زریں اُصول—یہ عملی ہے
زریں اُصول—یہ عملی ہے
اگرچہ بیشتر لوگ زریں اُصول کو یسوع کی باضابطہ اخلاقی تعلیم خیال کرتے ہیں تاہم اس نے خود فرمایا: ”میری تعلیم میری نہیں بلکہ میرے بھیجنے والے کی ہے۔“—یوحنا ۷:۱۶۔
مشہور زریں اُصول سمیت یسوع کی تعلیم کا ماخذ اُسے بھیجنے والا، اُسکا خالق یہوواہ خدا تھا۔
خدا نے شروع ہی میں یہ مقصد ٹھہرا دیا تھا کہ تمام انسان ایک دوسرے کیساتھ ویسا ہی سلوک کریں جیسا وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ان کیساتھ کریں۔ اس نے انسانوں کو خلق کرنے کے طریقۂکار سے دوسروں کیلئے فکرمندی دکھانے کا عمدہ نمونہ قائم کِیا: ”خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا۔ خدا کی صورت پر اُس کو پیدا کِیا۔ نروناری اُنکو پیدا کِیا۔“ (پیدایش ۱:۲۷) اس کا مطلب ہے کہ خدا نے مشفقانہ طریقے سے انسانوں کو کسی حد تک اپنی ممتاز خوبیاں عطا کی تھیں تاکہ وہ امن، خوشی اور ہمآہنگی کیساتھ ممکنہ طور پر ابدی زندگی سے لطف اُٹھا سکیں۔ ان کے خداداد ضمیر کی مناسب تربیت نے دوسروں کیساتھ پیش آنے کے سلسلے میں ان کی اس طریقے سے راہنمائی کرنی تھی جیسا وہ چاہتے ہیں ان کیساتھ پیش آیا جائے۔
خودغرضی غالب آ گئی
نسلِانسانی کے ایسے شاندار آغاز کے باوجود کیا واقع ہوا؟ سادہ سی بات ہے خودغرضی نہایت گھناؤنے روپ میں منظرِعام پر آئی۔ پہلے انسانی جوڑے نے جو کچھ کِیا اس سلسلے میں بائبل کے بیان سے بیشتر لوگ واقف ہیں جیساکہ پیدایش ۳ باب میں درج ہے۔ خدا کے تمام راست معیاروں کے مخالف، شیطان کی اُکساہٹ پر آدم اور حوا نے خودغرضی سے خدا کی حکمرانی کو رد کرکے خودمختاری اور خوداختیاری کو ترجیح دی۔ ان کا خودغرض اور سرکش عمل ان کیلئے بڑا نقصاندہ ثابت ہونے کے علاوہ انکی آلاولاد کیلئے بھی المناک نتائج کا سبب بنا۔ زریں اُصول کے طور پر معروف تعلیم کو نظرانداز کرنے کے تباہکُن نتائج کا یہ واضح ثبوت تھا۔ نتیجتاً، ”ایک آدمی کے سبب سے گُناہ دُنیا میں آیا اور گُناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اسلئےکہ سب نے گُناہ کِیا۔“—رومیوں ۵:۱۲۔
مجموعی طور پر یہوواہ خدا نے نسلِانسانی کے مُنہ موڑ لینے کے باوجود انہیں ترک نہ کِیا۔ مثال کے طور پر، یہوواہ نے اسرائیلی قوم کو ان کی راہنمائی کیلئے اپنی شریعت دی۔ اس نے انہیں دوسروں کیساتھ اس طرح سے برتاؤ کرنے کی تعلیم دی جیسا وہ چاہتے ہیں کہ ان کیساتھ کِیا جائے۔ شریعت نے ہدایت دی کہ غلاموں، یتیموں اور بیواؤں کے ساتھ کیسے پیش آئیں۔ اس میں خاکہکشی کی گئی تھی کہ کیسے زنابالجبر، اغوا اور چوری کے معاملات میں کیسے نپٹا جانا تھا۔ حفظانِصحت کے قوانین نے دوسروں کی صحت کیلئے فکرمندی ظاہر کی۔ جنسی معاملات پر بھی قوانین تھے۔ یہوواہ نے لوگوں کو یہ بتا کر اپنی شریعت کا خلاصہ بیان کِیا: ”اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت کرنا،“ بعدازاں یسوع نے اِسی بیان کا حوالہ دیا۔ (احبار ۱۹:۱۸؛ متی ۲۲:۳۹، ۴۰) شریعت میں اسرائیلیوں کے درمیان بسنے والے پردیسی باشندوں کیساتھ برتاؤ کے سلسلے میں بھی قوانین تھے۔ شریعتی حکم تھا: ”پردیسی پر ظلم نہ کرنا کیونکہ تم پردیسی کے دل کو جانتے ہو اسلئےکہ تم خود بھی ملکِمصرؔ میں پردیسی تھے۔“ باالفاظِدیگر، اسرائیلیوں کو ناموافق حالات والوں پر مہربانی کرنی تھی۔—خروج ۲۳:۹؛ احبار ۱۹:۳۴؛ استثنا ۱۰:۱۹۔
جبتک اسرائیل وفاداری سے شریعت کی پیروی کرتا رہا، اسوقت تک یہوواہ نے اس قوم کو برکت دی۔ داؤد اور سلیمان کی حکومتوں میں، اس قوم نے ترقی کی اور لوگ خوشحال اور آسودہ تھے۔ ایک تاریخی سرگزشت ہمیں بتاتی ہے: ”یہوؔداہ اور اؔسرائیل کے لوگ کثرت میں سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند تھے اور کھاتے پیتے اور خوش رہتے تھے۔ اور . . . یہوؔداہ اور اؔسرائیل کا ایک ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے . . . امن سے رہتا تھا۔“—۱-سلاطین ۴:۲۰، ۲۵۔
تاہم، افسوس کی بات یہ ہے کہ اس قوم کی امنوسلامتی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ اگرچہ اسرائیلیوں کے پاس خدا کی شریعت تھی توبھی انہوں نے اس پر عمل نہ کِیا؛ انہوں نے خودغرضی کو دوسروں کیلئے فکرمندی کا گلا گھونٹنے کی اجازت دیدی۔ اِسی وجہ سے انفرادی اور ایک قوم کے طور پر برگشتگی ان کیلئے مشکل کا باعث بنی۔ بالآخر، ۶۰۷ ق.س.ع. میں یہوواہ نے بابلیوں کو یہوداہ کی سلطنت، یروشلیم کے شہر اور اس کی شاندار ہیکل کو تباہوبرباد کرنے کی اجازت دے دی۔ کس وجہ سے؟ ”اِس لئے ربالافواج یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم نے میری بات نہ سنی۔ دیکھو مَیں تمام شمالی قبائل کو اور اپنے خدمتگذار شاہِبابلؔ نبوکدؔرضر کو بلا بھیجونگا [یہوواہ] فرماتا ہے اور مَیں اُنکو اِس مُلک اور اِسکے باشندوں پر اور ان سب قوموں پر جو آس پاس ہیں چڑھا لاؤنگا اور اُنکو بالکل نیستونابود کر دونگا اور اِنکو حیرانی اور سسکار کا باعث بناؤنگا اور ہمیشہ کے لئے ویران کرونگا۔“ (یرمیاہ ۲۵:۸، ۹) یہوواہ کی سچی پرستش ترک کرنے کی کتنی بڑی قیمت چکانی پڑی!
ایک قابلِتقلید نمونہ
اسکے برعکس، یسوع مسیح نے زریں اُصول کی تعلیم دینے کے علاوہ اس پر عمل کرکے عمدہ نمونہ بھی قائم کِیا۔ اس نے دوسروں کی بھلائی کیلئے دلی فکرمندی ظاہر کی۔ (متی ۹:۳۶؛ ۱۴:۱۴؛ لوقا ۵:۱۲، ۱۳) ایک مرتبہ نائین شہر کے نزدیک، یسوع نے ایک دلشکستہ بیوہ کو اپنے اکلوتے بیٹے کے جنازے پر دیکھا۔ بائبل سرگزشت بیان کرتی ہے: ”اُسے دیکھ کر خداوند کو ترس آیا۔“ (لوقا ۷:۱۱-۱۵) وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف اولڈ اینڈ نیو ٹسٹامنٹ ورڈز کے مطابق ”ترس آیا“ کا اظہار ”کسی شخص کے باطنی تحریک پانے“ کی دلالت کرتا ہے۔ اس نے اس بیوہ کے دردِدل کو محسوس کِیا اور اس چیز نے اسے اس کے درد کو دُور کرنے کی خاطر مثبت اقدام اُٹھانے کی تحریک دی۔ جب یسوع نے لڑکے کو زندہ کرکے ”اُسے اُسکی ماں کو سونپ دیا“ تو اس سے بیوہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا!
آخر میں، یسوع نے خدا کے مقصد کی مطابقت میں رضامندی سے تکلیف اُٹھاتے ہوئے اپنی جان فدیے میں دیدی تاکہ نسلِانسانی گناہ اور موت کی غلامی سے آزاد ہو سکے۔ زریں اُصول کے مطابق زندگی بسر کرنے کی یہ ایک فائق مثال تھی۔—متی ۲۰:۲۸؛ یوحنا ۱۵:۱۳؛ عبرانیوں ۴:۱۵۔
زریں اُصول کا اطلاق کرنے والے لوگ
کیا ہمارے زمانے میں واقعی زریں اُصول کے مطابق زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں؟ جیہاں، وہ صرف سہولت کے وقت ہی اس پر عمل نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر، دوسری جنگِعظیم کے دوران نازی جرمنی میں یہوواہ کے گواہوں نے خدا پر اپنا ایمان اور پڑوسی کیلئے اپنی محبت قائم رکھی اور زریں اُصول پر مصالحت کرنے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ ریاست نے تمام یہودیوں کے خلاف نفرت اور تعصّب کی مہم چلا رکھی تھی توبھی گواہوں نے زریں اُصول پر عمل کرنا جاری رکھا۔ انہوں نے اجتماعی جیل کیمپوں میں خوراک کی قلّت کے باوجود، قحطزدہ یہودیوں اور غیریہودیوں کو اپنی خوراک میں سے حصہ دینے سے ساتھی انسانوں کیلئے فکر دکھانا جاری رکھی۔ مزیدبرآں، ریاست کی طرف سے اسلحہ اُٹھا کر دوسروں کو قتل کرنے کے حکم کے باوجود، انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جیسا کہ وہ بھی دوسروں کے ہاتھوں قتل ہونا نہیں چاہتے تھے۔ وہ اُن لوگوں کو کیسے قتل کر سکتے تھے جن سے انہیں اپنی مانند محبت رکھنی تھی؟ ان میں سے بہتیروں کو انکار کی وجہ سے اجتماعی جیل کیمپوں میں بھیجنے کے علاوہ، موت کے گھاٹ بھی اُتار دیا گیا۔—متی ۵:۴۳-۴۸۔
یسعیاہ ۲:۲-۴ کی پیشینگوئی کے مطابق، ”بہت سی [اُمتوں]،“ درحقیقت پوری دُنیا میں چھ ملین سے زائد اشخاص کو ’یہوواہ کی راہوں اور اس کے راستوں پر چلنے کی تعلیم دی گئی ہے۔‘ علامتی مفہوم میں انہوں نے ”اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے بھالوں کو ہنسوئے“ بنانا سیکھ لیا ہے۔ انہوں نے ان تکلیفدہ ایّام میں امنوسلامتی پا لی ہے۔
یہ مضمون پڑھتے وقت آپ زریں اُصول کے عملی ہونے کی ایک اَور مثال سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ یہوواہ کے گواہ یہ بات جانتے ہیں کہ آجکل بیشتر لوگ مایوسی اور بےبسی کا سامنا کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے گواہ بائبل میں پائی جانے والی اُمید اور عملی ہدایت کی بابت جاننے میں دوسروں کی مدد کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر مثبت کارروائی کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس عالمگیر کام کا حصہ ہے جو اس وقت بینظیر پیمانے پر کِیا جا رہا ہے۔ نتیجہ؟آپ کی بابت کیا ہے؟
تھوڑی دیر کیلئے اس پریشانی اور تکلیف پر غور کریں جو شیطان ابلیس کی اکساہٹ پر عدن میں بغاوت کے وقت سے لے کر زریں اُصول کی بےادبی کی وجہ سے نسلِانسانی پر آئی ہے۔ یہوواہ عنقریب اس صورتحال کو ختم کرنے کا مقصد رکھتا ہے۔ کیسے؟ ”خدا کا بیٹا اِسی لئے ظاہر ہوا تھا کہ ابلیس کے کاموں کو مٹائے۔“ (۱-یوحنا ۳:۸) یہ خدا کی بادشاہت کے دورِحکومت کے تحت یسوع مسیح کے لائق ہاتھوں ہوگا جس نے زریں اُصول کی تعلیم دی اور اس کے مطابق زندگی بھی بسر کی۔—زبور ۳۷:۹-۱۱؛ دانیایل ۲:۴۴۔
قدیم اسرائیل کے بادشاہ داؤد نے بیان کِیا: ”مَیں جوان تھا اور اب بوڑھا ہوں توبھی مَیں نے صادق کو بیکس اور اُس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔ وہ دنبھر رحم کرتا ہے اور قرض دیتا ہے اور اُس کی اولاد کو برکت ملتی ہے۔“ (زبور ۳۷:۲۵، ۲۶) کیا آپ اس سے اتفاق نہیں کریں گے کہ زیادہتر لوگ آجکل ’رحم کرنے اور قرض دینے‘ کے برعکس لیتے اور چھینتے ہیں؟ بِلاشُبہ، زریں اُصول کے مطابق عمل کرنا حقیقی امن اور سلامتی کا باعث ہے کیونکہ یہ کسی شخص کو خدا کی بادشاہت کے تحت اب اور مستقبل میں برکات سے لطفاندوز ہونے کے لائق ٹھہراتا ہے۔ خدا کی بادشاہت زمین سے خودغرضی اور بدکاری کا نامونشان مٹا دیگی اور بدعنوان انسانساختہ موجودہ نظام کی جگہ خدا کے نئے نظام کو قائم کریگی۔ اس وقت، تمام لوگ زریں اُصول کے مطابق زندگی بسر کرنے سے لطف اُٹھائیں گے۔—زبور ۲۹:۱۱؛ ۲-پطرس ۳:۱۳۔
[صفحہ ۵ پر تصویریں]
یسوع نے زریں اُصول کی تعلیم دینے کے علاوہ اس پر عمل کرنے سے عمدہ نمونہ بھی قائم کِیا
[صفحہ ۷ پر تصویریں]
زریں اُصول پر عمل کرنا حقیقی امن اور سلامتی پر منتج ہو سکتا ہے