مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

سوالات از قارئین

موسوی شریعت میں رشتہ‌داروں کیساتھ شادی کے سلسلے میں مقررکردہ حدود کا آجکل مسیحیوں پر کس حد تک اطلاق ہوتا ہے؟‏

اسرائیلی قوم کو یہوواہ کی طرف سے ملنے والی شریعت میں شادی کی رسومات اور طریقۂ‌کار کو اتنی تفصیل سے بیان نہیں کِیا گیا ہے۔‏ تاہم،‏ یہ چند شادی کے بندھنوں کو منع ضرور کرتی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ احبار ۱۸:‏۶-‏۲۰ میں ہمیں ”‏قریبی رشتہ‌دار“‏ سے ممنوعہ بندھنوں کی فہرست ملتی ہے۔‏ یہ اقتباس کافی تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ کونسے جسمانی رشتہ‌داروں کو ایک دوسرے کیساتھ جنسی تعلقات قائم نہیں کرنے چاہئیں۔‏ بیشک،‏ مسیحی موسوی شریعت یا اس کے احکام کے تابع نہیں ہیں۔‏ (‏افسیوں ۲:‏۱۵؛‏ کلسیوں ۲:‏۱۴‏)‏ تاہم،‏ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسیحی اس معاملے کو شادی کے لئے ساتھی منتخب کرتے وقت نظرانداز کر سکتے ہیں۔‏ اس کی کئی وجوہات ہیں۔‏

دراصل،‏ ایسے دُنیوی قوانین ہیں جو قریبی رشتہ‌داروں کے درمیان شادی پر اثرانداز ہوتے ہیں اور مسیحی بنیادی طور پر جس مُلک میں رہتے ہیں اس کے قوانین کی تعمیل کرنے کے پابند ہیں۔‏ (‏متی ۲۲:‏۲۱؛‏ رومیوں ۱۳:‏۱‏)‏ بیشک،‏ ایسے قوانین ہر مُلک میں فرق ہوتے ہیں۔‏ اس قسم کے بیشتر قوانین بڑی حد تک توارثی عوامل پر مبنی ہوتے ہیں۔‏ یہ واضح حقیقت ہے کہ قریبی رشتہ‌داروں کے درمیان شادی سے پیدا ہونے والے بچے کو توارثی نقائص اور بیماریوں کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‏ اس وجہ سے اور ’‏اعلےٰ حکومتوں کی تابعداری‘‏ کرنے کی وجہ سے مسیحی شادی کے مقامی قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔‏

اس کے علاوہ،‏ اپنے علاقے کے مقبول اور غیرمقبول معاملات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔‏ تقریباً ہر ثقافت میں خونی رشتہ‌داروں کی شادی کی مذمت کرنے والے قوانین اور دستورات پائے جاتے ہیں اور اکثراوقات ایسے بندھنوں کو محرمانہ اور ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔‏ اگرچہ مختلف ثقافتوں میں ممنوعہ بندھن مختلف ہو سکتے ہیں توبھی انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق ”‏عام طور پر،‏ دو انسانوں کے درمیان توارثی رشتہ جتنا قریب ہوگا اُن پر اتنی ہی زیادہ ممانعت عائد ہوگی یا ان کے درمیان جنسی تعلقات کی حوصلہ‌شکنی کی جائے گی۔‏“‏ اگر کوئی محرمانہ بندھن کا معاملہ نہ بھی ہو توبھی مسیحی خدا کے نام یا مسیحی کلیسیا کی رسوائی کا سبب نہ بننے کے لئے قائم‌شُدہ دستورات یا معاشرے کی جائز حساسیت کو بالکل نظرانداز نہیں کرتے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۳‏۔‏

اپنے خداداد ضمیر کو بھی نظرانداز نہیں کِیا جانا چاہئے۔‏ تمام لوگ درست اور غلط،‏ نیک‌وبد کے احساس کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۲:‏۱۵‏)‏ اُنکا ضمیر اگر کجرو کاموں سے آلودہ یا مُردہ نہ ہو تو وہ انہیں مسلسل بتاتا رہتا ہے کہ کیا درست اور راست ہے اور کیا غیرفطری اور ناشائستہ ہے۔‏ یہوواہ نے جسمانی رشتہ‌داروں کے درمیان شادی کے خلاف شریعت دیتے وقت اس حقیقت کی طرف اشارہ کِیا تھا۔‏ ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏تم ملکِ‌مصرؔ کے سے کام جس میں تم رہتے تھے نہ کرنا اور ملکِ‌کنعاؔن کے سے کام بھی جہاں مَیں تمہیں لئے جاتا ہوں نہ کرنا اور نہ اُن کی رسموں پر چلنا۔‏“‏ (‏احبار ۱۸:‏۳‏)‏ مسیحی بائبل پر مبنی اپنے ضمیر کو عزیز رکھتے ہیں اور اِسے صحیح اور غلط کے سلسلے میں قوموں کے بگڑے ہوئے رُجحان سے خراب نہیں ہونے دیتے۔‏—‏افسیوں ۴:‏۱۷-‏۱۹‏۔‏

پس،‏ ہم اس سے کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟‏ مسیحی موسوی شریعت کے تابع تو نہیں ہیں لیکن ان کا ضمیر انہیں واضح طور پر بتاتا ہے کہ جسمانی رشتہ‌داروں—‏جیساکہ باپ اور بیٹی،‏ ماں اور بیٹا،‏ بھائی اور بہن—‏کے درمیان شادی مسیحی نقطۂ‌نظر سے قعطاً جائز نہیں۔‏ * خونی رشتوں میں دُوری پیدا ہونے کیساتھ ساتھ مسیحی اس بات کو پہچانتے ہیں کہ ایسے قوانین اور احکام ہیں جو قانونی شادی پر عائد ہوتے ہیں اور ایسے معیار بھی ہیں جو معاشی اور ثقافتی لحاظ سے قابلِ‌قبول ہیں۔‏ ان پر گہری توجہ دینی چاہئے تاکہ ہم اِس صحیفائی فرمان پر عمل کر سکیں:‏ ”‏بیاہ کرنا سب میں عزت کی بات سمجھی جائے۔‏“‏—‏عبرانیوں ۱۳:‏۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 اس موضوع پر تفصیلی معلومات کے لئے براہِ‌مہربانی مارچ ۱۵،‏ ۱۹۷۸ کے دی واچ‌ٹاور میں صفحہ ۲۵،‏ ۲۶ کا مضمون ”‏محرمانہ شادیاں—‏مسیحیوں کو انہیں کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏“‏ پڑھیں۔‏