خدا کا کلام سکھانے والوں کی اپنی تفویض پوری کرنے کیلئے حوصلہافزائی
خدا کا کلام سکھانے والوں کی اپنی تفویض پوری کرنے کیلئے حوصلہافزائی
حالیہ مہینوں میں لاکھوں اُستاد تربیت کے لئے جمع ہوئے۔ وہ گزشتہ مئی سے دُنیابھر میں یہوواہ کے گواہوں کے ”خدا کا کلام سکھانے والے“ سینکڑوں ڈسٹرکٹ کنونشنوں پر حاضر ہوئے۔ حاضرین کی ذاتی تربیت اور زیادہ قابلیت حاصل کرنے کے علاوہ اُستادوں کے طور پر اپنی تفویض پوری کرنے کے لئے بھی حوصلہافزائی کی گئی۔
کیا آپ ان میں سے کسی کنونشن پر حاضر ہوئے تھے؟ اگر ایسا ہے تو آپ یقیناً سچے خدا یہوواہ کی پرستش کیلئے منعقد ہونے والے ان اجتماعات پر ملنے والی عمدہ روحانی غذا کیلئے شکرگزار ہونگے۔ کیوں نہ ملکر کنونشن کے تربیتی اور معلوماتی پروگرام پر نظرثانی کی جائے؟
پہلا دن—الہامی صحائف تعلیم دینے کیلئے فائدہمند ہیں
کنونشن چیئرمین نے حاضرین کے پُرتپاک استقبال کیلئے تقریر پیش کی جسکا عنوان تھا ”خدا کا کلام سکھانے والو، تعلیم پاؤ۔“ عظیم ”مُعلم“ یہوواہ سے تعلیم حاصل کرکے یسوع مسیح عظیم اُستاد بن گیا تھا۔ (یسعیاہ ۳۰:۲۰؛ متی ۱۹:۱۶) ہمارے لئے بھی خدا کا کلام سکھانے والوں کے طور پر ترقی کرنے کے لئے یہوواہ سے تربیت پانا ضروری ہے۔ یوں ہم بھی یسوع مسیح کی طرح اچھے اُستاد بن جائیں گے۔
اگلے حصے کا عنوان تھا ”بادشاہتی تعلیم عمدہ پھل پیدا کرتی ہے۔“ خدا کا
کلام سکھانے والے تجربہکار اشخاص کے انٹرویوز کے ذریعے شاگرد بنانے کی خوشیوں اور برکتوں کو نمایاں کِیا گیا۔اس کے بعد حوصلہافزا تقریر بعنوان ” ’خدا کے بڑے بڑے کاموں‘ سے تحریک پانا“ پیش کی گئی۔ پہلی صدی میں خدا کی بادشاہت سے متعلق ”بڑے بڑے کاموں“ نے لوگوں کو مثبت اقدام اُٹھانے کی تحریک دی تھی۔ (اعمال ۲:۱۱) ہم بھی فدیے، قیامت اور نئے عہد کی بابت صحیفائی تعلیمات پر مشتمل ”بڑے بڑے کاموں“ کی بابت بیان کرنے سے لوگوں کو تحریک دے سکتے ہیں۔
اگلی تقریر میں سب کی حوصلہافزائی کی گئی کہ ”یہوواہ کی راستی سے شادمان رہیں۔“ (زبور ۳۵:۲۷) راستی سے محبت اور بُرائی سے نفرت کی بابت سیکھنے، بائبل کا مطالعہ کرنے، روحانی طور پر نقصاندہ اثرات کی گرمجوشی سے مزاحمت کرنے اور فروتنی کو فروغ دینے سے ہمیں راستی کے طالب رہنے میں مدد ملتی ہے۔ ایسے اقدام ہمیں غیرصحتمندانہ رفاقتوں، مادی اقدار اور بداخلاق اور پُرتشدد تفریحِطبع سے محفوظ رکھتے ہیں۔
”خدا کا کلام سکھانے والوں کے طور پر پوری طرح لیس“ کے موضوع پر کلیدی خطاب نے ہمیں یاددہانی کرائی کہ یہوواہ اپنے کلام، روحالقدس اور زمینی تنظیم کے ذریعے ہمیں لائق خادم بناتا ہے۔ مقرر نے خدا کے کلام کے استعمال کی بابت فہمائش کی: ”ہمارا مقصد بائبل کے پیغام کو سامعین کے دلوں پر نقش کرنا ہے۔“
کنونشن کے پہلے مجلسِمذاکرہ کا عنوان تھا ”دوسروں کو سکھاتے وقت خود بھی سیکھنا۔“ تقریر کے شروع میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ہمیں مسیحی اخلاقیت کے اعلیٰ معیاروں کی پیروی کرنی چاہئے جسکی ہم دوسروں کو تعلیم دیتے ہیں۔ اگلے حصے نے ’حق کے کلام کو درستی سے کام میں لانے‘ کیلئے ہماری حوصلہافزائی کی۔ (۲-تیمتھیس ۲:۱۵) اس بات سے قطعنظر کہ ہم کتنے عرصے سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں، تربیت کے لئے بائبل کا باقاعدہ اور مستعد ذاتی مطالعہ لازمی ہے۔ مجلسِمذاکرہ کے آخری حصے نے ظاہر کِیا کہ ابلیس ہمیں تکبّر، باغیانہ روش، خودپسندی، حسد، رشک، تلخی، آزردگی اور نکتہچینی جیسے رُجحانات میں اُلجھانا چاہتا ہے۔ تاہم، اگر ہم ابلیس کا پُرجوش مقابلہ کریں تو وہ ہم سے دُور بھاگ جائیگا۔ اُسکا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں خدا کے قریب جانے کی ضرورت ہے۔—یعقوب ۴:۷، ۸۔
حبقوق ۱:۱۳) ہمیں ”بدی سے نفرت“ کرنی چاہئے۔ (رومیوں ۱۲:۹) والدین کی انٹرنیٹ کے استعمال اور ٹیلیویژن دیکھنے کے سلسلے میں اپنے بچوں کی نگرانی کرنے کیلئے حوصلہافزائی کی گئی۔ مقرر نے بیان کِیا کہ فحشنگاری کی طرف مائل ہونے والے اشخاص کو کسی روحانی طور پر پُختہ ساتھی سے مدد حاصل کرنی چاہئے۔ زبور ۹۷:۱۰؛ متی ۵:۲۸؛ ۱-کرنتھیوں ۹:۲۷؛ افسیوں ۵:۳، ۱۲؛ کلسیوں ۳:۵؛ اور ۱-تھسلنیکیوں ۴:۴، ۵ جیسے صحائف پر غوروخوض کرنا اور انہیں ذہننشین کرنا بھی مددگار ثابت ہوگا۔
بروقت تقریر ”دُنیا میں فحاشی کی وبا سے نفرت کریں“ نے ظاہر کِیا کہ ہم اپنی روحانیت کیلئے خطرہ بننے والے اس گھٹیا عمل کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ حبقوق نبی نے یہوواہ کی بابت بیان کِیا: ”تیری آنکھیں ایسی پاک ہیں کہ تُو بدی کو دیکھ نہیں سکتا اور کجرفتاری پر نگاہ نہیں کر سکتا۔“ (اگلی تقریر کا عنوان تھا، ”خدا کے اطمینان کو اپنی حفاظت کرنے دیں،“ جس نے اس یقیندہانی سے ہمیں تسلی دی کہ ہم اپنی پریشانی یہوواہ پر ڈال سکتے ہیں۔ (زبور ۵۵:۲۲) اگر ہم دُعا میں اپنے دل کا حال بیان کریں تو ہمیں ”خدا کا اطمینان“ حاصل ہوگا جو دراصل یہوواہ کے ساتھ ایک بیشقیمت رشتے سے حاصل ہونے والا آرام اور باطنی سکون ہے۔—فلپیوں ۴:۶، ۷۔
پہلا دن بڑے پُرمسرت ماحول میں اس تقریر کیساتھ ختم ہوا جسکا عنوان تھا، ”یہوواہ اپنے لوگوں کو نُور سے آراستہ کرتا ہے۔“ اِس میں یسعیاہ ۶۰ باب کی تکمیل کی وضاحت کی گئی۔ اس دُنیا کی موجودہ تاریکی میں ’بیگانے‘—بڑی بِھیڑ کو تشکیل دینے والے بھیڑخصلت لوگ—ممسوح مسیحیوں کیساتھ یہوواہ کے نور سے مستفید ہوتے ہیں۔ مقرر نے ۱۹ اور ۲۰ آیت کی یوں وضاحت کی: ”یہوواہ سورج کی طرح نہیں ”ڈھلے“ گا اور نہ ہی وہ چاند کی طرح ’زوالپذیر‘ ہوگا۔ وہ ہمیشہ اپنے لوگوں پر نور چمکانے سے اُنہیں رونق بخشتا رہیگا۔ اس تاریک دُنیا کے آخری ایّام میں یہ ہمارے لئے کتنی حوصلہافزا یقیندہانی ہے!“ تقریر کے اختتام پر مقرر نے کتاب آئزائعز پرافیسی—لائٹ فار آل مینکائنڈ کی دوسری جِلد کی رونمائی کی۔ کیا آپ نے اس نئی اشاعت کو پڑھ لیا ہے؟
دوسرا دن—دوسروں کو سکھانے کے لائق بنیں
کنونشن کے دوسرے دن پر ہم نے روزانہ کی آیت پر باتچیت کے بعد دوسرے مجلسِمذاکرہ کو بڑی دلچسپی کے ساتھ سنا جس کا عنوان تھا، ”ایماندار بننے میں دوسروں کی مدد کرنے والے خادم۔“ تین حصوں پر مشتمل مجلسِمذاکرہ کے مقررین نے ایماندار بننے میں لوگوں کی مدد کرنے سے متعلق تین پہلوؤں—بادشاہتی پیغام کی تشہیر کرنا، دکھائی جانے والی دلچسپی کو فروغ دینا اور دلچسپی رکھنے والے اشخاص کو مسیح کے احکام پر عمل کرنے کی تعلیم دینا—کو نمایاں کِیا۔ انٹرویوز اور مظاہروں کی مدد سے ہم بالخصوص یہ سمجھنے کے قابل ہوئے کہ شاگرد بننے میں دوسروں کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے۔
متی ۲۴:۱۳) ہمیں خدائی عقیدت کو فروغ دینے کیلئے خدا کی تمام فراہمیوں—دُعا، ذاتی مطالعہ، اجلاس اور خدمتگزاری—سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ ہمیں اپنی خدائی عقیدت کو دُنیاوی خواہشات اور سرگرمیوں سے متاثر یا تباہ ہونے سے بچانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔
اگلے حصے کا موضوع تھا، ”برداشت پر خدائی عقیدت بڑھائیں۔“ مقرر نے ظاہر کِیا کہ ہمارے لئے سب سے اہم بات ’آخر تک برداشت کرنا‘ ہے۔ (محنت اُٹھانے والے اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگ آجکل تازگی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ ”مسیح کے جوئے کے تحت تازگی پانا“ کے موضوع پر تقریر نے اس سوال کا جواب دیا۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو اپنا جؤا اُٹھانے اور اُس سے سیکھنے کی مہربانہ دعوت دی۔ (متی ۱۱:۲۸-۳۰) ہم یسوع کے ایک سادہ اور متوازن زندگی گزارنے کے نمونے کی پیروی کرنے سے اُس کا جؤا اُٹھا سکتے ہیں۔ اِس پیشکش کے اہم نکات کو ایسے لوگوں کے انٹرویوز کے ذریعے نمایاں کِیا گیا جنہوں نے اپنی زندگیاں سادہ بنائی ہیں۔
یہوواہ کے گواہوں کے بڑے اجتماعات کا ایک نمایاں پہلو خدا کی خدمت کیلئے مخصوص نئے اشخاص کا بپتسمہ ہوتا ہے۔ بپتسمے کی تقریر کا عنوان تھا، ”بپتسمہ سکھانے کے بڑے استحقاق بخشتا ہے۔“ اس میں مقرر نے بپتسمہ کے اُمیدواروں کا پُرتپاک استقبال کِیا اور انہیں خدمت کے بڑے استحقاقات میں حصے لینے کی دعوت دی۔ درکار صحیفائی لیاقتوں کے حامل خدا کا کلام سکھانے والے نئے بپتسمہیافتہ اشخاص کلیسیا کی مختلف ذمہداریاں پوری کرنے کیلئے خود کو پیش کر سکتے ہیں۔
سہپہر کی پہلی تقریر کا عنوان تھا، ”عظیم اُستاد کی نقل کریں۔“ یسوع نے طویل مدت تک اپنے باپ کے کاموں کا مشاہدہ کِیا اور اُسکی نقل کی جسکی وجہ سے وہ عظیم اُستاد بننے کے قابل ہوا۔ زمین پر اُس نے اثرآفرین سوالات اور سادہ مگر واضح تمثیلوں جیسے دیگر مؤثر تعلیمی طریقے استعمال کئے۔ یسوع نے خدا کے کلام کو اپنی تعلیم کا محور بنایا اور گرمجوشی، تپاک اور اختیار کیساتھ باتچیت کی۔ کیا ہم نے عظیم اُستاد کی نقل کرنے کی تحریک نہیں پائی تھی؟
”کیا آپ دوسروں کی خدمت کرنے کیلئے تیار ہیں؟“ کے عنوان سے ایک اَور تحریکانگیز تقریر نے یسوع کے نمونے کی نقل کرتے ہوئے دوسروں کی خدمت کرنے کیلئے ہماری حوصلہافزائی کی۔ (یوحنا ۱۳:۱۲-۱۵) مقرر نے لائق اشخاص کو دوسروں کی مدد کرنے کے مواقع سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے سلسلے میں تیمتھیس کی طرح بننے کا واضح مشورہ دیا۔ (فلپیوں ۲:۲۰، ۲۱) والدین کی حوصلہافزائی کی گئی کہ وہ کُلوقتی خدمت اختیار کرنے میں اپنے بچوں کی مدد کے لئے القانہ اور حنّہ کے نمونے کی پیروی کریں۔ نوجوانوں کو نصیحت کی گئی کہ وہ خود کو خوشی سے پیش کرنے کے سلسلے میں یسوع مسیح اور نوجوان تیمتھیس کی مثالوں پر غور کریں۔ (۱-پطرس ۲:۲۱) ہم دوسروں کی خدمت کرنے کے مواقع کا فائدہ اُٹھانے والے لوگوں کے بیانات سے بھی متاثر ہوئے تھے۔
تیسرے مجلسِمذاکرہ کا عنوان تھا، ”خدائی تعلیم سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں۔“ پہلے مقرر نے ہماری توجہ کے دورانیے کو بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہم شروع میں ذاتی مطالعے کے لئے تھوڑا وقت مختص کرنے اور بعدازاں اسے بڑھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اُس نے اجلاسوں کے دوران نوٹس لینے اور صحائف کو دیکھنے کے لئے بھی سامعین کی حوصلہافزائی کی۔ دوسرے مقرر نے ہمارے لئے ’صحیح باتوں کا خاکہ‘ یاد رکھنے کی اہمیت کو اُجاگر کِیا۔ (۲-تیمتھیس ۱:۱۳، ۱۴) ابلاغِعامہ کی بداخلاق پیشکشوں، انسانی فیلسوفیوں، پاک صحائف پر تنقید اور برگشتہ تعلیمات سے خود کو بچانے کے لئے ذاتی مطالعے اور اجلاسوں پر حاضری کے لئے وقت نکالنا ضروری ہے۔ (افسیوں ۵:۱۵، ۱۶) مجلسِمذاکرہ کے آخری مقرر نے خدائی تعلیم سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لئے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔—فلپیوں ۴:۹۔
مسیحی خدمتی سکول سے مستفید ہوں کے عنوان سے ایک نئی کتاب شائع کی جائیگی۔ اس میں موجود مواد پر مقرر کے اعادے نے ہمارے اشتیاق کو مزید بڑھایا تھا۔ فنِتقریر کے مشورتی نکات پر مشتمل کتاب کے حصے کی بابت اُس نے بیان کِیا: ”یہ نئی درسی کتاب اچھی پڑھائی، تقریر اور تعلیم کے ۵۳ پہلوؤں کو دُنیاوی انداز میں پیش نہیں کرتی۔ انہیں صحیفائی اصولوں پر مبنی انداز میں پیش کِیا گیا ہے۔“ یہ کتاب ظاہر کریگی کہ انبیا، یسوع اور اُسکے شاگردوں نے تعلیم کے عمدہ طریقوں کا مظاہرہ کیسے کِیا تھا۔ جیہاں، اس درسی کتاب اور مسیحی خدمتی سکول کے نئے پہلوؤں کے ذریعے خدا کا کلام بہتر طور پر سکھانے میں یقیناً ہماری مدد ہوگی۔
”ہماری روحانی ترقی کے لئے نئی فراہمیاں“ کے عنوان سے تقریر سن کر ہم کتنے خوش ہوئے تھے! ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ بہت جلدتیسرا دن—وقت کے خیال سے اُستاد بنیں
آخری دن پر روزانہ کی آیت پر باتچیت کے بعد تمام حاضرین نے کنونشن کے آخری مجلسِمذاکرہ پر پوری توجہ دی جسکا عنوان تھا ”ملاکی کی پیشینگوئی ہمیں یہوواہ کے دن کیلئے تیار کرتی ہے۔“ ملاکی نے بابل سے یہودیوں کی واپسی کے تقریباً سو سال بعد یہ پیشینگوئی کی تھی۔ وہ دوبارہ برگشتگی اور بدکاری میں ملوث ہوگئے تھے اور یہوواہ کے راست قوانین سے غفلت برتنے اور لنگڑے، اندھے اور بیمار جانور قربان کرنے سے اُس کے نام کی بےحُرمتی کر رہے تھے۔ علاوہازیں، وہ ممکنہ طور پر بیگانہ عورتوں سے شادی کرنے کیلئے اپنی جوانی کی بیویوں کو طلاق دے رہے تھے۔
ملاکی کی پیشینگوئی کا پہلا باب اپنے لوگوں کے لئے یہوواہ کی محبت کی یقیندہانی کراتا ہے۔ یہ خدا کے لئے مؤدبانہ خوف رکھنے کے علاوہ پاک چیزوں کے لئے قدردانی ظاہر کرنے کی ضرورت کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ یہوواہ ہم سے دلوجان سے اُسکی خدمت کرنے اور بےلوث محبت کیساتھ اُسکی پرستش کرنے کی توقع کرتا ہے۔ ہم خدا کے حضور جوابدہ ہیں اور ہماری پاک خدمت کو رسمی نہیں ہونا چاہئے۔
ملاکی کے دوسرے باب کا اپنے زمانے پر اطلاق کرتے ہوئے مجلسِمذاکرہ کے دوسرے مقرر نے استفسار کِیا: ”کیا ہم ذاتی طور پر محتاط ہیں کہ ’ہمارے لبوں پر کسی قسم کی ناراستی نہ پائی جائے‘؟“ (ملاکی ۲:۶) پیشواؤں کو اس بات کا یقین کر لینا چاہئے کہ خدا کا کلام اُنکی باتوں کی مضبوط بنیاد ہے۔ ہمیں ناجائز طلاق جیسے پُرفریب کاموں سے نفرت کرنی چاہئے۔—ملاکی ۲:۱۴-۱۶۔
”یہوواہ کے دن سے کون بچیگا؟“ کے موضوع پر باتچیت کرتے ہوئے مجلسِمذاکرہ کے آخری مقرر نے یہوواہ کے دن کیلئے تیار رہنے میں ملاکی ۳ باب کی ۱۷ آیت کی بڑی تکمیل اُن پر ہو رہی ہے! یہ بیان کرتی ہے: ’ربُالافواج فرماتا ہے اُس روز وہ میرے لوگ بلکہ میری خاص ملکیت ہونگے اور مَیں اُن پر ایسا رحیم ہونگا جیسا باپ اپنے خدمتگذار بیٹے پر ہوتا ہے۔‘ “
ہماری مدد کی۔ مقرر نے بیان کِیا: ”یہوواہ کے خادموں کیلئے اس بات سے واقف ہونا کتنا تسلیبخش ہے کہملبوسات کیساتھ پیش کِیا گیا ڈرامہ، ”یہوواہ کے اختیار کا احترام کریں“ کنونشن کا ایک اَور اہم حصہ تھا جسکے نمایاں کردار قورح کے بیٹے تھے۔ موسیٰ اور ہارون کے خلاف اپنے باپ کی بغاوت کے باوجود وہ یہوواہ اور اُسکے نمائندوں کے وفادار رہے۔ قورح اور اُسکے ساتھی ہلاک ہو گئے مگر قورح کے بیٹے بچ گئے۔ بعدازاں، ”وفاداری سے خدائی اختیار کی اطاعت کریں“ کے عنوان سے پیشکردہ تقریر نے ڈرامے کا اطلاق ہم سب پر کِیا۔ مقرر نے ایسے چھ حلقوں کی بابت خبردار کِیا جس میں قورح اور اُسکے ساتھی ناکام ہو گئے تھے: وفاداری سے یہوواہ کے اختیار کی حمایت کرنے میں ناکامی؛ تکبّر، خودغرضانہ خواہشات اور حسد سے مغلوب ہونا؛ یہوواہ کے مقررشُدہ خادموں کی ناکاملیتوں پر توجہ مرکوز رکھنا؛ شکایتی روح کو فروغ دینا؛ اپنے خدمتی استحقاقات کی بےقدری کرنا اور دوستی یا خاندانی رشتوں کو یہوواہ کی وفاداری پر ترجیح دینا۔
عوامی خطاب کا عنوان تھا ”کون سب قوموں کو سچائی سکھاتے ہیں؟“ اس میں عام سچائی کی بجائے یہوواہ کے مقصد کی بابت سچائی کو زیرِبحث لایا گیا جس کی گواہی یسوع مسیح نے دی تھی۔ مقرر نے اعتقادات، پرستش کے طریقے اور ذاتی چالچلن کی بابت سچائی پر روشنی ڈالی۔ پہلی صدی کے مسیحیوں اور موجودہ یہوواہ کے گواہوں کے مابین موازنے سے ہمارے اس اعتقاد کو تقویت ملی کہ ’بیشک خدا ہم میں ہے۔‘—۱-کرنتھیوں ۱۴:۲۵۔
اس کے بعد مینارِنگہبانی کے مضمون کا خلاصہ پیش کِیا گیا اور پھر اختتامی تقریر بعنوان ”مستعدی سے تعلیم دینے کی ذمہداری پوری کرنا“ کے ذریعے خدا کا کلام سکھانے والے تمام حاضرین کو تحریک ملی۔ پروگرام کے مختصر اعادے نے تعلیم دیتے وقت صحائف کے استعمال کی اہمیت، لائق اُستاد بننے کے طریقوں اور دوسروں کو سکھائی جانے والی سچائی پر بھروسا رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مقرر نے ہمیں ’اپنی ترقی ظاہر کرنے‘ اور ’اپنی اور اپنی تعلیم کی خبرداری کرنے‘ کی نصیحت کی۔—۱-تیمتھیس ۴:۱۵، ۱۶۔
ہم ”خدا کا کلام سکھانے والے“ ڈسٹرکٹ کنونشن پر کتنی شاندار ضیافت سے مستفید ہوئے تھے! دُعا ہے کہ ہم دوسروں کو خدا کے کلام کی تعلیم دیتے وقت اپنے عظیم مُعلم یہوواہ اور عظیم اُستاد یسوع مسیح کی نقل کریں۔
[صفحہ ۲۸ پر بکس/تصویریں]
اہم ضروریات کو پورا کرنے کیلئے نئی مطبوعات
”خدا کا کلام سکھانے والے“ ڈسٹرکٹ کنونشن پر حاضرین نے بڑی خوشی اور گرمجوشی کے ساتھ دو مطبوعات حاصل کیں جو دُنیا کے بعض حصوں میں صحیفائی سچائی سکھانے کیلئے نہایت مفید ثابت ہونگی۔ اشتہار بعنوان ڈو یو ہیوَ این امورٹل سپرٹ؟ ایسے ممالک میں رہنے والے لوگوں کیساتھ باتچیت شروع کرنے کیلئے ایک مددگار ہتھیار ثابت ہوگا جہاں مقامی زبانیں ”جان“ اور ”روح“ میں کوئی فرق ظاہر نہیں کرتیں۔ یہ نیا اشتہار روح بمعنی قوت اور روحانی مخلوق کے درمیان فرق اور اس بات کو واضح کرتا ہے کہ موت کے بعد لوگ روحانی مخلوق نہیں بنتے۔
کنونشن کے دوسرے دن کے اختتام پر بروشر اے سیٹسفائنگ لائف—ہاؤ ٹو ایٹین اِٹ کی رونمائی کی گئی۔ یہ بروشر ایک الہامی کتاب اور ایک شخصیت رکھنے والے خالق سے ناواقف لوگوں کیساتھ بائبل مطالعے شروع کرنے کی خاطر تیار کِیا گیا ہے۔ کیا آپ اپنی خدمتگزاری میں یہ نئی مطبوعات استعمال کرنے کے قابل ہوئے ہیں؟
[صفحہ ۲۶ پر تصویریں]
میلان، اٹلی اور پوری دُنیا میں کنونشنوں پر سینکڑوں نے بپتسمہ لیا
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
حاضرین ”یہوواہ کے اختیار کا احترام کریں“ کے موضوع پر ڈرامہ دیکھکر بہت متاثر ہوئے تھے