی پہلے ایک شخص نے گایا ہوگا (‏۹۱:‏۱،‏ ۲)‏ اور ساری جماعت نے ملکر اسکا جواب دیا ہوگا (‏۹۱:‏۳-‏۸)‏۔‏ اسکے بعد غالباً دوبارہ ایک شخص نے گایا ہوگا (‏۹۱:‏۹الف)‏ اور پوری جماعت نے جواب دیا ہوگا (‏۹۱:‏۹ب ۱۳)‏۔‏ پھر آخری اشعار ایک ہی گویے نے گائے ہونگے (‏۹۱:‏۱۴-‏۱۶)‏۔‏ بہرکیف،‏ زبور ۹۱ ممسوح مسیحیوں کیلئے بطور ایک جماعت اور اُنکے مخصوص‌شُدہ ساتھیوں کیلئے ایک گروہ کے طور پر روحانی تحفظ کا وعدہ کرتا ہے۔‏ * آئیے یہوواہ کے ایسے تمام خادموں کی حیثیت سے اس زبور پر غور کریں۔‏

‏’‏خدا کے پردہ‘‏ میں محفوظ

۳.‏ (‏ا)‏ ’‏حق‌تعالیٰ کا پردہ‘‏ کیا ہے؟‏ (‏ب)‏ ”‏قادرِمطلق کے سایہ میں سکونت“‏ کرنے سے ہم کیا تجربہ کرتے ہیں؟‏

۳ زبورنویس گیت گاتا ہے:‏ ‏”‏جو حق‌تعالیٰ کے پردہ میں رہتا ہے۔‏ وہ قادرِمطلق کے سایہ میں سکونت کریگا۔‏ مَیں [‏یہوواہ]‏ کے بارے میں کہونگا وہی میری پناہ اور میرا گڑھ ہے۔‏ وہ میرا خدا ہے جس پر میرا توکل ہے۔‏“‏ ‏(‏زبور ۹۱:‏۱،‏ ۲‏)‏ علامتی مفہوم میں ’‏حق‌تعالیٰ کا پردہ‘‏ ہمارے اور بالخصوص ابلیس کا نشانہ بننے والے ممسوح مسیحیوں کیلئے ایک تحفظ کی جگہ ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۱۵-‏۱۷‏)‏ اگر ہم بطور مہمان خدا کیساتھ رہنے سے حاصل ہونے والے اس تحفظ سے مستفید نہ ہوتے تو وہ ہم سب کو تباہ کر دیتا۔‏ ”‏قادرِمطلق کے سایہ میں سکونت“‏ کرنے سے ہم خدائی سائے یا تحفظ کا تجربہ کرتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۵:‏۱،‏ ۲؛‏ ۱۲۱:‏۵‏)‏ ہمارے حاکمِ‌اعلیٰ،‏ یہوواہ سے زیادہ محفوظ اور مضبوط دوسری کوئی پناہ نہیں ہے۔‏—‏امثال ۱۸:‏۱۰‏۔‏

۴.‏ ”‏صیاد“‏ یعنی شیطان کونسے حربے استعمال کرتا ہے اور ہم ان سے کیسے بچتے ہیں؟‏

۴ زبورنویس مزید بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏وہ [‏یہوواہ]‏ تجھے صیاد کے پھندے سے اور مُہلک وبا سے چھڑائیگا۔‏“‏ ‏(‏زبور ۹۱:‏۳‏)‏ قدیم اسرائیل میں صیاد پرندوں کو پکڑنے کیلئے اکثر پھندے یا جال کا استعمال کِیا کرتا تھا۔‏ ”‏صیاد“‏ یعنی شیطان کے جال میں اُسکی بدکار تنظیم اور ”‏منصوبے“‏ شامل ہیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۱‏)‏ ہمیں بُرائی پر اُکسانے اور ہماری روحانی تباہی کا باعث بننے والے پوشیدہ پھندے ہماری راہ میں بچھائے جاتے ہیں۔‏ (‏زبور ۱۴۲:‏۳‏)‏ ناراستی کی مذمت کرنے کی وجہ سے ”‏ہماری جان چڑیا کی مانند چڑیماروں کے جال سے بچ نکلی“‏ ہے۔‏ (‏زبور ۱۲۴:‏۷،‏ ۸‏)‏ ہم کتنے شکرگزار ہیں کہ یہوواہ ہمیں شریر ”‏صیاد“‏ کے جال سے چھڑاتا ہے!‏—‏متی ۶:‏۱۳‏۔‏

۵،‏ ۶.‏ کونسی ’‏وبا مُہلک‘‏ ثابت ہوئی ہے اور یہوواہ کے لوگ اس سے کیوں متاثر نہیں ہوئے؟‏

۵ زبورنویس ”‏مُہلک وبا“‏ کا حوالہ دیتا ہے۔‏ ایک خطرناک وبا کی طرح انسانی خاندان اور یہوواہ کی حاکمیت کو سربلند کرنے والے لوگوں کیلئے ایک چیز ”‏مُہلک“‏ ہے۔‏ اس سلسلے میں مؤرخ آرنلڈ ٹوئن‌بی نے لکھا:‏ ”‏دوسری جنگِ‌عظیم کے اختتام سے لے کر قوم‌پرستی کے باعث ملک میں خودمختار ریاستوں کی تعداد دُگنی ہو گئی ہے .‏ .‏ .‏ نوعِ‌انسان کا موجودہ رُجحان بڑی حد تک نزاع‌انگیز ہے۔‏“‏

۶ صدیوں کے دوران بعض حکمرانوں نے بین‌الاقوامی اختلافات میں مزید اضافہ کِیا ہے۔‏ اُنہوں نے اپنی ذاتی یا دیگر مورتوں یا علامات کی تعظیم کا مطالبہ بھی کِیا ہے۔‏ تاہم،‏ یہوواہ نے اپنے وفادار لوگوں کو ایسی ”‏وبا“‏ سے بچایا ہے۔‏ (‏دانی‌ایل ۳:‏۱،‏ ۲،‏ ۲۰-‏۲۷؛‏ ۶:‏۷-‏۱۰،‏ ۱۶-‏۲۲‏)‏ ایک پُرمحبت عالمگیر برادری کے طور پر ہم یہوواہ کیلئے بِلاشرکتِ‌غیرے عقیدت دکھاتے ہیں،‏ صحیفائی غیرجانبداری برقرار رکھتے ہیں اور بِلاتعصّب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ”‏ہر قوم میں جو اُس [‏خدا]‏ سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُسکو پسند آتا ہے۔‏“‏ (‏اعمال ۱۰:‏۳۴،‏ ۳۵؛‏ خروج ۲۰:‏۴-‏۶؛‏ یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵؛‏ ۱۷:‏۱۶؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۸،‏ ۹‏)‏ ہم مسیحیوں کے طور پر ”‏مُہلک“‏ وباؤں کی صورت میں اذیت برداشت کرنے کے باوجود ’‏حق‌تعالیٰ کے پردہ‘‏ میں خوشی اور روحانی تحفظ حاصل کرتے ہیں۔‏

۷.‏ یہوواہ ہمیں ”‏اپنے پروں“‏ میں کیسے محفوظ رکھتا ہے؟‏

۷ یہوواہ کو اپنی پناہ بنا کر ہم ان الفاظ سے تسلی حاصل کرتے ہیں:‏ ‏”‏وہ تجھے اپنے پروں سے چھپا لیگا اور تجھے اُسکے بازوؤں کے نیچے پناہ ملیگی۔‏ اُسکی سچائی ڈھال اور سپر ہے۔‏“‏ ‏(‏زبور ۹۱:‏۴‏)‏ اپنے بچے کے تحفظ کیلئے اُس پر منڈلانے والے پرندے کی طرح خدا ہماری حفاظت کرتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۳۱:‏۵‏)‏ وہ اپنے ”‏پروں“‏ میں ہمیں چھپا لیگا۔‏ ایک پرندہ اپنے بچوں کو شکاریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے انہیں اپنے پروں میں چھپا لیتا ہے۔‏ ہم یہوواہ کے علامتی پروں میں بچوں کی طرح محفوظ رہتے ہیں کیونکہ ہم نے اُسکی سچی مسیحی تنظیم میں پناہ لی ہے۔‏—‏روت ۲:‏۱۲؛‏ زبور ۵:‏۱،‏ ۱۱‏۔‏

۸.‏ یہوواہ کی ”‏سچائی“‏ ایک بڑی ڈھال اور سپر کیسے ہے؟‏

۸ ہم اُسکی ”‏سچائی“‏ یا وفاداری پر بھروسا کرتے ہیں۔‏ یہ اُس قدیم ڈھال کی مانند ہے جو اکثر دروازے جیسی مستطیل اور اتنی بڑی ہوتی تھی کہ ایک شخص کے پورے جسم کو ڈھانپ لیتی تھی۔‏ (‏زبور ۵:‏۱۲‏)‏ ایسے تحفظ پر اعتماد ہمیں خوف سے آزاد کرتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۱۵:‏۱؛‏ زبور ۸۴:‏۱۱‏)‏ ہمارے ایمان کی طرح خدا کی سچائی بھی ایک ایسی بڑی اور باعثِ‌تحفظ ڈھال ہے جو شیطان کے جلتے ہوئے تیروں کو روکنے اور دشمن کے حملوں سے بچنے کے کام آتی ہے۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۶‏)‏ یہ ایک سپر،‏ ایک مضبوط دفاعی پہاڑی بھی ہے جسکے پیچھے ہم پناہ لیتے ہیں۔‏

‏’‏ہم نہیں ڈرینگے‘‏

۹.‏ رات کا وقت کیسے ہیبتناک ہو سکتا ہے لیکن ہم کیوں نہیں ڈرتے؟‏

۹ خدا کے تحفظ کے پیشِ‌نظر،‏ زبورنویس بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏تُو نہ رات کی ہیبت سے ڈریگا نہ دن کو اُڑنے والے تیر سے۔‏ نہ اُس وبا سے جو اندھیرے میں چلتی ہے نہ اُس ہلاکت سے جو دوپہر کو ویران کرتی ہے۔‏“‏ ‏(‏زبور ۹۱:‏۵،‏ ۶‏)‏ چونکہ تاریکی میں بہت سے بُرے کام کئے جاتے ہیں،‏ اِس لئے رات کا وقت ہیبتناک ہو سکتا ہے۔‏ زمین پر طاری روحانی تاریکی میں ہمارے دشمن اکثر خفیہ کاموں کے ذریعے ہماری روحانیت کو تباہ کرنے اور منادی کے کام کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ لیکن ہم ’‏رات کی کسی ہیبت سے نہیں ڈرتے‘‏ کیونکہ یہوواہ ہماری حفاظت کرتا ہے۔‏—‏زبور ۶۴:‏۱،‏ ۲؛‏ ۱۲۱:‏۴؛‏ یسعیاہ ۶۰:‏۲‏۔‏

۱۰.‏ (‏ا)‏ ”‏دن کو اُڑنے والے تیر“‏ کیا مفہوم رکھتے ہیں اور ہم اس کے لئے کیسا جوابی‌عمل ظاہر کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ’‏اندھیرے میں چلنے والی وبا‘‏ کیا ہے اور ہم اس سے خوفزدہ کیوں نہیں ہوتے؟‏

۱۰ ‏”‏دن کو اُڑنے والے تیر“‏ سے مراد زبانی حملہ ہو سکتا ہے۔‏ (‏زبور ۶۴:‏۳-‏۵؛‏ زبور ۹۴:‏۲۰‏)‏ جب ہم سچی معلومات پیش کرنا جاری رکھتے ہیں تو ہماری ثابت‌قدمی ہماری پاک خدمت کے خلاف اس براہِ‌راست مخالفت کو غیرمؤثر بنا دیتی ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ ہم ”‏اُس وبا سے جو اندھیرے میں چلتی ہے“‏ نہیں ڈرتے۔‏ یہ علامتی وبا اخلاقی اور مذہبی طور پر بیمار اِس دُنیا کی تیرگی میں فروغ پاتی ہے جو شیطان کے قبضہ میں ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ یہ دل‌ودماغ میں ایک بےحس کیفیت پیدا کرتے ہوئے لوگوں کو یہوواہ،‏ اُس کے مقاصد اور اُس کی پُرمحبت فراہمیوں سے بےخبر رکھتی ہے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۴‏)‏ ہم اِس تاریکی میں خوفزدہ نہیں ہوتے کیونکہ ہم شفاف روحانی روشنی سے مستفید ہوتے ہیں۔‏—‏زبور ۴۳:‏۳‏۔‏

۱۱.‏ ’‏دوپہر کی ویرانی‘‏ کا تجربہ کرنے والے لوگوں کیساتھ کیا واقع ہوتا ہے؟‏

۱۱ ‏’‏دوپہر کو ویران کرنے والی ہلاکت‘‏ بھی ہمیں خوفزدہ نہیں کرتی۔‏ ”‏دوپہر“‏ کا وقت دُنیا میں پائی جانے والی جھوٹی روشن‌خیالی کی علامت ہو سکتا ہے۔‏ دُنیا کے مادہ‌پرستانہ نظریات سے متاثر ہونے والے لوگ روحانی تباہی کا سامنا کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ جب ہم دلیری کیساتھ بادشاہتی پیغام کی منادی کرتے ہیں تو ہم اپنے کسی بھی دشمن سے نہیں ڈرتے کیونکہ یہوواہ ہمارا محافظ ہے۔‏—‏زبور ۶۴:‏۱؛‏ امثال ۳:‏۲۵،‏ ۲۶‏۔‏

۱۲.‏ ہزاروں لوگ کس لحاظ سے اور کس کے آس پاس ”‏گِرتے“‏ ہیں؟‏

۱۲ زبورنویس مزید بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏تیرے آس پاس ایک ہزار گِر جائینگے اور تیرے دہنے ہاتھ کی طرف دس ہزار لیکن وہ تیرے نزدیک نہ آئیگی۔‏ لیکن تُو اپنی آنکھوں سے نگاہ کریگا اور شریروں کے انجام کو دیکھیگا۔‏“‏ ‏(‏زبور ۹۱:‏۷،‏ ۸‏)‏ یہوواہ کو اپنی پناہ نہ بنانے کی وجہ سے بہتیرے روحانی موت میں ہمارے ”‏آس پاس .‏ .‏ .‏ گِر“‏ جاتے ہیں۔‏ درحقیقت،‏ آجکل روحانی اسرائیل کے ”‏دہنے ہاتھ“‏ پر ”‏دس ہزار“‏ گِر گئے ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱۶‏)‏ لیکن خواہ ہم ممسوح مسیحی ہیں یا اُنکے مخصوص‌شُدہ ساتھی،‏ ہم سب خدا کے ”‏پردہ“‏ میں محفوظ ہیں۔‏ ہم ’‏اپنی نگاہ سے شریروں کے انجام کو دیکھتے‘‏ ہیں جو تجارتی،‏ مذہبی اور دیگر طریقوں سے مشکلات کی فصل کاٹ رہے ہیں۔‏—‏گلتیوں ۶:‏۷‏۔‏

‏’‏ہم پر کوئی آفت نہ آئیگی‘‏

۱۳.‏ ہم پر کونسی آفتیں نہیں آتیں اور کیوں؟‏

۱۳ دُنیاوی تحفظ ختم ہوتا جا رہا ہے لیکن ہم خدا کو اوّلیت دیتے ہوئے زبورنویس کے ان الفاظ سے تقویت حاصل کرتے ہیں:‏ ‏”‏تُو اَے [‏یہوواہ]‏!‏ میری پناہ ہے!‏ تُو نے حق‌تعالیٰ کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔‏ تجھ پر کوئی آفت نہ آئیگی اور کوئی وبا تیرے خیمہ کے نزدیک نہ پہنچے گی۔‏“‏ ‏(‏زبور ۹۱:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ ہماری پناہ ہے۔‏ تاہم،‏ ہم حق‌تعالیٰ کو ”‏اپنا مسکن“‏ بھی بناتے ہیں جہاں ہمیں تحفظ ملتا ہے۔‏ ہم کائنات کے حاکمِ‌اعلیٰ کے طور پر یہوواہ کی ستائش کرتے اور اپنے تحفظ کے ماخذ کے طور پر اُسکے ”‏مسکن“‏ میں رہتے ہوئے اُسکی بادشاہتی خوشخبری کی منادی کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ لہٰذا،‏ اس زبور میں بیان‌کردہ تمام آفتوں میں سے ’‏ہم پر کوئی آفت نہیں آئیگی۔‏‘‏ جب ہم بھی دوسروں کیساتھ زلزلوں،‏ طوفانوں،‏ سیلابوں،‏ قحطوں اور جنگوں کی تباہ‌کاریوں کا تجربہ کرتے ہیں تو اِن سے ہمارا ایمان یا روحانی تحفظ تباہ نہیں ہوتا۔‏

۱۴.‏ یہوواہ کے خادموں کے طور پر ہم مُہلک وباؤں سے آلودہ کیوں نہیں ہوئے؟‏

۱۴ ممسوح مسیحی اس نظام‌اُلعمل سے دُور خیموں میں رہنے والے پردیسیوں کی طرح ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۱‏)‏ ’‏کوئی وبا اُنکے خیمے کے نزدیک نہیں پہنچتی۔‏‘‏ ہماری اُمید خواہ آسمانی ہے یا زمینی،‏ ہم اس دُنیا کا حصہ نہیں اور نہ ہی بداخلاقی،‏ مادہ‌پرستی،‏ جھوٹے مذہب اور ”‏حیوان“‏ اور اُسکے ’‏بُت‘‏ یعنی اقوامِ‌متحدہ کی پرستش جیسی مُہلک وباؤں نے ہمیں آلودہ کِیا ہے۔‏—‏مکاشفہ ۹:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ ۱۳:‏۱-‏۱۸؛‏ یوحنا ۱۷:‏۱۶‏۔‏

۱۵.‏ ہم کن طریقوں سے ملکوتی مدد سے مستفید ہوتے ہیں؟‏

۱۵ ہم جس تحفظ سے مستفید ہوتے ہیں اُس کی بابت زبورنویس مزید بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏وہ [‏یہوواہ]‏ تیری بابت اپنے فرشتوں کو حکم دیگا کہ تیری سب راہوں میں تیری حفاظت کریں۔‏ وہ تجھے اپنے ہاتھوں پر اُٹھا لینگے تاکہ ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے۔‏“‏ ‏(‏زبور ۹۱:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ فرشتوں کو ہماری حفاظت کرنے کیلئے طاقت عطا کی گئی ہے۔‏ (‏۲-‏سلاطین ۶:‏۱۷؛‏ زبور ۳۴:‏۷-‏۹؛‏ ۱۰۴:‏۴؛‏ متی ۲۶:‏۵۳؛‏ لوقا ۱:‏۱۹‏)‏ وہ ’‏ہماری سب راہوں میں‘‏ ہماری حفاظت کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۱۸:‏۱۰‏)‏ ہم بادشاہتی مُنادوں کے طور پر ملکوتی راہنمائی اور تحفظ سے مستفید ہوتے ہیں اور روحانی طور پر ٹھوکر نہیں کھاتے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ ہمارے کام پر پابندی جیسے ”‏پتھر“‏ بھی ہمارے لئے ٹھوکر اور الہٰی خوشنودی کھو دینے کا باعث نہیں بنے۔‏

۱۶.‏ ”‏شیرببر“‏ اور ”‏افعی“‏ کے حملوں میں کیا فرق ہے اور ہم ان کے لئے کیسا جوابی‌عمل ظاہر کرتے ہیں؟‏

۱۶ زبورنویس مزید بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏تُو شیرببر اور افعی کو روندیگا۔‏ تُو جوان شیر اور اژدہا کو پامال کریگا۔‏“‏ ‏(‏زبور ۹۱:‏۱۳‏)‏ جس طرح شیرببر بالکل سامنے سے حملہ کرتا ہے اُسی طرح ہمارے بعض دشمن اپنی علانیہ مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے ایسے قانون نافذ کرتے ہیں جنکا مقصد ہماری منادی کو روکنا ہے۔‏ لیکن پوشیدہ جگہ سے افعی کے حملوں کی طرح ہم پر غیرمتوقع حملے بھی کئے جاتے ہیں۔‏ بعض‌اوقات پادری قانون‌سازوں،‏ ججوں اور دوسرے لوگوں کے ذریعے ہم پر چھپ کر حملہ کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ یہوواہ کی مدد سے ہم عدالتوں میں پُرامن طریقے سے ”‏خوشخبری کی جواب‌دہی اور ثبوت“‏ فراہم کرتے ہوئے اس کا حل ڈھونڈ لیتے ہیں۔‏—‏فلپیوں ۱:‏۷؛‏ زبور ۹۴:‏۱۴،‏ ۲۰-‏۲۲‏۔‏

۱۷.‏ ہم ”‏جوان شیر“‏ کو کیسے پامال کرتے ہیں؟‏

۱۷ زبورنویس ”‏جوان شیر اور اژدہا“‏ کو پامال کرنے کا بھی ذکر کرتا ہے۔‏ جوان شیر کافی خطرناک اور اژدہا بہت بڑا ہوتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۳۱:‏۴‏)‏ بالکل سامنے آکر حملہ کرنے والے جوان شیر کی دہشت سے قطع‌نظر،‏ ہم شیرنما انسانوں یا تنظیموں کی بجائے خدا کی فرمانبرداری کرنے سے اُسے علامتی مفہوم میں پامال کرتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۵:‏۲۹‏)‏ پس،‏ خوفزدہ کرنے والا ”‏شیر“‏ ہمیں روحانی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔‏

۱۸.‏ ”‏اژدہا“‏ ہمیں کس کی یاد دلا سکتا ہے اور حملے کی صورت میں ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏

۱۸ یونانی سپتواجنتا میں بھی ”‏اژدہا“‏ کو بڑا سانپ کہا گیا ہے۔‏ اس سے ہمیں وہ ”‏بڑا اژدہا یعنی وہی پُرانا سانپ“‏ یاد آ سکتا ہے ”‏جو ابلیس اور شیطان کہلاتا ہے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۷-‏۹؛‏ پیدایش ۳:‏۱۵‏)‏ وہ اپنے شکار کو کچلنے اور نگلنے کے قابل ایک ہیبتناک جانور کی مانند ہے۔‏ (‏یرمیاہ ۵۱:‏۳۴‏)‏ جب شیطان ہمیں اپنے شکنجے میں جکڑنے،‏ اس دُنیا کے دباؤ سے کچلنے اور نگلنے کی کوشش کر رہا ہے تو آئیے ہم خود کو اُس کی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے اس ”‏اژدہا“‏ کو پامال کریں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ ممسوح مسیحیوں کو رومیوں ۱۶:‏۲۰ کی تکمیل میں حصہ لینے کیلئے ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔‏

یہوواہ—‏ہماری نجات کا ماخذ

۱۹.‏ ہم یہوواہ کی پناہ میں کیوں رہتے ہیں؟‏

۱۹ زبورنویس سچے پرستار کی بابت خدا کے کلام کو یوں بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏چونکہ اُس نے مجھ سے دل لگایا ہے اسلئے مَیں اُسے چھڑاؤنگا۔‏ مَیں اُسے سرفراز کرونگا کیونکہ اُس نے میرا نام پہچانا ہے۔‏“‏ ‏(‏زبور ۹۱:‏۱۴‏)‏ ”‏مَیں اُسے چھڑاؤنگا“‏ کے اظہار کے لغوی معنی ہیں کہ ”‏مَیں اُسے بلندی پر رکھونگا“‏ یعنی ناقابلِ‌رسائی مقام پر رکھونگا۔‏ ہم یہوواہ کے پرستاروں کے طور پر اُسکی پناہ میں رہتے ہیں کیونکہ ’‏ہم نے اُس سے دل لگایا ہے۔‏‘‏ (‏مرقس ۱۲:‏۲۹،‏ ۳۰؛‏ ۱-‏یوحنا ۴:‏۱۹‏)‏ اسکے عوض خدا ہمیں اپنے دشمنوں سے ’‏چھڑاتا‘‏ ہے۔‏ ہم کبھی بھی زمین پر سے ہلاک نہیں کئے جائینگے۔‏ اِسکے برعکس الہٰی نام سے واقف ہونے اور اُس پر ایمان رکھنے کی وجہ سے ہم بچ جائینگے۔‏ (‏رومیوں ۱۰:‏۱۱-‏۱۳‏)‏ نیز ہم ’‏ابدالآباد تک یہوواہ اپنے خدا کے نام سے چلنے‘‏ کیلئے پُرعزم ہیں۔‏—‏میکاہ ۴:‏۵؛‏ یسعیاہ ۴۳:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

۲۰.‏ زبور ۹۱ کے اختتام پر یہوواہ اپنے وفادار خادم سے کیا وعدہ کرتا ہے؟‏

۲۰ زبور ۹۱ کے اختتام پر یہوواہ اپنے وفادار خادم کی بابت کہتا ہے:‏ ‏”‏وہ مجھے پکاریگا اور مَیں اُسے جواب دونگا۔‏ مَیں مصیبت میں اُسکے ساتھ رہونگا۔‏ مَیں اُسے چھڑاؤنگا اور عزت بخشونگا۔‏ مَیں اُسے عمر کی درازی سے آسودہ کرونگا اور اپنی نجات اُسے دکھاؤنگا۔‏“‏ ‏(‏زبور ۹۱:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ جب ہم خدا کی مرضی کے مطابق دُعا کرتے ہیں تو وہ ہماری سنتا ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ ہم شیطان کی بھڑکائی ہوئی مخالفت کے باعث پہلے ہی بہت مصیبت برداشت کر چکے ہیں۔‏ تاہم،‏ یہ الفاظ،‏ ”‏مَیں مصیبت میں اُسکے ساتھ رہونگا“‏ ہمیں مستقبل کی آزمائشوں کیلئے تیار کرتے ہوئے یہ یقین‌دہانی بھی کراتے ہیں کہ خدا اس بدکار نظام‌اُلعمل کے خاتمے کے دوران ہماری حفاظت کریگا۔‏

۲۱.‏ ممسوح اشخاص کو پہلے ہی سے جلال کیسے بخشا گیا ہے؟‏

۲۱ شیطان کی شدید مخالفت کے باوجود ہمارے درمیان موجود ممسوح مسیحیوں کا بقیہ زمین پر ”‏عمر کی درازی“‏ کے بعد یہوواہ کے مقررہ وقت پر آسمانی جلال پائیگا۔‏ تاہم خدا کی نجات کے غیرمعمولی کاموں نے ممسوح اشخاص کو پہلے ہی روحانی جلال بخشا ہے۔‏ نیز زمین پر ان آخری ایّام میں یہوواہ کے گواہوں کے طور پر پیشوائی کرنا اُن کیلئے باعثِ‌توقیر ہے!‏ (‏یسعیاہ ۴۳:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ اپنے لوگوں کیلئے یہوواہ کی نجات کا سب سے بڑا کام ہرمجدون کی جنگ پر انجام پائیگا جب وہ اپنی حاکمیت کی سربلندی اور اپنے نام کی تقدیس کریگا۔‏—‏زبور ۸۳:‏۱۸؛‏ حزقی‌ایل ۳۸:‏۲۳؛‏ مکاشفہ ۱۶:‏۱۴،‏ ۱۶‏۔‏

۲۲.‏ کون ’‏یہوواہ کی نجات کو دیکھینگے‘‏؟‏

۲۲ خواہ ہم ممسوح مسیحی ہیں یا اُن کے مخصوص‌شُدہ ساتھی،‏ ہم نجات کے لئے خدا پر توکل کرتے ہیں۔‏ ’‏یہوواہ کے خوفناک روزِعظیم‘‏ کے دوران وفاداری سے اُس کی خدمت کرنے والے لوگ بچائے جائیں گے۔‏ (‏یوایل ۲:‏۳۰-‏۳۲‏)‏ ہم میں سے جو خدا کی نئی دُنیا میں داخل ہونے والی ”‏بڑی بِھیڑ“‏ میں شامل ہونگے اور آخری آزمائش میں وفادار رہیں گے انہیں وہ کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی،‏ ’‏عمر کی درازی سے آسودہ کرے گا۔‏‘‏ وہ اَن‌گنت لوگوں کو قیامت بھی بخشے گا۔‏ (‏مکاشفہ ۷:‏۹؛‏ ۲۰:‏۷-‏۱۵‏)‏ واقعی یہوواہ،‏ یسوع مسیح کے ذریعے ’‏ہمیں اپنی نجات دکھانے‘‏ سے بیحد خوشی حاصل کرے گا۔‏ (‏زبور ۳:‏۸‏)‏ اپنے سامنے ایسے امکانات کے پیشِ‌نظر آئیے اُس کی تمجید کی خاطر اپنے دن گننے میں مدد کے لئے خدا پر توکل کرتے رہیں۔‏ دُعا ہے کہ ہم اپنے قول‌وفعل سے یہ ثابت کرتے رہیں کہ یہوواہ ہماری پناہ ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 مسیحی یونانی صحائف لکھنے والوں نے مسیحائی پیشینگوئی کے حوالے سے زبور ۹۱ پر بحث نہیں کی۔‏ بِلاشُبہ،‏ یہوواہ خدا یسوع مسیح کی انسانی زندگی میں اُس کیلئے بالکل ویسے ہی ایک پناہ اور قلعہ ثابت ہوا جیسے وہ اس ”‏آخری زمانہ“‏ میں ایک گروہ کے طور پر یسوع کے ممسوح پیروکاروں اور اُنکے مخصوص‌شُدہ ساتھیوں کیلئے ثابت ہوا ہے۔‏—‏دانی‌ایل ۱۲:‏۴‏۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• ’‏حق‌تعالیٰ کا پردہ‘‏ کیا ہے؟‏

‏• ہم کیوں خوفزدہ نہیں ہوتے؟‏

‏• کس مفہوم میں ’‏ہم پر کوئی آفت نہ آئیگی‘‏؟‏

‏• ہم یہوواہ کو اپنی نجات کا ماخذ کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر]‏

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہوواہ کی سچائی ہمارے لئے ایک بڑی ڈھال کیسے ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویریں]‏

یہوواہ غیرمتوقع حملوں اور براہِ‌راست مخالفت کے باوجود اپنے خادموں کی اپنی خدمت کو پورا کرنے میں مدد کرتا ہے

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

Cobra: A. N. Jagannatha Rao, Trustee, Madras Snake Park Trust