مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ نے ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ فراہم کی ہے

یہوواہ نے ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ فراہم کی ہے

میری کہانی میری زبانی

یہوواہ نے ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ فراہم کی ہے

از ہیلن مارک

یہ ۱۹۸۶ کے موسمِ‌گرما کا نہایت گرم‌مرطوب دن تھا۔‏ مَیں یورپ کے ایک سنسان ہوائی اڈے پر کسٹم کی عمارت میں اکیلی ہی انتظار کر رہی تھی۔‏ یہ البانیہ کا دارالحکومت تیرانا تھا جس نے ”‏دُنیا میں سب سے پہلی دہریہ ریاست“‏ ہونے کا اعلان کِیا تھا۔‏

مَیں تذبذب اور گھبراہٹ کے ملےجلے جذبات کیساتھ ایک مسلح افسر کو اپنے سامان کی تلاشی لیتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔‏ اگر میری کسی بات یا حرکت پر اُسے ذرا سا بھی شک ہو جاتا تو مجھے اِس مُلک سے نکال دیا جاتا یا پھر قید کر دیا جاتا اور میرے انتظار میں باہر کھڑے لوگوں کو لیبر کیمپ میں ڈال دیا جاتا۔‏ خوشی کی بات ہے کہ مَیں اُس افسر کو کچھ چیونگ‌گم اور کیک دینے سے اس کیساتھ دوستانہ بات‌چیت کرنے کے قابل ہوئی۔‏ لیکن مَیں،‏ ایک ۶۵ سالہ خاتون اس صورتحال میں کیسے اُلجھ گئی؟‏ مَیں نے آرام‌دہ زندگی قربان کرکے مارکس‌ازم لینن‌ازم کے آخری گڑھ میں بادشاہتی مفادات کو فروغ دینے کیلئے خطرہ کیوں مول لیا؟‏

ایک بیمار لڑکی کے بیشمار سوال

سن ۱۹۲۰ میں میری پیدائش کے دو سال بعد آئراپترا،‏ کریٹ میں میرے والد نمونیا سے وفات پا گئے۔‏ میری ماں غریب اور اَن‌پڑھ تھی۔‏ مَیں چار بچوں میں سب سے چھوٹی تھی اور یرقان کی وجہ سے بہت لاغر ہو چکی تھی۔‏ پڑوسیوں نے میری ماں کو تین صحتمند بچوں کی دیکھ‌بھال پر زیادہ توجہ دینے اور مجھے مرنے کیلئے چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔‏ مَیں خوش ہوں کہ اس نے اس مشورے پر عمل نہ کِیا۔‏

ہمارے والد کی روح کو آسمان پر سکون پہنچانے کیلئے ہماری ماں اکثر قبرستان جا کر آرتھوڈکس پادری سے عبادت کراتی تھی۔‏ یہ عبادت بڑی مہنگی پڑتی تھی۔‏ مجھے کرسمس کا وہ انتہائی سرد دن ابھی تک یاد ہے جب وہ قبرستان سے مجھے اپنے ساتھ لیکر گھر لوٹی تھی۔‏ ہم نے اپنی آخری جمع‌پونجی بھی پادری کو دیدی تھی۔‏ اس کے بعد ماں نے ہم سب بچوں کیلئے کچھ ترکاری بنائی اور خود خالی پیٹ اور آنکھوں میں مایوسی کے آنسو لئے دوسرے کمرے میں آرام کرنے چلی گئی۔‏ اس کے کچھ وقت بعد،‏ مَیں ہمت باندھ کر پادری کے پاس پوچھنے گئی کہ میرا باپ کیوں مر گیا ہے اور میری غریب ماں کو اُسے پیسے کیوں دینے پڑتے ہیں۔‏ وہ بزدلانہ طریقے سے پھسپھسایا:‏ ”‏خدا نے اُسے لے لیا ہے۔‏ ایسا ہی ہوتا ہے۔‏ تم اپنے دُکھ پر قابو پا لو گی۔‏“‏

میرے لئے اس کے جواب کو خداوند کی دُعا کے ساتھ ہم‌آہنگ کرنا مشکل تھا جسے مَیں نے سکول میں سیکھا تھا۔‏ مجھے ابھی تک اس کے خوبصورت اور معنی‌خیز ابتدائی الفاظ یاد ہیں:‏ ”‏اَے ہمارے باپ تُو جو آسمان پر ہے تیرا نام پاک مانا جائے۔‏ تیری بادشاہی آئے۔‏ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ اگر خدا اس زمین پر اپنی مرضی پوری کرنا چاہتا ہے تو پھر ہمیں اسقدر دُکھ کیوں اُٹھانا پڑتا ہے؟‏

جب ۱۹۲۹ میں یہوواہ کے گواہوں کا ایک کُل‌وقتی مُناد عمانوایل لیونوڈاکس ہمارے گھر آیا تو مجھے تقریباً اس کا جواب مل گیا۔‏ * جب میری ماں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے تو عمانوایل نے کچھ کہے بغیر اسے ایک شہادتی کارڈ دے دیا۔‏ اس نے یہ کارڈ مجھے پڑھنے کیلئے دیا۔‏ چونکہ اس وقت میری عمر صرف ۹ سال تھی اسلئے مَیں اسے زیادہ سمجھ نہ سکی۔‏ آنے والے مُناد کو گونگا خیال کرتے ہوئے ماں نے جواب دیا:‏ ”‏بےچارا!‏ تم بول نہیں سکتے اور مَیں پڑھ نہیں سکتی۔‏“‏ پھر اس نے نرمی کیساتھ اسے جانے کا اشارہ کِیا۔‏

چند سال بعد،‏ مجھے جواب مل گیا۔‏ میرے بھائی عمانوایل پیٹراکس کو اسی کُل‌وقتی خادم نے یہوواہ کے گواہوں کا شائع‌کردہ کتابچہ مُردے کہاں ہیں؟‏ دیا۔‏ * اسے پڑھنے کے بعد،‏ مجھے یہ جان کر تسلی ہوئی کہ میرے والد کو خدا نے نہیں اُٹھایا تھا۔‏ مجھے یہ پتہ چلا کہ موت انسانی ناکاملیت کا نتیجہ ہے اور میرے والد فردوسی زمین پر زندگی کے لئے قیامت پانے کے منتظر ہیں۔‏

‏”‏اس کتاب نے تمہیں برباد کر دیا ہے!‏“‏

بائبل سچائی نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔‏ ہمیں اپنے والد کی ایک پُرانی بائبل مل گئی جسے ہم نے اکثراوقات انگیٹھی کے پاس بیٹھ کر موم‌بتی کی روشنی میں پڑھنا شروع کر دیا۔‏ چونکہ اس علاقے میں صرف مَیں ہی نوعمر لڑکی تھی جس نے بائبل میں دلچسپی دکھائی تھی اس لئے مَیں گواہوں کے مقامی چھوٹے گروہ کی کارگزاریوں میں شامل نہیں تھی۔‏ کچھ وقت تک مَیں نے پورا—‏اگرچہ غلطی سے—‏یقین کر لیا کہ یہ مذہب صرف مردوں کے لئے ہے۔‏

منادی کے کام کیلئے میرے بھائی کا جوش میرے لئے بہت تحریک‌انگیز ثابت ہوا۔‏ جلد ہی پولیس کی نظریں ہمارے خاندان پر لگ گئیں جو عمانوایل اور لٹریچر کی تلاش میں رات دن ہمارے گھر کے چکر لگاتی رہتی تھی۔‏ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک پادری ہمارے پاس آیا تاکہ ہمیں چرچ واپس جانے کیلئے قائل کر سکے۔‏ جب عمانوایل نے اسے بائبل سے دکھایا کہ خدا کا نام یہوواہ ہے تو پادری نے بائبل چھین لی اور اسے میرے بھائی کے سامنے بڑی حقارت سے لہراتے ہوئے چلّا کر کہا،‏ ”‏اس کتاب نے تمہیں برباد کر دیا ہے!‏“‏

سن ۱۹۴۰ میں جب عمانوایل نے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کر دیا تو اسے گرفتار کرکے البانیہ کے محاذ پر بھیج دیا گیا۔‏ اس سے ہمارا رابطہ ختم ہو گیا اور ہم نے سوچا کہ وہ مر گیا ہے۔‏ تاہم،‏ دو سال بعد ہمیں غیرمتوقع طور پر اس کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جو اس نے قیدخانہ سے بھیجا تھا۔‏ وہ زندہ‌سلامت تھا!‏ اس نے اس خط میں ایک صحیفے کا حوالہ دیا جو اس وقت سے میرے ذہن پر نقش ہو گیا ہے:‏ ”‏کیونکہ [‏یہوواہ]‏ کی آنکھیں ساری زمین پر پھرتی ہیں تاکہ وہ اُنکی امداد میں جنکا دل اُسکی طرف کامل ہے اپنے تیئں قوی دکھائے۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۶:‏۹‏)‏ ہمیں اس حوصلہ‌افزائی کی واقعی بہت ضرورت تھی!‏

عمانوایل نے قیدخانہ سے چند بھائیوں کو ہم سے ملنے کیلئے کہا۔‏ جلد ہی قصبے سے باہر فارم ہاؤس میں خفیہ کلیسیائی اجلاس منعقد کرنے کا بندوبست کِیا گیا۔‏ ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ہماری نگرانی ہو رہی ہے!‏ ایک اتوار،‏ مسلح پولیس نے ہمیں گھیر لیا۔‏ انہوں نے ہمیں ایک ٹرک میں ڈال کر پورے قصبے میں گھمایا۔‏ میرے کانوں میں آج تک ہنسی ٹھٹھا اُڑانے والے لوگوں کی آوازیں گونج رہی ہیں لیکن یہوواہ نے اپنی روح کے ذریعے ہمیں باطنی اطمینان بخشا ہے۔‏

ہمیں کسی دوسرے قصبے میں منتقل کرکے تاریک اور گندی کوٹھڑیوں میں ڈال دیا گیا۔‏ میری کوٹھڑی کا بیت‌الخلا ایک کھلی بالٹی تھی جو دن میں ایک مرتبہ خالی کی جاتی تھی۔‏ مجھے اس گروپ کی ”‏ٹیچر“‏ خیال کرنے کی وجہ سے آٹھ ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی۔‏ تاہم،‏ اسی جگہ پر قید ایک بھائی نے اپنے وکیل سے ہمارا مقدمہ لڑنے کیلئے کہا جس نے ہمیں رہائی دلائی۔‏

ایک نئی زندگی

جب عمانوایل قید سے رِہا ہوا تو اس نے ایتھنز میں سرکٹ اوورسیئر کے طور پر کلیسیاؤں کا دورہ کرنا شروع کِیا۔‏ مَیں بھی ۱۹۴۷ میں وہاں منتقل ہو گئی۔‏ بالآخر،‏ مَیں گواہوں کے ایک بڑے گروہ سے ملنے کے قابل ہوئی جس میں صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔‏ آخرکار مَیں نے جولائی ۱۹۴۷ میں مخصوصیت کے اظہار میں پانی کا بپتسمہ لے لیا۔‏ مَیں اکثر مشنری بننے کا خواب دیکھتی تھی لہٰذا مَیں نے شام کے سکول میں انگریزی سیکھنا شروع کر دیا۔‏ مَیں ۱۹۵۰ میں ایک پائنیر بن گئی۔‏ ماں میرے پاس رہنے کیلئے آ گئی اور اس نے بھی بائبل سچائی قبول کر لی۔‏ وہ ۳۴ سال بعد اپنی موت تک یہوواہ کی وفادار گواہ رہی۔‏

اسی سال،‏ میری ملاقات جان مارکس (‏مارکوپولس)‏ سے ہوئی جو ریاستہائےمتحدہ کا ایک عزت‌دار،‏ روحانی شخص تھا۔‏ جان جنوبی البانیہ میں پیدا ہوا اور ریاستہائےمتحدہ میں نقل‌مکانی کرنے کے بعد وہ یہوواہ کا گواہ بن گیا۔‏ وہ ۱۹۵۰ میں یونان میں تھا اور البانیہ کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو اس وقت تک کمیونزم کے باعث غیرملکی لوگوں کیلئے بند کر دیا گیا تھا۔‏ اگرچہ جان نے ۱۹۳۶ سے اپنے خاندان کو نہیں دیکھا تھا توبھی اسے البانیہ داخل ہونے کی اجازت نہ ملی۔‏ مَیں یہوواہ کی خدمت کیلئے اس کی غیرت اور برادری کیلئے اس کی محبت سے بہت متاثر تھی۔‏ ہم نے اپریل ۳،‏ ۱۹۵۳ میں شادی کر لی۔‏ اس کے بعد مَیں اس کیساتھ نیو جرسی یو.‏ایس.‏اے.‏ میں اپنے نئے گھر منتقل ہو گئی۔‏

کُل‌وقتی منادی کے دوران اپنی کفالت کرنے کے لئے جان اور مَیں نیو جرسی کے ساحل پر ماہی‌گیروں کیلئے ناشتہ تیار کرنے کا ایک چھوٹا سا کاروبار چلاتے تھے۔‏ ہم صرف گرمیوں کے مہینوں میں سحر سے لیکر صبح نو بجے تک کام کرتے تھے۔‏ ہم اپنی زندگی کو سادہ بنانے اور روحانی کارگزاریوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے سے،‏ منادی کے کام میں زیادہ وقت صرف کرنے کے قابل ہوئے۔‏ سالوں کے دوران،‏ ہمیں مختلف قصبوں میں جانے کیلئے کہا گیا جہاں منادوں کی زیادہ ضرورت تھی۔‏ وہاں ہم نے یہوواہ کی حمایت کیساتھ دلچسپی رکھنے والے اشخاص کی مدد کی،‏ کلیسیائیں قائم کیں اور کنگڈم ہال تعمیر کئے۔‏

اپنے ضرورتمند بھائیوں کی مدد کرنا

تاہم،‏ ہمیں ایک اَور شاندار موقع حاصل ہوا۔‏ ذمہ‌دار بھائی بلقانی ممالک میں ساتھی مسیحیوں کیساتھ رابطہ استوار کرنا چاہتے تھے جہاں ہماری کارگزاری پر پابندی تھی۔‏ ان ممالک میں یہوواہ کے گواہ سالوں سے بین‌الاقوامی برادری سے جُدا تھے اور انہیں بہت کم یا بالکل بھی روحانی خوراک نہیں مل رہی تھی اور انہیں سخت اذیت کا بھی سامنا تھا۔‏ ان میں سے بیشتر مسلسل نگرانی کے تحت تھے اور بہتیرے قیدخانہ یا بیگار کیمپوں میں تھے۔‏ انہیں بائبل پر مبنی مطبوعات،‏ ہدایت اور حوصلہ‌افزائی کی سخت ضرورت تھی۔‏ مثال کے طور پر،‏ ہمیں البانیہ سے یہ خفیہ پیغام موصول ہوا:‏ ”‏ہمارے لئے خداوند سے دُعا کریں۔‏ گھرباگھر لٹریچر ضبط کر لیا گیا ہے۔‏ وہ ہمیں مطالعہ نہیں کرنے دیتے۔‏ تین اشخاص حراست میں ہیں۔‏“‏

لہٰذا،‏ نومبر ۱۹۶۰ میں ہم نے ان میں سے بعض ملکوں کا دورہ کرنے کیلئے چھ ماہ کا طویل سفر شروع کِیا۔‏ یہ بات واضح تھی کہ ہمیں اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے ”‏حد سے زیادہ قدرت،‏“‏ خداداد جرأت،‏ دلیری اور خوش‌تدبیری کی ضرورت تھی۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏)‏ ہماری پہلی منزل البانیہ تھی۔‏ ہم نے پیرس میں ایک کار خریدی اور چل پڑے۔‏ جب ہم روم پہنچے تو صرف جان کو البانیہ کا ویزا مل سکا۔‏ مجھے ایتھنز یونان میں جا کر اس کا انتظار کرنا تھا۔‏

جان البانیہ میں فروری ۱۹۶۱ کے آخر میں گیا اور مارچ کے آخر تک وہاں رہا۔‏ تیرانا میں اسکی ملاقات ۳۰ بھائیوں سے ہوئی۔‏ وہ ضروری لٹریچر اور حوصلہ حاصل کرکے کتنے خوش تھے!‏ ۲۴ سال سے بیرونی مُلک سے کوئی بھی اُن کے پاس نہیں آیا تھا۔‏

ان بھائیوں کی راستی اور برداشت سے جان کی بہت حوصلہ‌افزائی ہوئی۔‏ اسے پتہ چلا کہ کیمونسٹ حکومت کی کارگزاریوں میں کوئی شرکت نہ کرنے کی وجہ سے بہتیروں کو ملازمتوں سے برطرف کرکے قید کر دیا گیا ہے۔‏ جب ۸۰ سال سے زیادہ کی عمر والے دو بھائیوں نے منادی کے کام کیلئے ۱۰۰ ڈالر (‏یو.‏ایس.‏)‏ کا عطیہ دیا تو وہ اِس سے بہت متاثر ہوا۔‏ انہوں نے کئی سالوں سے اپنی تھوڑی سی پینشن سے یہ پیسے بچائے تھے۔‏

البانیہ میں جان کے قیام کا آخری دن ۳۰ مارچ ۱۹۶۱ تھا جو یسوع مسیح کی موت کی یادگار کی تاریخ تھی۔‏ جان نے اِس موقع پر ۳۷ افراد کے سامنے میموریل کی تقریر پیش کی۔‏ تقریر کے فوراً بعد،‏ بھائیوں نے جلدی سے جان کو پچھلے دروازے سے نکال دیا اور اسے ڈارس کی بندرگاہ تک لے آئے جہاں سے وہ پائرئیس،‏ یونان کی طرف روانہ ہونے والے ترکی کے تجارتی جہاز میں سوار ہو گیا۔‏

مَیں اسے صحیح‌سلامت دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔‏ اب ہم اپنے باقی خطرناک سفر کو شروع کر سکتے تھے۔‏ ہم نے تین دیگر بلقانی ممالک کا دورہ کِیا جہاں ہمارے کام پر پابندی تھی—‏یہ جان‌جوکھوں کا کام تھا کیونکہ ہمارے پاس بائبل لٹریچر،‏ ٹائپ‌رائٹر اور دیگر سامان بھی تھا۔‏ ہمیں نہایت وفادار بہن‌بھائیوں سے ملنے کا استحقاق حاصل ہوا جو یہوواہ کی خاطر اپنی ملازمتیں،‏ اپنی آزادی اور اپنی زندگیاں تک داؤ پر لگانے کیلئے تیار تھے۔‏ ان کا جوش اور خالص محبت حوصلہ‌افزائی کا ایک ذریعہ تھی۔‏ ہم اس بات سے بھی متاثر ہوئے کہ یہوواہ نے اس سارے سفر کے دوران ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ فراہم کی تھی۔‏

اپنے سفر کو کامیابی سے ختم کرنے کے بعد،‏ ہم ریاستہائےمتحدہ لوٹ آئے۔‏ اگلے برسوں میں،‏ ہم البانیہ میں لٹریچر بھیجنے اور اپنے بھائیوں کی کارگزاریوں کی رپورٹ حاصل کرنے کے لئے مسلسل مختلف طریقے آزماتے رہے۔‏

بارہا سفر اور خطرات میں

برسوں بیت گئے اور ۱۹۸۱ میں ۷۶ برس کی عمر میں جان کی وفات کے بعد مَیں تنہا رہ گئی۔‏ میری بھانجی ایونجیلا اور اس کے شوہر جارج اورفانائیڈس نے مجھے بڑی محبت سے اپنے پاس رکھ لیا اور اس وقت سے انہوں نے مجھے بیش‌قیمت جذباتی اور عملی حمایت فراہم کی ہے۔‏ انہوں نے سوڈان میں پابندی کے تحت بذاتِ‌خود یہوواہ کی حمایت کا تجربہ کِیا ہے۔‏ *

انجام‌کار البانیہ میں اپنے بھائیوں کیساتھ رابطہ رکھنے کیلئے نئی کوشش کی گئی۔‏ چونکہ میرے شوہر کے رشتہ‌دار وہاں رہتے تھے لہٰذا،‏ مجھے کہا گیا کہ آیا مَیں اس مُلک میں جانا چاہونگی۔‏ مَیں یقیناً تیار تھی!‏

کافی مہینوں کی مسلسل کوشش کے بعد،‏ مئی ۱۹۸۶ میں مجھے ایتھنز میں البانوی سفارت‌خانے کی طرف سے ویزا مل گیا۔‏ سفارتی عملے نے مجھے سختی سے آگاہ کِیا کہ اگر کچھ گڑبڑ ہو گئی تو مجھے بیرونی ممالک سے کوئی مدد فراہم نہیں کی جائیگی۔‏ جب مَیں ایک ٹریول ایجنٹ کے پاس البانیہ کی ہوائی ٹکٹ خریدنے آئی تو وہ دم‌بخود رہ گیا۔‏ کسی بھی خوف کے بغیر مَیں جلد ایتھنز سے تیرانا جانے والے جہاز میں سوار ہو گئی جو ہفتے میں صرف ایک مرتبہ ہی جاتا تھا۔‏ اس جہاز میں صرف تین نہایت عمررسیدہ البانوی باشندے تھے جو یونان میں علاج کیلئے آئے تھے۔‏

جیسے ہی جہاز اُترا تو مَیں ایک خالی شیڈ میں داخل ہوئی جو کسٹم آفس تھا۔‏ میرے شوہر کے بہن‌بھائی گواہ نہ ہونے کے باوجود چند مقامی بہن‌بھائیوں کیساتھ رابطہ کرانے کیلئے تیار تھے۔‏ قانونی طور پر میری آمد سے پہلے انہیں کمیونٹی کے سربراہ کو مطلع کرنا تھا۔‏ نتیجتاً،‏ پولیس میری کڑی نگرانی کر رہی تھی۔‏ لہٰذا،‏ میرے رشتہ‌داروں نے مشورہ دیا کہ جب تک وہ تیرانا میں رہنے والے دو بھائیوں کی تلاش کرکے انہیں میرے پاس نہیں لاتے اس وقت تک مَیں ان کے گھر میں رہوں۔‏

اس وقت تمام البانیہ میں نو مخصوص‌شُدہ بھائی تھے۔‏ سالوں کی پابندی،‏ اذیت اور کڑی نگرانی نے انہیں کافی محتاط کر دیا تھا۔‏ انکے چہروں پر جھریاں پڑ چکی تھیں۔‏ جب مَیں نے دو بھائیوں کا اعتماد حاصل کر لیا تو ان کا پہلا سوال تھا:‏ ‏”‏مینارِنگہبانی کہاں ہیں؟‏“‏ سالوں سے ان کے پاس پُرانی کتابوں کی دو کاپیاں تھیں—‏انکے پاس بائبل تک نہیں تھی۔‏

انہوں نے اپنے خلاف کئے جانے والے حکومت کے ظالمانہ اقدام کو تفصیل سے بیان کِیا۔‏ انہوں نے ایک بھائی کا تذکرہ کِیا جو آنے والے الیکشن میں سیاسی طور پر غیرجانبدار رہنے کیلئے پُرعزم تھا۔‏ چونکہ حکومت ہی ہر کام کو کنٹرول کرتی ہے اس لئے اس کا مطلب تھا کہ اس کے خاندان کو خوراک نہیں ملے گی۔‏ اس کے شادی‌شُدہ بچوں اور خاندانوں کو قیدخانہ بھیج دیا جائیگا اگرچہ ان کا اس کے مذہبی اعتقادات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔‏ اس بھائی کے خاندان نے خوف کے باعث الیکشن سے پہلے کی رات اسے قتل کرکے اس کی لاش کنویں میں پھینک دی اور بعدازاں دعویٰ کِیا کہ اس نے ڈر کی وجہ سے خودکُشی کر لی ہے۔‏

ان ساتھی مسیحیوں کی غربت تکلیف‌دہ تھی۔‏ تاہم،‏ جب مَیں نے ہر ایک کو ۲۰ ڈالر دئے تو انہوں نے لینے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے ”‏ہم صرف روحانی خوراک چاہتے ہیں۔‏“‏ ان پیارے بھائیوں نے دہوں تک آمرانہ حکومت کے تحت زندگی بسر کی تھی بیشتر عوام کو دہریہ بنانے میں کامیاب ہو چکی تھی۔‏ لیکن اُن کا ایمان اور عزم باقی دُنیا کے گواہوں جیسا ہی مضبوط تھا۔‏ دو ہفتے بعد مَیں اپنی ذات پر انتہائی کٹھن حالات میں بھی یہوواہ کی ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ فراہم کرنے کی صلاحیت کے گہرے اثرات لئے ہوئے البانیہ سے روانہ ہوئی۔‏

مجھے ۱۹۸۹ اور دوبارہ ۱۹۹۱ میں بھی البانیہ جانے کا شرف حاصل ہوا۔‏ اس مُلک میں اظہارِخیال اور مذہب کی آزادی رفتہ‌رفتہ نظر آنے لگی اور یہوواہ کے پرستاروں کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھنے لگی۔‏ سن ۱۹۸۶ میں وہاں مٹھی‌بھر مخصوص‌شُدہ مسیحی تھے لیکن اب یہاں ۲۰۰،‏۲ سے بھی زیادہ سرگرم پبلشر ہیں۔‏ ان میں ایک میری نند میلپو تھی۔‏ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس چھوٹے سے گروہ پر یہوواہ کی برکت تھی۔‏

یہوواہ کی قدرت سے اطمینان‌بخش زندگی

جب مَیں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو مَیں پُراعتماد محسوس کرتی ہوں کہ میرا اور جان کا کام بیفائدہ نہیں ہے۔‏ ہم نے اپنی جوانی کی طاقت کو انتہائی سودمند طریقے سے استعمال کِیا تھا۔‏ کُل‌وقتی خدمت میں گزارا ہوا وقت کسی بھی دوسرے پیشے کی نسبت زیادہ بامقصد ثابت ہوا ہے۔‏ مَیں ایسے بیشتر عزیز اشخاص کو دیکھ کر خوش ہوتی ہوں جن کی ہم نے بائبل سچائی سیکھنے میں مدد کی ہے۔‏ اب اس بڑھاپے میں،‏ مَیں پورے دل‌وجان سے نوجوانوں کی حوصلہ‌افزائی کرتی ہوں کہ ’‏اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے خالق کو یاد کریں۔‏‘‏—‏واعظ ۱۲:‏۱‏۔‏

مَیں اس وقت ۸۱ برس کی ہونے کے باوجود،‏ خوشخبری کی کُل‌وقتی پبلشر کے طور پر خدمت کرنے کے قابل ہوں۔‏ مَیں صبح جلدی اُٹھ کر لوگوں کو بس سٹاپ،‏ پارکنگ،‏ گلیوں،‏ دُکانوں یا پارکوں میں گواہی دیتی ہوں۔‏ بڑھاپے کے مسائل کی وجہ سے اس وقت زندگی کچھ مشکل ہو گئی ہے میرے روحانی بہن‌بھائیوں—‏میرا بڑا روحانی خاندان—‏کے ساتھ میری بھانجی کا خاندان میرے لئے حقیقی حوصلہ‌افزائی کا باعث ثابت ہوا ہے۔‏ سب سے بڑھکر،‏ مَیں نے سیکھا ہے کہ ”‏حد سے زیادہ قدرت ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے“‏ ہے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 10 عمانوایل لیونوڈاکس کی سوانح‌حیات کیلئے ستمبر ۱،‏ ۱۹۹۹ کے مینارِنگہبانی کے صفحہ ۲۵-‏۲۹ کا مطالعہ کریں۔‏

^ پیراگراف 11 عمانوایل پیٹراکس کی سوانح‌حیات کیلئے نومبر ۱،‏ ۱۹۹۶،‏ کے دی واچ‌ٹاور کے صفحہ ۲۲-‏۲۷ کا مطالعہ کریں۔‏

^ پیراگراف 31 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ ائیربُک آف جیہوواز وِٹنسز ۱۹۹۲ صفحہ ۹۱،‏ ۹۲ دیکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

اُوپر:‏ جان (‏بالکل بائیں)‏،‏ مَیں (‏درمیان میں)‏،‏ میری بائیں جانب میرا بھائی عمانوایل اور اس کی بائیں طرف ہماری ماں،‏ ۱۹۵۰ میں ایتھنز میں بیت‌ایل ارکان کے گروپ کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

بائیں:‏ ۱۹۵۶ میں نیو جرسی کے ساحل پر اپنے کاروبار کی جگہ پر جان کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

۱۹۹۵ میں تیرانا،‏ البانیہ میں ڈسٹرکٹ کنونشن پر

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

تیرانا،‏ البانیہ میں ۱۹۹۶ میں مکمل ہونے والی بیت‌ایل کی عمارت

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

اپنی بھانجی ایونجیلا اورفانائیڈس (‏دائیں)‏ اور اس کے شوہر جارج کیساتھ

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

اُوپر:‏ ۱۹۴۰ کے ”‏مینارِنگہبانی“‏ کا مضمون جس کا البانوی زبان میں خفیہ طور پر ترجمہ ہوا