مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا کا کلام سکھانے والوں کے طور پر پوری طرح لیس

خدا کا کلام سکھانے والوں کے طور پر پوری طرح لیس

خدا کا کلام سکھانے والوں کے طور پر پوری طرح لیس

‏’‏خدا نے ہم کو خادم ہونے کے لائق کِیا۔‏‘‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۳:‏۶‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ منادی کے سلسلے میں وقتاًفوقتاً کونسی کوششیں کی جاتی ہیں،‏ لیکن یہ بالعموم ناکام کیوں ہوتی ہیں؟‏

اگر آپکو اپنی لیاقت سے بڑھکر کوئی کام دیا جائے تو آپ کیسا محسوس کرینگے؟‏ ذرا تصور کریں:‏ آپکی ضرورت کا سامان آپکے سامنے پڑا ہے اور تمام آلات بھی دستیاب ہیں۔‏ لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔‏ اس پر ستم یہ کہ کام نہایت اہم ہے۔‏ لوگ آپ پر آس لگائے بیٹھے ہیں۔‏ صورتحال کسقدر پریشان‌کُن ہوگی!‏

۲ ایسی اُلجھن محض تصوراتی نہیں۔‏ ایک مثال پر غور کریں۔‏ وقتاًفوقتاً،‏ دُنیائےمسیحیت کی کلیسیاؤں نے گھرباگھر منادی کرنے اور اس میں حصہ لینے کے پروگرام ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔‏ مگر ایسی کوششیں اکثر چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد دم توڑ دیتی ہیں۔‏ اسکی کیا وجہ ہے؟‏ دُنیائےمسیحیت نے اپنے پیروکاروں کو اس کام کے لائق نہیں بنایا۔‏ پادری طبقہ بھی دُنیاوی سکولوں اور سیمنریوں میں سالوں کی تعلیم کے باوجود منادی کے کام کی لیاقت نہیں رکھتا۔‏ ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟‏

۳.‏ کونسا لفظ ۲-‏کرنتھیوں ۳:‏۶ میں دو بار استعمال ہوا ہے اور اسکا مطلب کیا ہے؟‏

۳ خدا کا کلام ظاہر کرتا ہے کہ کونسی چیز مسیحی خوشخبری کے ایک سچے مُناد کو لائق بناتی ہے۔‏ پولس رسول نے الہام سے تحریر کِیا:‏ ”‏یہ نہیں کہ بذاتِ‌خود ہم اس لائق ہیں کہ اپنی طرف سے کچھ خیال بھی کر سکیں بلکہ ہماری لیاقت خدا کی طرف سے ہے۔‏ جس نے ہم کو نئے عہد کے خادم ہونے کے لائق بھی کِیا۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۳:‏۵،‏ ۶‏)‏ دو بار استعمال ہونے والے لفظ ”‏لائق“‏ پر غور کریں۔‏ اسکا کیا مطلب ہے؟‏ وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف ببلیکل ورڈز بیان کرتی ہے:‏ ”‏چیزوں کے حوالے سے یہ [‏اصل یونانی لفظ]‏ ’‏کافی‘‏ کا مفہوم پیش کرتا ہے اور لوگوں کے حوالے سے اسکا مطلب ’‏اہل،‏‘‏ ’‏قابل‘‏ ہے۔‏“‏ لہٰذا ایک ”‏لائق“‏ شخص سونپی گئی تفویض کو پورا کرنے کے قابل ہوتا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ خوشخبری کے سچے خادم اس کام کو پورا کرنے کے لائق ہیں۔‏ وہ منادی کرنے کی اہلیت،‏ مہارت یا قابلیت رکھتے ہیں۔‏

۴.‏ (‏ا)‏ پولس کی مثال کیسے ظاہر کرتی ہے کہ مسیحی خدمتگزاری کے لائق بننے کا شرف چند خاص لوگوں تک محدود نہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ کن تین طریقوں سے ہمیں خادم بننے کے لائق ٹھہراتا ہے؟‏

۴ تاہم یہ لیاقت کہاں سے حاصل کی جا سکتی ہے؟‏ کیا اس کا انحصار ذاتی صلاحیتوں،‏ اعلیٰ ذہانت یا مشہورومعروف سکولوں سے خاص تعلیم پر ہوتا ہے؟‏ بدیہی طور پر پولس رسول اِن سب خوبیوں کا مالک تھا۔‏ (‏اعمال ۲۲:‏۳؛‏ فلپیوں ۳:‏۴،‏ ۵‏)‏ تاہم اُس نے فروتنی سے تسلیم کِیا کہ بطور خادم اُسے یہ لیاقتیں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بجائے یہوواہ خدا نے بخشی تھیں۔‏ کیا یہ لیاقتیں چند خاص لوگوں کے لئے مخصوص ہیں؟‏ پولس نے کرنتھس کی کلیسیا کو ”‏ہماری لیاقت“‏ کی بابت لکھا۔‏ یقیناً اس کا مطلب ہے کہ یہوواہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اُس کے تمام وفادار خادم اُس کے تفویض‌کردہ کام کو پورا کرنے کے قابل ہیں۔‏ یہوواہ آجکل کے سچے مسیحیوں کو اس کام کے لائق کیسے بناتا ہے؟‏ آیئے اُن تین طریقوں پر غور کریں جنہیں وہ استعمال کرتا ہے:‏ (‏۱)‏ اپنا کلام،‏ (‏۲)‏ اپنی روح‌القدس اور (‏۳)‏ اپنی زمینی تنظیم۔‏

یہوواہ کا کلام ہمیں لائق بناتا ہے

۵،‏ ۶.‏ پاک صحائف سچے مسیحیوں پر کیا اثر ڈالتے ہیں؟‏

۵ اوّل،‏ خدا کا کلام خادموں کے طور پر لائق بننے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟‏ پولس نے لکھا:‏ ”‏ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کیلئے فائدہ‌مند بھی ہے۔‏ تاکہ مردِخدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶،‏ ۱۷‏)‏ لہٰذا پاک صحائف لوگوں کو خدا کے کلام کی تعلیم دینے کے ”‏نیک کام“‏ میں ”‏کامل“‏ بننے اور اس کیلئے ”‏بالکل تیار“‏ رہنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔‏ تاہم دُنیائےمسیحیت کے پیروکاروں کی بابت کیا ہے؟‏ اُن کے پاس بائبل موجود ہے۔‏ لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کتاب کچھ لوگوں کو تو لائق خادم بننے میں مدد دے جبکہ دوسروں کو یکسر نظرانداز کر دے؟‏ اسکا جواب بائبل کی بابت ہمارے میلان میں پنہاں ہے۔‏

۶ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چرچ جانے والے بہتیرے لوگ بائبل کے پیغام کو ’‏(‏جیسا حقیقت میں ہے)‏ خدا کے کلام‘‏ کے طور پر قبول نہیں کرتے۔‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۱۳‏)‏ اس سلسلے میں دُنیائےمسیحیت کا تاریخی ریکارڈ شرمناک رہا ہے۔‏ مذہبی تعلیمی اداروں میں کئی سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا پادری طبقہ خدا کا کلام سکھانے کے لائق ہے؟‏ جی‌نہیں۔‏ بعض طالبعلم بائبل پر ایمان رکھنے والوں کے طور پر اپنی مذہبی تعلیم کا آغاز کرتے ہیں لیکن فارغ‌التحصیل ہونے پر وہ مُتشکِک ہوتے ہیں!‏ بعدازاں بہتیرے خدا کے کلام کی تعلیم دینے کی بجائے—‏جس پر وہ ایمان نہیں رکھتے—‏اپنی خدمتگزاری کو سیاسی مباحثوں میں حصہ لینے،‏ سماجی فلاح‌وبہبود کے کاموں کو فروغ دینے یا اپنی تقاریر میں انسانی فیلسوفیوں کو نمایاں کرنے والے دیگر مشاغل پر مُرتکز کر دیتے ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۳‏)‏ اسکے برعکس،‏ سچے مسیحی یسوع مسیح کے نمونے کی پیروی کرتے ہیں۔‏

۷،‏ ۸.‏ خدا کے کلام کی بابت یسوع کا رُجحان اُس کے زمانہ کے مذہبی راہنماؤں سے کیسے مختلف تھا؟‏

۷ یسوع نے اپنی سوچ کو اپنے زمانہ کے مذہبی راہنماؤں سے متاثر ہونے نہیں دیا تھا۔‏ اپنے رسولوں کے چھوٹے سے گروہ یا لوگوں کے بڑے ہجوم کو تعلیم دیتے وقت یسوع نے پاک نوشتوں کا مؤثر استعمال کِیا۔‏ (‏متی ۱۳:‏۱۰-‏۱۷؛‏ ۱۵:‏۱-‏۱۱‏)‏ اس کام نے اُسے اس زمانہ کے مذہبی راہنماؤں سے فرق کر دیا جو کہ خدا کی گہری باتوں کا مطلب جاننے کے لئے عام لوگوں کی حوصلہ‌شکنی کِیا کرتے تھے۔‏ درحقیقت اُس زمانہ میں یہ عام دستور تھا کہ ایک اُستاد یہ اندازہ لگانے کے بعد کہ بائبل کے کونسے حوالہ‌جات گہری سمجھ کا تقاضا کرتے ہیں اُنہیں صرف اپنے مخصوص طالبعلموں کو ہی دھیمے لہجے میں اور سر ڈھانپ کر سکھایا کرتا تھا لیکن ہر ایک کے ساتھ ان پر بات‌چیت کرنا موزوں نہیں سمجھتا تھا۔‏ یہ مذہبی پیشوا بائبل کے کچھ حصوں پر بات‌چیت کرنے کی بابت اُتنے ہی توہم‌پرست تھے جتنا کہ وہ الہٰی نام لینے کی بابت تھے!‏

۸ مسیح ان سے مختلف تھا۔‏ وہ یقین رکھتا تھا کہ چند مخصوص لوگوں کی بجائے ہر خاص‌وعام کو ’‏یہوواہ کے مُنہ سے نکلنے والی ہر بات‘‏ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔‏ وہ عالم‌فاضل لوگوں کے ایک ممتاز طبقے کو بصیرت عطا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔‏ اُس نے اپنے شاگردوں کو ہدایت دی:‏ ”‏جوکچھ مَیں تم سے اندھیرے میں کہتا ہوں اُجالے میں کہو اور جوکچھ تم کان میں سنتے ہو کوٹھوں پر اُسکی منادی کرو۔‏“‏ (‏متی ۴:‏۴؛‏ ۱۰:‏۲۷‏)‏ یسوع کی مخلصانہ خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک خدا کا علم پہنچائے۔‏

۹.‏ سچے مسیحی بائبل کیسے استعمال کرتے ہیں؟‏

۹ خدا کے کلام کو ہماری تعلیم کی بنیاد ہونا چاہئے۔‏ مثال کے طور پر،‏ جب ہم یہوواہ کے گواہوں کے کنگڈم ہال میں تقریر پیش کرتے ہیں تو اکثر بائبل کی چند منتخب آیات پڑھنا ہی کافی نہیں ہوتا۔‏ ہم وضاحت پیش کرنے،‏ تمثیل استعمال کرنے اور سیاق‌وسباق کی مطابقت میں صحیفے کا اطلاق کرنے کی ضرورت کو محسوس کر سکتے ہیں۔‏ ہمارا مقصد بائبل کے تحریری پیغام کو اپنے سامعین کے دلوں پر نقش کرنا ہے۔‏ (‏نحمیاہ ۸:‏۸،‏ ۱۲‏)‏ مشورت دیتے یا اصلاح کی غرض سے تنبیہ کرتے وقت بھی بائبل کا استعمال کِیا جانا چاہئے۔‏ اگرچہ یہوواہ کے لوگ مختلف زبانیں بولتے اور مختلف پس‌منظر رکھتے ہیں توبھی وہ تمام کتابوں سے اعلیٰ کتاب بائبل کا احترام کرتے ہیں۔‏

۱۰.‏ بائبل کا الہامی پیغام ہم پر کیسا اثر ڈال سکتا ہے؟‏

۱۰ بائبل کا ایسا مؤدبانہ استعمال اس کے پیغام کو پُرزور بنا دیتا ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏)‏ اس سے لوگوں کو اپنی زندگیوں میں تبدیلیاں لانے اور حرامکاری،‏ زناکاری،‏ بُت‌پرستی،‏ نشےبازی اور چوری جیسے غیرصحیفائی کاموں کو ترک کرنے کی تحریک ملتی ہے۔‏ اس سے لاتعداد لوگوں کی پُرانی انسانیت کو اُتار پھینکنے اور نئی انسانیت کو پہننے میں مدد ہوئی ہے۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۲۰-‏۲۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ اگر ہم بائبل کو تمام انسانی نظریات یا رسومات پر فوقیت دیتے اور وفاداری سے اسکا استعمال کرتے ہیں تو یہ خدا کا کلام سکھانے والوں کے طور پر،‏ کامل اور پوری طرح سے لیس رہنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔‏

یہوواہ کی روح ہمیں لائق بناتی ہے

۱۱.‏ موزوں طور پر یہوواہ کی روح‌القدس کا حوالہ ”‏مددگار“‏ کے طور پر کیوں دیا گیا ہے؟‏

۱۱ دوم،‏ آیئے یہوواہ کی روح‌القدس یا سرگرم قوت کے کردار پر بات‌چیت کریں جو ہمیں اپنے کام کے لئے پوری طرح سے لیس کرتی ہے۔‏ ہمیں کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہوواہ کی روح سب سے زبردست قوت ہے۔‏ یہوواہ نے اپنے عزیز بیٹے کو تمام سچے مسیحیوں کی خاطر اس پُرزور قوت کو استعمال کرنے کا اختیار بخشا ہے۔‏ موزوں طور پر یسوع نے روح‌القدس کا حوالہ ”‏مددگار“‏ کے طور پر دیا تھا۔‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۷‏)‏ اُس نے اپنے شاگردوں کی اس روح کے لئے یہوواہ سے درخواست کرنے کی حوصلہ‌افزائی کی اور اُنہیں یقین دلایا کہ یہوواہ اُن کے لئے باافراط فراہم کرے گا۔‏—‏لوقا ۱۱:‏۱۰-‏۱۳؛‏ یعقوب ۱:‏۱۷‏۔‏

۱۲،‏ ۱۳.‏ (‏ا)‏ اپنی خدمتگزاری میں روح‌القدس کی مدد کیلئے دُعا کرنا کیوں ضروری ہے؟‏ (‏ب)‏ فریسیوں نے کیسے ظاہر کِیا کہ روح‌القدس اُن میں کارفرما نہیں تھی؟‏

۱۲ ہمیں بالخصوص اپنی خدمتگزاری میں مدد کیلئے روزانہ روح‌القدس کیلئے دُعا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یہ سرگرم قوت ہم پر کیسا اثر ڈال سکتی ہے؟‏ یہ تبدیلی لانے،‏ روحانی ترقی کرنے اور پُرانی انسانیت کو نئی انسانیت سے بدلنے میں ہماری مدد کرتے ہوئے ہمارے دل‌ودماغ پر اثر کر سکتی ہے۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۹،‏ ۱۰‏)‏ یہ ہمیں مسیح جیسی بیش‌قیمت خوبیاں پیدا کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔‏ ہم میں سے بہتیروں کو گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳ زبانی یاد ہے۔‏ ان آیات میں خدا کی روح کے پھل درج ہیں۔‏ ان میں سے پہلا پھل محبت ہے۔‏ یہ خوبی ہماری خدمتگزاری کیلئے لازمی ہے۔‏ وہ کیسے؟‏

۱۳ محبت سب سے بڑی قوتِ‌متحرکہ ہے۔‏ یہوواہ اور ساتھی انسانوں کیلئے محبت سچے مسیحیوں کو خوشخبری سنانے کی تحریک دیتی ہے۔‏ (‏مرقس ۱۲:‏۲۸-‏۳۱‏)‏ ایسی محبت کے بغیر ہم حقیقی معنوں میں خدا کا کلام سکھانے والوں کے طور پر لائق نہیں ٹھہر سکتے۔‏ یسوع اور فریسیوں کے درمیان پائے جانے والے فرق پر غور کریں۔‏ متی ۹:‏۳۶ یسوع کی بابت بیان کرتی ہے:‏ ”‏جب اُس نے بِھیڑ کو دیکھا تو اُسکو لوگوں پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند جنکا چرواہا نہ ہو خستہ‌حال اور پراگندہ تھے۔‏“‏ فریسی عام لوگوں کی بابت کیسا محسوس کرتے تھے؟‏ اُنکے مطابق:‏ ”‏یہ عام لوگ جو شریعت سے واقف نہیں لعنتی ہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۷:‏۴۹‏)‏ فریسیوں کے دلوں میں عام لوگوں کیلئے محبت کی بجائے حقارت بھری ہوئی تھی۔‏ صاف ظاہر ہے کہ یہوواہ کی روح ان میں کارفرما نہیں تھی۔‏

۱۴.‏ خدمتگزاری میں محبت ظاہر کرنے کے سلسلے میں یسوع کی مثال سے ہمیں کیا تحریک ملنی چاہئے؟‏

۱۴ یسوع لوگوں کیلئے ہمدردی رکھتا تھا۔‏ وہ اُن کی تکلیف سے واقف تھا۔‏ وہ جانتا تھا کہ وہ ایسی بھیڑوں کی مانند مظلوم،‏ خستہ‌حال اور پراگندہ تھے جنکا کوئی چرواہا نہ ہو۔‏ یوحنا ۲:‏۲۵ ہمیں بتاتی ہے کہ یسوع ”‏جانتا تھا کہ انسان کے دل میں کیا کیا ہے۔‏“‏ یسوع تخلیق کے دوران یہوواہ کا ماہر کاریگر رہ چکا تھا اسلئے اُسے انسانی فطرت کی گہری سمجھ حاصل تھی۔‏ (‏امثال ۸:‏۳۰،‏ ۳۱‏)‏ اس سمجھ نے اُسکی محبت کو اَور زیادہ گہرا کر دیا تھا۔‏ دُعا ہے کہ ایسی محبت ہمیشہ ہماری منادی کی کارگزاری کیلئے قوتِ‌متحرکہ ثابت ہو!‏ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس حلقے میں بہتیری لانے کی ضرورت ہے تو آیئے یہوواہ سے روح‌القدس کیلئے دُعا کریں اور پھر اپنی دُعاؤں کی مطابقت میں کام بھی کریں۔‏ یہوواہ ہماری ضرور سنیگا۔‏ ہمیں مسیح کی مانند بننے میں مدد دینے کیلئے جو خوشخبری کی منادی کرنے کی ممتاز لیاقت رکھتا تھا وہ ہمیں اپنی ذی‌اثر قوت بخشے گا۔‏

۱۵.‏ یسعیاہ ۶۱:‏۱-‏۳ میں درج الفاظ فقیہوں اور فریسیوں کو بےنقاب کرنے کے ساتھ ساتھ یسوع پر کیسے پورے ہوئے تھے؟‏

۱۵ یسوع نے یہ لیاقتیں کہاں سے حاصل کیں؟‏ اُس نے کہا،‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا روح مجھ پر ہے۔‏“‏ (‏لوقا ۴:‏۱۷-‏۲۱‏)‏ جی‌ہاں،‏ یہوواہ نے روح‌القدس کے ذریعے یسوع کو مخصوص کِیا تھا۔‏ یسوع کو مزید کسی شہادت کی ضرورت نہیں تھی۔‏ کیا اُسکے زمانہ کے مذہبی راہنماؤں کو روح‌القدس کے ذریعے مقرر کِیا گیا تھا؟‏ جی‌نہیں۔‏ وہ یسعیاہ ۶۱:‏۱-‏۳ کی تکمیل پر بھی پورے نہیں اُترے تھے جسکی بابت یسوع نے زوردار پڑھائی کرنے کے بعد اپنے اُوپر اُسکا اطلاق کِیا تھا۔‏ آپ ان آیات کو پڑھکر خود اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ریاکار فقیہ اور فریسی ان پر پورے نہیں اُترے تھے۔‏ اُن کے پاس مسکینوں کو سنانے کیلئے کوئی خوشخبری نہیں تھی۔‏ نیز وہ غلاموں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی کا پیغام کیسے سنا سکتے تھے؟‏ وہ خود روحانی تاریکی اور انسانی رسومات کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے!‏ ان اشخاص کے برعکس،‏ کیا ہم لوگوں کو تعلیم دینے کے لائق ہیں؟‏

۱۶.‏ جہانتک خادموں کے طور پر لیاقت کی بات آتی ہے تو آجکل یہوواہ کے لوگ کیا اعتماد رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۶ سچ ہے کہ ہم نے دُنیائےمسیحیت کے سکولوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی۔‏ ہمارے پاس کسی مذہبی ادارے کی طرف سے اُستاد ہونے کی کوئی سند بھی نہیں ہے۔‏ تاہم کیا ہم میں ان لیاقتوں کی کمی ہے؟‏ ہرگز نہیں!‏ گواہوں کے طور پر ہماری تقرری یہوواہ کی طرف سے ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۳:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ اگر ہم اُسکی روح کیلئے دُعا کرتے اور اپنی دُعا کی مطابقت میں عمل کرتے ہیں تو ہم اعلیٰ‌ترین لیاقتوں کے مالک بن سکتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ ناکامل ہوتے ہوئے ہم عظیم اُستاد یسوع کے نمونے کی نقل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔‏ تاہم،‏ کیا ہم یہوواہ کے شکرگزار نہیں کہ وہ اپنی روح کے ذریعے ہمیں اپنے کلام کے اُستاد کے طور پر لیس کرکے اس کام کے لائق بناتا ہے؟‏

یہوواہ کی تنظیم ہمیں لائق بناتی ہے

۱۷-‏۱۹.‏ یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے پانچ ہفتہ‌وار اجلاس ہمیں خادم بننے کے لائق کیسے بناتے ہیں؟‏

۱۷ آیئے اب ہم اس تیسرے طریقے کو زیرِبحث لائیں جسکے ذریعے یہوواہ ہمیں اپنے کلام کے اُستادوں کے طور پر تیار کرتا ہے—‏اُسکی زمینی کلیسیا یا تنظیم جو خادم بننے میں ہماری تربیت کرتی ہے۔‏ کیسے؟‏ اُس ہدایتی پروگرام پر غور کریں جس سے ہم مستفید ہوتے ہیں!‏ ہم ایک ہفتے میں پانچ اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ ہم کلیسیائی کتابی مطالعے پر چھوٹے گروپوں میں جمع ہوتے اور یہوواہ کی تنظیم کے ذریعے فراہم‌کردہ درسی کتاب کی مدد سے بائبل کے جامع مطالعے سے استفادہ کرتے ہیں۔‏ سننے اور تبصرہ کرنے سے ہم سیکھتے اور ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں۔‏ ہم کتابی مطالعے کے نگہبان سے ذاتی تربیت اور توجہ بھی حاصل کرتے ہیں۔‏ عوامی اجلاس اور مینارِنگہبانی کے مطالعے پر ہم اَور زیادہ تقویت‌بخش روحانی غذا حاصل کرتے ہیں۔‏

۱۸ ہمارا مسیحی خدمتی سکول تعلیم دینے کے سلسلے میں ہماری تربیت کرنے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔‏ طالبعلموں کی تقاریر تیار کرنے سے ہم سیکھتے ہیں کہ کیسے مختلف موضوعات پر خدا کے کلام کو استعمال کِیا جا سکتا ہے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۵‏)‏ کیا آپ کو کبھی کسی ایسے موضوع پر تقریر پیش کرنے کی تفویض ملی ہے جو بظاہر جاناپہچانا تھا لیکن آپ نے اس کی بابت کوئی نئی بات سیکھی ہو؟‏ یہ ایک عام تجربہ ہے۔‏ دوسروں کو کسی مضمون کی تعلیم دینے کے ذریعے ہمارے اپنے علم میں جو بہتری آتی ہے وہ کسی دوسرے طریقے سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔‏ اگر ہمیں کوئی تفویض نہیں بھی دی جاتی توبھی ہم بہتر اُستاد بننا سیکھ سکتے ہیں۔‏ ہم ہر طالبعلم کی اچھی خوبیوں پر غور کرکے انہیں اپنانے کی بابت سوچ سکتے ہیں۔‏

۱۹ خدمتی اجلاس بھی ہمیں خدا کا کلام سکھانے والوں کے طور پر لیس کرنے کیلئے ترتیب دیا جاتا ہے۔‏ ہم اپنی خدمتگزاری کیلئے ترتیب دی گئی دلچسپ تقاریر،‏ بات‌چیت اور مظاہروں سے ہفتہ‌بہ‌ہفتہ مستفید ہوتے ہیں۔‏ ہم کونسی پیشکش استعمال کرینگے؟‏ ہم اپنی عوامی خدمتگزاری میں مختلف چیلنجوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ہمیں منادی کے کن حلقوں کی بابت مزید سیکھنے کی ضرورت ہے؟‏ واپسی ملاقاتیں اور بائبل مطالعے کراتے ہوئے مؤثر اُستاد بننے میں کونسی چیز ہماری مدد کریگی؟‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۹:‏۱۹-‏۲۲‏)‏ خدمتی اجلاس پر ایسے سوالات کو زیرِغور لایا جاتا ہے اور ان پر مفصل بات‌چیت کی جاتی ہے۔‏ اجلاس کے بیشتر حصے ہماری بادشاہتی خدمتگزاری میں موجود مضامین پر مبنی ہوتے ہیں جو کہ ہمیں اپنے اہم کام میں لیس کرنے کے لئے ایک اَور آلہ ہے۔‏

۲۰.‏ ہم اجلاسوں اور اسمبلیوں سے بھرپور فائدہ کیسے اُٹھا سکتے ہیں؟‏

۲۰ اجلاسوں کی تیاری کرنے،‏ ان پر حاضر ہونے اور بطور اُستاد سیکھی ہوئی باتوں کا اپنے کام پر اطلاق کرنے سے ہم جامع تربیت حاصل کرتے ہیں۔‏ لیکن اس میں اَور بہت کچھ شامل ہے۔‏ ہمارے بڑے اجلاس—‏اسمبلیاں اور کنونشن—‏بھی ہمیں خدا کا کلام سکھانے والوں کے طور پر لیس کرنے کیلئے ترتیب دئے جاتے ہیں۔‏ ہم انہیں توجہ سے سننے اور دی گئی مشورت کا اطلاق کرنے کے مشتاق رہتے ہیں!‏—‏لوقا ۸:‏۱۸‏۔‏

۲۱.‏ کونسا ثبوت ظاہر کرتا ہے کہ ہماری تربیت مؤثر ہے اور اس کامیابی کا ذمہ‌دار کون ہے؟‏

۲۱ کیا یہوواہ کی فراہم‌کردہ تربیت مؤثر ثابت ہوئی ہے؟‏ حقائق کا جائزہ اس کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔‏ ہر سال بنیادی بائبل اُصولوں کی تعلیم حاصل کرنے اور خدا کے تقاضوں کی مطابقت میں زندگی بسر کرنے میں لاکھوں لوگوں کی مدد کی جا رہی ہے۔‏ ہماری تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے لیکن ہم میں سے کوئی بھی خود کو اس کامیابی کا ذمہ‌دار قرار نہیں دے سکتا۔‏ ہمیں معاملات کو یسوع کے نقطۂ‌نظر سے دیکھنا چاہئے۔‏ اُس نے فرمایا:‏ ”‏کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اُسے کھینچ نہ لے۔‏“‏ قدیم زمانہ کے رسولوں کی طرح ہم میں سے بیشتر کا شمار اَن‌پڑھ اور عام لوگوں میں ہوتا ہے۔‏ (‏یوحنا ۶:‏۴۴؛‏ اعمال ۴:‏۱۳‏)‏ ہماری کامیابی کا انحصار یہوواہ پر ہے جو خلوصدل لوگوں کو سچائی کی طرف کھینچتا ہے۔‏ پولس نے موزوں طور پر بیان کِیا:‏ ”‏مَیں نے درخت لگایا اور اپلوؔس نے پانی دیا مگر بڑھایا خدا نے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۶‏۔‏

۲۲.‏ ہمیں مسیحی خدمتگزاری میں بھرپور شرکت کی بابت بےحوصلہ کیوں نہیں ہونا چاہئے؟‏

۲۲ جی‌ہاں،‏ یہوواہ خدا کلام سکھانے والوں کے طور پر ہمارے کام میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔‏ شاید ہم اُستادوں کے طور پر ہمیشہ لائق محسوس نہ کریں۔‏ تاہم یاد رکھیں کہ یہوواہ لوگوں کو اپنی اور اپنے بیٹے کی طرف کھینچتا ہے۔‏ یہوواہ ہمیں نئے آنے والے اشخاص کی خدمت کیلئے اپنے کلام،‏ روح‌القدس اور زمینی تنظیم کے ذریعے لائق بناتا ہے۔‏ آیئے خدا کا کلام سکھانے والوں کے طور پر،‏ ہمیں لیس کرنے کیلئے یہوواہ کی فراہمیوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُسکی تربیت کیلئے جوابی‌عمل دکھائیں!‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• بائبل ہمیں منادی کے کام کے لئے کیسے لیس کرتی ہے؟‏

‏• بطور خادم ہماری تربیت میں روح‌القدس کیا کردار ادا کرتی ہے؟‏

‏• یہوواہ کی زمینی تنظیم نے آپکو خوشخبری کے مُناد کے طور پر کیسے لائق بنایا ہے؟‏

‏• ہم خدمتگزاری میں شرکت کرتے وقت پُراعتماد کیوں ہو سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

خدا کے کلام کے اُستاد کے طور پر یسوع نے لوگوں کیلئے محبت ظاہر کی