مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

الہٰی نور تاریکی کو دُور کرتا ہے!‏

الہٰی نور تاریکی کو دُور کرتا ہے!‏

الہٰی نور تاریکی کو دُور کرتا ہے!‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ میرے اندھیرے کو اُجالا کر دیگا۔‏“‏—‏۲-‏سموئیل ۲۲:‏۲۹‏۔‏

۱.‏ روشنی کا زندگی کیساتھ کیا تعلق ہے؟‏

‏”‏خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہو گئی۔‏“‏ (‏پیدایش ۱:‏۳‏)‏ اِن اہم الفاظ کیساتھ پیدایش میں درج تخلیق کی سرگزشت یہوواہ کی شناخت نور کے سرچشمے کے طور پر کراتی ہے جس کے بغیر زمین پر زندگی ناممکن ہوگی۔‏ یہوواہ روحانی نور کا سرچشمہ بھی ہے جو کہ زندگی کی راہ پر ہماری راہنمائی کیلئے نہایت اہم ہے۔‏ (‏زبور ۴۳:‏۳‏)‏ داؤد بادشاہ نے روحانی روشنی اور زندگی کے مابین گہرے تعلق کو ظاہر کرتے ہوئے لکھا:‏ ”‏کیونکہ زندگی کا چشمہ تیرے پاس ہے۔‏ تیرے نور کی بدولت ہم روشنی دیکھینگے۔‏“‏—‏زبور ۳۶:‏۹‏۔‏

۲.‏ پولس کے مطابق،‏ روشنی کا کس چیز سے گہرا تعلق ہے؟‏

۲ داؤد کے تقریباً ۰۰۰،‏۱ سال بعد پولس رسول نے تخلیقی سرگزشت کا حوالہ دیا۔‏ کرنتھس میں مسیحی کلیسیا کو لکھتے وقت اُس نے کہا:‏ ”‏خدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے۔‏“‏ اُس وقت پولس نے روحانی روشنی کے ساتھ یہوواہ کی طرف سے آشکارا علم کا گہرا تعلق ظاہر کرنے کیلئے مزید کہا:‏ ”‏وہی ہمارے دلوں میں چمکا تاکہ خدا کے جلال کی پہچان کا نور یسوؔع مسیح کے چہرے سے جلوہ‌گر ہو۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۶‏)‏ یہ روشنی ہم تک کیسے پہنچتی ہے؟‏

بائبل—‏روشنی کا آلۂ‌ترسیل

۳.‏ بائبل کے ذریعے یہوواہ کونسی روشنی فراہم کرتا ہے؟‏

۳ یہوواہ بنیادی طور پر اپنے الہامی کلام بائبل کے ذریعے روحانی روشنی منتقل کرتا ہے۔‏ لہٰذا جب ہم بائبل کا مطالعہ کرتے اور خدا کا علم حاصل کرتے ہیں تو ہم دراصل اُسکی روشنی کو اپنے اُوپر چمکنے کی اجازت دیتے ہیں۔‏ بائبل کی معرفت،‏ یہوواہ ہمیں اپنے مقاصد سے آگاہ کرتا ہے کہ ہم کیسے اُسکی مرضی پوری کر سکتے ہیں۔‏ اس سے نہ صرف ہماری زندگیاں بامقصد بن جاتی ہیں بلکہ یہ ہماری روحانی ضروریات کو بھی پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱؛‏ متی ۵:‏۳‏)‏ یسوع نے موسوی شریعت کا حوالہ دیتے ہوئے روحانی ضروریات پر زور دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہیگا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے مُنہ سے نکلتی ہے۔‏“‏—‏متی ۴:‏۴؛‏ استثنا ۸:‏۳‏۔‏

۴.‏ یسوع کس لحاظ سے ”‏دُنیا کا نور“‏ ہے؟‏

۴ یسوع کا روحانی روشنی سے گہرا تعلق ہے۔‏ بِلاشُبہ اُس نے خود کو ’‏دُنیا کا نور‘‏ کہتے ہوئے فرمایا:‏ ”‏جو میری پیروی کریگا وہ اندھیرے میں نہ چلیگا بلکہ زندگی کا نور پائیگا۔‏“‏ (‏یوحنا ۸:‏۱۲‏)‏ یہ اظہار ہمیں یسوع کے اُس مرکزی کردار کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جو وہ نوعِ‌انسان کو یہوواہ کی سچائیاں منتقل کرنے میں ادا کرتا ہے۔‏ ہمیں تاریکی سے بچنے اور خدا کے نور میں چلنے کیلئے بائبل میں درج یسوع کی سب باتوں پر دھیان دینے،‏ اُس کے نمونے اور تعلیمات کی بغور پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔‏

۵.‏ یسوع کی وفات کے بعد اُسکے پیروکاروں کی کیا ذمہ‌داری تھی؟‏

۵ اپنی موت سے چند دن پہلے،‏ یسوع نے روشنی کے طور پر اپنا حوالہ دیتے ہوئے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏تھوڑی دیر تک نور تمہارے درمیان ہے۔‏ جب تک نور تمہارے ساتھ ہے چلے چلو۔‏ ایسا نہ ہو کہ تاریکی تمہیں آ پکڑے اور جو تاریکی میں چلتا ہے وہ نہیں جانتا کہ کدھر جاتا ہے۔‏ جب تک نور تمہارے ساتھ ہے نور پر ایمان لاؤ تاکہ نور کے فرزند بنو۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۲:‏۳۵،‏ ۳۶‏)‏ پس نور کے فرزند بننے والوں نے بائبل سے ”‏صحیح باتیں“‏ سیکھ لی ہیں۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۱:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ اسکے بعد اُنہوں نے دیگر خلوصدل اشخاص کو تاریکی سے نکال کر خدا کے نور میں داخل کرنے کیلئے اِن صحیح باتوں کو استعمال کِیا۔‏

۶.‏ ہم ۱-‏یوحنا ۱:‏۵ میں روشنی اور تاریکی کی بابت کونسی بنیادی سچائی پاتے ہیں؟‏

۶ یوحنا رسول نے لکھا:‏ ”‏خدا نور ہے اور اُس میں ذرا بھی تاریکی نہیں۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۱:‏۵‏)‏ یہاں تاریکی اور روشنی کے مابین فرق پر غور کریں۔‏ روحانی روشنی کا ماخذ یہوواہ ہے اور روحانی تاریکی اُس میں رہ نہیں سکتی۔‏ پس تاریکی کا ماخذ کون ہے؟‏

روحانی تاریکی کا ماخذ

۷.‏ دُنیا میں روحانی تاریکی کا ذمہ‌دار کون ہے اور وہ کیسے اثرانداز ہوتا ہے؟‏

۷ پولس رسول نے ”‏اِس جہان کے خدا“‏ کا ذکر کِیا۔‏ اس اصطلاح سے اُسکی مُراد شیطان اِبلیس تھا۔‏ اُس نے مزید کہا کہ شیطان نے بےایمانوں کی عقلوں کو اندھا کر دیا ہے ”‏تاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اُسکے جلال کی خوشخبری کی روشنی اُن پر نہ پڑے۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۴‏)‏ بہتیرے لوگ خدا پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اُنکی بڑی تعداد اِبلیس پر ایمان نہیں رکھتی۔‏ کیوں؟‏ اِسلئے کہ وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ کوئی شریر مافوق‌الفطرت قوت کا وجود ہے اور یہ اُنکی سوچ کو متاثر کر سکتا ہے۔‏ بہرصورت،‏ جیسے پولس بیان کرتا ہے،‏ اِبلیس کا وجود ہے اور لوگوں پر اثرانداز ہوتا ہے تاکہ وہ سچائی کی روشنی کو پہچان نہ سکیں۔‏ انسانی سوچ کو متاثر کرنے کی شیطان کی قوت اُسکی اس نبوتی تصویرکشی سے دیکھی جا سکتی ہے کہ وہ ”‏سارے جہان کو گمراہ کر دیتا ہے۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۹‏)‏ شیطان کی اس کارگزاری کی وجہ سے یسعیاہ نے جس حالت کا ذکر کِیا اُسکا اطلاق اُن سب انسانوں پر ہوتا ہے جو یہوواہ کی خدمت نہیں کر رہے ہیں:‏ ”‏دیکھ تاریکی زمین پر چھا جائیگی اور تیرگی اُمتوں پر۔‏“‏—‏یسعیاہ ۶۰:‏۲‏۔‏

۸.‏ روحانی تاریکی کا شکار لوگ کن طریقوں سے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ بھٹکے ہوئے ہیں؟‏

۸ گہری تاریکی میں کچھ بھی دیکھنا ناممکن ہوتا ہے۔‏ کوئی بھی شخص باآسانی گمراہ یا ابتری کا شکار ہو سکتا ہے۔‏ وہ سچ اور جھوٹ،‏ نیکی اور بدی کی تمیز بھی کھو سکتے ہیں۔‏ یسعیاہ نبی نے ایسی تاریکی کا شکار لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:‏ ”‏اُن پر افسوس جو بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی کہتے ہیں اور نور کی جگہ تاریکی کو اور تاریکی کی جگہ نور کو دیتے ہیں اور شیرینی کے بدلے تلخی اور تلخی کے بدلے شیرینی رکھتے ہیں!‏“‏ (‏یسعیاہ ۵:‏۲۰‏)‏ جو لوگ روحانی تاریکی میں رہتے ہیں وہ تاریکی کے خدا،‏ شیطان اِبلیس کے زیرِاثر رہنے کی وجہ سے نتیجتاً،‏ زندگی اور روشنی کے ماخذ سے دُور رہتے ہیں۔‏—‏افسیوں ۴:‏۱۷-‏۱۹‏۔‏

تاریکی سے روشنی—‏ایک چیلنج

۹.‏ بیان کریں کہ خطاکار کیسے حقیقی اور روحانی مفہوم میں تاریکی کے لئے قدرتی کشش رکھتے ہیں۔‏

۹ وفادار ایوب نے اُس قدرتی کشش کی نشاندہی کی جو حقیقی تاریکی میں رہنے والے خطاکاروں کے اندر پائی جاتی ہے:‏ ”‏زانی کی آنکھ بھی شام کی منتظر رہتی ہے۔‏ وہ کہتا ہے کسی کی نظر مجھ پر نہ پڑیگی اور وہ اپنا مُنہ ڈھانک لیتا ہے۔‏“‏ (‏ایوب ۲۴:‏۱۵‏)‏ خطاکار بھی روحانی تاریکی میں ہیں اور ایسی تاریکی اُن پر حاوی ہو سکتی ہے۔‏ پولس رسول نے بیان کِیا کہ تاریکی کے پھندے میں پھنسے ہوئے لوگوں میں جنسی کجروی،‏ چوری،‏ لالچ،‏ نشہ‌بازی،‏ بدزبانی اور ظلم بہت عام ہیں۔‏ مگر خدا کے کلام کی روشنی میں آنے والے لوگ تبدیلی لا سکتے ہیں۔‏ ایسی تبدیلی ممکن ہے اسکا ذکر پولس کرنتھیوں کے نام اپنے خط میں کرتا ہے۔‏ ماضی میں کرنتھس کے اندر تاریکی کے کام کرنے والے بہت سے مسیحیوں سے پولس نے کہا:‏ ”‏مگر تم خداوند یسوؔع مسیح کے نام سے اور ہمارے خدا کے روح سے دُھل گئے اور پاک ہوئے اور راستباز بھی ٹھہرے۔‏“‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۶:‏۹-‏۱۱‏۔‏

۱۰،‏ ۱۱.‏ (‏ا)‏ یسوع نے اُس شخص کے لئے فکرمندی کیسے دکھائی جس کی بینائی اُس نے بحال کی تھی؟‏ (‏ب)‏ کیوں بیشتر لوگ روشنی کو پسند نہیں کرتے؟‏

۱۰ جو شخص گہری تاریکی سے روشنی میں آتا ہے تو اُس کی آنکھوں کو روشنی کا عادی ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔‏ بیت‌صیدا میں یسوع نے ایک نابینا شخص کو شفا دی مگر اُس نے مرحلہ‌وار ایسا کِیا۔‏ ”‏وہ اُس اندھے کا ہاتھ پکڑ کر اُسے گاؤں سے باہر لے گیا اور اُسکی آنکھوں میں تھوک کر اپنے ہاتھ اُس پر رکھے اور اُس سے پوچھا کیا تُو کچھ دیکھتا ہے؟‏ اُس نے نظر اُٹھا کر کہا مَیں آدمیوں کو دیکھتا ہوں کیونکہ وہ مجھے چلتے ہوئے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے درخت۔‏ پھر اُس نے دوبارہ اُسکی آنکھوں پر اپنے ہاتھ رکھے اور اُس نے غور سے نظر کی اور اچھا ہوگیا اور سب چیزیں صاف صاف دیکھنے لگا۔‏“‏ (‏مرقس ۸:‏۲۳-‏۲۵‏)‏ واضح طور پر یسوع نے بتدریج اُس شخص کی بینائی بحال کی تاکہ وہ اپنے آپکو سورج کی روشنی کا عادی بنا سکے۔‏ ہم اُس شخص کی خوشی کا اندازہ کر سکتے ہیں جو بینا ہو گیا تھا۔‏

۱۱ تاہم،‏ جن لوگوں کی روحانی تاریکی سے سچائی کے نور میں داخل ہونے کے لئے مرحلہ‌وار مدد کی گئی ہے اُن کی خوشی اس آدمی کی خوشی سے کہیں زیادہ ہے۔‏ اُن کی خوشی کو دیکھ کر ہم شاید حیران ہوں کہ کیوں زیادہ سے زیادہ لوگ اس روشنی کی جانب بڑھنے کی تحریک نہیں پاتے۔‏ یسوع اس کی توجیح پیش کرتا ہے:‏ ”‏سزا کے حکم کا سبب یہ ہے کہ نور دُنیا میں آیا ہے اور آدمیوں نے تاریکی کو نور سے زیادہ پسند کِیا۔‏ اسلئےکہ اُن کے کام بُرے تھے۔‏ کیونکہ جو کوئی بدی کرتا ہے وہ نور سے دشمنی رکھتا ہے اور نور کے پاس نہیں آتا۔‏ ایسا نہ ہو کہ اُسکے کاموں پر ملامت کی جائے۔‏“‏ (‏یوحنا ۳:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ بیشتر لوگ بداخلاقی،‏ ظلم،‏ جھوٹ،‏ دھوکادہی اور چوری جیسے بُرے کام کرنا پسند کرتے ہیں اور شیطان کی روحانی تاریکی اُنہیں اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اچھا ماحول فراہم کرتی ہے۔‏

نور میں ترقی کرنا

۱۲.‏ روشنی میں آنے سے ہم کن طریقوں سے مستفید ہوئے ہیں؟‏

۱۲ جب ہم روشنی کی بابت علم حاصل کر لیتے ہیں تو ہم اپنے اندر کونسی تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں؟‏ وقتاًفوقتاً اپنی روحانی ترقی کا جائزہ لینا اچھا ہے۔‏ ہم نے کونسی بُری عادات ترک کر دی ہیں؟‏ ہم اپنی زندگی میں کن مسائل کو حل کرنے کے قابل ہوئے ہیں؟‏ مستقبل کی بابت ہمارے منصوبوں میں کیسے تبدیلی آئی ہے؟‏ یہوواہ کی قوت اور اُس کی پاک روح کی مدد سے ہم اپنی شخصیت اور سوچ میں تبدیلی لا سکتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوگا کہ ہم روشنی سے متاثر ہو رہے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ پولس اسے یوں بیان کرتا ہے:‏ ”‏تم پہلے تاریکی میں تھے مگر اب خداوند میں نور ہو۔‏ پس نور کے فرزندوں کی طرح چلو۔‏ (‏اسلئےکہ نور کا پھل ہر طرح کی نیکی اور راستبازی اور سچائی ہے)‏۔‏“‏ (‏افسیوں ۵:‏۸،‏ ۹‏)‏ یہوواہ کے نور سے راہنمائی پانے سے ہمیں نہ صرف اُمید اور مقصد حاصل ہوتا ہے بلکہ ہمارے اردگرد کے لوگوں کی زندگیوں میں بھی بہتری آتی ہے۔‏ نیز ایسی تبدیلیاں لانے سے یہوواہ کا دل کتنا شاد ہوتا ہے!‏—‏امثال ۲۷:‏۱۱‏۔‏

۱۳.‏ ہم یہوواہ کے نور کیلئے اپنی شکرگزاری کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں اور ایسی روش کیلئے کیا درکار ہے؟‏

۱۳ یہوواہ کی روشنی کو منعکس کرنے سے،‏ بائبل سے ہم نے جو کچھ سیکھا ہے اُسے اپنے خاندان کے افراد،‏ دوستوں اور پڑوسیوں کو بتانے سے ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اُس خوشحال زندگی کیلئے کسقدر شکرگزار ہیں جو ہمیں حاصل ہے۔‏ (‏متی ۵:‏۱۲-‏۱۶؛‏ متی ۲۴:‏۱۴‏)‏ جو لوگ ہماری بات سننے سے انکار کرتے ہیں اُن کیلئے ہماری منادی اور قابلِ‌نمونہ مسیحی طرزِزندگی ملامت کا کام دیتی ہے۔‏ پولس بیان کرتا ہے:‏ ”‏تجربہ سے معلوم کرتے رہو کہ خداوند کو کیا پسند ہے۔‏ اور تاریکی کے بےپھل کاموں میں شریک نہ ہو بلکہ اُن پر ملامت ہی کِیا کرو۔‏“‏ (‏افسیوں ۵:‏۱۰،‏ ۱۱‏)‏ دوسروں کو تاریکی سے بچنے میں مدد دینے اور روشنی کا انتخاب کرنے کے لئے ہم سے دلیری کا تقاضا کِیا جاتا ہے۔‏ سب سے بڑھ کر یہ دوسروں کیلئے رحم اور فکرمندی دکھانے اور اُنکے دائمی فائدے کیلئے اُنہیں سچائی کے نور میں شریک کرنے کی مخلص خواہش کا تقاضا کرتا ہے۔‏—‏متی ۲۸:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

باطل روشنیوں سے ہوشیار رہیں!‏

۱۴.‏ جہاں تک روشنی کا تعلق ہے تو ہمیں کس آگاہی پر دھیان دینا چاہئے؟‏

۱۴ تاریکی کے دوران ساحلِ‌سمندر پر موجود لوگ ہر طرح کی روشنی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‏ ماضی میں،‏ انگلینڈ میں طوفان کے دوران پناہ کی جگہ کی نشاندہی کرنے کیلئے چٹانوں کی چوٹیوں پر آگ جلا دی جاتی تھی۔‏ جہاز کا عملہ محفوظ بندرگاہوں تک پہنچنے کیلئے اِن روشنیوں کی راہنمائی کیلئے ممنون ہوا کرتا تھا۔‏ تاہم،‏ بعض روشنیاں باطل ہوا کرتی تھیں۔‏ بندرگاہ تک پہنچنے کی بجائے بہت سے جہاز بھٹک کر چٹانی ساحلوں سے ٹکرا جاتے تھے جہاں اُنکا سامان چرا لیا جاتا تھا۔‏ اس پُرفریب دُنیا میں،‏ ہمیں بھی باطل روشنیوں کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہئے جو کہ ہماری روحانیت کے جہاز کو غرق کر سکتی ہیں۔‏ ہمیں خبردار کِیا گیا ہے کہ ”‏شیطان بھی اپنے آپ کو نورانی فرشتہ کا ہمشکل بنا لیتا ہے۔‏“‏ اسی طرح برگشتہ لوگوں کیساتھ ساتھ اُسکے خادم بھی ”‏دغابازی سے کام کرنے والے ہیں“‏ جو اپنے آپکو ”‏راستبازی کے خادموں کے ہمشکل“‏ بنا لیتے ہیں۔‏ اگر ہم ایسے لوگوں کی باطل سوچ سے متاثر ہو جاتے ہیں تو یہوواہ کے سچائی کے کلام،‏ بائبل پر ہمارا اعتماد اور ایمان کمزور پڑنے سے تباہ ہو سکتا ہے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۱۳-‏۱۵؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۱:‏۱۹‏۔‏

۱۵.‏ کیا چیز ہمیں زندگی کی طرف لیجانے والے راستے پر چلتے رہنے میں مدد دیگی؟‏

۱۵ زبورنویس نے لکھا:‏ ”‏تیرا کلام میرے قدموں کے لئے چراغ اور میری راہ کے لئے روشنی ہے۔‏“‏ (‏زبور ۱۱۹:‏۱۰۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ زندگی کی طرف لیجانے والا سکڑا راستہ،‏ ہمارے شفیق خدا یہوواہ کے ذریعے روشن کر دیا گیا ہے جو ”‏چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں۔‏“‏ (‏متی ۷:‏۱۴؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۲:‏۴‏)‏ بائبل کی پندونصیحت کا اطلاق کرنا ہمیں اُس سکڑے راستے سے اِدھراُدھر بھٹک کر تاریکی کے راستوں پر گم ہو جانے سے محفوظ رکھیگا۔‏ پولس نے لکھا:‏ ”‏ہر ایک صحیفہ جو خدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ‌مند بھی ہے۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶‏)‏ جوں‌جوں ہم روحانی طور پر ترقی کرتے ہیں تو ہم خدا کے کلام سے تعلیم پاتے ہیں۔‏ خدا کے کلام کی روشنی میں ہم خود اپنی اصلاح کر سکتے ہیں یا پھر اگر ضرورت ہو تو کلیسیا کے شفیق چرواہوں سے بھی تنبیہ پا سکتے ہیں۔‏ اسی طرح ہم معاملات کی اصلاح اور فروتنی کیساتھ راستبازی میں تربیت کو قبول کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے قدم زندگی کے راستے پر جمے رہیں۔‏

قدردانی کیساتھ روشنی میں چلیں

۱۶.‏ ہم یہوواہ کے روشنی کے شاندار اہتمام کیلئے قدردانی کیسے دکھا سکتے ہیں؟‏

۱۶ ہم خدا کی روشنی کی شاندار فراہمی کیلئے اپنی قدردانی کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں؟‏ یوحنا کا ۹ باب ہمیں بتاتا ہے کہ جب یسوع نے ایک پیدائشی نابینا شخص کو شفا دی تو اُس نے اپنی قدردانی کا اظہار کرنے کی تحریک پائی۔‏ کیسے؟‏ وہ یسوع پر خدا کے بیٹے کے طور پر ایمان لایا اور اُسکی ”‏نبی“‏ کے طور پر علانیہ شناخت کرائی۔‏ مزیدبرآں،‏ اُس نے یسوع کے معجزے کی تحقیر کرنے کی کوشش کرنے والوں کی دلیری کے ساتھ مخالفت بھی کی۔‏ (‏یوحنا ۹:‏۱۷،‏ ۳۰-‏۳۴‏)‏ پطرس رسول مسیحی کلیسیا کے ممسوح اراکین کو ”‏خاص ملکیت“‏ کہتا ہے۔‏ کیوں؟‏ اسلئےکہ وہ شفا پانے والے اُس نابینا شخص کی طرح متشکر جذبہ رکھتے ہیں۔‏ وہ اپنے محسن یہوواہ کی ’‏خوبیاں ظاہر کرنے سے جس نے اُنہیں تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے‘‏ قدردانی دکھاتے ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۹؛‏ کلسیوں ۱:‏۱۳‏)‏ زمینی اُمید رکھنے والے لوگ بھی ویسا ہی متشکر جذبہ رکھتے ہیں اور وہ یہوواہ کی ”‏خوبیاں“‏ بیان کرنے میں اپنے ممسوح بھائیوں کی مدد کرتے ہیں۔‏ خدا نے ناکامل انسانوں کو کیا ہی شاندار استحقاق بخشا ہے!‏

۱۷،‏ ۱۸.‏ (‏ا)‏ انفرادی طور پر ہر ایک کی کیا ذمہ‌داری ہے؟‏ (‏ب)‏ تیمتھیس کی طرح ہر مسیحی کی کس چیز سے بچنے کیلئے حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے؟‏

۱۷ سچائی کی روشنی کے لئے دلی قدردانی دکھانا نہایت ضروری ہے۔‏ یاد رکھیں کہ ہم میں سے کوئی بھی سچائی کی پہچان کے ساتھ پیدا نہیں ہوا ہے۔‏ بعض نے بالغوں کے طور پر اسے سیکھا ہے اور وہ بہت جلد تاریکی پر روشنی کی برتری کو پہچان گئے ہیں۔‏ دیگر کو خداترس والدین سے پرورش پانے کا شرف حاصل ہے۔‏ ایسے لوگوں کے لئے سچائی کو معمولی خیال کرنا بہت آسان ہے۔‏ ایک گواہ جسکے والدین اُسکی پیدایش سے پہلے ہی یہوواہ کی خدمت کر رہے تھے،‏ تسلیم کرتی ہے کہ اُسے سچائیوں کی مکمل اہمیت کو سمجھنے میں کافی وقت اور کوشش صرف کرنی پڑی اگرچہ وہ بچپن سے انہیں سیکھتی آئی تھی۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۵‏)‏ خواہ ہم بوڑھے ہیں یا جوان،‏ ہم سب کو یہوواہ کی طرف سے آشکارا سچائی کیلئے گہری قدردانی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‏

۱۸ نوجوان تیمتھیس کو بچپن ہی سے ”‏پاک نوشتوں“‏ کی تعلیم دی گئی تھی مگر اُس نے خدمتگزاری میں جانفشانی کرنے سے ہی مسیحی پختگی حاصل کی تھی۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۵‏)‏ اِس کے بعد ہی وہ پولس رسول کی مدد کرنے کے قابل ہوا تھا جس نے اُسے نصیحت کی:‏ ”‏اپنے آپ کو خدا کے سامنے مقبول اور ایسے کام کرنے والے کی طرح پیش کرنے کوشش کر جس کو شرمندہ ہونا نہ پڑے اور جو حق کے کلام کو درستی سے کام میں لاتا ہو۔‏“‏ دُعا ہے کہ تیمتھیس کی مانند ہم سب بھی ایسے کام کرنے سے گریز کریں جن سے ہمیں شرمندہ ہونا پڑ سکتا ہے!‏—‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۵‏۔‏

۱۹.‏ (‏ا)‏ داؤد کی طرح،‏ ہم سب کو کیا کہنا چاہئے؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں کس چیز پر بحث کی جائیگی؟‏

۱۹ ہمارے پاس یہوواہ کی ستایش کرنے کی ہر وجہ موجود ہے جس نے ہمیں اپنی سچائی کی روشنی عطا کی ہے۔‏ بادشاہ داؤد کی مانند ہم کہتے ہیں:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ تُو میرا چراغ ہے اور [‏یہوواہ]‏ میرے اندھیرے کو اُجالا کر دے گا۔‏“‏ (‏۲-‏سموئیل ۲۲:‏۲۹‏)‏ تاہم،‏ ہمیں اپنے حال پر مطمئن نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ ہمارے واپس تاریکی میں جانے کا باعث بن سکتا ہے جس سے ہم نکلے تھے۔‏ پس،‏ مندرجہ‌ذیل مضمون ہمیں اُس اہمیت کا اندازہ لگانے میں مدد دے گا جو ہم الہٰی سچائی کو اپنی زندگیوں میں دیتے ہیں۔‏

آپ نے کیا سیکھا ہے؟‏

‏• یہوواہ روحانی روشن خیالی کیسے عطا کرتا ہے؟‏

‏• ہمارے چوگرد چھائی ہوئی روحانی تاریکی کونسا چیلنج پیش کرتی ہے؟‏

‏• ہمیں کن خطرات سے بچنا چاہئے؟‏

‏• ہم سچائی کی روشنی کیلئے اپنی قدردانی کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۸ پر تصویر]‏

یہوواہ جسمانی اور روحانی روشنی کا ماخذ ہے

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

جیسے یسوع نے نابینا شخص کو بتدریج شفا دی اُسی طرح وہ ہمیں بھی روحانی تاریکی سے نکلنے میں مدد دیتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۱ پر تصویر]‏

شیطان کی باطل روشنی سے گمراہ ہونا روحانی تباہی کا باعث بن سکتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏