اُنہوں نے جسم کے کانٹوں کا مقابلہ کِیا
اُنہوں نے جسم کے کانٹوں کا مقابلہ کِیا
”میرے جسم میں کانٹا چبھویا گیا یعنی شیطان کا قاصد تاکہ میرے مکے مارے۔“ —۲-کرنتھیوں ۱۲:۷۔
۱. آجکل لوگوں کو کن مسائل کا سامنا ہے؟
کیا آپ مسلسل کسی آزمائش کا سامنا کر رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ تنہا نہیں ہیں۔ ان ’بُرے دنوں‘ میں وفادار مسیحی سخت اذیت، خاندانی مسائل، بیماری، مالی تفکرات، جذباتی تکالیف، عزیزوں کی موت اور دیگر چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) بعض ممالک میں بیشتر لوگوں کی زندگیوں کو خوراک کی قلّت اور جنگوں سے خطرہ لاحق ہے۔
۲، ۳. جن کانٹےنما مسائل کا ہم سامنا کرتے ہیں وہ کن منفی رُجحانات کا سبب بن سکتے ہیں اور یہ کیسے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے؟
۲ کوئی شخص خود کو مکمل طور پر ایسے مسائل کے گھیرے میں محسوس کر سکتا ہے، بالخصوص جب بہت سی مشکلات ایک ساتھ آن پڑتی ہیں۔ غور کریں کہ امثال ۲۴:۱۰ کیا بیان کرتی ہے: ”اگر تُو مصیبت کے دن بیدل ہو جائے تو تیری طاقت بہت کم ہے۔“ جیہاں، آزمائشوں کے تحت بیدلی ہم سے کسی حد تک ضروری طاقت چھین کر آخر تک برداشت کرنے کے ہمارے عزم کو کمزور کر سکتی ہے۔ مگر کیسے؟
۳ حوصلہشکنی ہمیں اپنے مقصد میں ناکام بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، ہمارے لئے اپنی تکالیف کی بابت مبالغہآرائی کرنا بڑا آسان ہے اور یوں ہم خودترسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بعض تو خدا سے بھی فریاد کر سکتے ہیں کہ ”اَے خدا آپ میرے ہی ساتھ یہ کیوں ہونے دے رہے ہیں؟“ اگر ایسا منفی رُجحان کسی شخص کے دل میں جڑ پکڑ جاتا ہے تو یہ اس کی خوشی اور اعتماد دونوں کو کھوکھلا کر سکتا ہے۔ خدا کا ایک خادم اسقدر بےحوصلہ ہو سکتا ہے کہ وہ ”ایمان کی اچھی کشتی“ لڑنا چھوڑ سکتا ہے۔—۱-تیمتھیس ۶:۱۲۔
۴، ۵. بعض معاملات میں، شیطان ہمارے مسائل میں کیسے شامل ہوتا ہے، لیکن ہم کیا اعتماد رکھ سکتے ہیں؟
۴ یہوواہ خدا یقیناً ہماری آزمائشوں کا سبب نہیں ہے۔ (یعقوب ۱:۱۳) بعض آزمائشیں ہم پر محض اس وجہ سے آتی ہیں کیونکہ ہم اُس کے وفادار رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ درحقیقت، یہوواہ کی خدمت کرنے والے تمام لوگ اس کے سب سے بڑے دُشمن شیطان ابلیس کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس ’جہان کا خدا‘ شیطان اپنے تھوڑے ہی سے وقت میں، یہوواہ سے محبت کرنے والے ہر شخص کو اس کی مرضی بجا لانے سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۴) شیطان پوری دُنیا میں ہماری عالمگیر برادری کو زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچانا چاہتا ہے۔ (۱-پطرس ۵:۹) سچ ہے کہ شیطان براہِراست تو ہمارے لئے مسائل پیدا نہیں کرتا لیکن جن مسائل کا ہمیں سامنا ہوتا ہے وہ ان سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر ہمیں اَور زیادہ کمزور کر سکتا ہے۔
۵ شیطان اور اس کے ہتھیار خواہ کتنے ہی خوفناک کیوں نہ ہوں ہم اسے شکست دے سکتے ہیں! ہم اس کا یقین کیسے کر سکتے ہیں؟ اِسلئے کہ یہوواہ خدا ہماری خاطر لڑائی کرتا ہے۔ اس نے اس بات کا یقین کر لیا ہے کہ اس کے خادم شیطان کے حیلوں سے ناواقف نہ رہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۲:۱۱) درحقیقت، جن آزمائشوں سے سچے مسیحی دوچار ہیں اُنکی بابت خدا کا کلام ہمیں بہت کچھ بتاتا ہے۔ پولس رسول کے معاملے میں بائبل ”جسم میں کانٹے“ کا جزوِجملہ استعمال کرتی ہے۔ کیوں؟ آئیے دیکھیں کہ خدا کا کلام اس جزوِجملہ کو کس مفہوم میں بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ آزمائشوں پر غالب آنے میں یہوواہ کی مدد کی ضرورت میں ہم تنہا نہیں ہیں۔
آزمائشیں کانٹوں کی مانند کیوں؟
۶. ”جسم میں کانٹے“ سے پولس کا کیا مطلب تھا اور یہ کانٹا کیا ہو سکتا تھا؟
۶ پولس نے سخت آزمائشوں میں ہونے کی وجہ سے زیرِالہام لکھا: ”میرے جسم میں کانٹا چبھویا گیا یعنی شیطان کا قاصد تاکہ میرے مکے مارے اور مَیں پھول نہ جاؤں۔“ (۲-کرنتھیوں ۱۲:۷) پولس کے جسم میں یہ کانٹا کیا تھا؟ جِلد سے نیچے تک پہنچ جانے والے کانٹے کی درد یقیناً شدید ہوتی ہے۔ پس استعارے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولس کو کسی چیز سے درد پہنچا تھا—یہ جسمانی، جذباتی یا دونوں طرح کا ہو سکتا تھا۔ شاید پولس آنکھ کی تکلیف یا کسی اَور کمزوری میں مبتلا تھا۔ یا کانٹے سے مُراد ایسے اشخاص ہو سکتے ہیں جنہوں نے ایک رسول کے طور پر پولس کی لیاقتوں کو چیلنج کِیا اور اس کی منادی اور تعلیمی کام پر اعتراض اُٹھایا تھا۔ (۲-کرنتھیوں ۱۰:۱۰-۱۲؛ ۱۱:۵، ۶، ۱۳) یہ خواہ کچھ بھی تھا یہ کانٹا پولس کے ساتھ رہا اور یہ آسانی سے نہیں نکلا تھا۔
۷، ۸. (ا) ”مکے مارے“ کی اصطلاح کیا ظاہر کرتی ہے؟ (ب) یہ بات کیوں اہم ہے کہ ہم اس وقت لگنے والے کسی بھی کانٹے کیساتھ مقابلہ کریں؟
۷ غور کریں کہ کانٹا پولس کو مکے مار رہا تھا۔ دلچسپی کی بات ہے کہ پولس نے یہاں جو یونانی فعل استعمال کِیا وہ ”بند مٹھی“ کا مفہوم پیش کرتا ہے۔ اس لفظ کو حقیقی طور پر، متی ۲۶:۶۷ میں اور علامتی مفہوم میں ۱-کرنتھیوں ۴:۱۱ میں استعمال کِیا گیا ہے۔ ان آیات میں یہ مکوں سے مارنے کا خیال پیش کرتا ہے۔ یہوواہ اور اس کے خادموں کیلئے شیطان کی شدید نفرت کے پیشِنظر ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ ابلیس خوش تھا کہ ایک کانٹا پولس کو مکے مار رہا ہے۔ آجکل بھی جب ہم جسم میں کانٹے کے ساتھ اسی طرح تکلیف اُٹھاتے ہیں تو شیطان کو ویسی ہی خوشی ہوتی ہے۔
۸ چنانچہ ہمیں پولس کی طرح یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ایسے کانٹوں کا کیسے مقابلہ کِیا جائے۔ ایسا کرنے کا مطلب ہماری زندگی ہے! یاد رکھیں کہ یہوواہ اپنی نئی دُنیا میں ہماری لمبی زندگی چاہتا ہے جہاں کانٹےنما مسائل ہمیں کبھی مغلوب نہیں کرینگے۔ اس حیرانکُن انعام کو جیتنے میں مدد کیلئے، خدا نے ہمیں اپنے پاک کلام بائبل میں بہتیری مثالیں دی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ اس کے وفادار خادموں نے اپنے جسم میں کانٹوں کیساتھ کامیابی سے مقابلہ کِیا تھا۔ یہ ہماری ہی طرح کے عام اور ناکامل لوگ تھے۔ ’گواہوں کے ایسے بڑے بادل‘ میں بعض پر غور کرنا ’اُس دوڑ میں صبر سے دوڑنے‘ میں ہماری مدد کر سکتا ہے ’جو ہمیں درپیش ہے۔‘ (عبرانیوں ۱۲:۱) انہوں نے جوکچھ برداشت کِیا اس پر غور کرنا ہمارے اعتماد کو تقویت دے سکتا ہے کہ ہم کسی بھی کانٹے کیساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں جو شیطان ہمارے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔
مفیبوست کو لگنے والے کانٹے
۹، ۱۰. (ا) مفیبوست نے جسم میں کانٹے کا تجربہ کیونکر کِیا تھا؟ (ب) بادشاہ داؤد نے مفیبوست پر کونسی مہربانی کی اور ہم داؤد کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
۹ ذرا داؤد کے دوست یونتن کے بیٹے مفیبوست کی بابت سوچیں۔ جب مفیبوست پانچ برس کا تھا تو خبر پہنچی کہ اس کا باپ یونتن اور اس کا دادا ساؤل مارے گئے ہیں۔ لڑکے کی دایہ گھبرا گئی۔ وہ ”اُسکو اُٹھا کر بھاگی اور اُس نے جو بھاگنے میں جلدی کی تو اَیسا ہوا کہ وہ گر پڑا اور لنگڑا ہوگیا۔“ (۲-سموئیل ۴:۴) یہ معذوری مفیبوست کیلئے ایک کانٹا رہی ہوگی جسے اس نے اپنی پرورش کے دوران برداشت کِیا۔
۱۰ کچھ سال بعد بادشاہ داؤد نے یونتن سے محبت کی بِنا پر مفیبوست پر مہربانی کی۔ داؤد نے ساؤل کی ساری جائداد ساؤل کے خادم ضیبا کو اس خطے کے نگران کے طور پر سونپ دی۔ داؤد نے مفیبوست سے کہا: ”تُو ہمیشہ میرے دسترخوان پر کھانا کھایا“ کریگا۔ (۲-سموئیل ۹:۶-۱۰) اس میں کوئی شک نہیں کہ داؤد کی شفقت مفیبوست کیلئے تسلیبخش رہی ہوگی اور اس نے اس کی معذوری کے درد کو کم کِیا ہوگا۔ کیا ہی عمدہ سبق! ہمیں بھی ان اشخاص کیلئے مہربانی ظاہر کرنی چاہئے جو جسم میں کانٹے کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔
۱۱. ضیبا نے مفیبوست کی بابت کیا دعویٰ کِیا لیکن ہم کیسے جانتے ہیں کہ اس کا دعویٰ ایک جھوٹ تھا؟ (فٹنوٹ دیکھیں۔)
۱۱ اس کے بعد، مفیبوست کو اپنے جسم میں ایک اَور کانٹے کے ساتھ مقابلہ کرنا تھا۔ اس کے خادم ضیبا نے داؤد بادشاہ کے سامنے اس پر تہمت لگائی جو اس وقت داؤد کے بیٹے ابیسلوم کی بغاوت کے باعث یروشلیم سے بھاگ رہا تھا۔ ضیبا نے کہا کہ مفیبوست دھوکے سے یروشلیم * داؤد نے ضیبا کی تہمت کا یقین کِیا اور مفیبوست کی ساری جائداد اس دروغگو کے حوالے کر دی!—۲-سموئیل ۱۶:۱-۴۔
میں اپنے لئے بادشاہت حاصل کرنے کی اُمید میں پیچھے رہ گیا۔۱۲. مفیبوست نے اپنی صورتحال کے لئے کیسا ردِعمل دکھایا اور وہ ہمارے لئے کیسے ایک عمدہ نمونہ ہے؟
۱۲ تاہم، جب مفیبوست کی بالآخر داؤد سے ملاقات ہوتی ہے تو اس نے بادشاہ کو بیان کِیا کہ حقیقت میں کیا واقع ہوا تھا۔ وہ داؤد کے ساتھ ملنے کی تیاری کر رہا تھا جب ضیبا اُسے دھوکا دیکر اس کی جگہ جانے کو تیار ہو گیا۔ کیا داؤد نے اس غلطی کو درست کِیا؟ کسی حد تک۔ اس نے دو آدمیوں کے درمیان املاک کو تقسیم کر دیا۔ یہاں پر بھی مفیبوست کے جسم میں ایک اَور امکانی کانٹا تھا۔ کیا وہ بُری طرح مایوس ہوا؟ کیا وہ داؤد کے فیصلے پر احتجاج کرکے چلّایا کہ یہ تو ناانصافی ہے؟ جینہیں، اس نے بادشاہ کی خواہشات کے لئے فروتنی سے رضامندی ظاہر کی۔ اس نے معاملے کے مثبت پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے خوشی کو برقرار رکھا کہ اسرائیل کا بادشاہ سلامتی کے ساتھ واپس آیا ہے۔ مفیبوست نے معذوری، تہمت اور مایوسی کو برداشت کرنے میں شاندار نمونہ قائم کِیا۔—۲-سموئیل ۱۹:۲۴-۳۰۔
نحمیاہ نے اپنی آزمائشوں کا مقابلہ کِیا
۱۳، ۱۴. جب نحمیاہ یروشلیم کی فصیلوں کی ازسرِنو تعمیر کرنے کیلئے واپس آیا تو اس نے کن کانٹوں کی جلن برداشت کی؟
۱۳ ذرا اُس علامتی کانٹے پر غور کریں جس کی جلن پانچویں صدی میں یروشلیم کے بےفصیل شہر کو لوٹتے وقت نحمیاہ نے برداشت کی۔ اس نے شہر کو مکمل طور پر غیرمحفوظ اور اسیری سے لوٹنے والے یہودیوں کو غیرمنظم اور حوصلہشکن پایا جو یہوواہ کی نظروں میں ناپاک تھے۔ یروشلیم کی فیصلوں کو ازسرِنو تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہونے کے باوجود نحمیاہ کو جلد پتہ چل گیا کہ اس کا کام آسپاس کے ملکوں کے حاکموں کیلئے نفرتانگیز ہے۔ ”ایک شخص بنیاِسرائیل کی بہبودی کا خواہان آیا ہے تو وہ نہایت رنجیدہ ہوئے۔“—نحمیاہ ۲:۱۰۔
۱۴ ان غیرملکی مخالفین نے نحمیاہ کے کام کو روکنے کے لئے حتیٰالمقدور کوشش کی۔ انکی دھمکیاں، دروغگوئیاں، تہمت، ڈرانادھمکانا—بےحوصلہ کرنے کے لئے بھیجے جانے والے جاسوسوں سمیت—اس کے جسم میں کانٹے کی طرح مسلسل لگے رہے ہونگے۔ کیا وہ ان دُشمنوں کی مکاریوں کا شکار ہوگیا؟ ہرگز نہیں! اس نے کمزور ہونے کی بجائے خدا پر اپنا پورا بھروسا رکھا۔ لہٰذا، جب یروشلیم کی فصیلیں آخرکار بن گئیں تو انہوں نے نحمیاہ کے لئے یہوواہ کی ابدی حمایت کی شہادت فراہم کی۔—نحمیاہ ۴:۱-۱۲؛ ۶:۱-۱۹۔
۱۵. یہودیوں کے درمیان کونسے مسائل نے نحمیاہ کو سخت تکلیف پہنچائی تھی؟
۱۵ نحمیاہ کو ایک حاکم کے طور پر خدا کے لوگوں کے درمیان بہت نحمیاہ ۵:۱-۱۰) بہتیرے یہودی سبت کی خلافورزی کرنے کے علاوہ، لاویوں اور ہیکل کی مالی مدد کرنے میں کوتاہی برت رہے تھے۔ بعض نے ”اشدودی اور عمونی اور موآبی عورتیں بیاہ لی تھیں۔“ نحمیاہ کو اس سے کتنی تکلیف پہنچی تھی! لیکن ان میں کسی کانٹے نے اسے ہمت ہارنے پر مجبور نہیں کِیا۔ باربار اس نے خود کو خدا کے راست قوانین کا پُرجوش حامی ثابت کِیا۔ دُعا ہے کہ ہم نحمیاہ کی مانند دوسروں کے بےوفا چالچلن کو ہمیں یہوواہ کی وفادارانہ خدمت سے ہٹانے کی اجازت نہ دیں۔—نحمیاہ ۱۳:۱۰-۱۳، ۲۳-۲۷۔
سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ مشکلات کانٹوں کی مانند تھیں جنہوں نے اسے سخت تکلیف پہنچائی تھی کیونکہ اس سے یہوواہ کے ساتھ لوگوں کا رشتہ متاثر ہوا تھا۔ دولتمند لوگ بہت زیادہ سُود طلب کر رہے تھے اور ان کے غریب بھائیوں کو قرض اُتارنے اور فارسی خراج ادا کرنے کے لئے اپنی جائدادیں چھوڑنے کے علاوہ اپنے بچوں کو بھی غلامی میں بیچنا پڑا۔ (اَور بھی بہتیرے وفادار لوگوں نے مقابلہ کِیا
۱۶-۱۸. خاندانی جھگڑے نے اضحاق اور ربقہ، حنّہ، داؤد اور ہوسیع کو کیسے گھیر رکھا تھا؟
۱۶ بائبل میں دیگر لوگوں کی مثالیں پائی جاتی ہیں جنہوں نے پریشانکُن حالتوں کا سامنا کِیا جو کانٹوں کی مانند تھیں۔ ایسے کانٹوں کا عام ذریعہ خاندانی مسائل تھے۔ عیسو کی دو بیویاں اُس کے والدین ”اِضحاؔق اور ربقہؔ کے لئے وبالِجان ہوئیں۔“ ربقہ نے تو یہاں تک کہا کہ وہ ان بیویوں کی وجہ سے اپنی زندگی سے تنگ ہے۔ (پیدایش ۲۶:۳۴، ۳۵؛ ۲۷:۴۶) ذرا حنّہ اور اس کی سوت فننہ کی بابت سوچیں کہ جو حنّہ کے بانجھ ہونے کے سبب سے اُسے ”بےطرح چھیڑتی تھی۔“ شاید حنّہ نے اس بدسلوکی کو گھر کے اندر اکثر برداشت کِیا ہو۔ جب خاندان سیلا میں عید پر جایا کرتا تھا تو فننہ اُسے دوسرے لوگوں—بِلاشُبہ رشتہداروں اور دوستوں کے سامنے بھی بےعزت کرتی تھی۔ یہ گویا حنّہ کے جسم میں کانٹے کو گہرا کرنے کے مترادف تھا۔—۱-سموئیل ۱:۴-۷۔
۱۷ اپنے سُسر، بادشاہ ساؤل کے دیوانہوار حسد کی وجہ سے داؤد نے جو تکلیف برداشت کی اس پر غور کریں۔ اپنی زندگی بچانے کیلئے داؤد کو عینجدی کے بیابان کے غاروں میں مجبوراً رہنا پڑا جہاں اسے نوکیلی اور خطرناک چٹانوں پر چڑھنا پڑا ہوگا۔ یہ ناانصافی تکلیفدہ رہی ہوگی کیونکہ اس نے ساؤل کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ پھربھی کئی سال تک داؤد کو بھگوڑا رہنا پڑا—یہ سب ساؤل کے حسد کی وجہ سے تھا۔—۱-سموئیل ۲۴:۱۴، ۱۵؛ امثال ۲۷:۴۔
۱۸ ذرا اُس خاندانی جھگڑے کا تصور کریں جو ہوسیع نبی کو گھیرے ہوئے تھا۔ اس کی بیوی زناکار بن گئی۔ اس کی بدکاری اُس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھی ہوگی۔ نیز جب اُس نے حرامکاری سے دو ناجائز بچے پیدا کئے تو اسے اَور بھی ذِلت برداشت کرنا پڑی تھی!—ہوسیع ۱:۲-۹۔
۱۹. میکایاہ نبی کس اذیت میں مبتلا ہوا تھا؟
۱۹ اذیت جسم میں ایک اَور کانٹا ہے۔ ذرا میکایاہ نبی کے تجربے پر غور کریں۔ یہ دیکھنے پر بھی کہ شریر بادشاہ اخیاب کے چوگرد جھوٹے نبیوں کا ہجوم ہے اور اخیاب انکی صریحی جھوٹی باتوں کا یقین کرتا ہے راستدل ۱-سلاطین ۲۲:۶، ۹، ۱۵-۱۷، ۲۳-۲۸) یرمیاہ اور اس کے خون کے پیاسوں کی ایذارسانی کو بھی یاد رکھیں۔—یرمیاہ ۲۰:۱-۹۔
میکایاہ کو سخت تکلیف پہنچی ہوگی۔ اس کے بعد، جب میکایاہ نے اخیاب کو بتایا کہ یہ سب نبی ”جھوٹ بولنے والی روح“ بول رہے ہیں تو ان دھوکےبازوں کے لیڈر نے کیا کِیا؟ اس نے ”میکاؔیاہ کے گال پر“ تھپڑ مارا! اس سے بھی بدتر، یہوواہ کی آگاہی کیلئے اخیاب کا ردِعمل تھا کہ راماتجلعاد کو سر کرنے کی مہم کو ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑیگا۔ اخیاب نے میکایاہ کو قیدخانہ میں ڈال دینے کا حکم دیا اور اس کی روٹیپانی کم کر دی۔ (۲۰. نعومی کو کن کانٹوں کی جلن برداشت کرنا پڑی تھی اور اسے کیسے اجر ملا تھا؟
۲۰ عزیزوں کی موت ایک اَور تلخ صورتحال ہے جو جسم میں ایک کانٹے کی طرح ہو سکتی ہے۔ نعومی کو اپنے شوہر اور دو بیٹوں کی موت کا درد برداشت کرنا پڑا تھا۔ ان مصیبتوں کے احساس کے ساتھ وہ یروشلیم واپس لوٹ آئی۔ اس نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ وہ اُسے نعومی کی بجائے مارہ کہیں ایک ایسا نام جو اس کے تجربے کی تلخی کو ظاہر کرتا ہے۔ انجامکار، یہوواہ نے اُسے ایک پوتا بخشا جو مسیحا کے اسلاف کی ایک کڑی بن گیا۔—روت ۱:۳-۵، ۱۹-۲۱؛ ۴:۱۳-۱۷؛ متی ۱:۱، ۵۔
۲۱، ۲۲. ایوب مصیبت میں کیسے گِھر گیا اور اس نے کیسا جوابیعمل دکھایا؟
۲۱ ذرا تصور کریں کہ جب ایوب نے اپنے دس عزیز بیٹوں کی اچانک اور پُرتشدد موت، اس کے علاوہ مویشیوں اور خادموں کے نقصان کی بابت سنا ہوگا تو اسے کتنا دُکھ ہوا ہوگا۔ اچانک، اسے اپنی ساری دُنیا ہی ڈوبتی نظر آئی! اس کے بعد، جب ایوب ان آفات سے نبردآزما تھا تو شیطان اس پر بیماری کیساتھ حملہآور ہوا۔ ایوب نے سوچا ہوگا کہ یہ مُہلک بیماری تو اس کی جان لیکر ہی چھوڑیگی۔ اس کا درد اسقدر ناقابلِبرداشت ہو گیا کہ اس نے محسوس کِیا کہ اسے موت ہی سے آرام مل سکتا ہے۔—ایوب ۱:۱۳-۲۰؛ ۲:۷، ۸۔
۲۲ اس سب پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اس کی بیوی اپنے غموغصے میں اس کے پاس آئی اور چلّائی: ”خدا کی تکفیر کر اور مر جا“! اس کے درد سے چُور بدن میں یہ کیسا کانٹا تھا! اس کے بعد ایوب کے تین دوست آتے ہیں جو اسے تسلی دینے کی بجائے اس پر غلط استدلال کے ساتھ حملہآور ہوتے، اس پر پوشیدہ گناہوں کا الزام لگاتے ہیں اور اسی بات کو اس کی مصیبت کا نتیجہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے غلط دلائل گویا اس کے جسم میں کانٹوں کو مزید گہرا کرتے جا رہے تھے۔ یاد رکھیں کہ ایوب نہیں جانتا تھا کہ یہ ہولناک باتیں اس کے ساتھ کیوں واقع ہو رہی ہیں؛ نہ ہی وہ اس بات کو جانتا تھا کہ اس کی زندگی کو بچایا جانا ہے۔ تاہم، ”ان سب باتوں میں اؔیوب نے نہ تو گناہ کِیا اور نہ خدا پر بیجا کام کا عیب لگایا۔“ (ایوب ۱:۲۲؛ ۲:۹، ۱۰؛ ۳:۳؛ ۱۴:۱۳؛ ۳۰:۱۷) اگرچہ اسے ایک ساتھ کئی کانٹے چبھ گئے تھے توبھی اس نے اپنی راست روش کو ترک نہیں کِیا۔ یہ بات کسقدر حوصلہافزا ہے!
۲۳. جن وفادار اشخاص کی بابت ہم نے باتچیت کی ہے وہ جسم میں مختلف کانٹوں کی برداشت کرنے کے قابل کیوں ہوئے تھے؟
۲۳ ان مثالوں کے علاوہ بائبل میں اَور بھی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ان تمام وفادار خادموں کو اپنے علامتی کانٹوں کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی قسم کے مسائل کا سامنا کِیا تھا! تاہم، ان سب میں ایک بات مشترک تھی۔ ان میں سے کسی نے بھی یہوواہ کی خدمت ترک نہیں کی تھی۔ اپنی تمام پریشانکُن آزمائشوں کے باوجود، یہوواہ کی طاقت کے ساتھ وہ شیطان پر غالب آئے۔ کیسے؟ اگلا مضمون اس سوال کا جواب دیگا اور ہم پر ظاہر کریگا کہ ہم بھی کیسے اپنے جسم میں کانٹے کے ساتھ مقابلہ کر سکتے ہیں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 11 اس قسم کا جاہپسند منصوبہ مفیبوست جیسے قدردان، فروتن آدمی کا خاصہ نہیں رہا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے باپ یونتن کے وفادار ریکارڈ کو خوب جانتا تھا۔ بادشاہ ساؤل کا بیٹا ہونے کے باوجود یونتن نے فروتنی سے اسرائیل پر بادشاہ ہونے کے لئے یہوواہ کے انتخاب کے طور پر داؤد کو تسلیم کِیا تھا۔ (۱-سموئیل ۲۰:۱۲-۱۷) مفیبوست کے خداترس والد اور داؤد کے وفادار دوست یونتن نے اپنے اس چھوٹے بیٹے کو شاہی اختیار کا متمنی ہونے کی تعلیم نہیں دی ہوگی۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• ہم جن مسائل کا سامنا کرتے ہیں وہ جسم میں کانٹوں کی مانند کیسے ہیں؟
• مفیبوست اور نحمیاہ کو کن کانٹوں کی برداشت کرنا پڑی تھی؟
• جسم میں مختلف کانٹوں کی برداشت کرنے والے مردوزن کی کن صحیفائی مثالوں کو آپ خاصکر تحریکانگیز پاتے ہیں اور کیوں؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۵ پر تصویریں]
مفیبوست کو معذوری، تہمت اور مایوسی کا مقابلہ کرنا پڑا تھا
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
نحمیاہ نے مخالفت کے باوجود ثابتقدمی دکھائی