”تیرے نُور کی بدولت ہم روشنی دیکھینگے“
”تیرے نُور کی بدولت ہم روشنی دیکھینگے“
روشنی کو اکثر معمولی خیال کِیا جاتا ہے مگر بجلی بند ہونے پر جب سارا علاقہ تاریکی میں ڈوب جاتا ہے تو ہمیں اسکی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ تاہم، خوشی کی بات ہے کہ ہم اپنے فلکی ”پاور سٹیشن“—سورج—پر مکمل بھروسا رکھ سکتے ہیں۔ ہمارے کھانےپینے، دیکھنے، سانس لینے غرض زندہ رہنے کا انحصار سورج کی روشنی پر ہی ہے۔
چونکہ روشنی زندگی کیلئے ضروری ہے اسلئے ہمیں پیدایش میں یہ بات پڑھکر حیران نہیں ہونا چاہئے کہ روشنی پہلے ہی تخلیقی دن پر وجود میں آئی تھی۔ ”خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی۔“ (پیدایش ۱:۳) بادشاہ داؤد جیسے خداپرست اشخاص نے ہمیشہ یہوواہ کو زندگی اور روشنی کا ماخذ تسلیم کِیا ہے۔ داؤد نے لکھا: ”زندگی کا چشمہ تیرے پاس ہے۔ تیرے نُور کی بدولت ہم روشنی دیکھینگے۔“—زبور ۳۶:۹۔
داؤد کے الفاظ کا حقیقی اور مجازی دونوں طرح سے اطلاق ہوتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا بیان کرتا ہے: ”بینائی واقعی روشنی کی مرہونِمنت ہے۔“ یہ مزید بیان کرتا ہے: ”کسی بھی دوسرے عضو کی نسبت آنکھوں کے ذریعے زیادہ معلومات دماغ تک پہنچتی ہیں۔“ ہمارے تجربے میں آنے والی بیشتر باتوں کا دارومدار بینائی کی بخشش پر ہے جسکی مؤثر کارکردگی کیلئے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے صحائف میں روشنی کو علامتی مفہوم میں بھی استعمال کِیا گیا ہے۔
پس، یسوع نے اپنے رسولوں کو بتایا: ”دُنیا کا نُور مَیں ہوں۔ جو میری پیروی کریگا وہ اندھیرے میں نہ چلیگا بلکہ زندگی کا نُور پائیگا۔“ (یوحنا ۸:۱۲) یسوع نے جس علامتی روشنی کا ذکر کِیا اُس سے مُراد وہ پیغامِحق تھا جسکی وہ خود منادی کر رہا تھا کیونکہ یہ اُسکے سامعین کے دلودماغ کو روشن کر سکتا تھا۔ یسوع کے شاگرد کئی سال تک روحانی تاریکی میں رہنے کے بعد اب نوعِانسان کیلئے خدا کے مقصد اور بادشاہتی اُمید کو سمجھ سکتے تھے۔ یہ اُن کیلئے واقعی ”زندگی کا نُور“ تھا کیونکہ یہ علم اُن کیلئے ہمیشہ کی زندگی کا باعث بن سکتا تھا۔ یسوع نے اپنے آسمانی باپ سے دُعا میں کہا: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ (یوحنا ۱۷:۳) دُعا ہے کہ ہم اِس روحانی روشنی کو کبھی بھی کماہم خیال نہ کریں!