وہ قدیم دُنیا کیوں تباہ ہوئی؟
وہ قدیم دُنیا کیوں تباہ ہوئی؟
عالمگیر طوفان کوئی قدرتی آفت نہیں تھا۔ یہ خدا کی عدالت کا اظہار تھا۔ آگاہی دی گئی مگر اُسے نظرانداز کر دیا گیا۔ کیوں؟ یسوع نے اسکی وضاحت کی: ”طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتےپیتے اور بیاہشادی کرتے تھے اُس دن تک کہ نوؔح کشتی میں داخل ہوا۔ اور جب تک طوفان آ کر اُن سب کو بہا نہ لے گیا اُنکو خبر نہ ہوئی۔“—متی ۲۴:۳۸، ۳۹۔
ترقییافتہ تہذیب
بعض معاملات میں طوفان سے قبل تہذیب کو ایسے فائدہ حاصل تھے جو آج ہمیں نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، تمام انسان ایک ہی زبان بولتے تھے۔ (پیدایش ۱۱:۱) اس سے آرٹس اور سائنس میں بہت ترقی ہوئی ہوتی جس کیلئے مختلف مہارتوں کے حامل بہتیرے لوگوں کی اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیز، اُس زمانے میں لوگوں کی عمریں بھی بہت زیادہ ہوتی تھیں جس کی وجہ سے وہ صدیوں کے دوران بہت سارا علم حاصل کر سکتے تھے۔
بعض کا خیال ہے کہ اُس وقت عمریں اتنی لمبی نہیں تھیں اور بائبل میں بیانکردہ سالوں سے مُراد دراصل مہینے ہیں۔ کیا یہ بات سچ ہے؟ اس سلسلے میں ذرا محللایل کے معاملے پر غور پیدایش ۵:۱۵-۱۷) اگر ایک سال سے مُراد ایک مہینہ ہو تو محللایل اُسوقت صرف پانچ سال کا ہوگا جب اُس سے یارد پیدا ہوا! ایسا ہرگز نہیں ہے، اُس وقت لوگ پہلے انسان آدم کی کامل قوت کے بہت قریب تھے۔ وہ واقعی سینکڑوں سال زندہ رہتے تھے۔ اُنہوں نے کیا کچھ سرانجام دیا؟
کیجئے۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”محللؔایل پینسٹھ برس کا تھا جب اُس سے یاؔرد پیدا ہوا۔ . . . اور محللؔایل کی کُل عمر آٹھ سو پچانوے برس کی ہوئی۔ تب وہ مرا۔“ (طوفان سے صدیوں پہلے، زمین کی آبادی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ آدم کا بیٹا قائن ایک شہر بسانے کے قابل ہوا جسکا نام اُس نے حنوک رکھا۔ (پیدایش ۴:۱۷) طوفان سے پہلے کے زمانے میں مختلف صنعتوں نے بھی فروغ پایا۔ اُسوقت ”پیتل اور لوہے کے سب ہتھیاروں“ کی بھٹیاں بھی تھیں۔ (پیدایش ۴:۲۲) بیشک، یہ اوزار تعمیر، ترکھانی، سلائی اور زراعت کے کام آتے تھے۔ زمین کے ابتدائی انسانوں کی سرگزشتوں میں ان تمام فنون کا ذکر کِیا گیا ہے۔
حاصلکردہ علم نے آئندہ نسلوں کے لئے دھاتوں سے مختلف چیزیں بنانے، کاشتکاری، مویشی پالنے، کتابت اور فنونِلطیفہ جیسی مہارتوں کو فروغ دینا ممکن بنا دیا ہوگا۔ مثال کے طور پر، یوبل ”بین اور بانسلی بجانے والوں کا باپ تھا۔“ (پیدایش ۴:۲۱) اس تہذیب نے بڑی ترقی کی۔ تاہم، سب کچھ یکایک ختم ہو گیا۔ کیا واقع ہوا؟
کیا خرابی ہوئی؟
تمامتر سہولتوں کے باوجود طوفان سے پہلے کے معاشرے نے ایک بُرا آغاز کِیا۔ اسکے بانی، آدم نے خدا کے خلاف بغاوت کی تھی۔ سب سے پہلے شہر کے معمار قائن نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ کچھ عجب نہیں کہ بدکاری میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا! اپنی اولاد کیلئے چھوڑی ہوئی آدم کی ناقص میراث کے نتائج بڑھتے ہی گئے۔—رومیوں ۵:۱۲۔
تمام حالاتوواقعات عروج کو پہنچ رہے تھے کہ یہوواہ نے فیصلہ کِیا کہ وہ انہیں مزید ۱۲۰ سال تک چلنے دیگا۔ (پیدایش ۶:۳) بائبل بیان کرتی ہے: ”زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اُسکے دل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں۔ زمین . . . ظلم سے بھری تھی۔“—پیدایش ۶:۵، ۱۱۔
وقت آنے پر، نوح کو واضح طور پر بتایا گیا کہ خدا تمام بشر کو طوفان سے ہلاک کر دے گا۔ (پیدایش ۶:۱۳، ۱۷) نوح کے ’راستبازی کا مُناد‘ ہونے کے باوجود لوگوں کے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ اُن کے اردگرد تمام چیزیں ختم ہونے والی ہیں۔ (۲-پطرس ۲:۵) صرف آٹھ لوگوں نے آگاہی پر دھیان دیا اور بچ گئے۔ (۱-پطرس ۳:۲۰) آجکل ہمارے لئے یہ ضروری کیوں ہے؟
ہمارے لئے اسکی اہمیت کیا ہے؟
ہم بھی نوح جیسے زمانے میں ہی رہتے ہیں۔ ہم دہشتگردی کی کارروائیوں، نسلکُشی کے کاموں، بِلاوجہ خونریزی اور گھروں میں حیرانکُن حد تک تشدد کی خبریں سنتے رہتے ہیں۔ پہلے کی طرح زمین پھر ظلم سے بھر گئی ہے اور اس دُنیا کیلئے سزا کا حکم بھی صادر ہو چکا ہے۔ یسوع نے خود فرمایا تھا کہ وہ خدا کے مقررہ منصف کے طور پر چرواہے کی طرح بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرنے کیلئے آئیگا۔ یسوع نے کہا کہ بُرے لوگ ”ہمیشہ کی سزا پائینگے۔“ (متی ۲۵:۳۱-۳۳، ۴۶) تاہم، بائبل یہ بیان کرتی ہے کہ اس مرتبہ واحد خدائےبرحق کی پرستش کرنے والی ایک بڑی بِھیڑ یعنی لاکھوں لوگ بچیں گے۔ آنے والی دُنیا میں یہ لوگ ایسے دائمی امن اور سلامتی سے زندگی گزارینگے جو پہلے کبھی میسر نہیں تھا۔—میکاہ ۴:۳، ۴؛ مکاشفہ ۷:۹-۱۷۔
بہتیرے لوگ بائبل کے اس بیان اور حقیقی عدالتی کارروائی کی آگاہیوں کا تمسخر اُڑاتے ہیں۔ لیکن پطرس رسول نے واضح کِیا کہ ایسے نکتہچین حقیقت سے مُنہ موڑتے ہیں۔ اُس نے لکھا: ”اخیر دنوں میں ایسے ہنسی ٹھٹھا کرنے والے آئینگے جو . . . کہینگے کہ اُسکے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟ . . . وہ تو جانبوجھ کر یہ بھول گئے کہ خدا کے کلام کے ذریعہ سے آسمان قدیم سے موجود ہیں اور زمین پانی میں سے بنی اور پانی میں قائم ہے۔ اِن ہی کے ذریعہ سے اُس زمانہ کی دُنیا ڈوب کر ہلاک ہوئی۔ مگر اِس وقت کے آسمان اور زمین اُسی کلام کے ذریعہ سے اسلئے رکھے ہیں کہ جلائے جائیں اور وہ بےدین آدمیوں کی عدالت اور ہلاکت کے دن تک محفوظ رہینگے۔“—۲-پطرس ۳:۳-۷۔
متی ۲۴:۱۴) اس آگاہی کو معمولی خیال نہیں کِیا جانا چاہئے۔ قادرِمطلق خدا اپنے قول کا پکا ہے۔
آجکل عالمی پیمانے پر یسوع کے نبوّتی حکم کی تعمیل میں بڑی سرگرمی کیساتھ اس آنے والے یومِعدالت کی آگاہی دینے کے علاوہ یہ خوشخبری بھی سنائی جا رہی ہے کہ اسکے بعد امن کا دَوردَورا ہوگا۔ (آنے والی دُنیا
آنے والی بڑی تبدیلی کے پیشِنظر انسان کے مستقبل کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟ اپنے مشہور پہاڑی وعظ میں یسوع نے وعدہ کِیا: ”مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہونگے۔“ اسکے بعد اُس نے اپنے شاگردوں کو خدا سے یوں دُعا کرنا سکھایا: ”تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔“ (متی ۵:۵؛ ۶:۱۰) جیہاں، یسوع نے تعلیم دی کہ وفادار انسان اس زمین پر شاندار مستقبل کے وارث ہونگے۔ اُس نے اِسکا ”نئی پیدایش“ کے طور پر حوالہ دیا۔—متی ۱۹:۲۸۔
پس، جب آپ مستقبل کی بابت سوچتے ہیں تو ہنسیٹھٹھا کرنے والوں کو خدا کی آگاہی کی بابت شکوک پیدا کرنے کی اجازت نہ دیں۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے اردگرد حالتیں ٹھیک دکھائی دیتی ہیں اور موجودہ دُنیا عرصۂدراز سے قائم ہے۔ لیکن ہمیں اس پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ نوعِانسان کی دُنیا کی عدالت ہو چکی ہے۔ اسلئے پطرس رسول کے خط کے ان اختتامی الفاظ سے تسلی حاصل کریں:
”جب یہ سب چیزیں اِس طرح پگھلنے والی ہیں تو تمہیں پاک چالچلن اور دینداری میں کیسا کچھ ہونا چاہئے۔ اور خدا کے اُس دن کے آنے کا کیسا کچھ منتظر اور مشتاق رہنا چاہئے۔ . . . چونکہ تم اِن باتوں کے منتظر ہو اسلئے اُسکے سامنے اطمینان کی حالت میں بیداغ اور بےعیب نکلنے کی کوشش کرو۔ بلکہ ہمارے خداوند اور مُنجی یسوؔع مسیح کے فضل اور عرفان میں بڑھتے جاو۔“ (۲-پطرس ۳:۱۱، ۱۲، ۱۴، ۱۸) لہٰذا، نوح کے زمانے میں جوکچھ ہوا اُس سے سبق سیکھیں۔ یہوواہ کے نزدیک جائیں۔ یسوع مسیح کے عرفان میں بڑھتے جائیں۔ خدائیعقیدت کو فروغ دیں اور اس دُنیا کے خاتمے سے بچ کر آنے والی پُرامن دُنیا میں جانے کا انتخاب کرنے والے لاکھوں لوگوں میں شامل ہو جائیں۔
[صفحہ ۵ پر تصویر]
طوفان سے قبل لوگ دھاتوں کے کام سے واقف تھے
[صفحہ ۷ پر تصویر]
ایک شاندار مستقبل قریب ہے