مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بوجھ سے آرام—‏ایک عملی حل

بوجھ سے آرام—‏ایک عملی حل

بوجھ سے آرام—‏ایک عملی حل

‏”‏اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔‏ مَیں تمکو آرام دونگا۔‏“‏—‏متی ۱۱:‏۲۸‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ بائبل میں غیرضروری بوجھ سے آرام دینے والی کونسی چیز پائی جاتی ہے؟‏ (‏ب)‏ یسوع کی تعلیمات کسقدر مؤثر تھیں؟‏

آپ یقیناً اس بات سے اتفاق کرینگے کہ زیادہ بوجھ نقصاندہ اور پریشان‌کُن ہوتا ہے۔‏ بائبل کے مطابق تمام نسلِ‌انسانی اسقدر بوجھ تلے دبی ہوئی ہے کہ بہتیرے لوگ ایسی زندگی سے چھٹکارے کے منتظر ہیں۔‏ (‏رومیوں ۸:‏۲۰-‏۲۲‏)‏ لیکن صحائف اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ ہم اب بھی کسی حد تک اس بوجھ سے آرام کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏ یہ آرام ہمیں ایک ایسے جوان آدمی کی مشورت اور نمونے پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے جو ۲۰ صدیاں پہلے اس صفحۂ‌ہستی پر موجود تھا۔‏ وہ پیشے کے اعتبار سے تو ایک بڑھئی تھا مگر اُسے اپنے پیشے سے زیادہ انسانوں سے محبت تھی۔‏ اُس نے لوگوں کے دلوں کو چھو لیا اور اُنکی ضروریات کو پورا کِیا۔‏ اُس نے کمزوروں کی مدد کی اور غمگینوں کو تسلی دی۔‏ اُس نے بہتیروں کی اپنی روحانی قابلیت کو فروغ دینے اور اس سے فائدہ اُٹھانے میں بھی مدد کی۔‏ اسطرح اُنہوں نے غیرضروری بوجھ سے آرام حاصل کِیا جسے آپ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔‏—‏لوقا ۴:‏۱۶-‏۲۱؛‏ ۱۹:‏۴۷،‏ ۴۸؛‏ یوحنا ۷:‏۴۶‏۔‏

۲ یہ آدمی یسوع ناصری تھا جس کے پاس ایسی اعلیٰ دُنیاوی تعلیم نہیں تھی جسے قدیم روم،‏ اتھینے یا سکندریہ کے بعض لوگ حاصل کرنے کی بیحد کوشش کرتے تھے۔‏ اس کے باوجود،‏ اُس کی تعلیمات مشہورومعروف ہیں۔‏ اُس کی تعلیمات کا ایک موضوع تھا:‏ ایک حکومت جس کے ذریعے خدا زمین پر کامیابی کیساتھ حکمرانی کریگا۔‏ یسوع نے زندگی بسر کرنے کے بنیادی اصول بھی واضح کئے جو آجکل واقعی گرانقدر ہیں۔‏ یسوع کی تعلیم سیکھنے اور اس پر عمل کرنے والے لوگ غیرضروری بوجھ سے آرام پانے کے علاوہ دیگر فوائد سے بھی لطف‌اندوز ہوتے ہیں۔‏ کیا آپ اِن فوائد سے لطف اُٹھانا نہیں چاہینگے؟‏

۳.‏ یسوع نے کونسی شاندار دعوت دی تھی؟‏

۳ آپ کے ذہن میں اس کی بابت شاید کچھ شکوک ہوں۔‏ ’‏کیا اتنی قدیم شخصیت کی آج میری زندگی میں کوئی اہمیت ہو سکتی ہے؟‏‘‏ اِس ضمن میں ذرا یسوع کے اِن پُرکشش الفاظ پر غور کریں:‏ ”‏اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔‏ مَیں تمکو آرام دُونگا۔‏ میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔‏ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔‏ تو تمہاری جانیں آرام پائینگی۔‏ کیونکہ میرا جؤا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔‏“‏ (‏متی ۱۱:‏۲۸-‏۳۰‏)‏ اِس سے اُسکی کیا مُراد تھی؟‏ آئیے اس بات کا تفصیلی جائزہ لیں اور دیکھیں کہ یہ نقصاندہ بوجھ سے آرام کا باعث کیسے بنتی ہے۔‏

۴.‏ یسوع کن سے مخاطب تھا اور اُس کے سامعین کے لئے تمام تقاضوں کو پورا کرنا کیوں مشکل تھا؟‏

۴ یسوع اُن لوگوں سے مخاطب تھا جو شریعت کی پابندی کرنے کی مخلصانہ کوشش کر رہے تھے مگر یہودی پیشواؤں نے مذہب کو اسقدر دشوار بنا دیا تھا کہ وہ ”‏بوجھ تلے دبے ہوئے“‏ تھے۔‏ (‏متی ۲۳:‏۴‏)‏ اُنہوں نے زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں کیلئے قانون وضع کر رکھے تھے۔‏ کیا آپکو اِس بات سے کوفت نہیں ہوگی کہ کوئی آپکو ہر وقت یہ بتاتا رہے کہ ”‏یہ نہ کرو،‏ وہ نہ کرو؟‏“‏ اسکے برعکس،‏ یسوع نے لوگوں کو دعوت دی کہ وہ اُسکی بات سننے سے سچائی،‏ راستبازی اور بہتر زندگی سے لطف‌اندوز ہو سکتے ہیں۔‏ جی‌ہاں،‏ یسوع پر توجہ دینے سے خدا کو جاننا ممکن ہے کیونکہ ماضی کی طرح آج بھی تمام انسان صرف اُسی کے ذریعے خدا کو دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کیسا ہے۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔‏“‏—‏یوحنا ۱۴:‏۹‏۔‏

کیا آپ کیلئے زندگی ایک بوجھ ہے؟‏

۵،‏ ۶.‏ ہمارے زمانے کی نسبت یسوع کے زمانے میں کام اور اُجرت کی صورتحال کیسی تھی؟‏

۵ یہ بات فکرمندی کا باعث ہو سکتی ہے کیونکہ آپ اپنی ملازمت یا خاندانی صورتحال کی وجہ سے خود کو بوجھ تلے دبا ہوا محسوس کر سکتے ہیں۔‏ یا دیگر ذمہ‌داریاں بھی آپکو مغلوب کر سکتی ہیں۔‏ اگر ایسا ہے تو آپ بالکل اُنہی خلوصدل لوگوں کی مانند ہیں جن کی یسوع نے مدد کی تھی۔‏ مثال کے طور پر،‏ روزی کمانے کے مسائل کی بابت سوچیں۔‏ یسوع کے زمانے کی طرح لوگوں کو آجکل بھی روزی کمانے کیلئے بڑی تگ‌ودَو کرنی پڑتی ہے۔‏

۶ اُس دَور میں ایک مزدور کو دن میں ۱۲ گھنٹے اور ہفتے میں ۶ دن سخت محنت‌ومشقت کرکے سارے دن کی مزدوری صرف ایک دینار ملتی تھی۔‏ (‏متی ۲۰:‏۲-‏۱۰‏)‏ کیا اِسکا موازنہ آپکی یا آپکے دوست‌احباب کی اُجرت سے کِیا جا سکتا ہے؟‏ قدیم زمانے کی اُجرت کا مقابلہ موجودہ زمانے کی اُجرت سے کرنا مشکل ہے۔‏ تاہم،‏ اس کے درمیان فرق کو پیسے کی قوتِ‌خرید پر غور کرنے سے سمجھا جا سکتا ہے۔‏ ایک عالم کا کہنا ہے کہ یسوع کے زمانے میں چار پیالے گندم کے آٹے سے بنی ہوئی روٹی کے ایک ٹکڑے کی قیمت ایک گھنٹے کی اُجرت کے برابر ہوتی تھی۔‏ اس سلسلے میں ایک اَور عالم کی رائے ہے کہ اچھی مے کے ایک پیالے کی قیمت دو گھنٹے کی اُجرت کے برابر تھی۔‏ ان تفصیلات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُس وقت کے لوگوں کو گزربسر کیلئے طویل اور سخت محنت کرنی پڑتی تھی۔‏ اُنہیں ہماری طرح آرام‌وتازگی کی ضرورت تھی۔‏ ممکن ہے کہ آپ پر بھی زیادہ سے زیادہ کام کرنے کا دباؤ ہو۔‏ اکثراوقات ہمیں اچھی طرح سوچ‌سمجھ کر فیصلے کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔‏ اب آپ یقیناً تسلیم کرینگے کہ آپکو آرام کی ضرورت ہے۔‏

۷.‏ یسوع کے پیغام کو کیسی پذیرائی حاصل ہوئی؟‏

۷ واقعی،‏ اُس وقت ’‏محنت اُٹھانے والے اور بوجھ سے دبے ہوئے‘‏ بیشتر سامعین کے لئے یسوع کی دعوت دلکش تھی۔‏ (‏متی ۴:‏۲۵؛‏ مرقس ۳:‏۷،‏ ۸‏)‏ نیز یسوع کے اس وعدے کو بھی یاد رکھیں کہ ”‏مَیں تمکو آرام دونگا۔‏“‏ اُسکا یہ وعدہ آج بھی قائم ہے۔‏ اگر ہم بھی ’‏محنت اُٹھاتے اور بوجھ تلے دبے ہوئے‘‏ ہیں تو یہ ہم پر بھی عائد ہوتا ہے۔‏ اگر ہمارے عزیزواقارب ایسی ہی حالت میں ہیں تو یہ وعدہ اُن کیلئے بھی ہے۔‏

۸.‏ بچوں کی پرورش اور بڑھاپا بوجھ میں کیسے اضافہ کرتا ہے؟‏

۸ ایسی اَور بھی بہت سی چیزیں ہیں جو لوگوں پر دباؤ ڈالتی ہیں۔‏ بچوں کی پرورش ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‏ لیکن بچوں کی اپنی زندگی بھی ایک چیلنج ہے۔‏ تمام عمر کے لوگ زیادہ سے زیادہ ذہنی اور جسمانی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔‏ اگرچہ کچھ لوگ لمبی عمر پاتے ہیں توبھی عمررسیدہ لوگوں کو تمام طبّی ترقیوں کے باوجود مخصوص مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏—‏واعظ ۱۲:‏۱‏۔‏

جؤے تلے

۹،‏ ۱۰.‏ زمانۂ‌قدیم میں،‏ جؤا کس کی علامت تھا اور یسوع نے لوگوں کو یہ دعوت کیوں دی کہ وہ اُسکا جؤا اُٹھا لیں؟‏

۹ کیا آپ نے غور کِیا کہ متی ۱۱:‏۲۸،‏ ۲۹ سے لئے گئے الفاظ میں یسوع نے کہا تھا:‏ ”‏میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔‏“‏ اُس وقت شاید کسی عام آدمی نے سوچا ہو کہ وہ جؤے تلے کام کر رہا ہے۔‏ زمانۂ‌قدیم سے جؤا غلامی یا محکومی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔‏ (‏پیدایش ۲۷:‏۴۰؛‏ احبار ۲۶:‏۱۳؛‏ استثنا ۲۸:‏۴۸‏)‏ یسوع بہتیرے یومیہ مزدوروں سے بھی ملا جو حقیقت میں کندھوں پر وزنی جؤے اُٹھا کر کام کِیا کرتے تھے۔‏ اس بات کا انحصار جؤے کی ساخت پر تھا کہ آیا اِسے اُٹھانا آسان ہوگا یا اس سے گردن اور کندھے زخمی ہو جائینگے۔‏ ایک بڑھئی کے طور پر یسوع نے بھی جؤے بنائے ہونگے اسلئے وہ ”‏ملائم“‏ جؤا بنانا جانتا تھا۔‏ غالباً وہ جؤے کو ممکنہ حد تک آرام‌دہ بنانے کیلئے گردن اور کندھوں پر رکھنے والے حصوں کو چمڑے یا کپڑے کا استر لگاتا ہوگا۔‏

۱۰ جب یسوع نے کہا کہ ”‏میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو“‏ تو وہ خود کو مزدور کی گردن اور کندھوں کیلئے ”‏ملائم“‏ جؤا فراہم کرنے والے شخص سے تشبِیہ دے رہا تھا۔‏ پس،‏ یسوع نے مزید کہا:‏ ”‏میرا بوجھ ہلکا“‏ ہے۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُسکا جؤا سخت اور اُس کیلئے کام کرنا غلامی نہیں تھا۔‏ یہ سچ ہے کہ جب یسوع نے اپنے سامعین کو دعوت دی کہ وہ اُسکا جؤا اُٹھا لیں تو وہ اُنہیں اُس وقت کی تمام استبدادی حالتوں سے فوری آرام کی پیشکش نہیں کر رہا تھا۔‏ اسکے برعکس اُسکا فرق نقطۂ‌نظر کسی حد تک تازگی کا باعث بنا ہوگا۔‏ زندگی اور کام کرنے کے طریقوں میں تبدیلی بھی لوگوں کو آرام دیگی۔‏ سب سے بڑھکر یہ کہ ایک واضح اور پُختہ اُمید بوجھ اور پریشانی سے عاری زندگی بسر کرنے میں اُنکی مدد کریگی۔‏

آپ آرام حاصل کر سکتے ہیں

۱۱.‏ یسوع محض ایک جؤے کو اُتار کر دوسرا اُٹھا لینے کی بات کیوں نہیں کر رہا تھا؟‏

۱۱ غور فرمائیں کہ یسوع نے یہ نہیں کہا تھا کہ لوگ ایک جؤا اُتار کر دوسرا جؤا اُٹھا لینگے۔‏ روم ابھی تک اِس مُلک پر قابض تھا جیسےکہ آجکل بھی اُن ممالک پر مختلف حکومتیں مسلّط ہیں جہاں مسیحی آباد ہیں۔‏ پہلی صدی کا رومی نظامِ‌محصول قائم رہنا تھا۔‏ طبّی اور معاشی مسائل باقی رہنے تھے۔‏ ناکاملیت اور گناہ نے بھی لوگوں کو متاثر کرتے رہنا تھا۔‏ اسکے باوجود،‏ وہ یسوع کی تعلیم پر عمل کرنے سے آرام پا سکتے تھے جو آج ہمارے لئے بھی ممکن ہے۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ یسوع نے کس تازگی‌بخش کام کو اُجاگر کِیا اور اس سلسلے میں بعض نے کیسا ردِعمل دکھایا تھا؟‏

۱۲ جؤے کی بابت یسوع کی تمثیل کا مرکزی اطلاق شاگرد بنانے کے کام پر ہوتا ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ یسوع کا خاص کام خدا کی بادشاہت پر روشنی ڈالتے ہوئے دوسروں کو تعلیم دینا تھا۔‏ (‏متی ۴:‏۲۳‏)‏ لہٰذا،‏ جب اُس نے کہا کہ ”‏میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو“‏ تو یقیناً اِس میں اُسکے نمونے کے مطابق یہ کام کرنا بھی شامل تھا۔‏ انجیلی بیان واضح کرتے ہیں کہ یسوع نے مخلص اشخاص کو اپنا پیشہ بدلنے کی تحریک بھی دی جو بیشتر لوگوں کی زندگی کی سب سے بڑی فکر ہوتا ہے۔‏ یاد کیجئے کہ اُس نے پطرس،‏ اندریاس اور یوحنا سے کہا تھا:‏ ”‏میرے پیچھے چلے آؤ تو مَیں تمکو آدم‌گیر بناؤنگا۔‏“‏ (‏مرقس ۱:‏۱۶-‏۲۰‏)‏ اُس نے اُن ماہی‌گیروں پر واضح کِیا کہ اگر وہ اُسکی زیرِنگرانی وہی کام کرینگے جو اُسکی اپنی زندگی میں مقدم تھا تو اُنہیں اطمینان حاصل ہوگا۔‏

۱۳ اُسکے بعض یہودی سامعین اُسکی بات سمجھ گئے اور اسکا اطلاق بھی کِیا۔‏ لوقا ۵:‏۱-‏۱۱ کا بیان پڑھتے ہوئے ذرا جھیل کے کنارے واقع ہونے والے اِس منظر کا تصور کریں۔‏ یہ چار ماہی‌گیر ساری رات سخت محنت کے باوجود ایک بھی مچھلی نہیں پکڑ سکے تھے۔‏ لیکن اچانک اُنکے جال بھر گئے!‏ یہ کوئی اتفاق نہیں تھا بلکہ یہ یسوع کا ایک معجزہ تھا۔‏ جب اُنہوں نے کنارے کی طرف دیکھا تو اُنہیں یسوع کی تعلیم سننے میں محو ایک بِھیڑ دکھائی دی۔‏ پس،‏ یسوع نے اُن چاروں کو اس بِھیڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏اب سے [‏تم]‏ آدمیوں کا شکار کِیا“‏ کرو گے۔‏ اِس پر اُنہوں نے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏ ”‏وہ کشتیوں کو کنارے پر لے آئے اور سب کچھ چھوڑ کر اُسکے پیچھے ہو لئے۔‏“‏

۱۴.‏ (‏ا)‏ آجکل ہم تازگی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یسوع نے کونسی تازگی‌بخش خوشخبری کا اعلان کِیا تھا؟‏

۱۴ آپ بھی ایسا ہی ردِعمل دکھا سکتے ہیں۔‏ لوگوں کو بائبل سچائی سکھانے کا کام ابھی تک جاری ہے۔‏ پوری دُنیا میں تقریباً ساٹھ لاکھ یہوواہ کے گواہوں نے یسوع کی دعوت کو قبول کرکے اُسکا ”‏جؤا اپنے اُوپر اُٹھا“‏ لیا ہے اور ”‏آدم‌گیر“‏ بن گئے ہیں۔‏ (‏متی ۴:‏۱۹‏)‏ بعض نے اِسے اپنا کُل‌وقتی پیشہ بنا لیا ہے جبکہ دیگر جُزوقتی اس میں حصہ لیتے ہیں۔‏ سب اس سے تازگی حاصل کرتے ہیں جس سے اُنکی زندگی میں بوجھ اور پریشانی کم ہو جاتی ہے۔‏ اُنہیں دوسروں کو خوشخبری—‏”‏بادشاہی کی خوشخبری“‏—‏سنانے سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔‏ (‏متی ۴:‏۲۳‏)‏ یوں تو ہر خوشی کی خبر کا تذکرہ کرنا ہمیشہ اچھا ہوتا ہے مگر اِس خوشخبری کی بابت گفتگو کرنا بالخصوص پُرمسرت ثابت ہوتا ہے۔‏ بائبل میں پائی جانے والی معلومات سے دوسروں کو اس بات پر قائل کرنا ممکن ہے کہ وہ ایسی زندگی بسر کر سکتے ہیں جس میں بوجھ اور پریشانی کم ہو۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏۔‏

۱۵.‏ آپ زندگی کی بابت یسوع کی تعلیمات سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟‏

۱۵ حال ہی میں خدا کی بادشاہت کا علم حاصل کرنے والوں نے زندگی بسر کرنے کی بابت یسوع کی تعلیمات سے کسی حد تک فائدہ اُٹھایا ہے۔‏ بہتیرے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یسوع کی تعلیمات اُن کیلئے آرام بخشنے اور اپنی زندگی بدلنے میں مددگار ثابت ہوئی ہیں۔‏ آپ بھی متی،‏ مرقس اور لوقا کی اناجیل میں یسوع کی زندگی اور خدمتگزاری کے واقعات سے عام طرزِزندگی کی بابت نمایاں ہونے والے بعض اصولوں کا جائزہ لینے سے اس بات کا تجربہ کر سکتے ہیں۔‏

آرام پانے کا طریقہ

۱۶،‏ ۱۷.‏ (‏ا)‏ آپکو یسوع کی بعض بنیادی تعلیمات کہاں ملیں گی؟‏ (‏ب)‏ یسوع کی تعلیمات کے اطلاق سے آرام حاصل کرنے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہے؟‏

۱۶ یسوع نے ۳۱ س.‏ع.‏ کے موسمِ‌بہار میں ایک خطبہ پیش کِیا جو آج بھی پوری دُنیا میں مشہور ہے۔‏ اسے اکثر پہاڑی وعظ کے نام سے یاد کِیا جاتا ہے۔‏ یہ متی ۵ تا ۷ ابواب اور لوقا ۶ باب میں درج ہے جس میں اُسکی بیشتر تعلیمات کی تلخیص کی گئی ہے۔‏ اناجیل میں آپ اُسکی دیگر تعلیمات بھی پڑھ سکتے ہیں۔‏ اُسکی باتیں اپنی وضاحت آپ کرتی ہیں اگرچہ ان پر عمل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ پس،‏ کیوں نہ اِن ابواب کو پورے دھیان اور سوچ‌سمجھ کیساتھ پڑھیں؟‏ اُسکے نظریات کو اپنی سوچ اور رُجحان پر اثرانداز ہونے دیں۔‏

۱۷ ظاہر ہے کہ یسوع کی تعلیمات کو مختلف انداز میں ترتیب دیا جا سکتا ہے۔‏ آئیے اُسکی تعلیمات کی کچھ اسطرح گروہ‌بندی کریں کہ مہینے کے ہر دن کیلئے کوئی ایسی بات مِل جائے جس پر اپنی زندگی میں عمل کرنے کا نصب‌اُلعین قائم کِیا جا سکے۔‏ کیسے؟‏ اِن پر سرسری نگاہ مت ڈالیں۔‏ اُس دولتمند سردار کو یاد کریں جس نے یسوع مسیح سے پوچھا:‏ ”‏مَیں کیا کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں؟‏“‏ جب یسوع نے اُس کے سامنے خدائی شریعت کے اہم تقاضوں کا ذکر کِیا تو اُس آدمی نے کہا کہ وہ پہلے ہی یہ سارے تقاضے پورے کر رہا ہے۔‏ لیکن اُس نے تسلیم کِیا کہ اَور کچھ بھی کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یسوع نے اُس پر واضح کِیا کہ خدائی اصولوں کو عمل میں لانے یعنی فعال شاگرد بننے کیلئے اُسے جانفشانی کرنی چاہئے۔‏ بدیہی طور پر،‏ وہ آدمی ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔‏ (‏لوقا ۱۸:‏۱۸-‏۲۳‏)‏ لہٰذا،‏ آجکل یسوع کی تعلیمات سیکھنے کے خواہاں لوگوں کو یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اِن تعلیمات سے متفق ہونے اور اِن پر عمل کرنے میں بہت فرق ہے جو دراصل بوجھ اور پریشانی کم کرتا ہے۔‏

۱۸.‏ واضح کریں کہ آپ بکس سے زیادہ فائدہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‏

۱۸ یسوع کی تعلیمات کے جائزے اور اطلاق کے شروع میں،‏ بکس کے پہلے نکتے پر غور کریں۔‏ اس میں متی ۵:‏۳-‏۹ کے حوالے پر بات کی گئی ہے۔‏ ہم سب ان آیات میں پائی جانے والی عمدہ مشورت پر غوروخوض کرنے میں خاصا وقت صرف کر سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ انکے مجموعی جائزے سے آپ رویے کی بابت کس نتیجے پر پہنچتے ہیں؟‏ اگر آپ اپنی زندگی میں بہت زیادہ بوجھ اور پریشانی کے اثر پر غالب آنا چاہتے ہیں تو کونسی چیز مددگار ثابت ہوگی؟‏ اگر آپ روحانی معاملات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور انہی میں مشغول رہتے ہیں تو آپ کی حالت کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟‏ کیا آپ اپنی زندگی کے بعض معاملات کو کم اہم خیال کرتے ہوئے روحانی معاملات پر زیادہ دھیان دینے کے قابل ہیں؟‏ اگر آپ ایسا کرینگے تو آپکی خوشی میں اضافہ ہوگا۔‏

۱۹.‏ آپ اضافی بصیرت اور سمجھ حاصل کرنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۹ اب ذرا ایک قدم آگے بڑھیں۔‏ کیوں نہ ان آیات پر خدا کے کسی دوسرے خادم،‏ شاید اپنے بیاہتا ساتھی،‏ رشتہ‌دار یا دوست کیساتھ گفتگو کی جائے؟‏ (‏امثال ۱۸:‏۲۴؛‏ ۲۰:‏۵‏)‏ یاد رکھیں کہ اُس دولتمند سردار نے متعلقہ معاملے پر کسی دوسرے—‏یسوع—‏کی رائے لی تھی۔‏ اُس کا مثبت جوابی‌عمل خوشی اور ابدی زندگی کے امکان کو روشن کر سکتا تھا۔‏ آپ جس ساتھی پرستار کیساتھ اِن آیات پر گفتگو کرینگے وہ یسوع کے برابر تو نہیں ہوگا لیکن یسوع کی تعلیمات پر باہمی گفتگو آپ دونوں کیلئے مفید ثابت ہوگی۔‏ پس جلدازجلد ایسا کرنے کی کوشش کریں۔‏

۲۰،‏ ۲۱.‏ یسوع کی تعلیمات پر عمل کرنے کیلئے آپ کونسا طریقۂ‌کار اختیار کر سکتے ہیں اور آپ اپنی ترقی کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں؟‏

۲۰ بکس بعنوان ”‏مددگار تعلیمات“‏ کو پھر دیکھیں۔‏ اِن تعلیمات کی گروہ‌بندی کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ آپ کم‌ازکم ہر روز ایک بات پر غور کر سکیں۔‏ سب سے پہلے آپ حوالہ‌شُدہ آیات میں یسوع کی بات پڑھیں۔‏ پھر اس پر سوچ‌بچار کریں۔‏ غور کریں کہ آپ اپنی زندگی میں اسکا اطلاق کیسے کر سکتے ہیں۔‏ اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ پہلے ہی ایسا کر رہے ہیں تو سوچیں کہ آپ اس الہٰی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کیلئے مزید کیا کر سکتے ہیں۔‏ دن کے دوران اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔‏ اگر آپکو اسکا مفہوم اور اطلاق سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے تو ایک اَور دن اس پر غور کریں۔‏ تاہم،‏ یاد رکھیں کہ اگلے نکتے پر جانے سے پہلے آپکو اسکا ماہر بننے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ اگلے دن،‏ آپ کسی اَور تعلیم پر غور کر سکتے ہیں۔‏ ہفتے کے آخر پر آپ نظرثانی کر سکتے ہیں کہ آپ یسوع کی تعلیمات میں سے چار یا پانچ کو اپنانے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔‏ اگلے ہفتے پھر ہر روز ایسا ہی کریں۔‏ اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ بعض تعلیمات کا اطلاق کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں تو بےحوصلہ نہ ہوں۔‏ ہر مسیحی کو ایسا ہی تجربہ ہوگا۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۳۶؛‏ زبور ۱۳۰:‏۳؛‏ واعظ ۷:‏۲۰؛‏ یعقوب ۳:‏۸‏)‏ تیسرے اور چوتھے ہفتے بھی ایسا ہی کریں۔‏

۲۱ تقریباً ایک مہینے بعد،‏ آپ تمام ۳۱ نکات کا احاطہ کر چکے ہونگے۔‏ بہرکیف،‏ اس سے آپکو کیسا محسوس ہوگا؟‏ کیا آپ خوش،‏ شاید مطمئن محسوس نہیں کرینگے؟‏ اگر آپ نے تھوڑی ہی سی بہتری پیدا کی ہے توبھی آپ بوجھ اور پریشانی میں کمی محسوس کرینگے یا کم‌ازکم آپ اس سے نپٹنے کے قابل ہو جائینگے اور یوں آپ بہتری لانا جاری رکھیں گے۔‏ یہ بات مت بھولیں کہ یسوع کی تعلیمات کے اَور بھی بہتیرے عمدہ نکات ہیں جو اس فہرست میں شامل نہیں۔‏ کیوں نہ انہیں بھی تلاش کریں اور عمل میں لائیں؟‏—‏فلپیوں ۳:‏۱۶‏۔‏

۲۲.‏ یسوع کی تعلیمات پر عمل کرنے کا انجام کیا ہو سکتا ہے لیکن کونسا اضافی پہلو توجہ کا مستحق ہے؟‏

۲۲ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یسوع کا جؤا اگرچہ بےوزن تو نہیں مگر ملائم ضرور ہے۔‏ اُسکی تعلیمات اور شاگردی کا بوجھ ہلکا ہے۔‏ یسوع کے پیارے دوست،‏ یوحنا رسول نے ۶۰ سالہ ذاتی تجربے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کِیا:‏ ”‏خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُسکے حکموں پر عمل کریں اور اُسکے حکم سخت نہیں۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۳‏)‏ آپ بھی ایسا ہی اعتماد پیدا کر سکتے ہیں۔‏ آپ جتنا زیادہ یسوع کی تعلیمات کو عمل میں لائینگے،‏ اتنا ہی آپ یہ سمجھ جائینگے کہ آجکل جو چیزیں بہتیرے لوگوں کی زندگی کو ایک بھاری بوجھ بنا دیتی ہیں وہ دراصل آپ کے نزدیک اتنی پریشان‌کُن نہیں ہیں۔‏ آپ دیکھیں گے کہ آپ نے کافی حد تک آرام حاصل کر لیا ہے۔‏ (‏زبور ۳۴:‏۸‏)‏ تاہم،‏ ابھی آپکو یسوع کے ملائم جؤے کے ایک اَور پہلو کو سمجھنا ہے۔‏ یسوع نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ”‏حلیم .‏ .‏ .‏ اور دل کا فروتن“‏ ہے۔‏ اسکا یسوع کی بابت سیکھنے اور اُسکی نقل کرنے سے کیا تعلق ہے؟‏ اگلے مضمون میں ہم اسی بات پر غور کرینگے۔‏—‏متی ۱۱:‏۲۹‏۔‏

آپکا جواب کیا ہے؟‏

‏• بہت زیادہ بوجھ سے آرام کی توقع میں ہمیں یسوع پر بھروسا کیوں کرنا چاہئے؟‏

‏• جؤا کس چیز کی علامت تھا اور کیوں؟‏

‏• یسوع نے لوگوں کو یہ دعوت کیوں دی کہ اُسکا جؤا اُٹھا لیں؟‏

‏• آپ روحانی آرام کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۴ پر عبارت]‏

سن ۲۰۰۲ کے دوران یہوواہ کے گواہوں کی سالانہ آیت یہ ہوگی:‏ ”‏میرے پاس آؤ۔‏ مَیں تمکو آرام دونگا۔‏“‏—‏متی ۱۱:‏۲۸‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۲،‏ ۱۳ پر بکس/‏تصویر]‏

مددگار تعلیمات

آپ متی ۵ تا ۷ ابواب میں کونسی عمدہ باتیں پاتے ہیں؟‏ یہ ابواب گلیل کے ایک پہاڑ کے دامن میں ماہر اُستاد،‏ یسوع کی پیش‌کردہ تعلیمات پر مشتمل ہیں۔‏ براہِ‌مہربانی اپنی بائبل سے مندرجہ‌ذیل آیات پڑھیں اور خود سے متعلقہ سوال پوچھیں۔‏

۱.‏ ۵:‏۳-‏۹ یہ آیات مجھے میرے عام رُجحان کی بابت کیا بتاتی ہیں؟‏ مَیں زیادہ خوشی حاصل کرنے کیلئے کیا کر سکتا ہوں؟‏ مَیں اپنی روحانی ضروریات کو زیادہ توجہ کیسے دے سکتا ہوں؟‏

۲.‏ ۵:‏۲۵،‏ ۲۶ دُنیا کی نزاع‌انگیز روح کی نقل کرنے کی بجائے کیا بہتر ہے؟‏—‏لوقا ۱۲:‏۵۸،‏ ۵۹‏۔‏

۳.‏ ۵:‏۲۷-‏۳۰ جنسی رغبت کے سلسلے میں یسوع کے الفاظ کیا ظاہر کرتے ہیں؟‏ ان چیزوں سے بچنا میری خوشی اور ذہنی سکون میں کیسے اضافہ کریگا؟‏

۴.‏ ۵:‏۳۸-‏۴۲ مجھے دُنیا کی جارحانہ روش سے بچنے کی کوشش کیوں کرنی چاہئے؟‏

۵.‏ ۵:‏۴۳-‏۴۸ مَیں جن لوگوں کو اپنا دُشمن خیال کرتا ہوں اُن سے زیادہ واقفیت پیدا کرنا میرے لئے کیسے مفید ثابت ہوگا؟‏ یہ کشیدگی کم یا ختم کرنے میں کیا کردار ادا کرے گا؟‏

۶.‏ ۶:‏۱۴،‏ ۱۵ جب مَیں کسی کو معاف نہیں کرتا تو کیا اسکی بنیادی وجہ حسد یا بغض ہوتا ہے؟‏ مَیں اس میں تبدیلی کیسے پیدا کر سکتا ہوں؟‏

۷.‏ ۶:‏۱۶-‏۱۸ کیا مجھے باطن سے زیادہ ظاہر کی فکر ہوتی ہے؟‏ مجھے کس کا زیادہ خیال رکھنا چاہئے؟‏

۸.‏ ۶:‏۱۹-‏۳۲ اگر مَیں مال‌ودولت کی فکر میں پڑ جاؤں تو کیا ہوگا؟‏ اس سلسلے میں توازن برقرار رکھنے کیلئے کونسی چیز میری مدد کریگی؟‏

۹.‏ ۷:‏۱-‏۵ عیب‌جُوئی اور نکتہ‌چینی کرنے والے لوگوں کی صحبت میں مجھے کیسا محسوس ہوتا ہے؟‏ میرے لئے اس سے بچنا کیوں اہم ہے؟‏

۱۰.‏ ۷:‏۷-‏۱۱ اگر خدا سے درخواست کے سلسلے میں مستقل‌مزاجی اچھی ہے تو باقی معاملات کی بابت کیا ہے؟‏—‏لوقا ۱۱:‏۵-‏۱۳‏۔‏

۱۱.‏ ۷:‏۱۲ اگرچہ مَیں زریں اصول سے واقف تو ہوں لیکن مَیں دوسروں کیساتھ تعلقات میں اسکا کسقدر اطلاق کرتا ہوں؟‏

۱۲.‏ ۷:‏۲۴-‏۲۷ اپنی روش کا تعیّن کرنا میری ذاتی ذمہ‌داری ہے اسلئے مَیں مشکلات کے طوفانوں اور مصیبت کے سیلابوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کیسے تیار ہو سکتا ہوں؟‏ مجھے اسوقت اِس پر غور کیوں کرنا چاہئے؟‏—‏لوقا ۶:‏۴۶-‏۴۹‏۔‏

غوروخوض کیلئے اضافی تعلیمات:‏

۱۳.‏ ۸:‏۲،‏ ۳ مَیں یسوع کی طرح غریبوں اور محتاجوں کیلئے رحم کیسے دکھا سکتا ہوں؟‏

۱۴.‏ ۹:‏۹-‏۳۸ رحم کا میری زندگی میں کیا کردار ہے اور مَیں اسکا مزید مظاہرہ کیسے کر سکتا ہوں؟‏

۱۵.‏ ۱۲:‏۱۹ یسوع کی بابت پیشینگوئی سے سبق سیکھتے ہوئے کیا مَیں حجت‌بازی سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہوں؟‏

۱۶.‏ ۱۲:‏۲۰،‏ ۲۱ اپنے قول‌وفعل سے دوسروں کو ٹھوکر نہ کھلانے سے مَیں کونسی نیکی کر سکتا ہوں؟‏

۱۷.‏ ۱۲:‏۳۴-‏۳۷ میری زبان پر اکثر کس کا ذکر ہوتا ہے؟‏ مجھے معلوم ہے کہ سنگترے کو نچوڑنے سے سنگترے کا رس ہی نکلے گا توپھر مجھے اپنے باطن،‏ اپنے دل پر کیوں غور کرنا چاہئے؟‏—‏مرقس ۷:‏۲۰-‏۲۳‏۔‏

۱۸.‏ ۱۵:‏۴-‏۶ یسوع کی اس بات سے مَیں عمررسیدہ لوگوں کی مشفقانہ دیکھ‌بھال کی بابت کیا سمجھتا ہوں؟‏

۱۹.‏ ۱۹:‏۱۳-‏۱۵ مجھے کیا کرنے کیلئے وقت نکالنا چاہئے؟‏

۲۰.‏ ۲۰:‏۲۵-‏۲۸ اختیار جتانا کیوں فائدہ‌مند نہیں ہے؟‏ مَیں اس سلسلے میں یسوع کی نقل کیسے کر سکتا ہوں؟‏

مرقس کے تحریرکردہ اضافی خیالات:‏

۲۱.‏ ۴:‏۲۴،‏ ۲۵ دوسروں کے ساتھ میرے برتاؤ کی اہمیت کیا ہے؟‏

۲۲.‏ ۹:‏۵۰ اگر میرا قول‌وفعل اچھا ہے تو اِس سے کونسے اچھے نتائج حاصل ہونگے؟‏

آخر میں،‏ لوقا کی تحریرکردہ چند تعلیمات:‏

۲۳.‏ ۸:‏۱۱،‏ ۱۴ میری زندگی پر پریشانی،‏ دولت اور عیش‌وعشرت کے حاوی ہو جانے کا انجام کیا ہوگا؟‏

۲۴.‏ ۹:‏۱-‏۶ اگرچہ یسوع کے پاس بیماروں کو شفا دینے کی قوت تھی توبھی اُس نے کس کام کو ترجیح دی؟‏

۲۵.‏ ۹:‏۵۲-‏۵۶ کیا مَیں بہت جلدی ناراض ہو جاتا ہوں؟‏ کیا مَیں بدلہ لینے کے رُجحان سے گریز کرتا ہوں؟‏

۲۶.‏ ۹:‏۶۲ مَیں خدا کی بادشاہت کا پرچار کرنے کی ذمہ‌داری کو کیسا خیال کرتا ہوں؟‏

۲۷.‏ ۱۰:‏۲۹-‏۳۷ مَیں کیسے ثابت کر سکتا ہوں کہ مَیں اجنبی کی بجائے پڑوسی ہوں؟‏

۲۸.‏ ۱۱:‏۳۳-‏۳۶ مَیں اپنی زندگی سادہ بنانے کیلئے کونسی تبدیلیاں کر سکتا ہوں؟‏

۲۹.‏ ۱۲:‏۱۵ زندگی اور مال‌ودولت کے مابین کیا تعلق ہے؟‏

۳۰.‏ ۱۴:‏۲۸-‏۳۰ اگر مَیں فیصلوں پر غور کرنے کیلئے وقت نکالتا ہوں تو مجھے کس چیز سے گریز کرنا چاہئے اور اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟‏

۳۱.‏ ۱۶:‏۱۰-‏۱۲ ایک وفادارانہ روشِ‌زندگی میرے لئے کن فوائد پر منتج ہو سکتی ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویریں]‏

یسوع کے جؤے کے تحت زندگی‌بخش کام آرام دیتا ہے