بچوں کی عجب حکمت
بچوں کی عجب حکمت
نائیجیریا کی ایک مثل کے مطابق، ”بڑوں میں تو حکمت ہوتی ہی ہے لیکن بچے بھی عجب حکمت کے مالک ہوتے ہیں۔“ نائیجیریا میں ایک مسیحی بزرگ ایڈوِن کو اس بات کی صداقت کا تجربہ ہوا۔
ایک روز ایڈوِن کو اپنے گھر میں اپنی میز کے نیچے لوہے کا ایک بکس ملا۔
”یہ کس کا ہے؟“ ایڈوِن نے اپنے تین بچوں سے پوچھا۔
”یہ میرا ہے،“ آٹھ سالہ عمانوایل نے جواب دیا۔ اس نے مزید بتایا کہ یہ پانچ انچ کا زنگآلود لوہے کا بکس جس میں سوراخ کِیا گیا ہے یہوواہ کے گواہوں کے عالمگیر کام کے عطیات کیلئے ہے۔ اس نے واضح کِیا: ”ہر روز کنگڈم ہال نہ جانے کی وجہ سے مَیں نے ایک بکس بنانے کا فیصلہ کِیا تاکہ جب کبھی مَیں کھانےپینے کیلئے ملنے والے اپنے پیسوں کو استعمال نہ کروں تو اُنہیں بکس میں ڈال سکوں۔“
عمانوایل کے والد نے سالانہ ڈسٹرکٹ کنونشن پر حاضر ہونے کی خاطر گھر میں پیسے جمع کرنے کے لئے ایک بکس رکھا ہوا تھا۔ لیکن خاندان کی کسی فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لئے پیسے خرچ ہو گئے تھے۔ اس بات کا یقین کرنے کے لئے کہ اُس کے عطیات کا پیسہ کسی اَور کام کیلئے استعمال نہ ہو، عمانوایل ایک پُرانا ٹین کا ڈبہ مستقل بند کرانے کے لئے ویلڈر کے پاس لیکر گیا۔ ویلڈر نے اس ڈبے کا مقصد جاننے کے بعد بیکار لوہے کے ٹکڑوں سے عمانوایل کے لئے ایک بکس بنا دیا۔ عمانوایل کے پانچ سالہ بھائی مائیکل نے بھی بکس کے لئے درخواست کی۔
ایڈوِن نے بچوں کے اس فعل سے حیران ہو کر پوچھا کہ انہوں نے بکس کیوں بنائے ہیں۔ مائیکل نے جواب دیا: ”مَیں عطیہ دینا چاہتا ہوں!“
اپنے والدین کو بتائے بغیر عمانوایل، مائیکل اور ان کی نو سالہ بہن اُوچی اپنے لنچ کے کچھ پیسے بچا کر اپنے اپنے بکس میں جمع کر رہے تھے۔ انہیں یہ خیال کیسے آیا؟ جب بچے اپنے ہاتھ میں پیسے پکڑنے کے قابل ہوئے تو ان کے والدین نے انہیں کنگڈم ہال میں عطیہ کے بکس میں کچھ پیسے ڈالنے کی تربیت دی۔ بدیہی طور پر، بچوں نے عطیات ڈالنے کے اُصول کی بابت اچھی طرح سیکھا تھا۔
جب بکس بھر گئے تو انہیں کھولا گیا۔ ان کی کُل رقم ۱۳.۳ ڈالر (یو.ایس) تھی۔ یہ رقم ایسے مُلک میں جہاں اوسطاً سالانہ آمدنی محض چند سو ڈالر ہے کسی بھی طرح معمولی نہیں تھی۔ یہوواہ کے گواہوں کی منادی کے کام کی کفالت ایسے ہی رضاکارانہ عطیات سے ہوتی ہے جو اب دُنیا کے ۲۳۵ ممالک میں ہو رہا ہے۔