مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سچائی آپ کیلئے کتنی گراں‌بہا ہے؟‏

سچائی آپ کیلئے کتنی گراں‌بہا ہے؟‏

سچائی آپ کیلئے کتنی گراں‌بہا ہے؟‏

‏”‏سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تُم کو آزاد کریگی۔‏“‏—‏یوحنا ۸:‏۳۲‏۔‏

۱.‏ پیلاطُس کا لفظ ”‏حق“‏ کا استعمال بظاہر یسوع کے اس لفظ کے استعمال سے کیسے مختلف ہے؟‏

‏”‏حق کیا ہے؟‏“‏ جب پیلاطُس نے یہ سوال پوچھا تو ایسا لگتا تھا کہ اُسکی نظر میں سچائی بظاہر ایک عام چیز تھی۔‏ اس کے برعکس،‏ یسوع نے کچھ ہی دیر پہلے کہا تھا:‏ ”‏مَیں اسلئے پیدا ہوا اور اس واسطے دُنیا میں آیا ہوں کہ حق پر گواہی دوں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۷،‏ ۳۸‏)‏ یسوع الہٰی سچائی کا ذکر کر رہا تھا۔‏

سچائی کی بابت دُنیا کا رویہ

۲.‏ یسوع کا کونسا بیان سچائی کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے؟‏

۲ پولس نے کہا:‏ ”‏سب میں ایمان نہیں۔‏“‏ (‏۲-‏تھسلنیکیوں ۳:‏۲‏)‏ سچائی کی بابت بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔‏ جب بائبل پر مبنی سچائی کا سامنا کرنے کی بات آتی ہے تو بہتیرے لوگ جان‌بوجھ کر اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔‏ تاہم یہ کتنی گراں‌بہا ہے!‏ یسوع نے فرمایا:‏ ”‏سچائی سے واقف ہوگے اور سچائی تم کو آزاد کریگی۔‏“‏—‏یوحنا ۸:‏۳۲‏۔‏

۳.‏ مکارانہ تعلیمات کے سلسلے میں ہمیں کس آگاہی پر دھیان دینا چاہئے؟‏

۳ پولس رسول نے کہا کہ سچائی انسانی فیلسوفی اور روایات میں نہیں پائی جاتی تھی۔‏ (‏کلسیوں ۲:‏۸‏)‏ بِلاشُبہ ایسی تعلیمات محض دھوکا ہیں۔‏ پولس نے افسس کے مسیحیوں کو آگاہ کِیا کہ اگر وہ انسانی فیلسوفیوں اور روایات پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ روحانی بچوں کی مانند ہونگے جو ”‏آدمیوں کی بازیگری اور مکاری کے سبب سے اُنکے گمراہ کرنے والے منصوبوں کی طرف ہر ایک تعلیم کے جھوکے سے موجوں کی طرح اُچھلتے بہتے“‏ پھرتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۱۴‏)‏ آجکل ”‏آدمیوں کی بازیگری اور مکاری“‏ کو اُن لوگوں کے پروپیگنڈے سے تحریک ملتی ہے جو الہٰی سچائی کے مخالف ہیں۔‏ دی نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا ”‏پروپیگنڈے“‏ کی ”‏دوسرے لوگوں کے عقائد،‏ رُجحانات یا افعال پر اثرانداز ہونے کی منظم کوشش کے طور پر تشریح کرتا ہے۔‏“‏ ایسا پروپیگنڈا مکاری کیساتھ سچائی کو توڑمروڑ کر جھوٹ میں بدل دیتا ہے اور جھوٹ کی سچائی کے طور پر تشہیر کرتا ہے۔‏ ایسے پُرفریب دباؤ کی صورت میں ہمیں سچائی کو تلاش کرنے کے لئے مستعدی کیساتھ صحائف سے رجوع کرنا چاہئے۔‏

مسیحی اور دُنیا

۴.‏ سچائی کن کیلئے دستیاب ہے اور اسے پا لینے والوں کی کیا ذمہ‌داری ہے؟‏

۴ یسوع نے اُن لوگوں کی بابت دُعا کرتے ہوئے جو اُس کے شاگرد بن گئے تھے یہوواہ سے درخواست کی:‏ ”‏اُنہیں سچائی کے وسیلہ سے مُقدس کر۔‏ تیرا کلام سچائی ہے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۷‏)‏ ایسے اشخاص یہوواہ کی خدمت کرنے اور اُسکے نام اور بادشاہی کا پرچار کرنے کیلئے مُقدس یا مخصوص کئے جائینگے۔‏ (‏متی ۶:‏۹،‏ ۱۰؛‏ ۲۴:‏۱۴‏)‏ اگرچہ یہ سب کی ملکیت تو نہیں،‏ توبھی یہوواہ کی سچائی اسکے متلاشیوں کی قومیت،‏ نسل یا ثقافتی پس‌منظر سے قطع‌نظر سب کیلئے مُفت دستیاب ہے۔‏ پطرس رسول نے بیان کِیا:‏ ”‏اَب مجھے پورا یقین ہو گیا کہ خدا کسی کا طرفدار نہیں۔‏ بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُسکو پسند آتا ہے۔‏“‏—‏اعمال ۱۰:‏۳۴،‏ ۳۵‏۔‏

۵.‏ مسیحیوں کو اکثر کیوں ستایا جاتا ہے؟‏

۵ مسیحی دوسروں کے پاس بائبل سچائی لے کر جاتے ہیں مگر ہر جگہ اُنکا خیرمقدم نہیں کِیا جاتا۔‏ یسوع نے آگاہ کِیا:‏ ”‏لوگ تمکو ایذا دینے کے لئے پکڑوائینگے اور تمکو قتل کرینگے اور میرے نام کی خاطر سب قومیں تم سے عداوت رکھینگی۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۹‏)‏ اس آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے،‏ آئرش پادری جان آر.‏ کوٹر نے ۱۸۱۷ میں لکھا:‏ ”‏درحقیقت اپنی منادی کے ذریعے نوعِ‌انسان کی زندگیاں تبدیل کرنے کی اُنکی [‏مسیحی]‏ کوششیں لوگوں کے شکرگزار ہونے کی بجائے،‏ شاگردوں سے نفرت کرنے اور اُنہیں اذیت دینے کا سبب بنی ہیں۔‏ ان اذیت دینے والوں نے ’‏حق کی محبت کو اختیار نہیں کِیا جس سے ان کی نجات ہو سکتی تھی۔‏‘‏ اسی سبب سے ”‏خدا انکے پاس گمراہ کرنے والی تاثیر بھیجیگا تاکہ وہ جھوٹ کو سچ جانیں۔‏ اور جتنے لوگ حق کا یقین نہیں کرتے بلکہ ناراستی کو پسند کرتے ہیں وہ سب سزا پائیں۔‏“‏—‏۲-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۱۰-‏۱۲‏۔‏

۶.‏ ایک مسیحی کو کونسی خواہش پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے؟‏

۶ یوحنا رسول اس مخالف دُنیا میں رہنے والے مسیحیوں کو تاکید کرتا ہے:‏ ”‏نہ دُنیا سے محبت رکھو نہ اُن چیزوں سے جو دُنیا میں ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ کیونکہ جوکچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۲:‏۱۵،‏ ۱۶‏)‏ یوحنا ”‏جوکچھ“‏ کے اظہار کے استعمال سے کسی بھی چیز کو خارج‌ازامکان نہیں کرتا۔‏ اس وجہ سے ہمیں کسی بھی ایسی چیز کی خواہش نہیں کرنی چاہئے جو یہ دُنیا پیش کرتی ہے اور جو ہمیں سچائی سے منحرف کر سکتی ہے۔‏ یوحنا کی مشورت پر دھیان دینا ہماری زندگیوں پر گہرا اثر ڈالے گا۔‏ وہ کیسے؟‏

۷.‏ سچائی کا علم راستدل لوگوں کو کیسے تحریک دیتا ہے؟‏

۷ یہوواہ کے گواہوں نے سن ۲۰۰۱ کے دوران دُنیابھر میں ہر ماہ ساڑھے چار ملین سے زیادہ بائبل مطالعے کرائے اور انفرادی اور اجتماعی طور پر لوگوں کو الہٰی تقاضوں کی مطابقت میں زندگی بسر کرنے کی تعلیم دی۔‏ نتیجتاً،‏ ۴۳۱،‏۶۳،‏۲ اشخاص نے بپتسمہ لیا۔‏ اِن نئے شاگردوں کے لئے سچائی کے نور کی قدروقیمت بڑھ گئی اور اُنہوں نے بُری صحبتوں اور بداخلاق اور خدا کی تحقیر کرنے والے طورطریقوں کو رد کر دیا جو کہ اس دُنیا میں بہت عام ہیں۔‏ اپنے بپتسمہ کے وقت سے وہ اُن معیاروں کے مطابق چل رہے ہیں جو یہوواہ نے تمام مسیحیوں نے کیلئے وضع کئے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۵‏)‏ کیا آپ کیلئے بھی سچائی اتنی ہی گراں‌بہا ہے؟‏

یہوواہ ہماری فکر رکھتا ہے

۸.‏ یہوواہ ہماری مخصوصیت کو کیسا خیال کرتا ہے اور ’‏پہلے بادشاہی کی تلاش کرنا‘‏ کیوں دانشمندی کی بات ہے؟‏

۸ ہماری ناکاملیتوں کے باوجود،‏ یہوواہ بڑی فراخدلی کیساتھ ہماری مخصوصیت کو قبول کرتے ہوئے ہمیں جھک کر اُوپر اُٹھاتا ہے۔‏ یوں وہ ہمیں اپنے اغراض‌ومقاصد کی اصلاح کرنا سکھاتا ہے۔‏ (‏زبور ۱۱۳:‏۶-‏۸‏)‏ اس کیساتھ ساتھ،‏ یہوواہ ہمیں اپنے ساتھ ذاتی رشتہ قائم کرنے کی دعوت دیتا ہے اور وہ وعدہ کرتا ہے کہ اگر ہم ”‏پہلے اُسکی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش“‏ کرتے ہیں تو وہ ہماری فکر کریگا۔‏ اگر ہم ایسا کرتے اور خود کو روحانی طور پر محفوظ رکھتے ہیں تو وہ وعدہ کرتا ہے کہ ”‏یہ سب چیزیں بھی تمکو مل جائینگی۔‏“‏—‏متی ۶:‏۳۳‏۔‏

۹.‏ ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کون ہے اور اس ”‏نوکر“‏ کو استعمال کرتے ہوئے یہوواہ کیسے ہماری فکر رکھتا ہے؟‏

۹ یسوع مسیح نے اپنے ۱۲ رسولوں کو چُنا اور ممسوح مسیحیوں کی کلیسیا کی بنیاد ڈالی جو بعد میں ’‏خدا کے اؔسرائیل‘‏ کہلائے۔‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱۶؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۹،‏ ۱۴‏)‏ بعدازاں اسے ”‏خدا کی کلیسیا .‏ .‏ .‏ حق کا ستون اور بنیاد“‏ کے طور پر بیان کِیا گیا۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۱۵‏)‏ یسوع نے اس کلیسیا کے اراکین کی شناخت ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ اور ”‏دیانتدار اور عقلمند داروغہ“‏ کے طور پر کروائی۔‏ یسوع نے فرمایا کہ یہ دیانتدار نوکر مسیحیوں کو ”‏وقت پر .‏ .‏ .‏ کھانا“‏ دینے پر مامور ہوگا۔‏ (‏متی ۲۴:‏۳،‏ ۴۵-‏۴۷؛‏ لوقا ۱۲:‏۴۲‏)‏ جسطرح کھانے کے بغیر ہم بھوک سے مر جاتے ہیں۔‏ اسی طرح،‏ ہم روحانی کھانے کے بغیر کمزور پڑنے سے روحانی طور پر مر سکتے ہیں۔‏ اسلئے،‏ ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کی موجودگی اس بات کا ایک اَور ثبوت ہے کہ یہوواہ ہماری فکر رکھتا ہے۔‏ دُعا ہے کہ ہم اس ”‏نوکر“‏ کے ذریعے فراہم‌کردہ گراں‌بہا روحانی فراہمیوں کی ہمیشہ قدر کرتے رہیں۔‏—‏متی ۵:‏۳‏۔‏

۱۰.‏ ہمارے لئے اجلاسوں پر باقاعدہ حاضر ہونا کیوں ضروری ہے؟‏

۱۰ روحانی کھانا کھانے میں ذاتی مطالعہ بھی شامل ہے۔‏ اس میں دیگر مسیحیوں کیساتھ رفاقت اور کلیسیائی اجلاسوں پر حاضر ہونا بھی شامل ہے۔‏ کیا آپکو اچھی طرح یاد ہے کہ چھ مہینے پہلے یا چھ ہفتے پہلے آپ نے کیا کھایا تھا؟‏ شاید نہیں۔‏ تاہم،‏ جوکچھ بھی آپ نے کھایا اُس نے آپکو درکار غذائیت فراہم کی تھی۔‏ نیز اُس وقت سے آپ ویسا ہی کھانا کھا رہے ہیں۔‏ ہمارے کلیسیائی اجلاسوں پر فراہم کی جانے والی روحانی خوراک کی بابت بھی یہ سچ ہے۔‏ ممکن ہے ہم اجلاسوں میں بتائی جانے والی ہر بات تو نہ دہرا سکیں۔‏ تاہم اسی طرح کی معلومات شاید ایک سے زیادہ مرتبہ فراہم کی گئی ہے۔‏ اس کے باوجود،‏ یہ روحانی خوراک ہے جو ہماری بہتری کے لئے اشد ضروری ہے۔‏ ہمارے اجلاس ہمیشہ بروقت روحانی خوراک فراہم کرتے ہیں۔‏

۱۱.‏ جب ہم مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں تو ہماری کیا ذمہ‌داری ہے؟‏

۱۱ مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونا بھی ہماری ذمہ‌داری ہے۔‏ مسیحیوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ ’‏ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی‘‏ کریں اور ’‏کلیسیا میں ساتھی ایمانداروں کو ”‏محبت اور نیک کاموں کی ترغیب“‏ دیں۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۳-‏۲۵‏)‏ چھوٹے بچوں کی طرح جو کھانے میں نخرے کرتے ہیں،‏ بعض کو روحانی خوراک لینے کے لئے متواتر حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۱۳‏)‏ بوقتِ‌ضرورت ایسی حوصلہ‌افزائی فراہم کرنا اچھا ہے تاکہ ایسے لوگ پُختہ مسیحی بن سکیں جن کی بابت پولس نے لکھا تھا:‏ ”‏سخت غذا پوری عمر والوں کے لئے ہوتی ہے جنکے حواس کام کرتے کرتے نیک‌وبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز ہو گئے ہیں۔‏“‏—‏عبرانیوں ۵:‏۱۴‏۔‏

روحانی طور پر اپنی فکر کرنا

۱۲.‏ ہمارے سچائی میں قائم رہنے کی ذمہ‌داری بنیادی طور پر کس کی ہے؟‏ واضح کریں۔‏

۱۲ ہمارا بیاہتا ساتھی یا ہمارے والدین سچائی کی راہ میں ہماری حوصلہ‌افزائی کر سکتے ہیں۔‏ اسی طرح،‏ کلیسیائی بزرگ بھی گلّے کے طور پر ہماری گلّہ‌بانی کر سکتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۸‏)‏ اگر ہم نے سچائی پر مبنی زندگی کی راہ پر گامزن رہنا ہے تو بنیادی طور پر اس کی ذمہ‌داری کس پر عائد ہوتی ہے؟‏ درحقیقت،‏ اسکی ذمہ‌داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔‏ یہ بات عام حالات اور مشکل اوقات دونوں پر صادق آتی ہے۔‏ مندرجہ‌ذیل واقعہ پر غور کریں۔‏

۱۳،‏ ۱۴.‏ ایک بّرے کے تجربے کے مطابق ہم بوقتِ‌ضرورت روحانی مدد کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۱۳ سکاٹ‌لینڈ میں کچھ جواں‌سال بّرے ایک چراگاہ میں چر رہے تھے کہ اُن میں ایک پہاڑی کی جانب نکل گیا اور نیچے ترائی میں گر پڑا۔‏ اگرچہ اُسے کوئی چوٹ تو نہیں آئی تھی مگر وہ بہت خوفزدہ ہو گیا اور واپس اُوپر نہ چڑھ سکا۔‏ لہٰذا اس نے انتہائی دردناک آوازیں نکالنا شروع کر دیں۔‏ اُسکی ماں نے سنا تو وہ بھی آوازیں نکالنے لگی تاوقتیکہ چرواہے نے آ کر اُس جواں‌سال بّرے کو باہر نہ نکالا۔‏

۱۴ واقعات کی ترتیب پر غور کریں۔‏ بّرہ مدد کیلئے چلّایا،‏ بھیڑ نے بھی اُسکے ساتھ چلّانا شروع کر دیا اور چوکس چرواہا اُسے بچانے کیلئے وہاں پہنچ گیا۔‏ اگر ایک چھوٹا بّرہ اور اُسکی ماں خطرے کو محسوس کرتے ہوئے فوری طور پر مدد کیلئے آواز بلند کر سکتے ہیں تو جب ہم روحانی طور پر ٹھوکر کھاتے یا شیطان کی طرف سے غیرمتوقع خطرات کا سامنا کرتے ہیں تو کیا ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہئے؟‏ (‏یعقوب ۵:‏۱۴،‏ ۱۵؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۸‏)‏ بالخصوص اگر ہم ناتجربہ‌کار ہیں یا شاید ہم چھوٹے ہیں یا سچائی میں نسبتاً نئے ہیں تو ہمیں ایسا کرنا چاہئے۔‏

الہٰی ہدایت پر چلنا خوشی پر منتج ہوتا ہے

۱۵.‏ جب ایک خاتون نے مسیحی کلیسیا کیساتھ رفاقت رکھنا شروع کی تو اُس نے کیسا محسوس کِیا؟‏

۱۵ ذرا بائبل کی سمجھ حاصل کرنے کی اہمیت اور اس سے حاصل ہونے والے ذہنی اطمینان کا تصور کریں جو سچائی کے خدا کی خدمت کرنے والوں کے تجربہ میں آتا ہے۔‏ اپنی تمام عمر چرچ آف انگلینڈ جانے والی ایک ۷۰ سالہ خاتون نے ایک یہوواہ کی گواہ کے ساتھ ذاتی بائبل مطالعہ کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ جلد ہی اُس نے یہ جان لیا کہ خدا کا نام یہوواہ ہے اور اُس نے مقامی کنگڈم ہال میں پیش کی جانے والی دُعاؤں کے اختتام پر ”‏آمین“‏ کہنا بھی شروع کر دیا۔‏ اُس نے انتہائی جذبات میں کہا:‏ ”‏یہ ظاہر کرنے کی بجائے کہ خدا ہم سے بہت دُور ہے،‏ آپ تو اُسے عزیز دوست کی طرح ہمارے درمیان لے آتے ہیں۔‏ اس کا تجربہ مجھے پہلے کبھی نہیں ہوا۔‏“‏ یقیناً،‏ یہ دلچسپی لینے والی خاتون اُس تاثر کو کبھی نہیں بھولے گی جو سچائی نے اُس پر چھوڑا تھا۔‏ اسی طرح،‏ دُعا ہے کہ ہم سب بھی یہ کبھی نہ بھولیں کہ جب ہم نے پہلے پہل سچائی کو قبول کِیا تو یہ ہمیں کتنی عزیز تھی۔‏

۱۶.‏ (‏ا)‏ اگر ہم پیسے کے حصول کو اپنا اوّلین مقصد بناتے ہیں تو کیا واقع ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم حقیقی خوشی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ بیشتر کا خیال ہے کہ اگر اُن کے پاس زیادہ پیسہ ہو تو وہ خوش رہ سکتے ہیں۔‏ تاہم،‏ اگر ہم پیسہ کمانے کو اپنی زندگی کا اوّلین مقصد بنا لیتے ہیں تو ہم ”‏اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے چھلنی کر“‏ سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۰‏)‏ تصور کریں کہ کتنے لوگ لاٹریاں خریدتے،‏ کلبوں میں پیسہ خرچ کرتے یا بےدھڑک اسٹاک مارکیٹ میں سٹے لگاتے اور خوش‌بختی کے خواب دیکھتے ہیں۔‏ لیکن بہت ہی کم لوگوں کو اُنکی مرضی کا مستقبل نصیب ہوتا ہے۔‏ نیز جنہیں یہ حاصل ہو جاتا ہے وہ بھی اکثر یہی پاتے ہیں کہ اچانک حاصل ہونے والی دولت خوشی کا باعث نہیں بنتی۔‏ اِسکے برعکس،‏ حقیقی خوشی یہوواہ کی مرضی بجا لانے،‏ مسیحی کلیسیا کیساتھ یہوواہ کی پاک روح اور اُسکے فرشتوں کے زیرِہدایت کام کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔‏ (‏زبور ۱:‏۱-‏۳؛‏ زبور ۸۴:‏۴،‏ ۵؛‏ زبور ۸۹:‏۱۵‏)‏ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمیں غیرمتوقع برکات کا تجربہ ہو سکتا ہے۔‏ کیا سچائی آپکے لئے اسقدر گراں‌بہا ہے کہ یہ آپکی زندگی میں ایسی برکات لا سکے؟‏

۱۷.‏ شمعون دباغ کے گھر میں پطرس کا قیام رسول کے رویے کی بابت کیا آشکارا کرتا ہے؟‏

۱۷ پطرس رسول کے تجربے پر غور کریں۔‏ سن ۳۶ س.‏ع.‏ میں اُس نے شارون کے خطے کا مشنری سفر کِیا۔‏ وہاں اُس نے لدہ میں قیام کِیا اور اینیاس نامی ایک مفلوج شخص کو شفا دی اور پھر یافا کی بندرگاہ کی طرف روانہ ہو گیا۔‏ وہاں اُس نے تبیتا کو زندہ کِیا۔‏ اعمال ۹:‏۴۳ ہمیں بتاتی ہے:‏ ”‏وہ بہت دن یاؔفا میں شمعوؔن نام دباغ کے ہاں رہا۔‏“‏ نقل‌وحمل کا یہ سلسلہ پطرس کے اُس غیرجانبدارانہ میلان کی عکاسی کرتا ہے جو اُس نے اُس شہر کے لوگوں کی خدمت کے دوران ظاہر کِیا۔‏ کیسے؟‏ بائبل مفکر فریڈرک فرار لکھتا ہے:‏ ”‏موسوی شریعت کا پابند کوئی پیرو کسی دباغ (‏چرم‌ساز)‏ کے گھر پر قیام نہیں کر سکتا تھا۔‏ مختلف جانوروں کی کھالیں اور لاشیں جو کہ اس پیشے کے لئے ضروری تھیں اور اس کے لئے درکار مواد شریعت‌پسندوں کی نظر میں ناپاک اور مکروہ سمجھا جاتا تھا۔‏“‏ فرار کے مطابق اگر ”‏سمندر کے کنارے“‏ واقع شمعون کا گھر چمڑے کی فیکٹری کیساتھ جڑا ہوا نہ بھی ہوتا توبھی اُسکا ”‏کاروبار ایسا تھا جسے حقیر سمجھا جاتا تھا اور اسے کرنے والے کو بھی کمتر خیال کِیا جاتا تھا۔‏“‏—‏اعمال ۱۰:‏۶‏۔‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ (‏ا)‏ پطرس اس رویا کو دیکھکر کیوں حیران ہو گیا تھا؟‏ (‏ب)‏ پطرس کو توقع سے بڑھ کر کونسی برکت حاصل ہوئی؟‏

۱۸ غیرجانبدار پطرس نے شمعون کی مہمان‌نوازی قبول کی اور وہاں پطرس کو غیرمتوقع الہٰی ہدایت سے نوازا گیا۔‏ اُس نے ایک رویا دیکھی جس میں اُسے ایسے جانداروں کو کھانے کا حکم دیا گیا جو یہودی شریعت کے مطابق ناپاک تھے۔‏ پطرس نے احتجاج کِیا کہ اُس نے پہلے کبھی ”‏کوئی حرام یا ناپاک چیز نہیں کھائی۔‏“‏ مگر تین بار اُس سے کہا گیا:‏ ”‏جنکو خدا نے پاک ٹھہرایا ہے تُو اُنہیں حرام نہ کہہ۔‏“‏ قابلِ‌فہم بات ہے کہ ”‏پطرؔس اپنے دل میں حیران ہو رہا تھا کہ یہ رویا جو مَیں نے دیکھی کیا ہے۔‏“‏—‏اعمال ۱۰:‏۵-‏۱۷؛‏ ۱۱:‏۷-‏۱۰‏۔‏

۱۹ پطرس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پچھلے ہی دن ۵۰ کلومیٹر کی دوری پر واقع قیصریہ کے شہر میں کرنیلیس نامی غیرقوم شخص نے بھی یہی رویا دیکھی ہے۔‏ یہوواہ نے کرنیلیس کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے خادم بھیج کر شمعون دباغ کے گھر میں موجود پطرس کو بلوائے۔‏ کرنیلیس نے اپنے خادموں کو شمعون کے ہاں روانہ کِیا اور وہ پطرس کو اپنے ساتھ قیصریہ لے آئے۔‏ وہاں اُس نے کرنیلیس اور اُسکے عزیزواقارب کے روبرو منادی کی۔‏ نتیجتاً،‏ وہ بادشاہتی وارثوں کے طور پر روح‌اُلقدس حاصل کرنے والے پہلے غیرقوم ایماندار قرار پائے۔‏ اگرچہ یہ لوگ نامختون تھے توبھی پطرس کا کلام سننے والے سب لوگوں نے بپتسمہ لیا۔‏ اسطرح غیرقوموں کیلئے بھی راہ کھل گئی جو یہودی نقطۂ‌نظر سے مسیحی کلیسیا کے اراکین بننے کیلئے ناپاک خیال کئے جاتے تھے۔‏ (‏اعمال ۱۰:‏۱-‏۴۸؛‏ ۱۱:‏۱۸‏)‏ پطرس کو یہ خاص استحقاق صرف سچائی کو عزیز رکھنے کی وجہ سے ملا اور یہ اُسکے یہوواہ کی ہدایت پر دھیان دینے اور ایمان سے چلتے رہنے کا باعث بنا تھا!‏

۲۰.‏ جب ہم سچائی کو اپنی زندگیوں میں پہلا درجہ دیتے ہیں تو ہمیں کونسی الہٰی حمایت حاصل ہوتی ہے؟‏

۲۰ پولس تاکید کرتا ہے:‏ ”‏محبت کے ساتھ سچائی پر قائم رہ کر اور اس کے ساتھ جو سر ہے یعنی مسیح کے ساتھ پیوستہ ہو کر ہر طرح سے بڑھتے جائیں۔‏“‏ (‏افسیوں ۴:‏۱۵‏)‏ جی‌ہاں،‏ اگر ہم سچائی کو اپنی زندگیوں میں پہلا درجہ دیتے ہوئے یہوواہ کی پاک روح کو اپنے قدموں کی راہنمائی کرنے دیتے ہیں تو یہ ہمیں اب بھی بیمثال برکات سے نوازے گی۔‏ یہ بھی یاد رکھیں کہ اپنی بشارتی کارگزاری میں ہمیں پاک فرشتوں کی حمایت حاصل ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۴:‏۶،‏ ۷؛‏ ۲۲:‏۶‏)‏ ہم کتنے متشرف ہیں کہ ہمیں اُس کام میں جسکا حکم یہوواہ نے دیا ہے ایسی حمایت حاصل ہے!‏ اپنی راستی برقرار رکھنا ہمیں ابد تک سچائی کے خدا،‏ یہوواہ کی حمد کرنے کی تحریک دیگا۔‏ کیا کوئی چیز اس سے زیادہ گراں‌بہا ہو سکتی ہے؟‏—‏یوحنا ۱۷:‏۳‏۔‏

ہم نے کیا سیکھا ہے؟‏

‏• بہتیرے لوگ کیوں سچائی قبول نہیں کرتے؟‏

‏• مسیحیوں کو شیطان کی دُنیا کی چیزوں کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟‏

‏• اجلاسوں کی بابت ہمارا کیا نظریہ ہونا چاہئے اور کیوں؟‏

‏• روحانی طور پر اپنی فکر رکھنے کے سلسلے میں ہماری کیا ذمہ‌داری ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر نقشہ/‏تصویر]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

بحیر ۂروم

قیصریہ

شارون کی وادی

یافا

لُدہ

یروشلیم

‏[‏تصویر]‏

پطرس نے الہٰی راہنمائی کی پیروی کی اور اُسے توقع سے بڑھ کر برکات حاصل ہوئیں

‏[‏تصویر کا حوالہ]‏

‏.Map: Mountain High Maps® Copyright © 1997 Digital Wisdom, Inc

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

یسوع نے حق پر گواہی دی

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

جسمانی خوراک کی طرح،‏ روحانی خوراک بھی ہماری صحت کیلئے ضروری ہے