زریں اُصول—ایک عام اُصول
زریں اُصول—ایک عام اُصول
”جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تم بھی اُن کے ساتھ کرو۔“—متی ۷:۱۲۔
یسوع مسیح نے تقریباً دو ہزار سال پہلے اپنے مشہور پہاڑی وعظ میں یہ بات کہی تھی۔ صدیوں سے اس سادہ سی بات کی بابت بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، اِسے ”صحائف کا جوہر،“ ”پڑوسی کیلئے ایک مسیحی کی اہم ذمہداری“ اور ”ایک بنیادی اخلاقی اُصول“ قرار دیا گیا ہے۔ یسوع کا یہ بیان اب اتنا مشہور ہو گیا ہے کہ اکثر اِسے زریں اُصول کہا جاتا ہے۔
تاہم، زریں اُصول کا نظریہ کسی بھی لحاظ سے صرف نامنہاد مسیحی دُنیا تک محدود نہیں ہے۔ یہودیت، بدھمت اور یونانی فیلسوفی میں کسی نہ کسی طرح اس اخلاقی اُصول کا ذکر کِیا گیا ہے۔ مشرقِبعید کے لوگوں میں کنفیوشس کا ایک بیان خاص طور پر مشہور ہے جس کی مشرقی ممالک میں ایک عظیم اور دانا ہستی کے طور پر تعظیم کی جاتی ہے۔ کنفیوشس کی چار کتابوں میں سے تیسری کتاب دی اینلیکٹس میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس خیال کا اظہار تین مرتبہ کِیا گیا ہے۔ کنفیوشس نے طالبعلموں کے استفسار کے جواب میں دو مرتبہ بیان کِیا: ”جو تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ کِیا جائے وہ تم دوسروں کیساتھ مت کرو۔“ ایک اَور موقع پر، جب اُس کے ایک شاگرد زیگونگ نے فخریہ انداز میں یہ بات کہی کہ ”جیسا مَیں نہیں چاہتا کہ دوسرے میرے ساتھ کریں مَیں بھی ان کے ساتھ ویسا نہیں کرنا چاہتا،“ اُستاد نے بڑی سنجیدگی سے یہ جواب دیا، ”جیہاں، لیکن آپ ابھی ایسا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔“
یہ الفاظ پڑھنے سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کنفیوشس کا بیان یسوع کے مابعدی بیان کی نسبت منفی ہے۔ واضح فرق یہ ہے کہ جو زریں اُصول یسوع نے بیان کِیا وہ دوسروں کی بھلائی کیلئے مثبت کاموں کا تقاضا کرتا ہے۔ فرض کریں کہ لوگ یسوع کے مثبت بیان کی مطابقت میں کام کرتے، دوسروں کی دیکھبھال کرتے اور دوسروں کی مدد کرنے کیلئے قدم اُٹھاتے، غرض روزانہ اس ضابطے کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا یہ آجکل کی دُنیا کو ایک بہتر جگہ بنا دیگا؟ یقیناً۔
اِس سے قطعنظر کہ اس اُصول کو مثبت، منفی یا کسی اَور انداز سے بیان کِیا گیا ہے، اہم بات یہ ہے کہ مختلف زمانوں اور علاقوں کے فرق فرق پسمنظر رکھنے والے لوگوں نے زریں اُصول کے نظریے پر کافی اعتماد ظاہر کِیا ہے۔ اِس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہاڑی وعظ میں یسوع کا فرمودہ ایک عام اُصول ہے جو ہر زمانے میں ہر جگہ لوگوں پر اثرانداز ہوتا ہے۔
خود سے پوچھیں: ’کیا مَیں یہ پسند کرونگا کہ میرے ساتھ عزت، انصاف اور دیانتداری کیساتھ پیش آیا جائے؟ کیا مَیں نسلی تعصّب، جرم اور جنگ سے پاک دُنیا میں رہنا پسند کرونگا؟ کیا مَیں ایسے خاندان میں رہنا پسند کرونگا جس میں ہر کوئی دوسروں کے احساسات اور جذبات کا خیال رکھتا ہو؟‘ درحقیقت، کون ایسی باتوں سے انکار کرنا چاہیگا؟ تاہم، افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ بہت کم لوگ ان حالتوں سے لطف اُٹھاتے ہیں۔ اِسلئے کہ بیشتر لوگوں کیلئے ایسی باتوں کی اُمید کرنا ہی ناممکن ہے۔
زریں اُصول سے غفلت
پوری تاریخ کے دوران، انسانیت کے خلاف جرائم اور لوگوں کے حقوق بُری طرح پامال کئے گئے ہیں۔ ان میں افریقہ سے غلاموں کی تجارت، نازی کیمپوں میں موت، بچوں سے جبری مزدوری اور یکےبعددیگرے مختلف ملکوں میں ظالمانہ نسلکُشی شامل ہے۔ ایسی لرزہخیز فہرست بہت طویل ہو سکتی ہے۔
آجکل، ہماری جدید دُنیا اپنے آپ میں مگن ہے۔ جب لوگوں کا اپنا آراموسکون اور مبیّنہ حقوق خطرے میں ہوتے ہیں تو چند ہی لوگ دوسروں کی بابت سوچتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) لوگ کیوں اتنے خودغرض، سفاک، بےحس اور مطلبپرست ہو گئے ہیں؟ کیا یہ سب کچھ زریں اُصول کے معروف ہونے کے باوجود اسے غیرحقیقتپسندانہ اور اخلاقیات سے متعلق ایک دقیانوسی اُصول سمجھ کر رد کرنے کی وجہ سے نہیں ہے؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ بات خدا پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرنے والے بیشتر لوگوں کے سلسلے میں بھی سچ ہے۔ لوگوں کے عام رجحان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اَور زیادہ مطلبپرست ہو جائینگے۔
پس غورطلب سوال یہ ہیں: زریں اُصول کے مطابق زندگی بسر کرنے میں کیا شامل ہے؟ کیا کوئی ابھی تک اس کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے؟ نیز کیا کبھی ایسا وقت آئیگا جب تمام نسلِانسانی زریں اُصول کے مطابق زندگی بسر کریگی؟ ان سوالات کے حقیقت پر مبنی جوابات کیلئے براہِمہربانی اگلا مضمون پڑھیں۔
[صفحہ ۳ پر تصویر]
کنفیوشس اور دیگر لوگوں نے مختلف طریقوں سے زریں اُصول کی تعلیم دی