مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏مجھ سے سیکھو“‏

‏”‏مجھ سے سیکھو“‏

‏”‏مجھ سے سیکھو“‏

‏”‏میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔‏ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔‏ تو تمہاری جانیں آرام پائینگی۔‏“‏—‏متی ۱۱:‏۲۹‏۔‏

۱.‏ یسوع سے سیکھنا مفید اور خوش‌کُن کیوں ہے؟‏

یسوع مسیح کی سوچ،‏ تعلیم اور کام ہمیشہ مفید اور مؤثر تھے۔‏ اگرچہ اُس نے زمین پر بہت کم وقت گزارا توبھی وہ اپنے بااجر اور اطمینان‌بخش کام سے لطف‌اندوز ہوا اور خوش رہا۔‏ اُس نے شاگردوں کو خدا کی پرستش کرنا،‏ انسانیت سے محبت کرنا اور دُنیا پر فتح پانا سکھایا۔‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۳۳‏)‏ اُس نے اُنکے دلوں کو اُمید سے معمور کرکے ”‏زندگی اور بقا کو اُس خوشخبری کے وسیلہ سے روشن کر دیا۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۱:‏۱۰‏)‏ اگر آپ بھی خود کو اُس کا شاگرد سمجھتے ہیں تو آپ کے خیال میں شاگرد ہونے کا مطلب کیا ہے؟‏ شاگردوں کی بابت یسوع کے اظہارات کا جائزہ لینے سے ہم اپنی زندگی کو بہتر اور خوشحال بنانا سیکھ سکتے ہیں۔‏ اس سے مُراد اُسکا نظریہ اپنانا اور بعض بنیادی اصولوں کا اطلاق کرنا ہے۔‏—‏متی ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵؛‏ لوقا ۱۴:‏۲۶،‏ ۲۷؛‏ یوحنا ۸:‏۳۱،‏ ۳۲؛‏ ۱۳:‏۳۵؛‏ ۱۵:‏۸‏۔‏

۲،‏ ۳.‏ (‏ا)‏ یسوع کا شاگرد ہونے سے کیا مُراد ہے؟‏ (‏ب)‏ خود سے یہ پوچھنا کیوں اہم ہے کہ ’‏مَیں کس کا شاگرد ہوں؟‏‘‏

۲ مسیحی یونانی صحائف میں جس لفظ کا ترجمہ ”‏شاگرد“‏ کیا گیا ہے اُس کا بنیادی مطلب اپنا دھیان کسی چیز پر لگانے والا یا سیکھنے والا ہے۔‏ اسی سے متعلقہ لفظ ہماری مرکزی آیت،‏ متی ۱۱:‏۲۹ میں بھی آیا ہے:‏ ”‏میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔‏ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔‏ تو تمہاری جانیں آرام پائینگی۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ شاگرد کا کام سیکھنا ہوتا ہے۔‏ اناجیل یسوع کے قریبی پیروکاروں کیلئے عموماً لفظ ”‏شاگرد“‏ استعمال کرتی ہیں جو منادی میں اُسکے ہمراہ تھے اور اُنہوں نے اُس سے تعلیم پائی تھی۔‏ بعض لوگوں نے خفیہ طور پر بھی یسوع کی تعلیمات قبول کر لی تھیں۔‏ (‏لوقا ۶:‏۱۷؛‏ یوحنا ۱۹:‏۳۸‏)‏ انجیل‌نویسوں نے بیان کِیا کہ ”‏یوؔحنا [‏اصطباغی]‏ کے شاگرد اور فریسیوں کے شاگرد“‏ بھی تھے۔‏ (‏مرقس ۲:‏۱۸‏)‏ یسوع نے ”‏فریسیوں .‏ .‏ .‏ کی تعلیم سے خبردار“‏ کِیا تھا اسلئے ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں کہ ’‏مَیں کس کا شاگرد ہوں؟‏‘‏—‏متی ۱۶:‏۱۲‏۔‏

۳ اگر ہم یسوع کے شاگرد ہیں،‏ اگر ہم نے اُس سے تعلیم پائی ہے تو پھر دوسروں کو ہماری موجودگی میں روحانی تازگی محسوس کرنی چاہئے۔‏ اُن پر یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ ہم حلیم اور دل کے فروتن ہیں۔‏ اگر ہمیں کسی کام کی نگرانی سونپی گئی ہے،‏ اگر ہم والدین ہیں یا مسیحی کلیسیا میں گلّہ‌بانی کے فرائض انجام دیتے ہیں تو کیا ہماری زیرِنگرانی لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم اُن کیساتھ ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسا یسوع اپنے ساتھیوں کیساتھ کرتا تھا؟‏

یسوع نے لوگوں کیساتھ کیسا برتاؤ کِیا

۴،‏ ۵.‏ (‏ا)‏ مسائل میں گرفتار لوگوں کیساتھ یسوع کے برتاؤ کی بابت جاننا مشکل کیوں نہیں ہے؟‏ (‏ب)‏ ایک فریسی کے گھر دعوت کے دوران یسوع کو کیا تجربہ ہوا؟‏

۴ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یسوع لوگوں،‏ بالخصوص سنگین مسائل میں گرفتار لوگوں کیساتھ کیسے پیش آتا تھا۔‏ یہ معلوم کرنا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ بائبل بہتیرے مواقع کا ذکر کرتی ہے جب یسوع ایسے لوگوں سے ملا جن میں سے بعض سنگین مسائل سے دوچار تھے۔‏ آئیے یہ بھی دیکھیں کہ اُس زمانے کے مذہبی پیشوا،‏ خصوصاً فریسی ایسے لوگوں سے کیسا سلوک کرتے تھے۔‏ ان دونوں کے درمیان فرق سے ہم بہت کچھ سیکھنے کے قابل ہونگے۔‏

۵ جب یسوع ۳۱ س.‏ع.‏ میں گلیل میں منادی کر رہا تھا تو ”‏کسی فریسی نے اُس سے درخواست کی کہ میرے ساتھ کھانا کھا۔‏“‏ یسوع نے بِلاتذبذب دعوت قبول کر لی۔‏ ”‏پس وہ اُس فریسی کے گھر جا کر کھانا کھانے بیٹھا۔‏ تو دیکھو ایک بدچلن عورت جو اُس شہر کی تھی۔‏ یہ جان کر کہ وہ اُس فریسی کے گھر میں کھانا کھانے بیٹھا ہے سنگِ‌مرمر کے عطردان میں عطر لائی۔‏ اور اُسکے پاؤں کے پاس روتی ہوئی پیچھے کھڑی ہو کر اُسکے پاؤں آنسوؤں سے بھگونے لگی اور اپنے سر کے بالوں سے اُنکو پونچھا اور اُسکے پاؤں بہت چومے اور اُن پر عطر ڈالا۔‏“‏—‏لوقا ۷:‏۳۶-‏۳۸‏۔‏

۶.‏ یہ ”‏بدچلن“‏ عورت اُس فریسی کے گھر کیوں آئی تھی؟‏

۶ کیا آپ اس منظر کا تصور کر سکتے ہیں؟‏ ایک کتاب بیان کرتی ہے:‏ ”‏عام رواج کے مطابق محتاج لوگ بچاکھچا کھانا حاصل کرنے کیلئے ایسی ضیافتوں میں جا سکتے تھے،‏ لہٰذا اِس عورت (‏۳۷ آیت)‏ نے اِسی سے فائدہ اُٹھایا۔‏“‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بِن‌بلائے کیسے اندر آ سکتا تھا۔‏ وہاں اَور بھی ایسے لوگ ہونگے جو دعوت کے بعد بچی ہوئی چیزیں اُٹھانے کے منتظر تھے۔‏ تاہم،‏ اس عورت کا رُجحان غیرمعمولی تھا۔‏ اُس نے دُور کھڑی ہوکر ضیافت کے ختم ہونے کا انتظار نہ کِیا۔‏ وہ ”‏بدچلن“‏ ہونے کی وجہ سے تمام علاقے میں بدنام تھی اسی لئے یسوع نے کہا کہ ”‏اِسکے گناہ .‏ .‏ .‏ بہت تھے۔‏“‏—‏لوقا ۷:‏۴۷‏۔‏

۷،‏ ۸.‏ (‏ا)‏ لوقا ۷:‏۳۶-‏۳۸ میں بیان‌کردہ حالات کے تحت ہمارا ردِعمل کیسا ہوتا؟‏ (‏ب)‏ شمعون کا ردِعمل کیسا تھا؟‏

۷ ذرا تصور کریں کہ اگر آپ اُس وقت یسوع کی جگہ ہوتے تو آپ کا ردِعمل کیسا ہوتا؟‏ اس عورت کو اپنے پاس آتا دیکھ کر کیا آپ کو شرمندگی محسوس ہوتی؟‏ اس صورتحال کا آپ پر کیا اثر ہوتا؟‏ (‏لوقا ۷:‏۴۵‏)‏ کیا آپ خوف‌زدہ ہو جاتے؟‏

۸ اگر آپ دیگر مہمانوں میں شامل ہوتے تو کیا آپ کی سوچ بھی شمعون فریسی جیسی ہوتی؟‏ ”‏اُس کی دعوت کرنے والا فریسی یہ دیکھ کر اپنے جی میں کہنے لگا کہ اگر یہ شخص نبی ہوتا تو جانتا کہ جو اُسے چُھوتی ہے وہ کون اور کیسی عورت ہے کیونکہ بدچلن ہے۔‏“‏ (‏لوقا ۷:‏۳۹‏)‏ اسکے برعکس،‏ یسوع ایک رحمدل شخص تھا۔‏ اُس نے عورت کی خستہ‌حالی اور غم کا لحاظ رکھا۔‏ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ وہ اس بدچلنی میں کیسے پڑ گئی تھی لیکن اگر وہ واقعی کسبی ہوتی تو اس علاقے کے عقیدتمند یہودی مرد کبھی بھی اُس کی مدد نہ کرتے۔‏

۹.‏ یسوع کا ردِعمل کیسا تھا اور اسکا کیا نتیجہ نکلا؟‏

۹ تاہم،‏ یسوع اُسکی مدد کرنا چاہتا تھا۔‏ اُس نے اُس سے کہا:‏ ”‏تیرے گناہ معاف ہوئے۔‏“‏ پھر اُس نے کہا:‏ ”‏تیرے ایمان نے تجھے بچا لیا ہے۔‏ سلامت چلی جا۔‏“‏ (‏لوقا ۷:‏۴۸-‏۵۰‏)‏ اِس بات کیساتھ سرگزشت ختم ہو جاتی ہے۔‏ بعض شاید کہیں کہ یسوع نے اُس کی کوئی خاص مدد نہیں کی تھی۔‏ اُس نے اُسے صرف برکت دیکر بھیج دیا تھا۔‏ کیا آپ کے خیال میں وہ دوبارہ اُسی شرمناک طرزِزندگی کی طرف لوٹ گئی ہوگی؟‏ ہم وثوق سے تو کچھ نہیں کہہ سکتے مگر غور کریں کہ اِسکے بعد لوقا کیا بیان کرتا ہے۔‏ وہ بیان کرتا ہے کہ یسوع ”‏منادی کرتا اور خدا کی بادشاہی کی خوشخبری سناتا ہوا شہر شہر اور گاؤں گاؤں پھرنے لگا۔‏“‏ لوقا یہ بھی بتاتا ہے کہ ”‏بعض عورتیں“‏ یسوع اور اُسکے شاگردوں کیساتھ تھیں ”‏جو اپنے مال سے اُنکی خدمت کرتی تھیں۔‏“‏ بہت اغلب ہے کہ یہ تائب اور قدردان عورت اب ان کے ساتھ ملکر نیک ضمیر،‏ نئے عزم اور خدا کیلئے گہری محبت سے خداپرستانہ روش پر گامزن تھی۔‏—‏لوقا ۸:‏۱-‏۳‏۔‏

یسوع اور فریسیوں میں فرق

۱۰.‏ شمعون کے گھر میں یسوع اور عورت کی سرگزشت پر غور کرنا کیوں مفید ہے؟‏

۱۰ ہم اِس واضح سرگزشت سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏ یہ ہمارے اندر جوش پیدا کرتی ہے؟‏ خود کو شمعون کے گھر پر تصور کریں۔‏ آپ کیسا محسوس کرتے؟‏ کیا آپکا ردِعمل یسوع جیسا ہوتا یا اُسکے میزبان فریسی جیسا ہوتا؟‏ یسوع خدا کا بیٹا تھا اسلئے ہم بالکل اُس جیسے احساس کیساتھ عمل نہیں کر سکتے۔‏ اسکے برعکس،‏ ہم شمعون فریسی جیسا بھی نہیں بننا چاہینگے۔‏ فریسیوں جیسا بننے میں شاید ہی کوئی فخر محسوس کریگا۔‏

۱۱.‏ ہم فریسیوں جیسا بننا کیوں پسند نہیں کرینگے؟‏

۱۱ بائبلی اور دُنیاوی شہادتوں کے جائزے سے،‏ ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ فریسی متکبر تھے اور خود کو عوامی اور قومی فلاح‌وبہبود کے علمبردار خیال کرتے تھے۔‏ وہ اس بات سے مطمئن نہیں تھے کہ خدا کی شریعت بالکل واضح اور قابلِ‌فہم ہے۔‏ اگر اُنہیں ذرا سا بھی گمان ہوتا کہ شریعت فلاں معاملے میں کوئی واضح ہدایت نہیں دیتی تو وہ اضافی تشریحات کے ساتھ اِس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ضمیر کے استعمال کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑتے تھے۔‏ ان مذہبی راہنماؤں نے تمام معاملات حتیٰ‌کہ معمولی‌معمولی باتوں کے لئے بھی ضوابط وضع کرنے کی کوشش کی۔‏ *

۱۲.‏ فریسی خود کو کیسا خیال کرتے تھے؟‏

۱۲ پہلی صدی کا مؤرخ یوسیفس واضح کرتا ہے کہ فریسی خود کو بڑا رحمدل،‏ مہربان،‏ انصاف‌پسند اور لائق‌فائق سمجھتے تھے۔‏ بِلاشُبہ،‏ بعض فریسی ایسے تھے بھی۔‏ شاید آپ کے ذہن میں نیکدیمس کا نام آئے۔‏ (‏یوحنا ۳:‏۱،‏ ۲؛‏ ۷:‏۵۰،‏ ۵۱‏)‏ بعض نے تو مسیحیت بھی اختیار کر لی تھی۔‏ (‏اعمال ۱۵:‏۵‏)‏ مسیحی رسول پولس نے بعض یہودیوں کی بابت جن میں فریسی بھی شامل تھے یوں لکھا:‏ ”‏وہ خدا کے بارے میں غیرت تو رکھتے ہیں مگر سمجھ کے ساتھ نہیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۰:‏۲‏)‏ تاہم،‏ اناجیل عام لوگوں کے نظریے کے مطابق فریسیوں کی خاکہ‌کشی کرتی ہیں کہ وہ متکبر،‏ گھمنڈی،‏ ریاکار،‏ عیب‌جُو،‏ ناقد اور کم‌ظرف تھے۔‏

یسوع کا نظریہ

۱۳.‏ یسوع نے فریسیوں کی بابت کیا کہا؟‏

۱۳ یسوع نے فریسیوں کو ریاکار کہہ کر سرزنش کی۔‏ ”‏وہ اَیسے بھاری بوجھ جن کو اُٹھانا مشکل ہے باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں مگر آپ اُن کو اپنی اُنگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے۔‏“‏ واقعی،‏ لوگوں پر بھاری بوجھ اور سخت جؤا رکھا ہوا تھا۔‏ یسوع نے فقیہوں اور فریسیوں کو ’‏احمق‘‏ بھی کہا۔‏ ایک احمق شخص معاشرے کے لئے خطرہ ہوتا ہے۔‏ یسوع نے فقیہوں اور فریسیوں کو ”‏اندھے راہ بتانے“‏ والے کہا اور زور دیا کہ اُنہوں نے ”‏شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔‏“‏ کون یہ چاہے گا کہ یسوع بھی خود کو فریسیوں جیسا بنا لیتا؟‏—‏متی ۲۳:‏۱-‏۴،‏ ۱۶،‏ ۱۷،‏ ۲۳‏۔‏

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ متی لاوی کیساتھ یسوع کے برتاؤ سے فریسیوں کی سوچ کے متعلق کیا آشکارا ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم اس سرگزشت سے کونسے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۴ انجیلی سرگزشت پڑھنے سے ہر کوئی بیشتر فریسیوں کے تنقیدی رُجحان کو دیکھ سکتا ہے۔‏ جب یسوع نے محصول لینے والے متی لاوی کو شاگرد بننے کی دعوت دی تو لاوی نے اُس کیلئے بہت بڑی ضیافت کا اہتمام کِیا۔‏ سرگزشت بیان کرتی ہے:‏ ”‏فریسی اور اُنکے فقیہ اُسکے شاگردوں سے یہ کہہ کر بڑبڑانے لگے کہ تم کیوں محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کھاتے پیتے ہو؟‏ یسوؔع نے جواب میں اُن سے کہا کہ .‏ .‏ .‏ مَیں راستبازوں کو نہیں بلکہ گنہگاروں کو توبہ کے لئے بلانے آیا ہوں۔‏“‏—‏لوقا ۵:‏۲۷-‏۳۲‏۔‏

۱۵ لاوی نے بھی اس موقع پر یسوع کی کہی ہوئی اس بات کو سمجھا:‏ ”‏تم جا کر اُسکے معنی دریافت کرو کہ مَیں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں۔‏“‏ (‏متی ۹:‏۱۳‏)‏ فریسی عبرانی انبیا کے صحائف پر ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود ہوسیع ۶:‏۶ کے اس بیان پر عمل نہیں کرتے تھے۔‏ اُنکی نگاہ میں اصولوں کی پابندی رحم سے زیادہ ضروری تھی۔‏ ہم سب خود سے پوچھ سکتے ہیں،‏ ’‏کیا لوگ مجھے مختلف معاملات کی بابت ذاتی یا دیگر انسانوں کی رائے کی عکاسی کرنے والے اصولوں کی بےلوچ پیروی کرنے والا سمجھتے ہیں؟‏ یا وہ مجھے رحمدل اور خیرخواہ سمجھتے ہیں؟‏‘‏

۱۶.‏ فریسیوں کا رُجحان کِیا تھا اور ہم اُنکی مانند بننے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏

۱۶ فریسی محض نکتہ‌چینی کرنا جانتے تھے۔‏ فریسی حقیقی یا فرضی،‏ بس غلطیاں ہی ڈھونڈتے تھے۔‏ اُنہوں نے لوگوں کے اندر دفاعی رُجحان پیدا کرنے کے علاوہ اُنہیں اُنکی خامیوں اور ناکامیوں سے باور کرایا۔‏ فریسی پودینے،‏ سونف اور زیرے جیسی معمولی جڑی‌بوٹیوں پر دہ‌یکی دینے پر بھی فخر کرتے تھے۔‏ وہ مخصوص لباس پہننے سے اپنی پارسائی کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ قوم پر حکم چلانے کی کوشش کرتے تھے۔‏ واقعی،‏ اگر ہم یسوع کے نمونے پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں دوسروں میں خامیاں تلاش کرنے کے میلان سے گریز کرنا چاہئے۔‏

یسوع نے مسائل کیسے حل کئے؟‏

۱۷-‏۱۹.‏ (‏ا)‏ وضاحت کریں کہ یسوع نے ایسی صورتحال کو کیسے سلجھایا جو سنگین صورت اختیار کر سکتی تھی۔‏ (‏ب)‏ یہ صورتحال پریشان‌کُن اور ناخوشگوار کیوں تھی؟‏ (‏پ)‏ اگر آپ اُس وقت وہاں ہوتے جب وہ عورت یسوع کے پائی آئی تھی تو آپ کا ردِعمل کیسا ہوتا؟‏

۱۷ یسوع کا مسائل حل کرنے کا طریقہ فریسیوں سے بہت فرق تھا۔‏ غور کریں کہ یسوع نے ایک معاملے کو کیسے سلجھایا جو نہایت سنگین صورت اختیار کر سکتا تھا۔‏ اس کا تعلق ایک عورت سے ہے جو ۱۲ سال سے جریانِ‌خون میں مبتلا تھی۔‏ آپ لوقا ۸:‏۴۲-‏۴۸ میں یہ بیان پڑھ سکتے ہیں۔‏

۱۸ مرقس کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عورت ”‏ڈرتی اور کانپتی ہوئی آئی۔‏“‏ (‏مرقس ۵:‏۳۳‏)‏ کیوں؟‏ اس لئےکہ وہ جانتی تھی کہ اُس نے شریعت کی خلاف‌ورزی کی ہے۔‏ احبار ۱۵:‏۲۵-‏۲۸ کے مطابق،‏ ایک عورت جریانِ‌خون کے تمام دورانیے کے علاوہ مزید ایک ہفتے تک ناپاک رہتی تھی۔‏ وہ جس بھی چیز کو چُھوتی اور جس بھی شخص سے ملتی وہ ناپاک ہو جاتا۔‏ یسوع تک پہنچنے کے لئے اس عورت کو ایک بڑے ہجوم میں سے گزرنا پڑا تھا۔‏ جب ہم ۲۰۰۰ سال بعد اس سرگزشت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اُسکی حالت پر ترس آتا ہے۔‏

۱۹ اگر آپ اُس وقت وہاں موجود ہوتے تو آپ اس صورتحال کو کیسا خیال کرتے؟‏ آپ نے کیا کہا ہوتا؟‏ غور کریں کہ یسوع اس عورت کیساتھ بہت ہی شفقت،‏ نرمی اور رحم سے پیش آیا اور اُن مسائل کا ذکر بھی نہ کِیا جو اُس کی وجہ سے پیدا ہو سکتے تھے۔‏—‏مرقس ۵:‏۳۴‏۔‏

۲۰.‏ اگر احبار ۱۵:‏۲۵-‏۲۸ آج بھی مسیحی تقاضا ہوتا تو ہمیں کس چیلنج کا سامنا ہوتا؟‏

۲۰ کیا ہم اس واقعہ سے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟‏ فرض کریں کہ آپ اپنی کلیسیا میں ایک بزرگ ہیں۔‏ یہ بھی فرض کریں کہ احبار ۱۵:‏۲۵-‏۲۸ آج بھی ایک مسیحی تقاضا ہے اور کسی مسیحی عورت نے مایوسی اور لاچاری کے عالم میں یہ قانون توڑ دیا ہے۔‏ آپ کا ردِعمل کیسا ہوگا؟‏ کیا آپ اُسے سب کے سامنے ڈانٹ کر ذلیل کر دینگے؟‏ آپ شاید کہیں،‏ ”‏مَیں تو کبھی بھی ایسا نہیں کرونگا!‏ یسوع کے نمونے کی پیروی کرتے ہوئے مَیں شفقت،‏ نرمی اور رحم سے پیش آنے کی ہر ممکن کوشش کرونگا۔‏“‏ یہ اچھی بات ہے!‏ لیکن یسوع کی نقل کرتے ہوئے ایسا کرنا ہی تو اصل چیلنج ہے۔‏

۲۱.‏ یسوع نے لوگوں کو شریعت کی بابت کیا تعلیم دی تھی؟‏

۲۱ لوگ یسوع سے تازگی،‏ حوصلہ اور تقویت حاصل کرتے تھے۔‏ بیشتر معاملات میں خدا کی شریعت نے حتمی اور واضح معلومات فراہم کی تھیں۔‏ لیکن اگر یہ کسی معاملے پر عمومی ہدایات فراہم کرتی تو لوگ اپنے ضمیر کی مدد سے فیصلے کرکے خدا کیلئے اپنی محبت کا ثبوت دے سکتے تھے۔‏ شریعت نے اُن کے لئے کافی گنجائش چھوڑی تھی۔‏ (‏مرقس ۲:‏۲۷،‏ ۲۸‏)‏ خدا اپنے لوگوں سے محبت کرتا تھا اسی لئے وہ ہمیشہ اُن کی بھلائی کیلئے کام کرتا رہا اور غلطی سرزد ہونے کی صورت میں وہ رحم سے پیش آنے کے لئے بھی تیار تھا۔‏ یسوع بھی ایسا ہی تھا۔‏—‏یوحنا ۱۴:‏۹‏۔‏

یسوع کی تعلیمات کے نتائج

۲۲.‏ یسوع کی تعلیم نے اُسکے شاگردوں کی ذہنیت پر کیا اثر ڈالا تھا؟‏

۲۲ یسوع کی باتیں سن کر اُسکے شاگرد بننے والے لوگ اس بیان کی صداقت کو سمجھ گئے تھے:‏ ”‏میرا جؤا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔‏“‏ (‏متی ۱۱:‏۳۰‏)‏ اُنہیں کبھی بھی اس بات کا احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ اُنہیں دبانے،‏ ڈرانے یا نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔‏ وہ پہلے سے زیادہ آزاد،‏ خوش اور خدا اور ایک دوسرے کے ساتھ رشتے کی بابت پُراعتماد تھے۔‏ (‏متی ۷:‏۱-‏۵؛‏ لوقا ۹:‏۴۹،‏ ۵۰‏)‏ اُنہوں نے اُس سے سیکھا کہ روحانی پیشوا بننا فروتنی اور انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کیلئے تازگی‌بخش ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۶:‏۱۷،‏ ۱۸؛‏ فلپیوں ۲:‏۳‏۔‏

۲۳.‏ یسوع کی رفاقت سے شاگردوں نے کونسا اہم سبق سیکھا جس سے کونسے نتائج اخذ کرنے میں اُنکی مدد ہوئی؟‏

۲۳ مزیدبرآں،‏ بہتیرے مسیح کے ساتھ ملے رہنے اور اُس جیسا رُجحان پیدا کرنے کی اہمیت سے بھی واقف تھے۔‏ اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی مَیں نے تم سے محبت رکھی۔‏ تم میری محبت میں قائم رہو۔‏ اگر تم میرے حکموں پر عمل کرو گے تو میری محبت میں قائم رہو گے جیسے مَیں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کِیا ہے اور اُسکی محبت میں قائم ہوں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ خدا کے خادموں کے طور پر کامیاب ہونے کیلئے اُنہیں خدا کی شاندار خوشخبری کی منادی کرنے اور تعلیم دینے کے کام کے علاوہ اپنے خاندان اور دوستوں کیساتھ تعلقات میں یسوع سے سیکھی ہوئی باتوں کا مستعدی سے اطلاق کرنا تھا۔‏ اِس برادری کے بڑھکر کلیسیاؤں کی صورت اختیار کرنے کے پیشِ‌نظر اُنہیں اکثر اس بات کو یاد رکھنے کی ضرورت پڑنی تھی کہ اُسکا طریقہ ہی صحیح طریقہ تھا۔‏ اُس نے سچی تعلیم دی اور ایسی زندگی بسر کی جسکی ہر کوئی تقلید کرنا چاہیگا۔‏—‏یوحنا ۱۴:‏۶؛‏ افسیوں ۴:‏۲۰،‏ ۲۱‏۔‏

۲۴.‏ ہمیں یسوع کے نمونے سے کونسی باتیں سیکھنی چاہئیں؟‏

۲۴ اب جبکہ آپ زیرِبحث آنے والی باتوں پر غور کرنے کیلئے تیار ہیں تو کیا آپ بہتری پیدا کرنے کے کچھ طریقوں کا تعیّن کر سکتے ہیں؟‏ کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ یسوع مسیح کی سوچ،‏ تعلیم اور کام ہمیشہ مفید اور مؤثر تھے؟‏ اگر ایسا ہے تو خاطرجمع رکھیں۔‏ وہ ہم سے یہ حوصلہ‌افزا بات کہتا ہے:‏ ”‏اگر تم ان باتوں کو جانتے ہو تو مبارک ہو بشرطیکہ اُن پر عمل بھی کرو۔‏“‏—‏یوحنا ۱۳:‏۱۷‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 11 ‏”‏[‏یسوع اور فریسیوں کے مابین]‏ فرق خدا کی بابت دو متضاد نظریات کی بِنا پر واضح کِیا گیا ہے۔‏ فریسیوں کے نزدیک خدا متقاضی ہے جبکہ یسوع کے خیال میں وہ رحیم اور مہربان ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ فریسی خدا کی بھلائی اور محبت سے منکر تو نہیں تھے مگر اُن کے خیال میں اِنکا اظہار توریت [‏شریعت]‏ کی بخشش اور اس کے مطالبوں کی تکمیل کی صورت میں کِیا گیا تھا۔‏ .‏ .‏ .‏ فریسی شریعت کی تشریح کرنے والے اصولوں سمیت زبانی روایت کی پابندی کو توریت کی تعمیل کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔‏ .‏ .‏ .‏ یسوع نے محبت کے دہرے حکم (‏متی ۲۲:‏۳۴-‏۴۰‏)‏ کو شریعت کی معقول تشریح قرار دیا اور امتناعی زبانی روایت کو مسترد کِیا جس کی بِنا پر وہ فریسیانہ اِفتا سے بالکل فرق تھا۔‏“‏—‏دی نیو انٹرنیشنل ڈکشنری آف دی نیو ٹسٹامنٹ تھیولاجی۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• یسوع کے شاگرد ہونے کا آپ کے لئے کیا مطلب ہے؟‏

‏• یسوع لوگوں کیساتھ کیسے پیش آتا تھا؟‏

‏• ہم یسوع کے طریقۂ‌تعلیم سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏• یسوع اور فریسیوں میں کیا فرق تھا؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸،‏ ۱۹ پر تصویریں]‏

لوگوں کیساتھ یسوع کا برتاؤ فریسیوں کی نسبت کیسے فرق تھا!‏