مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یسوع کی حقیقت

یسوع کی حقیقت

یسوع کی حقیقت

یسوع نے اپنے رسولوں سے اپنی بابت لوگوں کی رائے جاننے کے بعد پوچھا:‏ ”‏مگر تم مجھے کیا کہتے ہو؟‏“‏ متی کی انجیل میں پطرس رسول کا جواب درج ہے:‏ ”‏تُو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے۔‏“‏ (‏متی ۱۶:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ دوسرے رسول بھی اسی بات سے متفق تھے۔‏ نتن‌ایل جو بعدازاں رسول بنا،‏ یسوع سے کہتا ہے:‏ ”‏اَے ربی!‏ تُو خدا کا بیٹا ہے۔‏ تُو اؔسرائیل کا بادشاہ ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱:‏۴۹‏)‏ یسوع نے اپنے کردار کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے خود کہا:‏ ”‏راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں۔‏ کوئی میرے وسیلہ کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۶‏)‏ مختلف مواقع پر اُس نے خود کو ”‏خدا کے بیٹے“‏ کے طور پر ظاہر کِیا۔‏ (‏یوحنا ۵:‏۲۴،‏ ۲۵؛‏ ۱۱:‏۴‏)‏ چنانچہ اُس نے اپنے اس دعویٰ کو معجزانہ کاموں اور مُردوں کو زندہ کرنے سے ثابت کِیا۔‏

معقول شکوک؟‏

لیکن کیا ہم یسوع کی بابت انجیلی بیان پر واقعی بھروسا کر سکتے ہیں؟‏ کیا وہ یسوع کی حقیقی تصویرکشی کرتے ہیں؟‏ انگلینڈ میں مانچسٹر یونیورسٹی میں بائبل کے تنقیدنگار اور مفسر،‏ مرحوم پروفیسر فریڈرک ایف.‏ بروس نے بیان کِیا:‏ ”‏تاریخی دلائل کے ذریعے بائبل یا کسی بھی اَور قدیم تحریر کی ہر تفصیل کی سچائی ثابت کرنا اکثر ممکن نہیں ہوتا۔‏ عموماً ایک مصنف کی دیانتداری پر معقول اعتماد ہی کافی ہے اور اگر یہ ثابت ہو جائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کی معلومات درست ہیں۔‏ یہ حقیقت نئے عہدنامے کی تاریخی صداقت کو کم نہیں کرتی کہ مسیحی اسے ’‏پاک تحریریں‘‏ خیال کرتے ہیں۔‏“‏

یسوع کے انجیلی بیان کی بابت شکوک کا جائزہ لینے کے بعد،‏ نارتھ ڈیکوٹا،‏ یو.‏ایس.‏اے.‏ میں جیمزٹاؤن کالج میں مذہب کے پروفیسر،‏ جیمز آر.‏ ایڈوڈز نے لکھا:‏ ”‏ہم اعتماد کیساتھ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ اناجیل میں یسوع کی بابت سچائی پیش کرنے والے مختلف پہلوؤں پر کافی ثبوت محفوظ ہے۔‏ اِس سوال کا سب سے معقول جواب یہی ہے کہ اناجیل میں یسوع کو جس طرح پیش کِیا گیا ہے درحقیقت وہ ایسا ہی ہے۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں پر جو اثر چھوڑا اُسے اُنہوں نے دیانتداری کیساتھ اناجیل میں محفوظ کِیا کہ اُسے خدا کا رسول اور بیٹا اور خادم ہونے کا حق دیا گیا تھا۔‏“‏ *

یسوع کی تلاش

یسوع مسیح کے متعلق غیربائبلی حوالہ‌جات کی بابت کیا ہے؟‏ اُن کی اہمیت کیا ہے؟‏ تستُس،‏ سوتونیئس،‏ یوسیفس،‏ چھوٹے پلینی اور دیگر معیاری مصنّفین کی تحریروں میں یسوع کی بابت بیشمار حوالے ملتے ہیں۔‏ ان کی بابت دی نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا ‏(‏۱۹۹۵)‏ بیان کرتا ہے:‏ ”‏یہ جُداگانہ بیانات ثابت کرتے ہیں کہ قدیم وقتوں میں مسیحیت کے مخالفین نے بھی یسوع کی تاریخی حقیقت پر کبھی شُبہ نہیں کِیا تھا جس پر پہلی مرتبہ ۱۸ ویں صدی کے آخر پر،‏ ۱۹ ویں صدی کے دوران اور ۲۰ ویں صدی کے شروع میں ناکافی وجوہات کی بنیاد پر اعتراض کِیا گیا تھا۔‏“‏

افسوس کی بات ہے کہ زمانۂ‌جدید کے علما نے ”‏حقیقی“‏ یا ”‏تاریخی“‏ یسوع کی تلاش میں بےبنیاد قیاس‌آرائیاں،‏ شک‌وشبہات اور نظریات قائم کرنے سے اُسکی حقیقی شناخت کو مبہم بنا دیا ہے۔‏ درحقیقت،‏ وہ خود افسانہ گھڑنے کے مجرم ہیں جسکا جھوٹا الزام وہ انجیل‌نویسوں پر لگاتے ہیں۔‏ بعض شہرت حاصل کرنے اور کوئی حیرت‌انگیز نیا نظریہ پیش کرنے کے اسقدر مشتاق ہوتے ہیں کہ وہ یسوع کی بابت تمام حقائق کا دیانتداری سے جائزہ لینے میں ناکام رہتے ہیں۔‏ یوں وہ ایک ایسے ”‏یسوع“‏ کی تصویرکشی کرتے ہیں جو محض عالموں کی اختراع ہوتا ہے۔‏

جو لوگ یسوع کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں وہ بائبل سے رُجوع کر سکتے ہیں۔‏ ایمری یونیورسٹی میں کینڈلر سکول آف تھیولوجی کے نئے عہدنامے اور مسیحیت کی ابتدا کا پروفیسر،‏ لُوک جان‌سن دلیل دیتا ہے کہ یسوع کی تاریخی حقیقت پر بیشتر تحقیق بائبل کے اصل مقصد کو نظرانداز کر دیتی ہے۔‏ اسکے مطابق،‏ یسوع کی زندگی اور زمانے کے معاشرتی،‏ سیاسی،‏ بشریاتی اور ثقافتی پہلوؤں کا جائزہ لینا دلچسپ ہو سکتا ہے۔‏ تاہم وہ مزید بیان کرتا ہے کہ علما جس تاریخی یسوع کی تلاش کا ذکر کرتے ہیں وہ ”‏صحائف کا مقصد نہیں ہے،‏“‏ جو دراصل اُسکے پیغام،‏ نجات‌دہندہ کے طور پر اُسکے کردار اور ”‏اُسکی شخصیت کے بیان پر زیادہ زور دیتا ہے۔‏“‏ لہٰذا،‏ یسوع کی حقیقی شخصیت اور پیغام کیا تھا؟‏

حقیقی یسوع

اناجیل—‏یسوع کی زندگی کے چار بائبلی بیانات—‏ایک نہایت ہی ہمدرد شخص کی عکاسی کرتی ہیں۔‏ دردمندی اور رحمدلی نے یسوع کو بیماری،‏ اندھےپن اور دوسری تکالیف میں مبتلا لوگوں کی مدد کرنے کی تحریک دی۔‏ (‏متی ۹:‏۳۶؛‏ ۱۴:‏۱۴؛‏ ۲۰:‏۳۴‏)‏ اپنے دوست لعزر کی موت اور اس پر اُس کی بہنوں کے دُکھ کو دیکھ کر یسوع ’‏دل میں نہایت رنجیدہ ہوا اور اُسکے آنسو بہنے لگے۔‏‘‏ (‏یوحنا ۱۱:‏۳۲-‏۳۶‏)‏ درحقیقت اناجیل یسوع کے مختلف جذبات—‏ایک کوڑھی کے لئے ہمدردی،‏ اپنے شاگردوں کی کامیابی پر خوشی،‏ سردمہر قانون‌پرستوں پر اشتعال اور مسیحا کو رد کرنے والے یروشلیم پر افسوس—‏ظاہر کرتی ہیں۔‏

کسی شخص کو شفا دیتے وقت یسوع اکثر اس عمل میں اُسکے کردار پر توجہ دلاتا تھا:‏ ”‏تیرے ایمان نے تجھے اچھا کر دیا۔‏“‏ (‏متی ۹:‏۲۲‏)‏ اُس نے نتن‌ایل کی ”‏فی‌الحقیقت اسرائیلی“‏ کے طور پر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ”‏اس میں مکر نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱:‏۴۷‏)‏ جب بعض لوگوں نے قدردانی کے اظہار میں ایک عورت کے تحفے کو فضول‌خرچی خیال کِیا تو یسوع نے اُسکی حمایت کرتے ہوئے بیان کِیا کہ اُسکی فراخدلی کو ہمیشہ یاد کِیا جائے گا۔‏ (‏متی ۲۶:‏۶-‏۱۳‏)‏ وہ اپنے شاگردوں کیلئے ایک حقیقی دوست اور شفیق ساتھی ثابت ہوا اور اُن کیساتھ ”‏آخر تک محبت رکھتا رہا۔‏“‏—‏یوحنا ۱۳:‏۱؛‏ ۱۵:‏۱۱-‏۱۵‏۔‏

اناجیل یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ یسوع اپنے ملاقاتیوں کی ضروریات کو فوراً بھانپ لیتا تھا۔‏ خواہ اُس کی بات‌چیت کوئیں پر ایک عورت،‏ باغ میں کسی مذہبی اُستاد یا جھیل کے کنارے کسی ماہی‌گیر سے ہوتی وہ سب کے دلوں پر اثر کرتا تھا۔‏ یسوع کیساتھ تھوڑی بہت بات‌چیت کرنے کے بعد بہتیرے لوگ اُس سے اپنے ذاتی خیالات بیان کرتے تھے۔‏ وہ اُن کے ذاتی احساسات‌وجذبات پر گہرا اثر کِیا کرتا تھا۔‏ اگرچہ اُس کے زمانہ کے لوگ صاحبِ‌اختیار لوگوں سے دُور رہتے تھے تاہم یسوع کے پاس لوگوں کا ہمیشہ ہجوم لگا رہتا تھا۔‏ وہ یسوع کی رفاقت سے خوشی اور اطمینان حاصل کرتے تھے۔‏ بچے خوشی سے اُس کے پاس آتے تھے اور جب اُس نے ایک تمثیل دینے کیلئے ایک بچے کو استعمال کِیا تو اُسے اپنے شاگردوں کے آگے کھڑا ہی نہیں کِیا بلکہ ’‏اُسے اپنی گود میں بھی اُٹھایا۔‏‘‏ (‏مرقس ۹:‏۳۶؛‏ ۱۰:‏۱۳-‏۱۶‏)‏ واقعی،‏ انجیل یسوع کو ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کرتی ہے جسکا کردار اسقدر پُرکشش تھا کہ لوگ اُسکی جاذبِ‌توجہ باتیں سننے کیلئے تین دن تک اُسکے ساتھ رہے۔‏—‏متی ۱۵:‏۳۲‏۔‏

یسوع کی کاملیت نے اُسے اُن ناکامل گنہگار انسانوں کے لئے حد سے زیادہ تنقیدی یا متکبر اور سخت رویہ اختیار کرنے کی تحریک نہیں دی جن کے درمیان وہ رہ کر منادی کرتا تھا۔‏ (‏متی ۹:‏۱۰-‏۱۳؛‏ ۲۱:‏۳۱،‏ ۳۲؛‏ لوقا ۷:‏۳۶-‏۴۸؛‏ ۱۵:‏۱-‏۳۲؛‏ ۱۸:‏۹-‏۱۴‏)‏ یسوع نے لوگوں سے کبھی بھی غیرمعقول توقعات نہیں رکھیں۔‏ اُس نے اُنکے بوجھ میں اضافہ نہیں کِیا۔‏ اسکے برعکس،‏ اُس نے کہا:‏ ”‏اَے محنت اُٹھانے والو .‏ .‏ .‏ میرے پاس آؤ۔‏ مَیں تمکو آرام دُونگا۔‏“‏ اُسکے شاگردوں نے اُسے ’‏حلیم اور فروتن‘‏ پایا اور اُسکا جُوا ملائم اور بوجھ ہلکا تھا۔‏—‏متی ۱۱:‏۲۸-‏۳۰‏۔‏

یسوع کے کردار کی بابت انجیلی بیانات میں واقعی سچائی کی جھلک نظر آتی ہے۔‏ چار مختلف اشخاص کیلئے ایک غیرمعمولی شخص کو متعارف کرانا اور پھر چار الگ‌الگ بیانات میں اُسکی ہم‌آہنگ تصویرکشی کرنا آسان نہیں تھا۔‏ چار مصنّفین کا کسی ایسے شخص کی ایک جیسی تصویر پیش کرنا ناممکن تھا جسکا کبھی وجود ہی نہیں تھا۔‏

مؤرخ مائیکل گرانٹ ایک خیال‌آفرین سوال پیش کرتا ہے:‏ ”‏یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام انجیلی روایات ایک ایسے پُرکشش نوجوان شخص کی بابت بیان کرتی ہیں جس نے کسی جذباتی،‏ غیرفطری احساس یا حد سے زیادہ تکلف برتے بغیر تمام عورتوں حتیٰ‌کہ بدنام عورتوں سے بھی رفاقت رکھی لیکن ہر موقع پر اپنی راستی پر قائم رہا؟‏“‏ اِس کا معقول جواب یہی ہے کہ ایسا شخص حقیقی وجود رکھتا تھا اور اُس کی زندگی کا بیان بائبل میں ملتا ہے۔‏

حقیقی یسوع اور آپکا مستقبل

بائبل یسوع کی زمینی زندگی کی حقیقی تصویرکشی کرنے کے علاوہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ خدا کے بیٹے کے طور پر ”‏تمام مخلوقات سے پہلے مولود“‏ قبل‌ازانسانی زندگی وجود رکھتا تھا۔‏ (‏کلسیوں ۱:‏۱۵‏)‏ بیس صدیاں پہلے خدا نے اپنے آسمانی بیٹے کی زندگی کو ایک کنواری یہودن کے رحم میں منتقل کِیا تاکہ اُس کی پیدائش ایک انسان کے طور پر ممکن ہو سکے۔‏ (‏متی ۱:‏۱۸‏)‏ اپنی زمینی خدمتگزاری کے دوران یسوع نے دُکھی انسانیت کی واحد اُمید کے طور پر خدا کی بادشاہت کی منادی کی اور اس منادی کے کام کو جاری رکھنے کے لئے اپنے شاگردوں کی تربیت بھی کی۔‏—‏متی ۴:‏۱۷؛‏ ۱۰:‏۵-‏۷؛‏ ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

نیسان ۱۴ (‏تقریباً یکم اپریل)‏،‏ ۳۳ س.‏ع.‏ میں یسوع کو گرفتار کرکے اُس پر مقدمہ چلا کر تخریب‌کاری کے جھوٹے الزام میں موت کی سزا دی گئی۔‏ (‏متی ۲۶:‏۱۸-‏۲۰؛‏ ۲۷:‏۴۸–‏۵۰‏)‏ یسوع کی موت ایک فدیے کے طور پر ایماندار نوعِ‌انسان کو اُنکی گنہگارانہ حالت سے چھٹکارا دلانے کے علاوہ اُس پر ایمان رکھنے والے تمام لوگوں کیلئے ہمیشہ کی زندگی کی راہ بھی کھولتی ہے۔‏ (‏رومیوں ۳:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ ۱-‏یوحنا ۲:‏۲‏)‏ یسوع نیسان ۱۶ کو جی اُٹھنے کے کچھ ہی دیر بعد آسمان پر چلا گیا۔‏ (‏مرقس ۱۶:‏۱-‏۸؛‏ لوقا ۲۴:‏۵۰-‏۵۳؛‏ اعمال ۱:‏۶-‏۹‏)‏ یہوواہ کے مقررکردہ بادشاہ کے طور پر،‏ قیامت‌یافتہ یسوع انسانوں کیلئے خدا کے ابتدائی مقصد کو پورا کرنے کا کُل اختیار رکھتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۹:‏۶،‏ ۷؛‏ لوقا ۱:‏۳۲،‏ ۳۳‏)‏ جی‌ہاں،‏ بائبل خدا کے مقاصد میں یسوع کے کلیدی کردار کو نمایاں کرتی ہے۔‏

پہلی صدی میں اَن‌گنت لوگوں نے موعودہ مسیحا یا مسیح کے طور پر یسوع کو قبول کِیا جو یہوواہ کی حاکمیت کو سربلند کرنے اور نوعِ‌انسان کے لئے اپنی جان کا فدیہ دینے کے لئے زمین پر بھیجا گیا تھا۔‏ (‏متی ۲۰:‏۲۸؛‏ لوقا ۲:‏۲۵-‏۳۲؛‏ یوحنا ۱۷:‏۲۵،‏ ۲۶؛‏ ۱۸:‏۳۷‏)‏ اگر لوگ یسوع کی شناخت کی بابت متذبذب ہوتے تو وہ شدید اذیت میں بھی یسوع کے شاگرد بننے کی تحریک کبھی نہیں پاتے۔‏ اُنہوں نے بڑی گرمجوشی اور دلیری کیساتھ ”‏سب قوموں کو شاگرد“‏ بنانے کی تفویض کو پورا کِیا۔‏—‏متی ۲۸:‏۱۹‏۔‏

آجکل اربوں خلوصدل اور سوجھ‌بوجھ رکھنے والے مسیحی یہ جانتے ہیں کہ یسوع کوئی افسانوی کردار نہیں۔‏ وہ اُسے خدا کی قائم‌شُدہ آسمانی بادشاہت کے تخت‌نشین بادشاہ کے طور پر قبول کرتے ہیں جو زمین اور اُس کے معاملات کا کُل اختیار سنبھالنے کو ہے۔‏ یہ خدائی حکومت واقعی ایک خوشخبری ہے کیونکہ یہ دُنیاوی مسائل سے آزاد کرنے کا وعدہ کرتی ہے۔‏ سچے مسیحی دوسروں کو ”‏بادشاہی کی اِس خوشخبری“‏ میں شریک کرنے سے یہوواہ کے منتخب بادشاہ کے لئے اپنی وفاداری ظاہر کرتے ہیں۔‏—‏متی ۲۴:‏۱۴‏۔‏

زندہ خدا کے بیٹے،‏ مسیح کے ذریعے بادشاہتی بندوبست کی حمایت کرنے والے لوگ ابدی برکات سے مستفید ہونے کیلئے ہمیشہ تک زندہ رہیں گے۔‏ آپ بھی ان برکات سے لطف‌اندوز ہو سکتے ہیں!‏ اس رسالے کے ناشرین خوشی سے یسوع کی حقیقت کو جاننے میں آپکی مدد کر سکتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 انجیلی بیانات کے تفصیلی جائزے کیلئے یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب،‏ دی بائبل‏—‏گاڈز ورڈ آر مینز؟‏ کے ۵ تا ۷ ابواب کو پڑھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس/‏تصویر]‏

دوسروں کے بیانات

”‏مَیں یسوع ناصری کو دُنیا کے عظیم اُستادوں میں سے خیال کرتا ہوں۔‏ .‏ .‏ .‏ مَیں ہندوؤں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ جب تک وہ عقیدت کے ساتھ یسوع کی تعلیمات کا مطالعہ نہیں کرتے اُن کی زندگیاں نامکمل ہے۔‏“‏ موہن‌داس کے.‏ گاندھی،‏ دی میسیج آف جیزز کرائسٹ۔‏

”‏ایسی حقیقی،‏ مکمل،‏ ہم‌آہنگ،‏ کامل انسانی شخصیت جو تمام انسانی عظمت سے بالاتر ہے کوئی دھوکا یا کوئی کہانی نہیں ہو سکتی۔‏ .‏ .‏ .‏ یسوع کا تصور پیش کرنے والا شخص یسوع سے بھی زیادہ عظیم ہوگا۔‏“‏ فلپ شیف‏،‏ ہسٹری آف دی کرسچین چرچ۔‏

”‏چند سادہ‌لوح انسانوں کا اتنی بارُعب اور سحرانگیز شخصیت،‏ اتنی بلندپایہ اخلاقی تعلیمات اور انسانی اُخوت کے اتنے پُرزور تصور کو تخلیق کر لینا اناجیل میں درج کسی بھی معجزے سے زیادہ حیرت‌انگیز معجزہ ہوگا۔‏“‏ وِل ڈیورانٹ،‏ سیزر اینڈ کرائسٹ۔‏

”‏یہ بات ناقابلِ‌فہم دکھائی دیتی ہے کہ ایک عالمگیر مذہبی تحریک چلانے والے اور اپنے زمانے کی مشہورومعروف شخصیت کا کوئی وجود ہی نہیں بلکہ وہ محض ایک افسانہ ہے جسکا شمار اُن ناقابلِ‌تردید انسانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مختلف مذاہب قائم کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔‏“‏ گریگ‌ایسٹربروک،‏ بیسائڈز سٹل وارٹرز۔‏

’‏ایک مشہور مؤرخ کی حیثیت سے مجھے پورا یقین ہے کہ اناجیل کچھ بھی ہوں،‏ مگر قصےکہانیاں نہیں ہیں۔‏ ان میں کوئی ایسا تصوراتی عنصر شامل نہیں جسکی بِنا پر یہ حکایات کے زمرے میں آئیں۔‏ ہم یسوع کی زندگی کے بیشتر حصے سے ناواقف ہیں جسکی کہانیاں گھڑنے والے لوگ کبھی بھی گنجائش نہیں چھوڑیں گے۔‏‘‏ سی.‏ ایس.‏ لوئس،‏ گاڈ ان دی ڈوک۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویریں]‏

اناجیل یسوع کے مختلف احساسات‌وجذبات کو آشکارا کرتی ہیں