خودایثارانہ جذبے کیساتھ خدمت کرنا
میری کہانی میری زبانی
خودایثارانہ جذبے کیساتھ خدمت کرنا
از ڈون رینڈل
میری والدہ کی ۱۹۲۷ میں وفات ہو گئی جبکہ مَیں صرف پانچ سال کا تھا۔ تاہم اُسکے ایمان نے میری زندگی پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا؟
جب میری والدہ کی شادی میرے والد سے ہوئی جو ایک پیشہور فوجی تھا تو وہ چرچ آف انگلینڈ کی ایک سرگرم رُکن تھی۔ یہ پہلی جنگِعظیم سے پہلے کی بات ہے۔ پہلی جنگِعظیم ۱۹۱۴ میں شروع ہوئی تو میری والدہ نے اپنے پادری کیساتھ اس بات پر نااتفاقی کا اظہار کِیا کہ اُس نے فوج میں بھرتی ہونے کی حوصلہافزائی کرنے کیلئے پلپٹ کو استعمال کِیا تھا۔ پادری کا جواب کیا تھا؟ ”تم گھر جاؤ اور ایسے سوالات کی وجہ سے پریشان نہ ہوا کرو!“ اس جواب سے وہ مطمئن نہ ہوئی۔
سن ۱۹۱۷ میں، جب جنگ اپنے عروج پر تھی تو ماں ”فوٹو-ڈرامہ آف کریئیشن“ دیکھنے کیلئے گئی۔ اِس یقین کیساتھ کہ اُسے سچائی مل گئی ہے اُس نے فوراً چرچ کو چھوڑ کر اُس وقت بائبل طالبعلم کہلانے والے یہوواہ کے گواہوں سے رفاقت رکھنا شروع کر دی۔ وہ انگلینڈ کی کاؤنٹی سمرسٹ میں ہمارے گاؤں ویسٹ کوکر کے قریبی قصبے یوول کی ایک کلیسیا کے ساتھ اجلاسوں پر حاضر ہونے لگی۔
جلد ہی ماں نے اپنے نئے ایمان کی بابت اپنی تین بہنوں کو بتایا۔ یوول کی کلیسیا کے عمررسیدہ ارکان نے مجھے بتایا کہ کیسے میری والدہ اور خالہ ملی گرمجوشی سے ہمارے وسیعوعریض دیہی علاقے میں سائیکل پر سوار بائبل کی سمجھ حاصل کرنے کے لئے امدادی کتابیں سٹیڈیز ان دی سکرپچرز تقسیم کِیا کرتی تھیں۔ مگر افسوس کہ اپنی زندگی کے آخری ۱۸ مہینوں کے دوران میری والدہ تپدِق کی وجہ سے بستر پر پڑی رہی کیونکہ تپدِق اُس وقت ایک لاعلاج مرض تھا۔
خودایثاری کا عملی مظاہرہ
ماں کی بیماری کے دوران خالہ ملی نے جو اُس وقت ہمارے ساتھ ہی رہا کرتی تھی اُنکی تیمارداری کرنے کیساتھ ساتھ میری اور میری سات سالہ بہن جون کی بھی دیکھبھال کی۔ جب ہماری ماں وفات پا گئی تو خالہ ملی نے فوراً ہم بچوں کی دیکھبھال کرنے کی پیشکش کی۔ میرے والد نے خوشی سے یہ ذمہداری انکے حوالہ کی اور اس بات کیلئے راضی ہو گئے کہ خالہ ملی مستقل طور پر ہمارے ساتھ رہیں۔
ہم اپنی خالہ سے پیار کرنے لگے تھے اور خوش تھے کہ اب وہ ہمارے ساتھ ہی رہینگی۔ لیکن اُس نے یہ فیصلہ کیوں کِیا تھا؟ کئی سال بعد خالہ ملی نے ہمیں بتایا کہ وہ جانتی تھی کہ یہ اُسکی ذمہداری میں شامل ہے کہ مجھے اور جون کو بائبل سچائی سکھائے جسکی بنیاد ہماری ماں نے رکھی تھی اور اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ ہمارے والد ایسا کبھی نہیں کرینگے کیونکہ وہ مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
بعدازاں ہمیں معلوم ہوا کہ خالہ ملی نے ایک اَور ذاتی فیصلہ بھی کِیا تھا کہ وہ ہماری دیکھبھال پر پوری توجہ دینے کیلئے کبھی شادی نہیں کریگی۔ کیا ہی خودایثارانہ جذبہ! واقعی میرے اور جون کے پاس اُسکے شکرگزار ہونے کی ہر وجہ موجود تھی۔ خالہ ملی کی تربیت اور اُسکا شاندار نمونہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہا ہے۔
فیصلے کا وقت
جون اور مَیں چرچ آف انگلینڈ کے دیہی سکول میں جایا کرتے تھے جہاں خالہ ملی نے ہیڈمسٹرس کے روبُرو ہماری مذہبی تعلیم کی بابت نہایت ٹھوس مؤقف اختیار کِیا۔ جب دوسرے بچے چرچ جایا کرتے تھے تو ہم گھر چلے جاتے تھے اور جب پادری مذہبی تعلیم دینے کیلئے سکول آتا تو ہمیں الگ بیٹھ کر زبانی صحیفے یاد کرنے کی تفویض دے دی جاتی تھی۔ یہ میرے لئے نہایت فائدہمند ثابت ہوا کیونکہ یہ صحیفے میرے ذہن میں ہمیشہ کیلئے نقش ہو گئے تھے۔
مَیں نے پنیر بنانے کی ایک مقامی فیکٹری میں چار سال کی پیشہوارانہ تربیت حاصل کرنے کیلئے ۱۴ سال کی عمر میں سکول چھوڑ دیا۔ مَیں نے پیانو بجانا بھی سیکھا لہٰذا موسیقی اور بالروم ڈانسنگ میرے مشاغل بن گئے۔ میرے دل میں موجود بائبل سچائی نے ابھی تک مجھے کوئی تحریک نہیں دی تھی۔ پھر ایک دن مارچ ۱۹۴۰ میں ایک عمررسیدہ گواہ نے مجھے اپنے ساتھ تقریباً ۱۱۰ کلومیٹر کے فاصلے پر سونڈن میں ایک اسمبلی پر شرکت کرنے کی دعوت دی۔ برطانیہ میں یہوواہ کے گواہوں کے صدارتی خادم البرٹ ڈی. شروڈر نے عوامی خطاب پیش کِیا۔ وہ اسمبلی میری زندگی میں ایک نقطۂانقلاب ثابت ہوئی۔
دوسری جنگِعظیم زور پکڑ رہی تھی۔ سوال یہ تھا کہ کیا میری زندگی کا کوئی مقصد ہے؟ مَیں نے دوبارہ یوول کے کنگڈم ہال جانے کا فیصلہ کِیا۔ جب مَیں پہلی مرتبہ اجلاس پر حاضر ہوا تو اُسی دن گلیکوچوں میں گواہی دینے کی مہم کا آغاز ہوا۔ اپنے محدود علم کے باوجود، مَیں نے رضاکارانہ طور پر اس کارگزاری میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار کِیا اور میرے دوستوں کو اس پر بڑی حیرت ہوئی اور وہ میرا تمسخر اُڑانے لگے!
مَیں نے جون ۱۹۴۰ میں برسٹل کے شہر میں بپتسمہ لیا۔ ایک مہینے کے اندر اندر مَیں نے اپنا اندراج کُلوقتی مُناد یا باقاعدہ پائنیر کے طور پر کرایا۔ کچھ عرصہ بعد، جب میری بہن نے اپنی مخصوصیت کے اظہار میں پانی کا بپتسمہ لیا تو مَیں نہایت خوش ہوا!
جنگ کے دوران پائنیر خدمت کرنا
جنگ شروع ہونے کے ایک سال بعد مجھے فوج میں بھرتی ہونے کیلئے کاغذات موصول ہوئے۔ یوول میں مذہبی اصولوں کی بنیاد پر جنگ میں * بعدازاں، کارمارتھن کی عدالت نے مجھے سوانسی جیل میں تین مہینے قید کی سزا سنائی اور اسکے علاوہ مجھے ۲۵ پونڈ جرمانہ ادا کرنے کیلئے کہا گیا جو اُس وقت ایک بھاری رقم سمجھی جاتی تھی۔ بعدازاں مجھے جرمانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے مزید تین مہینے قید کی سزا سنائی گئی۔
حصہ نہ لینے والوں میں اندراج کرانے کی وجہ سے مجھے برسٹل کی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ مَیں نے جان وِن کیساتھ گلوسٹرشائر، سنڈرفورڈ اور بعد میں ہاورفورڈویسٹ اور کارمارتھن، ویلز میں پائنیر خدمت انجام دی۔عدالت میں تیسری سماعت پر مجھ سے پوچھا گیا: ”کیا تم بائبل کے اس بیان سے واقف نہیں کہ ’جو قیصرؔ کا ہے قیصرؔ کو ادا کرو‘؟“ ”جی مَیں جانتا ہوں،“ مَیں نے جواب، ”لیکن مَیں اس آیت کو پورا کرنا چاہونگا: ’اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔‘ اور مَیں یہی کر رہا ہوں۔“ (متی ۲۲:۲۱) کچھ ہفتوں بعد مجھے ایک خط ملا جس میں مجھے فوجی خدمت سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔
سن ۱۹۴۵ کے اوائل میں مجھے لندن کے بیتایل خاندان کا حصہ بننے کی دعوت دی گئی۔ اگلے موسمِسرما میں، عالمگیر منادی کی کارگزاری کو منظم کرنے میں پیشوائی کرنے والے ناتھن ایچ. نار اور انکے سیکرٹری ملٹن جی. ہینشل نے لندن کا دورہ کِیا۔ برطانیہ کے آٹھ نوجوان بھائیوں کا اندراج مشنری تربیت کیلئے واچٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ میں کِیا گیا اور مَیں ان میں سے ایک تھا۔
مشنری تفویضات
مئی ۲۳، ۱۹۴۶ میں ہم جنگ کے دوران بنائے جانے والے بحری جہازوں میں سے ایک میں سوار ہو کر کورنوال کی چھوٹی بندرگاہ فوئے سے روانہ ہوئے۔ جونہی ہم بندرگاہ سے روانہ ہوئے تو بندرگاہ کے منتظم کیپٹن کالنز نے جو یہوواہ کا گواہ تھا سائرن بجایا۔ قدرتی بات ہے کہ ہم سب نے ملےجلے جذبات کیساتھ برطانیہ کے ساحل کو نظروں سے اُوجھل ہوتے ہوئے دیکھا۔ بحراوقیانوس پار کرنا ایک نہایت دشوارگزار سفر ثابت ہوا لیکن ۱۳ دن بعد ہم صحیحسلامت ریاستہائےمتحدہ پہنچ گئے۔
کلیولینڈ، اوہائیو میں ۱۹۴۶ میں اگست ۴ تا ۱۱، آٹھ روزہ یادگار بینالاقوامی مسرور اقوام تھیوکریٹک اسمبلی پر حاضر ہونا ایک یادگار تجربہ تھا۔ اس پر آٹھ ہزار مندوبین حاضر تھے جن میں سے ۳۰۲ نمائندوں کا تعلق ۳۲ مختلف ممالک سے تھا۔ اس کنونشن پر پُرجوش ہجوم کیلئے اویک! * رسالے کیساتھ ساتھ بائبل کی امدادی کتاب ”لیٹ گاڈ بی ٹریو“ کی بھی رونمائی ہوئی۔
ہم ۱۹۴۷ میں گلئیڈ سے فارغالتحصیل ہوئے اور بل کوپسن کو اور مجھے مصر جانے کی تفویض دی گئی۔ لیکن روانہ ہونے سے پہلے مَیں نے بروکلن بیتایل میں ریچرڈ ایبراہامسن سے دفتری کاموں کی عمدہ تربیت حاصل کی۔ جب ہم سکندریہ کے ساحل پر اُترے تو مَیں نے مشرقِوسطیٰ کے طرزِزندگی سے مطابقت پیدا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لیا۔ عربی زبان سیکھنا ایک چیلنج تھا تاہم مجھے چار مختلف زبانوں میں چھپے ہوئے بادشاہتی پیغام کے کارڈ استعمال کرنے پڑے۔
بل کوپسن سات سال تک وہاں رہا لیکن ویزا کی تجدید نہ ہونے کی وجہ سے مجھے ایک سال بعد ملک چھوڑنا پڑا۔ وہ سال میری زندگی میں مشنری خدمت کا
سب سے بااجر سال رہا تھا۔ مجھے ہر ہفتے ۲۰ سے زائد گھریلو بائبل مطالعے کرانے کا شرف حاصل ہوا جن میں سے سچائی سیکھنے والے بعض اشخاص ابھی تک سرگرمی سے یہوواہ کی تمجید کر رہے ہیں۔ مصر سے مجھے قبرص بھیج دیا گیا۔قبرص اور اسرائیل
مَیں نے ایک نئی زبان، یونانی سیکھنا اور عام بولچال سے واقف ہونا شروع کر دیا۔ تھوڑے عرصے بعد، جب انتھونی سائڈرس کو یونان منتقل کِیا گیا تو مجھے قبرص میں کام کی نگرانی سونپ دی گئی۔ اُس وقت قبرص کا برانچ آفس اسرائیل میں ہونے والے کام کی بھی نگرانی کرتا تھا لہٰذا مجھے وقتاًفوقتاً وہاں کے چند گواہوں سے ملاقات کا موقع بھی ملا۔
اسرائیل میں میرے پہلے دورے پر ہم نے ہائفا کے ایک ہوٹل میں ایک چھوٹی سی اسمبلی منعقد کی جس پر ۵۰ یا ۶۰ لوگ حاضر تھے۔ لوگوں کو قومی گروپوں میں تقسیم کرنے سے ہم نے اسمبلی کا پروگرام چھ مختلف زبانوں میں پیش کِیا! ایک اَور موقع پر مَیں یروشلیم میں یہوواہ کے گواہوں کی بنی ہوئی ایک فلم دکھانے کے قابل ہوا اور مَیں نے عوامی تقریر بھی پیش کی جس پر ایک انگریزی اخبار نے مثبت رپورٹ شائع کی تھی۔
اُس وقت قبرص میں تقریباً ۱۰۰ گواہ تھے جنہیں اپنے ایمان کیلئے جانفشانی کرنے کی ضرورت تھی۔ یونان کے آرتھوڈکس چرچ کے پادریوں کے اُکسانے پر بِھیڑ نے ہماری اسمبلیوں میں خلل پیدا کِیا اور دیہی علاقوں میں منادی کرتے ہوئے پتھروں کا نشانہ بننا میرے لئے ایک نیا تجربہ تھا۔ مجھے یہ سیکھنا پڑا کہ کیسے جلدی سے اپنی جان بچائی جا سکتی ہے! ایسی پُرتشدد مخالفت کے دَور میں اس جزیرے پر مزید مشنریوں کا آنا ایمانافزا ثابت ہوا۔ ڈینس اور میوس میتھیوز کے علاوہ، جون ہلی اور بیرل ہیوڈ میرے ساتھ فاماگسٹا میں رہے جبکہ ٹام اور میری گاؤلڈن اور قبرص میں رہنے والی نینا کونسٹینٹی جسکی پیدائش لندن کی تھی لیماسول چلے گئے۔ اسی دوران بل کوپسن کا بھی قبرص تبادلہ ہوگیا اور بعدازاں برٹ اور بیرل ویزی کو بھی اُسکے پاس بھیج دیا گیا۔
حالات کیساتھ مطابقت پیدا کرنا
سن ۱۹۵۷ کے آخر پر، مَیں بیمار پڑ گیا اور اپنی مشنری تفویض جاری نہ رکھ سکا۔ انتہائی افسوس کیساتھ مجھے صحت کی بحالی کیلئے انگلینڈ واپس جانے کا فیصلہ کرنا پڑا جہاں پر مَیں ۱۹۶۰ تک پائنیر خدمت انجام دیتا رہا۔ میری بہن اور اُسکے شوہر نے ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے مجھے اپنے گھر میں جگہ دی لیکن حالات بدل چکے تھے۔ جون کیلئے حالات سے نپٹنا مشکل ہو گیا تھا۔ میری ۱۷ سالہ غیرموجودگی کے دوران اُس نے اپنے شوہر اور بچی کے علاوہ ہمارے والد اور خالہ ملی کی بھی پُرمحبت دیکھبھال کی تھی جو اس وقت تک عمررسیدہ ہونے کی وجہ سے بیمار رہنے لگے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ میری خالہ کے خودایثارانہ نمونے پر چلنے کی ضرورت ہے لہٰذا اپنی خالہ اور والد کی وفات تک مَیں اپنی بہن کیساتھ رہا۔
میرے لئے انگلینڈ میں قیام کرنا بہت آسان تھا لیکن کچھ ہی عرصے بعد مَیں نے اپنی تفویض پر لوٹنے کی ذمہداری کو محسوس کِیا۔ کیا یہوواہ کی تنظیم نے میری تربیت پر خاصی رقم خرچ نہیں کی تھی؟ لہٰذا ۱۹۷۲ میں، مَیں دوبارہ پائنیر خدمت شروع کرنے کیلئے اپنے خرچے پر قبرص واپس لوٹ گیا۔
اگلے ہی سال ناتھن ایچ. نار ایک کنونشن منعقد کرنے کیلئے وہاں آیا۔ جب اُسے میری واپسی کا پتہ چلا تو اُس نے پورے جزیرے کے سرکٹ اوورسیئر کے طور پر میری تقرری کی سفارش کی اور مجھے چار سال تک یہ شرف
حاصل رہا۔ یہ ایک بےحوصلہ کرنے والی تفویض تھی کیونکہ مجھے بیشتر وقت یونانی زبان بولنا پڑتی تھی۔مصیبت کا وقت
مَیں شمالی ساحل پر کائرینیا کے مشرق میں کاراکومی کے گاؤں میں قبرص کے ایک یونانی زبان بولنے والے گواہ پول انڈریو کیساتھ ایک گھر میں رہنے لگا۔ قبرص کا برانچ آفس کائرینیا کے پہاڑوں کے جنوب میں نکوسیا میں واقع تھا۔ مَیں جولائی ۱۹۷۴ کے اوائل میں نکوسیا میں تھا جب صدر مکاریوس کو ہٹانے کا انقلاب برپا ہوا اور مَیں نے اُسکے محل کو جلتے ہوئے دیکھا۔ جب سفر کے دوران کسی طرح کا خطرہ نہ رہا تو مَیں جلدازجلد کائرینیا لوٹا جہاں ہم سرکٹ اسمبلی کی تیاری کر رہے تھے۔ دو دن بعد مَیں نے بندرگاہ پر پہلا بم دھماکا سنا اور آسمان پر ترکی فوجبردار حملہآور ہیلیکاپٹروں کو پرواز کرتے دیکھا۔
ایک برطانوی ہونے کی وجہ سے ترکی کے فوجی مجھے نکوسیا کے مضافات میں لے گئے جہاں اقوامِمتحدہ کے کارکنوں نے مجھ سے پوچھگچھ کرنے کے بعد برانچ آفس سے رابطہ کِیا۔ بعدازاں مجھے ارضِفاصل میں واقع ویران گھروں اور ٹیلیفون اور بجلی کی اُلجھی ہوئی تاروں میں سے دشوارگزار سفر طے کرنا پڑا۔ مَیں کسقدر خوش تھا کہ یہوواہ خدا کے ساتھ میرا رابطہ منقطع نہیں کِیا جا سکا تھا! میری دُعاؤں نے مجھے میری زندگی کے نہایت اذیتناک تجربات کے دوران ثابتقدم رکھا تھا۔
اپنا سارا سامان کھو دینے کے باوجود، مَیں برانچ آفس میں حاصل ہونے والے تحفظ کی بدولت خوش تھا۔ تاہم یہ صورتحال زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ کچھ ہی دنوں میں حملہآور فوجوں نے جزیرے کے شمالی حصے کے ایک تہائی پر قبضہ کر لیا۔ بیتایل کو بند کرنا پڑا اور ہم لیماسول منتقل ہو گئے۔ وہاں مجھے اس مشکل سے دوچار ۳۰۰ بھائیوں کی دیکھبھال کرنے کیلئے تشکیل دی جانے والی ایک کمیٹی کیساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا جن میں سے بہتیرے اپنے گھربار کھو چکے تھے۔
تفویض میں مزید تبدیلیاں
جنوری ۱۹۸۱ میں، گورننگ باڈی نے مجھے یونان منتقل ہونے اور اتھینے کے بیتایل خاندان کا رُکن بننے کی دعوت دی، لیکن سال کے آخر پر مجھے قبرص میں برانچ کمیٹی کوارڈینیٹر کی تفویض سونپ دی گئی۔ لندن سے قبرص آنے والے انتھریس کونٹویورگس اور اُسکی بیوی میرو میرے لئے باعثِ ”تسلی“ ثابت ہوئے۔—کلسیوں ۴:۱۱۔
سن ۱۹۸۴ میں تھیوڈور جیرس کے زون وزٹ کے اختتام پر مجھے گورننگ باڈی کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں سادہ الفاظ میں یہ بیان کِیا گیا تھا: ”جب بھائی جیرس کا دورہ مکمل ہو جائے تو ہم چاہینگے کہ آپ ان کیساتھ یونان جائیں۔“ کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی تھی لیکن جب ہم یونان پہنچے تو گورننگ باڈی کی طرف سے ایک اَور خط پڑھا گیا جس میں مجھے اس ملک میں برانچ کمیٹی کوارڈینیٹر کے طور پر مقرر کِیا گیا تھا۔
اس وقت یونان میں برگشتگی پھیل رہی تھی۔ غیرقانونی نواعتقادی کی بابت بھی کئی الزامات لگائے جا رہے تھے۔ روزانہ یہوواہ کے لوگوں کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کِیا جا رہا تھا۔ آزمائش کے تحت اپنی راستی کو برقرار رکھنے والے بھائیوں سے واقفیت کتنا بڑا شرف تھا! بعدازاں ان پر چلائے *
گئے بعض مقدموں کی سماعت ہیومن رائٹس کی یورپی عدالت میں ہوئی جنکے شاندار نتائج نے یونان میں منادی کے کام پر اچھا اثر ڈالا۔یونان میں خدمت کے دوران مجھے اتھینے، تھسلنیکے اور کریتے اور روڈز کے جزائر پر بڑے بڑے کنونشنوں پر حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ چار سال نہایت پُرمسرت اور بااجر ثابت ہوئے لیکن ایک اَور تبدیلی رونما ہونے والی تھی—۱۹۸۸ میں قبرص کو واپسی۔
قبرص اور یونان میں واپسی
قبرص میں میری غیرموجودگی کے دوران بھائیوں نے نکوسیا سے کچھ میل کے فیصلے پر نیسو میں برانچ کیلئے نئی عمارتیں حاصل کر لی تھیں اور یہوواہ کے گواہوں کے بروکلن ہیڈکوارٹرز سے کیری باربر نے مخصوصیت کی تقریر پیش کی۔ اب اس جزیرے پر حالات بہتر ہو گئے تھے اور مَیں واپس لوٹنے پر خوش تھا لیکن یہ صورتحال زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔
گورننگ باڈی نے یونان میں اتھینے کے شمال میں چند میل کے فاصلے پر ایک نیا بیتایل ہوم تعمیر کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی تھی۔ چونکہ مَیں انگریزی اور یونانی دونوں زبانیں بول سکتا تھا لہٰذا مجھے ۱۹۹۰ میں بینالاقوامی خادموں کے خاندان کیلئے بطور ترجمان اس جگہ کام کرنے کی دعوت دی گئی جہاں نئی عمارت تعمیر کی جا رہی تھی۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ مَیں کسقدر خوشی کیساتھ موسمِگرما کی صبح چھ بجے وہاں پہنچ جاتا اور تعمیر کا کام کرنے والے خاندان کیساتھ ملکر رضاکارانہ خدمت کرنے والے ہزاروں یونانی بہنبھائیوں کا خیرمقدم کِیا کرتا تھا۔ اُن کی خوشی اور گرمجوشی کی یادیں ہمیشہ میرے ساتھ رہینگی۔
یونان کے آرتھوڈکس پادریوں اور ان کے حمایتیوں نے تعمیر کی جگہ پر آ کر ہمارے کام میں خلل ڈالنے کی کوشش کی لیکن یہوواہ نے ہماری دُعائیں سن لی اور ہمیں اُسکا تحفظ حاصل رہا۔ مَیں اپریل ۱۳، ۱۹۹۱ تک تعمیر کی اس جگہ پر رہا اور مجھے نئے بیتایل ہوم کی مخصوصیت دیکھنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔
اپنی عزیز بہن کی مدد کرنا
اگلے سال مَیں چھٹیوں پر انگلینڈ گیا اور اپنی بہن اور اُسکے شوہر کیساتھ رہا۔ افسوس کہ میرے وہاں قیام کے دوران میرے بہنوئی کو دوسری مرتبہ دل کا دورہ پڑا اور وہ وفات پا گیا۔ جون نے میری مشنری خدمت کے دوران میری بھرپور مدد کی تھی۔ ایسا کوئی ہفتہ نہیں گزرا تھا جب اُس نے مجھے حوصلہافزائی کا کوئی خط نہ بھیجا ہو۔ ایک مشنری خادم کے لئے ایسا رابطہ باعثِبرکت ہوتا ہے! اب وہ ایک بیوہ تھی جسکی صحت ناسازگار رہتی تھی اور جسے مدد کی ضرورت تھی۔ مجھے کیا کرنا چاہئے؟
جون کی بیٹی تھلما اور اُسکا شوہر پہلے ہی سے اپنی کلیسیا کی ایک اَور وفادار بیوہ بہن کی دیکھبھال میں مصروف تھے جو کہ ہماری رشتہدار تھی اور ایک جانلیوا بیماری میں مبتلا تھی۔ لہٰذا دُعائیہ غوروفکر کے بعد مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مجھے وہاں رہ کر جون کی دیکھبھال میں مدد کرنی چاہئے۔ اس صورتحال سے مطابقت پیدا کرنا آسان نہیں تھا تاہم مجھے یوول کی دو کلیسیاؤں میں سے ایک کلیسیا پینمل میں بزرگ کے طور پر خدمت کرنے کا شرف حاصل ہے۔
مَیں نے بیرونِملک میں جن بھائیوں کیساتھ خدمت انجام دی وہ ٹیلیفون اور خطوکتابت کے ذریعے میرے ساتھ باقاعدہ رابطہ رکھتے ہیں جس کیلئے مَیں نہایت شکرگزار ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مَیں یونان یا قبرص لوٹنے کی خواہش کا اظہار کروں تو مجھے فوراً ٹکٹ مہیا کی جائینگی۔ لیکن اب میری عمر ۸۰ سال ہے اور میری بینائی اور صحت پہلے جیسی نہیں۔ پہلے کی طرح کام کرنے کے قابل نہ ہونا واقعی نہایت مایوسکُن ہے لیکن میری کئی سالوں کی بیتایل خدمت نے ایسی کئی عادات کو فروغ دینے میں میری مدد کی ہے جو آج تک میرے لئے فائدہمند ثابت ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر، مَیں ہمیشہ ناشتے سے پہلے روزانہ کی آیت پڑھتا ہوں۔ مَیں نے لوگوں کیساتھ مطابقت پیدا کرنا اور اُن سے محبت کرنا بھی سیکھا ہے جو کہ کامیاب مشنری خدمت کی کُنجی ہے۔
جب مَیں یہوواہ کی تمجید میں صرف کئے گئے تقریباً ۶۰ شاندار سالوں کو یاد کرتا ہوں تو مَیں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کُلوقتی خدمت سب سے بڑا تحفظ ہے اور بہترین تعلیم فراہم کرتی ہے۔ مَیں پورے دل سے یہوواہ کیلئے داؤد کے الفاظ دہرا سکتا ہوں: ”تُو میرا اُونچا بُرج ہے اور میری مصیبت کے دن میری پناہگاہ۔“—زبور ۵۹:۱۶۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 18 ستمبر ۱، ۱۹۹۷ کے دی واچٹاور کے شمارے میں صفحہ ۲۵-۲۸ پر جان وِن کی سوانححیات ”میرا دل شکرگزاری سے معمور ہے“ شائع ہوئی تھی۔
^ پیراگراف 23 پہلے یہ کنسولیشن کے نام سے شائع ہوتا تھا۔
^ پیراگراف 41 دی واچٹاور، دسمبر ۱، ۱۹۹۸ کے صفحہ ۲۰،۲۱ اور نومبر ۱، ۱۹۹۳، کے صفحہ ۲۷-۳۱؛ اویک! جنوری ۸، ۱۹۹۸، صفحہ ۲۱-۲۲ اور مارچ ۲۲، ۱۹۹۷، صفحہ ۱۴-۱۵ کا مطالعہ کریں۔
[صفحہ ۲۴ پر نقشے]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
[صفحہ ۲۴ پر تصویر کی عبارت]
یـونـان
اتھینے
قـبـرص
نکوسیا
کائرینیا
فاماگسٹا
لیماسول
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
سن ۱۹۱۵ میں میری والدہ
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
سن ۱۹۴۶ میں بروکلن بیتایل کی چھت پر آٹھویں گلئیڈ کلاس کے دیگر بھائیوں کیساتھ (مَیں بائیں طرف چوتھے نمبر پر)
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
انگلینڈ میں پہلی بار واپس لوٹنے پر خالہ ملی کیساتھ