مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا آپ بھی خدا کے پیارے ہیں؟‏

کیا آپ بھی خدا کے پیارے ہیں؟‏

کیا آپ بھی خدا کے پیارے ہیں؟‏

‏”‏جسکے پاس میرے حکم ہیں اور وہ اُن پر عمل کرتا ہے وہی مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ میرے باپ کا پیارا ہوگا۔‏“‏ —‏یوحنا ۱۴:‏۲۱‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ یہوواہ نے نوعِ‌انسان کے لئے اپنی محبت کیسے ظاہر کی؟‏ (‏ب)‏ یسوع نے نیسان ۱۴،‏ ۳۳ س.‏ع.‏ کی رات کیا رائج کِیا؟‏

یہوواہ اپنی انسانی مخلوق سے محبت رکھتا ہے۔‏ درحقیقت وہ انسانی دُنیا سے ایسی محبت رکھتا ہے کہ ”‏اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔‏“‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۶‏)‏ مسیح کی موت کی یادگار منانے کے وقت کے نزدیک آنے کیساتھ ساتھ سچے مسیحیوں کو پہلے سے زیادہ آگاہ ہونا چاہئے کہ یہوواہ نے ”‏ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفارہ کیلئے اپنے بیٹے کو بھیجا۔‏“‏—‏۱-‏یوحنا ۴:‏۱۰‏۔‏

۲ نیسان ۱۴،‏ ۳۳ س.‏ع.‏ کی رات یسوع اور اس کے ۱۲ رسول یروشلیم کے بالاخانہ میں فسح منانے یعنی مصر سے اسرائیلیوں کی رہائی کی یاد تازہ کرنے کیلئے جمع ہوئے۔‏ (‏متی ۲۶:‏۱۷-‏۲۰‏)‏ اس یہودی تہوار کو منانے کے بعد،‏ یسوع نے یہوداہ اسکریوتی کو نکال دیا اور یادگاری کھانا رائج کِیا جو مسیح کی موت کی مسیحی یادگار بن گیا۔‏ * یسوع نے بےخمیری روٹی اور سُرخ مے کو اپنے جسمانی بدن اور خون کی علامات کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس کھانے کو باقی ۱۱ رسولوں کے ساتھ ملکر کھایا۔‏ اس تقریب کی تفصیل ہم‌نظر انجیل‌نویسوں متی،‏ مرقس،‏ لوقا نیز پولس رسول نے دی ہے جس نے اسے ’‏عشائےخداوندی‘‏ کا نام دیا۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۲۰؛‏ متی ۲۶:‏۲۶-‏۲۸؛‏ مرقس ۱۴:‏۲۲-‏۲۵؛‏ لوقا ۲۲:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

۳.‏ کن اہم طریقوں سے بالاخانہ میں اپنے شاگردوں کے ساتھ یسوع کی آخری گھڑیوں کی سرگزشت کا یوحنا رسول کا بیان دوسروں سے فرق ہے؟‏

۳ دلچسپی کی بات ہے کہ یوحنا رسول روٹی اور مے کے پیش کئے جانے کا کوئی ذکر نہیں کرتا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جب اس نے اپنا انجیلی بیان لکھا (‏تقریباً ۹۸ س.‏ع.‏)‏ اُس وقت تک اس کا طریقۂ‌کار ابتدائی مسیحیوں کے درمیان اچھی طرح قائم ہو چکا تھا۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۲۳-‏۲۶‏)‏ تاہم،‏ صرف یوحنا ہی نے ہمیں زیرِالہام یسوع کے اپنی موت کی یادگار قائم کرنے سے پہلے اور بعد کے واقعات کے سلسلے میں اہم معلومات فراہم کی ہیں۔‏ یہ ہیجان‌خیز تفصیلات یوحنا کی انجیل کے کم‌ازکم پانچ ابواب پر مشتمل ہیں۔‏ یہ کسی شک کی گنجائش نہیں چھوڑتے کہ خدا کس قسم کے اشخاص کو پسند کرتا ہے۔‏ آئیے یوحنا کے ۱۳ تا ۱۷ ابواب کا جائزہ لیں۔‏

یسوع کی مثالی محبت سے سیکھیں

۴.‏ (‏ا)‏ یادگار کو قائم کرتے وقت اپنے شاگردوں کیساتھ یسوع کی مجلس کے اہم موضوع پر یوحنا نے کس طرح زور دیا؟‏ (‏ب)‏ یسوع کیلئے یہوواہ کی محبت رکھنے کی اہم وجہ کیا ہے؟‏

۴ ان ابواب میں نمایاں موضوع محبت ہے جن میں یسوع کی اپنے شاگردوں کے لئے الوداعی مشورت پائی جاتی ہے۔‏ درحقیقت مختلف اشکال میں لفظ ”‏محبت“‏ ۳۱ مرتبہ آتا ہے۔‏ صرف اِن ہی ابواب میں یسوع کی اپنے باپ یہوواہ اور اپنے شاگردوں کے لئے گہری محبت کو آشکارا کِیا گیا ہے۔‏ یہوواہ کے لئے یسوع کی محبت اس کی زندگی کے تمام انجیلی بیانات سے ظاہر ہے لیکن صرف یوحنا یسوع کے اس واضح بیان کو درج کرتا ہے:‏ ”‏مَیں باپ سے محبت رکھتا ہوں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۳۱‏)‏ یسوع نے یہ بھی بیان کِیا کہ یہوواہ اُس سے کیوں محبت رکھتا ہے۔‏ اس نے کہا:‏ ”‏جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی مَیں نے تم سے محبت رکھی۔‏ تم میری محبت میں قائم رہو۔‏ اگر تم میرے حکموں پر عمل کرو گے تو میری محبت میں قائم رہو گے جیسے مَیں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کِیا ہے اور اُس کی محبت میں قائم ہوں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ اپنے بیٹے سے اس کی قطعی فرمانبرداری کی وجہ سے محبت رکھتا ہے۔‏ یسوع مسیح کے تمام پیروکاروں کے لئے یہ کیا ہی عمدہ سبق ہے!‏

۵.‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کیلئے اپنی محبت کا مظاہرہ کس طرح کِیا؟‏

۵ یوحنا نے رسولوں کے ساتھ یسوع کے آخری اجلاس کی بابت بیان کرتے ہوئے شروع ہی میں اپنے شاگردوں کے لئے یسوع کی گہری محبت پر زور دیا تھا۔‏ یوحنا نے بیان کِیا:‏ ”‏عیدِفسح سے پہلے جب یسوؔع نے جان لیا کہ میرا وہ وقت آ پہنچا کہ دُنیا سے رخصت ہو کر باپ کے پاس جاؤں تو اپنے اُن لوگوں سے جو دُنیا میں تھے جیسی محبت رکھتا تھا آخر تک محبت رکھتا رہا۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۱‏)‏ اس یادگار شام پر،‏ اس نے انہیں دوسروں کی محبت سے خدمت کرنے کا ناقابلِ‌فراموش درس دیا۔‏ اس نے ان کے پاؤں دھوئے۔‏ یہ ایسا کام تھا جسے یسوع اور اس کے بھائیوں کے لئے انجام دینے کے لئے ہر ایک کو تیار ہونا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے گریز کِیا۔‏ یسوع نے اس ادنیٰ کام کو انجام دیا اور اس کے بعد اپنے شاگردوں کو کہا:‏ ”‏جب مجھ خداوند اور اُستاد نے تمہارے پاؤں دھوئے تو تم پر بھی فرض ہے کہ ایک دوسرے کے پاؤں دھویا کرو۔‏ کیونکہ مَیں نے تم کو ایک نمونہ دکھایا ہے کہ جیسا مَیں نے تمہارے ساتھ کِیا ہے تم بھی کِیا کرو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۱۴،‏ ۱۵‏)‏ سچے مسیحیوں کو خوشی اور رضامندی سے اپنے بھائیوں کی خدمت کرنی چاہئے۔‏—‏متی ۲۰:‏۲۶،‏ ۲۷‏،‏ فٹ‌نوٹ،‏ این‌ڈبلیو‏؛‏ یوحنا ۱۳:‏۱۷‏۔‏

نئے حکم پر چلنا

۶،‏ ۷.‏ (‏ا)‏ یادگار قائم کرنے کے متعلق یوحنا کونسی اہم تفصیل فراہم کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو کونسا نیا حکم دیا اور اس میں نئی بات کیا تھی؟‏

۶ نیسان ۱۴ کی رات جوکچھ بالاخانہ میں واقع ہوا اس سلسلے میں صرف یوحنا کا بیان خاص طور پر یہوداہ اسکریوتی کے نکال دئے جانے کا ذکر کرتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۲۱-‏۳۰‏)‏ انجیلی بیانات کو ہم‌آہنگ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس دغاباز کے جانے کے بعد ہی یسوع اپنی موت کی یادگار رائج کرتا ہے۔‏ اس کے بعد وہ دیر تک اپنے رسولوں کیساتھ باتیں کرتا،‏ انہیں الوداعی مشورت اور ہدایات دیتا ہے۔‏ جب ہم یادگار پر حاضر ہونے کے لئے خود کو تیار کرتے ہیں تو جو کچھ یسوع نے اس موقع پر فرمایا ہمیں اس میں گہری دلچسپی لینی چاہئے خصوصاً اگر ہم خدا کے پیارے بننا چاہتے ہیں۔‏

۷ یسوع نے اپنی موت کی یادگار قائم کرنے کے بعد اپنے شاگردوں کو جو پہلی ہدایت دی وہ کسی حد تک نئی تھی۔‏ اس نے کہا:‏ ”‏مَیں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو کہ جیسے مَیں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔‏ اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۳:‏۳۴،‏ ۳۵‏)‏ اس حکم میں نئی بات کیا تھی؟‏ اس شام تھوڑی دیر بعد،‏ یسوع نے یہ بیان کرتے ہوئے معاملات کی وضاحت کی:‏ ”‏میرا حکم یہ ہے کہ جیسے مَیں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔‏ اس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دیدے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۲،‏ ۱۳‏)‏ موسوی شریعت نے اسرائیلیوں کو حکم دیا کہ ”‏اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت کرنا۔‏“‏ (‏احبار ۱۹:‏۱۸‏)‏ لیکن یسوع کا حکم اس سے مزید بیان کرتا ہے۔‏ مسیحیوں کو یسوع کی طرح ایک دوسرے سے محبت رکھنی تھی انہیں اپنے بھائیوں کے لئے اپنی جانیں نثار کرنے کے لئے تیار رہنا تھا۔‏

۸.‏ (‏ا)‏ خودایثارانہ محبت میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ (‏ب)‏ آجکل یہوواہ کے گواہ خودایثارانہ محبت کیسے ظاہر کرتے ہیں؟‏

۸ یادگار کا وقت اپنا جائزہ لینے،‏ انفرادی اور کلیسیائی طور پر یہ دیکھنے کا اچھا وقت ہے کہ آیا ہم حقیقی مسیحیت کا نمایاں نشان—‏مسیح جیسی محبت—‏رکھتے ہیں۔‏ ایسی خودایثارانہ محبت کا مطلب ایک مسیحی کیلئے اپنے بھائیوں کو دغا دینے کی بجائے اپنی جان کا خطرہ مول لینا ہے۔‏ عام طور پر اس میں اپنے بھائیوں اور دیگر کی خدمت کرنے کیلئے اپنے ذاتی مفادات قربان کرنے کیلئے تیار ہونا شامل ہے۔‏ پولس رسول اس سلسلے میں ایک عمدہ مثال تھا۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۱۵؛‏ فلپیوں ۲:‏۱۷‏)‏ یہوواہ کے گواہ اپنی خودایثارانہ محبت کی وجہ سے ساری دُنیا میں مشہور ہیں وہ اپنے بھائیوں اور اپنے پڑوسیوں کی مدد کرتے اور ساتھی انسانوں کو بائبل سچائی کا علم دینے کے لئے خود کو دے ڈالتے ہیں۔‏ *‏—‏گلتیوں ۶:‏۱۰‏۔‏

عزیزالقدر رشتہ

۹.‏ خدا اور اس کے بیٹے کیساتھ اپنے بیش‌قیمت رشتے کو برقرار رکھنے کیلئے ہم کیا کرنے کیلئے تیار ہیں؟‏

۹ ہمارے لئے یہوواہ اور اس کے بیٹے مسیح یسوع کی محبت سے زیادہ کوئی چیز بیش‌قیمت نہیں ہو سکتی۔‏ تاہم،‏ اس محبت کو حاصل کرنے اور محسوس کرنے کیلئے ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اپنے شاگردوں کیساتھ آخری رات کو یسوع نے کہا:‏ ”‏جسکے پاس میرے حکم ہیں اور وہ اُن پر عمل کرتا ہے وہی مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ میرے باپ کا پیارا ہوگا اور مَیں اُس سے محبت رکھونگا اور اپنے آپ کو اُس پر ظاہر کرونگا۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۲۱‏)‏ ہم خدا اور اس کے بیٹے کیساتھ اپنے رشتے کو قیمتی خیال کرنے کی وجہ سے خوشی سے ان کے احکام بجا لاتے ہیں۔‏ اس میں خودایثارانہ محبت دکھانے کا نیا حکم اور وہ فرمان بھی شامل ہے جو مسیح نے اپنے جی اُٹھنے کے بعد دیا کہ جو خوشخبری کو قبول کرتے ہیں انہیں ”‏شاگرد [‏بنانے]‏“‏ کی کوشش کرتے ہوئے ’‏لوگوں میں منادی کریں اور جامع گواہی دیں۔‏‘‏—‏اعمال ۱۰:‏۴۲؛‏ متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

۱۰.‏ ممسوح اشخاص اور ’‏دوسری بھیڑیں‘‏ کس بیش‌قیمت رشتے سے مستفید ہوتی ہیں؟‏

۱۰ اس رات،‏ وفادار رسول یہوداہ (‏تدی)‏ کے سوال پر یسوع نے کہا:‏ ”‏اگر کوئی مجھ سے محبت رکھے تو وہ میرے کلام پر عمل کریگا اور میرا باپ اُس سے محبت رکھے گا اور ہم اس کے پاس آئیں گے اور اس کے ساتھ سکونت کریں گے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ مسیح کے ساتھ آسمانی حکمرانی کے لئے بلائے جانے والے ممسوح مسیحی زمین پر رہتے ہوئے بھی یہوواہ اور اس کے بیٹے کے ساتھ خاص طور پر قریبی رشتہ رکھتے ہیں۔‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱۵؛‏ ۱۶:‏۲۷؛‏ ۱۷:‏۲۲؛‏ عبرانیوں ۳:‏۱؛‏ ۱-‏یوحنا ۳:‏۲،‏ ۲۴‏)‏ لیکن زمین پر زندہ رہنے کی اُمید رکھنے والے ان کے ساتھی یعنی ’‏دوسری بھیڑیں‘‏ بھی اپنے ”‏ایک ہی چرواہے“‏ یسوع مسیح اور اپنے خدا،‏ یہوواہ کے ساتھ بیش‌قیمت رشتہ رکھ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ فرمانبردار ثابت ہوں۔‏—‏یوحنا ۱۰:‏۱۶؛‏ زبور ۱۵:‏۱-‏۵؛‏ ۲۵:‏۱۴‏۔‏

‏”‏تم دُنیا کے نہیں“‏

۱۱.‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو کونسی سنجیدہ آگاہی دی؟‏

۱۱ یسوع نے اپنی موت سے پہلے اپنے وفادار رسولوں کیساتھ اپنے آخری اجلاس کے دوران ایک سنجیدہ آگاہی دی:‏ خدا جس شخص سے محبت کرتا ہے دُنیا اس سے عداوت رکھے گی۔‏ اس نے بیان کِیا:‏ ”‏اگر دُنیا تم سے عداوت رکھتی ہے تو تم جانتے ہو کہ اُس نے تم سے پہلے مجھ سے بھی عداوت رکھی ہے۔‏ اگر تم دُنیا کے ہوتے تو دُنیا اپنوں کو عزیز رکھتی لیکن چونکہ تم دُنیا کے نہیں بلکہ مَیں نے تمکو دُنیا میں سے چن لیا ہے اس واسطے دُنیا تم سے عداوت رکھتی ہے۔‏ جو بات مَیں نے تم سے کہی تھی اُسے یاد رکھو کہ نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا۔‏ اگر اُنہوں نے مجھے ستایا تو تمہیں بھی ستائینگے۔‏ اگر اُنہوں نے میری بات پر عمل کِیا تو تمہاری بات پر بھی عمل کرینگے۔‏“‏—‏یوحنا ۱۵:‏۱۸-‏۲۰‏۔‏

۱۲.‏ (‏ا)‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو کیوں آگاہ کِیا کہ دُنیا ان سے عداوت رکھے گی؟‏ (‏ب)‏ جب یادگار قریب آتی ہے تو سب کیلئے کس بات پر غور کرنا اچھا ہوگا؟‏

۱۲ یسوع نے یہ آگاہی اس لئے دی تاکہ ۱۱ رسول اور ان کے بعد تمام سچے مسیحی دُنیا کی عداوت کی وجہ سے بےحوصلہ نہ ہو جائیں۔‏ اس نے مزید کہا:‏ ”‏مَیں نے یہ باتیں تم سے اسلئے کہیں کہ تم ٹھوکر نہ کھاؤ۔‏ لوگ تمکو عبادتخانوں سے خارج کر دینگے بلکہ وہ وقت آتا ہے کہ جو کوئی تمکو قتل کریگا وہ گمان کرے گا کہ مَیں خدا کی خدمت کرتا ہوں۔‏ اور وہ اس لئے یہ کرینگے کہ اُنہوں نے نہ باپ کو جانا نہ مجھے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۱-‏۳‏)‏ ایک بائبل لغت بیان کرتی ہے کہ جس فعل کا ترجمہ ”‏ٹھوکر“‏ کِیا گیا ہے اسکا مطلب ”‏جس شخص پر اسے بھروسا کرنا اور اس کی تابعداری کرنی چاہئے اس پر بھروسا ترک کرکے اسے چھوڑ دینا“‏ ہے۔‏ جب یادگار منانے کا وقت قریب آتا ہے تو سب کیلئے یہ اچھا ہوگا کہ وہ ماضی اور حال کے وفادار اشخاص کی زندگی کی روش پر غور کریں اور آزمائش کے تحت انکی ثابت‌قدمی کے نمونے کی نقل کریں۔‏ مخالفت اور اذیت کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ آپکو یہوواہ اور یسوع کو ترک کرنے پر مجبور کر دے بلکہ ان پر بھروسا رکھنے اور ان کی تابعداری کرنے کا عزم کریں۔‏

۱۳.‏ یسوع نے اپنے باپ سے دُعا میں اپنے پیروکاروں کے حق میں کیا درخواست کی؟‏

۱۳ یروشلیم میں بالاخانہ چھوڑنے سے پہلے اپنی دُعا کے اختتام پر یسوع نے اپنے باپ سے کہا:‏ ”‏مَیں نے تیرا کلام اُنہیں پہنچا دیا اور دُنیا نے اُن سے عداوت رکھی اسلئےکہ جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏ مَیں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تُو انہیں دُنیا سے اُٹھا لے بلکہ یہ کہ اُس شریر سے انکی حفاظت کر۔‏ جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۴-‏۱۶‏)‏ ہم اس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ جن سے محبت رکھتا ہے ان کی حفاظت کرتا ہے اور جب وہ دُنیا سے علیٰحدہ رہتے ہیں تو انہیں طاقت بھی بخشتا ہے۔‏—‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۹-‏۳۱‏۔‏

باپ اور بیٹے کی محبت میں قائم رہیں

۱۴،‏ ۱۵.‏ (‏ا)‏ یسوع نے ’‏خراب انگور کے درخت‘‏ کے برعکس خود کو کس سے تشبِیہ دی؟‏ (‏ب)‏ ’‏انگور کے حقیقی درخت‘‏ کی ”‏ڈالیاں“‏ کون ہیں؟‏

۱۴ اپنے وفادار شاگردوں کیساتھ نیسان ۱۴ کی رات پُرتپاک گفتگو میں یسوع نے بےوفا اسرائیل کے ’‏خراب انگور کے درخت‘‏ سے موازنے میں اپنی ذات کو ”‏انگور [‏کے]‏ حقیقی درخت“‏ سے تشبِیہ دی۔‏ اس نے کہا:‏ ”‏انگور کا حقیقی درخت مَیں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۱‏)‏ صدیوں پہلے،‏ یرمیاہ نبی نے برگشتہ ہونے والے لوگوں کی بابت یہوواہ کے ان الفاظ کو قلمبند کِیا:‏ ”‏مَیں نے تو تجھے کامل تاک لگایا اور عمدہ بیج بویا تھا پھر تُو کیونکر میرے لئے بےحقیقت جنگلی انگور کا درخت ہو گئی؟‏“‏ (‏یرمیاہ ۲:‏۲۱‏)‏ ہوسیع نبی نے لکھا:‏ ‏”‏اؔسرائیل لہلہاتی [‏”‏خراب،‏“‏ این‌ڈبلیو‏]‏ تاک ہے جس میں پھل لگا .‏ .‏ .‏ اُن کا دل دغاباز ہے۔‏“‏—‏ہوسیع ۱۰:‏۱،‏ ۲‏۔‏

۱۵ سچی پرستش کے پھل پیدا کرنے کی بجائے،‏ اسرائیل برگشتگی میں پڑ گیا اور اپنے تیئں پھل لانے لگا۔‏ اپنے وفادار شاگردوں کیساتھ اپنے آخری اجلاس سے تین دن پہلے یسوع نے ریاکار یہودی راہنماؤں سے کہا:‏ ”‏مَیں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائیگی اور اُس قوم کو جو اُسکے پھل لائے دیدی جائیگی۔‏“‏ (‏متی ۲۱:‏۴۳‏)‏ یہ نئی قوم ۰۰۰،‏۴۴،‏۱ ممسوح اشخاص پر مشتمل ”‏خدا [‏کا]‏ اؔسرائیل“‏ ہے اور انہیں ’‏انگور کے حقیقی درخت‘‏ مسیح یسوع کی ’‏ڈالیوں‘‏ سے تشبِیہ دی گئی ہے۔‏—‏گلتیوں ۶:‏۱۶؛‏ یوحنا ۱۵:‏۵؛‏ مکاشفہ ۱۴:‏۱،‏ ۳‏۔‏

۱۶.‏ یسوع نے ۱۱ وفادار رسولوں کو کیا کرنے کی تاکید کی اور اس آخری وقت میں وفادار بقیے کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟‏

۱۶ یسوع نے اپنے ساتھ بالاخانہ میں موجود ۱۱ رسولوں سے کہا:‏ ”‏جو ڈالی مجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اُسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اور جو پھل لاتی ہے اُسے چھانٹتا ہے تاکہ زیادہ پھل لائے۔‏ تم مجھ میں قائم رہو اور مَیں تم میں۔‏ جس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لا سکتی اُسی طرح تم بھی اگر مجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لا سکتے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۵:‏۲،‏ ۴‏)‏ یہوواہ کے لوگوں کی جدید تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ ممسوح مسیحیوں کا وفادار بقیہ اپنے سر مسیح یسوع کے ساتھ متحد رہا ہے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۲۳‏)‏ انہوں نے صفائی اور چھانٹی کو قبول کِیا ہے۔‏ (‏ملاکی ۳:‏۲،‏ ۳‏)‏ وہ ۱۹۱۹ سے لیکر سب سے پہلے دیگر ممسوح مسیحیوں کو اور ۱۹۳۵ سے ہمہ‌وقت بڑھنے والی ساتھی ”‏بڑی بِھیڑ“‏ کو جمع کرنے سے کثرت سے بادشاہتی پھل لائے ہیں۔‏—‏مکاشفہ ۷:‏۹؛‏ یسعیاہ ۶۰:‏۴،‏ ۸-‏۱۱‏۔‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ (‏ا)‏ یسوع کے کونسے الفاظ یہوواہ کی محبت میں قائم رہنے کے لئے ممسوح اشخاص اور دوسری بھیڑوں کی مدد کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یادگار کی تقریب پر حاضر ہونا ہماری مدد کیسے کریگا؟‏

۱۷ تمام ممسوح مسیحیوں اور انکے ساتھیوں پر یسوع کے اگلے الفاظ کا اطلاق ہوتا ہے:‏ ”‏میرے باپ کا جلال اسی سے ہوتا ہے کہ تم بہت سا پھل لاؤ۔‏ جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہرو گے۔‏ جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی مَیں نے تم سے محبت رکھی۔‏ تم میری محبت میں قائم رہو۔‏ اگر تم میرے حکموں پر عمل کرو گے تو میری محبت میں قائم رہو گے جیسے مَیں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کِیا ہے اور اُسکی محبت میں قائم ہوں۔‏“‏—‏یوحنا ۱۵:‏۸-‏۱۰‏۔‏

۱۸ ہم سب خدا کی محبت میں قائم رہنا چاہتے ہیں اور یہ ہمیں پھلدار مسیحی بننے کی تحریک دیتا ہے۔‏ ہم ”‏بادشاہی کی .‏ .‏ .‏ خوشخبری“‏ کی منادی کرنے کے ہر موقع سے فائدہ اُٹھا کر ایسا کرتے ہیں۔‏ (‏متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ ہم اپنی ذاتی زندگیوں میں ”‏روح [‏کے]‏ پھل“‏ ظاہر کرنے کی پوری کوشش بھی کرتے ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ مسیح کی موت کی یادگار پر حاضر ہونا ہمیں ایسا کرنے کے اپنے عزم میں تقویت دے گا کیونکہ ہمیں خدا اور مسیح کی بڑی محبت کی یاد دلائی جائے گی۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۵:‏۱۴،‏ ۱۵‏۔‏

۱۹.‏ اگلے مضمون میں کس مدد کے متعلق مزید بات‌چیت کی جائیگی؟‏

۱۹ یادگار رائج کرنے کے بعد،‏ یسوع نے وعدہ کِیا کہ اس کا باپ اس کے وفادار پیروکاروں کیلئے ایک ”‏مددگار یعنی رُوح‌اُلقدس“‏ بھیجیگا۔‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۲۶‏)‏ یہوواہ کی محبت میں قائم رہنے کے لئے یہ روح ممسوح اشخاص اور دوسری بھیڑوں کی مدد کیسے کرتی ہے اگلے مضمون میں اس کا جائزہ لیا جائے گا۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 2 بائبل کے حساب سے ۲۰۰۲ کیلئے نیسان ۱۴ جمعرات ۲۸ مارچ بعدازغروبِ‌آفتاب شروع ہوتا ہے۔‏ اس شام یہوواہ کے گواہ خداوند یسوع مسیح کی موت کی یادگار منانے کیلئے پوری دُنیا میں اکٹھے ہونگے۔‏

^ پیراگراف 8 یہوواہ کے گواہوں کی شائع‌کردہ کتاب جیہوواز وِٹنسز—‏پروکلیمرز آف گاڈز کنگڈم کے ۱۹ تا ۳۲ ابواب کا مطالعہ کریں۔‏

اعادے کے سوالات

‏• یسوع نے اپنے شاگردوں کو مشفقانہ خدمت میں کونسا عملی درس دیا؟‏

‏• کس لحاظ سے یادگار کا موقع ذاتی جائزہ لینے کا وقت ہے؟‏

‏• ہمیں دُنیا کی عداوت اور ستاہٹ کی بابت یسوع کی آگاہی سے کیوں ٹھوکر نہیں کھانی چاہئے؟‏

‏• ’‏انگور کا حقیقی درخت‘‏ کون ہے؟‏ ”‏ڈالیاں“‏ کون ہیں اور ان سے کس بات کی توقع کی جاتی ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

یسوع نے اپنے رسولوں کو مشفقانہ خدمت کا ایک ناقابلِ‌فراموش درس دیا

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویریں]‏

مسیح کے شاگرد خودایثارانہ محبت دکھانے کیلئے اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں