مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

صفائی‌ستھرائی—‏درحقیقت اس کا کیا مطلب ہے؟‏

صفائی‌ستھرائی—‏درحقیقت اس کا کیا مطلب ہے؟‏

صفائی‌ستھرائی‏—‏درحقیقت اس کا کیا مطلب ہے؟‏

یورپ اور ریاستہائےمتحدہ میں ۱۸ ویں اور ۱۹ ویں صدیوں کے دوران حیران‌کُن آلودہ حالتوں کی وجہ سے،‏ اس دَور کے مشنریوں نے اس بات کی منادی کی جسے ”‏عقیدۂصفائی‌ستھرائی“‏ کا نام دیا جا سکتا ہے۔‏ اس عقیدے نے گندگی کو گناہ کے برابر قرار دیا جبکہ صفائی کے سلسلے میں یہ بیان کِیا کہ یہ کسی شخص کو خدا کی قربت میں لاتی ہے۔‏ شاید اسی وجہ سے یہ کہاوت مشہور ہو گئی کہ ”‏صفائی میں خدائی ہے۔‏“‏

اس نقطۂ‌نظر کو سالویشن آرمی کے بانی ولیم اور کیتھرین بوتھ نے اختیار کِیا۔‏ کتاب ہیلتھ اینڈ میڈیسن ان دی ایونجلیکل ٹریڈیشن کے مطابق ایک ابتدائی نعرہ یہ تھا:‏ ”‏صابن،‏ یخنی اور نجات۔‏“‏ اس کے بعد جب لوئیس پاسچر اور دیگر نے بیماری اور بیکٹریا کے درمیان یقینی تعلق کو ظاہر کر دیا تو اس چیز نے اس پر مزید زور دینے کیساتھ ساتھ صحت‌عامہ سے متعلق بہتر منصوبوں کے لئے سائنسی بنیاد فراہم کی۔‏

بعض فوری طور پر اُٹھائے جانے والے اقدام میں عدالت میں ایک گواہ سے بائبل کو نہ چومنے اور سکولوں اور ریلوے سٹیشنوں پر مشترکہ کپ استعمال نہ کرنے کا تقاضا شامل تھا۔‏ اس بات کی بھی کوششیں کی گئیں کہ عبادتوں پر ایک ہی پیالہ استعمال کرنے کی بجائے انفرادی پیالے استعمال کئے جائیں۔‏ جی‌ہاں،‏ ایسے اصولوں کو فروغ دینے والوں کو صفائی‌ستھرائی کے سلسلے میں لوگوں کے رُجحانات بدلنے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‏ لوگوں کے رُجحانات اس قدر متاثر ہوئے کہ ایک مصنف نتیجے کو ”‏صفائی‌ستھرائی سے عشق“‏ کا نام دیتا ہے۔‏

تاہم،‏ ”‏صفائی‌ستھرائی سے عشق“‏ بظاہر سطحی تھا۔‏ تھوڑی دیر بعد کاروباری حضرات نے عام صابن کو ایک حسن بخشنے والی چیز میں بدل دیا۔‏ اس اختراع‌پسند اشتہاربازی نے گاہکوں کو یہ یقین دلایا کہ مخصوص حفظانِ‌صحت کی مصنوعات کا استعمال صارفین کو سماجی حیثیت عطا کریگا جس پر دوسرے صرف رشک کر سکتے ہیں۔‏ ٹیلیویژن اس اختراع کو دوام بخشتا ہے۔‏ اشتہارات اور ڈراموں میں آنے والے کامیاب اور دلکش لوگ شاذونادر ہی گھر صاف کرتے،‏ صحن میں جھاڑو دیتے،‏ کوڑاکرکٹ اُٹھاتے یا اپنے پالتو کتوں اور بلیوں کی گندگی اُٹھاتے نظر آتے ہیں۔‏

ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ استدلال کرتے ہیں کہ ملازمت کیلئے باہر جانا اخراجاتِ‌زندگی کو پورا کرتا ہے جبکہ گھریلو کام یا صفائی‌ستھرائی کے دیگر کاموں کی کوئی مالی افادیت نہیں ہے۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ اس میں کوئی مالی فائدہ نہیں لہٰذا وہ کیوں اپنے گردوپیش کی پروا کریں؟‏ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بعض لوگ آجکل یہ سوچتے ہیں کہ صفائی‌ستھرائی کا مطلب صرف ذاتی صحت‌وصفائی ہے۔‏

صفائی‌ستھرائی کی بابت خدائی نقطۂ‌نظر

اس میں کوئی شک نہیں کہ صفائی‌ستھرائی کی بابت تعلیم دینے کی ابتدائی کاوشیں لوگوں کے معیارِزندگی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوئی تھیں۔‏ علاوہ‌ازیں یہ بالکل صحیح تھا کیونکہ صفائی ایک ایسی خوبی ہے جو مُقدس اور پاک خدا یہوواہ سے تعلق رکھتی ہے اور وہی اسکا موجد ہے۔‏ وہ ہمیں ہر لحاظ سے پاک‌وصاف بننے کی مفید تعلیم دیتا ہے۔‏—‏یسعیاہ ۴۸:‏۱۷؛‏ ۱-‏پطرس ۱:‏۱۵‏۔‏

اس سلسلے میں یہوواہ خدا مثالی ہے۔‏ پاکیزگی اور اس کی دیگر نادیدہ خوبیاں،‏ خدا کی دیدنی تخلیق میں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱:‏۲۰‏)‏ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ تخلیق بذاتِ‌خود کسی دائمی آلودگی کا سبب نہیں بنتی۔‏ زمین اپنے بہتیرے ماحولیاتی سلسلوں کیساتھ ازخود صفائی کا شاندار نمونہ ہے اور یہ صاف‌ستھری اور صحتمند زندگی کیلئے ترتیب دی گئی ہے۔‏ ایسا صاف‌ستھرا کام صرف ایک صاف ذہن والے نمونہ‌ساز کا ہی ہو سکتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ ہم اس سے نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ خدا کے پرستاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں صاف‌ستھرا ہونا چاہئے۔‏

صفائی کے چار پہلو

بائبل صفائی‌ستھرائی کے چار پہلوؤں کی شناخت کراتی ہے جن کیلئے خدا کے پرستاروں کو کوشش کرنی چاہئے۔‏ آئیں ان میں سے ہر ایک پر غور کریں۔‏

روحانی۔‏ اسے اہم‌ترین صفائی خیال کِیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق کسی شخص کی ابدی زندگی کے امکانات سے ہے۔‏ تاہم،‏ اکثراوقات سب سے زیادہ غفلت اسی میں برتی جاتی ہے۔‏ سادہ سی بات ہے کہ روحانی طور پر پاک‌صاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اُس حد کو پار نہ کریں جو خدا نے سچی اور جھوٹی پرستش کے مابین مقرر کی ہے کیونکہ خدا ہر قسم کی جھوٹی پرستش کو ناپاک خیال کرتا ہے۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ فرماتا ہے کہ اُن میں سے نکل کر الگ رہو اور ناپاک چیز کو نہ چھوؤ تو مَیں تم کو قبول کر لونگا۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۷‏)‏ شاگرد یعقوب بھی اس سلسلے میں بڑی واضح بات کہتا ہے:‏ ”‏ہمارے خدا اور باپ کے نزدیک خالص اور بےعیب دینداری یہ ہے کہ .‏ .‏ .‏ اپنے آپ کو دُنیا سے بیداغ رکھیں۔‏“‏—‏یعقوب ۱:‏۲۷‏۔‏

خدا نے سچی پرستش کے ساتھ جھوٹی پرستش کی آمیزش کے سلسلے میں اپنی ناپسندیدگی کا برملا اظہار کِیا ہے۔‏ جھوٹی پرستش میں اکثراوقات ناپاک کام اور مکروہ بُت‌پرستی شامل ہوتی ہے۔‏ (‏یرمیاہ ۳۲:‏۳۵‏)‏ لہٰذا،‏ مسیحیوں کو ناپاک پرستش میں کسی قسم کی شمولیت سے دُور رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۲۰،‏ ۲۱؛‏ مکاشفہ ۱۸:‏۴‏۔‏

اخلاقی۔‏ خدا اس سلسلے میں بھی پاک اور ناپاک میں فرق کو واضح کرتا ہے۔‏ مجموعی طور پر،‏ دُنیا افسیوں ۴:‏۱۷-‏۱۹ کے مطابق بن گئی ہے:‏ ”‏اُن کی عقل تاریک ہوگئی ہے اور وہ .‏ .‏ .‏ خدا کی زندگی سے خارج ہیں۔‏ انہوں نے سن ہو کر شہوت‌پرستی کو اختیار کِیا تاکہ ہر طرح کے گندے کام حرص سے کریں۔‏“‏ ایسی بداخلاق سوچ بہتیرے ظاہری اور پوشیدہ طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے لہٰذا مسیحیوں کو ہوشیار رہنا چاہئے۔‏

خدا سے محبت کرنے والے لوگ جانتے ہیں کہ عصمت‌فروشی،‏ ہم‌جنس‌پرستی،‏ شادی سے پہلے جنسی مباشرت اور فحاشی اخلاقی پاکیزگی کے یہوواہ کے معیاروں کی خلاف‌ورزی ہے۔‏ تاہم،‏ ایسے کام تفریحی اور فیشن کی دُنیا میں عام ہیں۔‏ مسیحیوں کو ایسے رُجحانات سے خبردار رہنا چاہئے۔‏ مسیحی اجلاسوں یا سماجی اجتماعات پر جسم کو نمایاں کرنے والے کپڑے پہننا انسانی جسم کو غیرضروری توجہ کا مرکز بناتا اور حیاداری کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔‏ اس طرز کا لباس پہننا مسیحی رفاقت میں ناپاک دُنیاوی سوچ کو اُبھارنے کے علاوہ دوسروں کے ذہنوں میں ناپاک خیالات پیدا کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔‏ یہ ایک ایسا حلقہ ہے جہاں مسیحیوں کو ’‏عالمِ‌بالا کی حکمت‘‏ ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔‏—‏یعقوب ۳:‏۱۷‏۔‏

ذہنی۔‏ کسی شخص کے ذہن کے پوشیدہ گوشوں کو ناپاک خیالات کی آماجگاہ نہیں ہونا چاہئے۔‏ یسوع نے یہ کہتے ہوئے ناپاک خیالات کے خلاف خبردار کِیا:‏ ”‏جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دل میں اُسکے ساتھ زنا کر چکا۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۲۸؛‏ مرقس ۷:‏۲۰-‏۲۳‏)‏ ان الفاظ کا اطلاق فحش تصاویر اور فلمیں دیکھنے،‏ اوباش جنسی کاموں کی بابت پڑھنے اور غیراخلاقی گانے سننے پر بھی ہوتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ مسیحیوں کو ناپاک خیالات سے آلودہ ہونے سے گریز کرنا چاہئے جو ناپاک اور گندے قول‌وفعل کا باعث بن سکتے ہیں۔‏—‏متی ۱۲:‏۳۴؛‏ ۱۵:‏۱۸‏۔‏

جسمانی۔‏ بائبل میں پاکیزگی اور جسمانی صفائی‌ستھرائی قریبی تعلق رکھتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ پولس نے لکھا:‏ ”‏اَے عزیزو!‏ .‏ .‏ .‏ آؤ ہم اپنے آپ کو ہر طرح کی جسمانی اور روحانی آلودگی سے پاک کریں اور خدا کے خوف کے ساتھ پاکیزگی کو کمال تک پہنچائیں۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۷:‏۱‏)‏ لہٰذا،‏ سچے مسیحیوں کو جس قدر ان کے حالات اجازت دیتے ہیں اپنا جسم،‏ گھر اور گردوپیش کو صاف‌ستھرا رکھنا چاہئے۔‏ جہاں نہانے دھونے کیلئے پانی کا فقدان بھی ہو وہاں بھی مسیحیوں کو صاف‌ستھرے اور اچھے نظر آنے کیلئے اپنی پوری کوشش کرنی چاہئے۔‏

جسمانی صفائی‌ستھرائی کسی بھی صورت میں تمباکونوشی،‏ شراب‌نوشی اور منشیات کے ناجائز استعمال کی اجازت نہیں دیتی جو کہ جسم کو آلودہ کرتی اور نقصان پہنچاتی ہیں۔‏ غزل‌الغزلات میں بیان‌کردہ چرواہے نے شولمیت لڑکی کے لباس سے اُٹھنے والی بھینی‌بھینی خوشبو کی قدر کی تھی۔‏ (‏غزل‌الغزلات ۴:‏۱۱‏)‏ اپنی ذاتی صفائی اور صحت کی دیکھ‌بھال کرنا ایک پُرمحبت کام ہے جس سے ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو بدبودار بننے سے بچاتے ہیں۔‏ پرفیوم اور خوشبویات اچھے ہو سکتے ہیں لیکن یہ باقاعدہ غسل اور صاف کپڑوں کا نعم‌البدل نہیں ہیں۔‏

متوازن نقطۂ‌نظر قائم کرنا

جب جسمانی صفائی‌ستھرائی کی بات آتی ہے تو لوگ انتہاپسند بن سکتے ہیں۔‏ صفائی‌ستھرائی کی بابت جنونی ہونا ہماری زندگی سے خوشی کو خارج کر دینے کے علاوہ ہمارا بہت سا قیمتی وقت لے سکتا ہے۔‏ دوسری طرف،‏ اگر گھروں کو گندا اور بےقرینہ رکھا جائے تو انکی مرمت مہنگی پڑ سکتی ہے۔‏ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان عملی اور ہوشمند طریقہ یہ ہے کہ اپنا گھر صاف‌ستھرا رکھیں۔‏

اسے سادہ رکھیں۔‏ بکھرے ہوئے گھروں یا کمروں کو صاف کرنا مشکل ہوتا ہے اور ایسی حالت میں دھول مٹی صاف کرنا بھی آسان نہیں ہوتا ۔‏ سادہ گھروں کو صاف کرنے میں وقت کم لگتا ہے۔‏ بائبل میں سادہ طرزِزندگی کی بھرپور سفارش کی گئی ہے:‏ ”‏اگر ہمارے پاس کھانے پہننے کو ہے تو اسی پر قناعت کریں۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۸‏۔‏

گھر کو قرینے سے رکھیں۔‏ گھر کو صاف رکھنے کی ذمہ‌داری گھر کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔‏ گھروں میں گندگی عموماً کمروں سے شروع ہوتی ہے۔‏ قرینے سے مُراد ہر چیز کو اس کے مناسب مقام پر رکھنا ہے۔‏ مثال کے طور پر گندے کپڑوں کی جگہ بیڈروم کا فرش نہیں ہونا چاہئے۔‏ اس سے زیادہ توجہ‌طلب بات یہ ہے کہ کھلونے اور اوزار یونہی رکھ چھوڑنا خطرناک ہو سکتا ہے۔‏ گھروں میں ہونے والے بیشتر حادثات کی وجہ چیزوں کو بکھرا ہوا چھوڑ دینے کی عادات ہیں۔‏

بِلاشُبہ،‏ صفائی‌ستھرائی اور مسیحی طرزِزندگی کا چولی‌دامن کا ساتھ ہے۔‏ خدائی طرزِزندگی کو یسعیاہ ”‏مُقدس راہ“‏ کہتا ہے۔‏ اس کے علاوہ،‏ وہ سنجیدہ خیال کا اضافہ کرتا ہے کہ اُس سے ”‏کوئی ناپاک گذر نہ کرے گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۵:‏۸‏)‏ جی‌ہاں،‏ اس وقت صفائی‌ستھرائی کی اچھی عادات پیدا کرنا خدا کے وعدے پر ہمارے ایمان کی پُرزور شہادت دیتا ہے کہ وہ جلد ہی ایک صاف‌ستھرا فردوس قائم کرے گا۔‏ اس کے بعد،‏ اس خوبصورت کُرۂارض کے تمام حصوں میں سب لوگ صفائی‌ستھرائی کے یہوواہ خدا کے کامل معیاروں سے پوری طرح مطابقت پیدا کرنے سے اُس کیلئے جلال کا باعث بنیں گے۔‏—‏مکاشفہ ۷:‏۹‏۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

ایک گھر میں رہنے والے ہر شخص کی ذمہ‌داری ہے کہ اُسے صاف رکھے

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

زمین ازخود صفائی کا ایک شاندار نمونہ ہے