کلووِس کا بپتسمہ—فرانس میں کیتھولک مذہب کے ۵۰۰،۱ سال
کلووِس کا بپتسمہ—فرانس میں کیتھولک مذہب کے ۵۰۰،۱ سال
”اس دھماکے کا ذمہدار پوپ ہے،“ یہ پیغام ستمبر ۱۹۹۶ میں فرانس کے اُس چرچ میں رکھے جانے والے عارضی بم کیساتھ ملا تھا جس میں پوپ جان پال دوم جانے والا تھا۔ یہ فرانس کے ملک میں پوپ کے پانچویں دورے پر برپا ہونے والی مخالفت کی انتہائی درجہ کی مثال تھی۔ تاہم اُس سال تقریباً ۰۰۰،۰۰،۲ لوگ پوپ کیساتھ فرینکی بادشاہ کلووِس کے کیتھولک مذہب قبول کرنے کی ایک ہزار پانچ سویں یادگار منانے کیلئے فرانس کے شہر ریمز میں جمع ہوئے۔ یہ بادشاہ کون تھا جسکے بپتسمے کو فرانس کا بپتسمہ کہا گیا ہے؟ نیز اسکی یادگار اسقدر اختلاف کا باعث کیوں بنی؟
تنزلی کا شکار سلطنت
سالین فرینکی بادشاہ چلڈیرک اوّل کا بیٹا کلووِس ۴۶۶ س.ع. میں پیدا ہوا۔ سن ۳۵۸ س.ع. میں رومی فتح کے بعد اس جرمن قبیلے کو ملک کی سرحد کا دفاع کرنے اور رومی فوج کیلئے سپاہی فراہم کرنے کی شرط پر حالیہ بیلجیئم کے علاقے میں بسنے کی اجازت ملی۔ فرانسیسی رومی عوام کیساتھ قریبی تعلقات کے نتیجے میں فرینکی لوگ بتدریج رومی اقدار اپنانے لگ گئے۔ رومیوں کے حمایتی، چلڈیرک اوّل نے جرمن کے سیکسن اور غربیگاتھ جیسے دوسرے قبائل کے حملوں کا مقابلہ کِیا۔ یوں اُس نے فرانسیسی رومی عوام کی خوشنودی حاصل کر لی۔
گال کا رومی صوبہ دریائےرائن کے شمال اور پرینیز کے جنوب میں واقع تھا۔ تاہم ۴۵۴ س.ع. میں رومی جنرل ایشئیز کی موت کے بعد کوئی بھی ملکی بھاگڈور سنبھالنے کے قابل نہ تھا۔ علاوہازیں ۴۷۶ س.ع. میں روم کے آخری بادشاہ رومولس آگسٹولس اور رومی سلطنت کے مغربی حصے کے زوال کے بعد اس علاقے میں سیاسی ابتری پھیل گئی۔ نتیجتاً گال اپنی سرحد پر آباد قبائل کیلئے ایک ایسے پکے ہوئے انجیر کی مانند بن گیا جسے توڑنے کیلئے سبھی بیتاب تھے۔ پس حیرت کی بات نہیں کہ اپنے باپ کی جگہ لینے کے بعد کلووِس اپنی سلطنت کو وسیع کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔ اُس نے ۴۸۶ س.ع. میں گال کے آخری رومی نمائندے کو سوئسنس کے شہر کے قریب جنگ میں شکست دی۔ اس فتح کی بدولت وہ شمال میں دریائےسوم اور وسطی اور جنوبی گال میں دریائےلوار کے درمیان واقع تمام علاقے پر قابض ہو گیا۔
بادشاہ بننے کا اُمیدوار شخص
دیگر جرمن قبائل کے برعکس، فرینکی بُتپرست ہی رہے۔ تاہم برگنڈی کی شہزادی کلوٹلڈا سے کلووِس کی شادی نے اُس کی زندگی پر گہرا
اثر ڈالا۔ ایک سرگرم کیتھولک ہونے کے باعث کلوٹلڈا نے اپنے شوہر کے تبدیلیٔمذہب کی انتھک کوشش کی۔ چھٹی صدی س.ع. میں ٹوئرز کے گریگری کی تحریرکردہ تاریخ کے مطابق ۴۹۶ س.ع. میں الیمانی قبیلے کے خلاف ٹولبائک (ٹزیولپک، جرمنی) کی جنگ کے دوران کلووِس نے وعدہ کِیا کہ اگر کلوٹلڈا کا خدا نے اُسے فتحیابی بخشی تو وہ بُتپرستی چھوڑ دے گا۔ کلووِس کی فوج کو اگرچہ شکست کا سامنا تھا توبھی الیمانی بادشاہ کو قتل کر دیا گیا اور اُس کی فوج نے ہتھیار ڈال دئے۔ جہاں تک کلووِس کا تعلق ہے تو کوٹلڈا کے خدا نے اُسے کامیابی بخشی تھی۔ روایت کے مطابق کلووِس کو ”سینٹ“ ریمیگیئس نے ریمز کے چرچ میں دسمبر ۲۵، ۴۹۶ س.ع. کو بپتسمہ دیا۔ تاہم بعض لوگوں کا خیال ہےکہ اُسکا بپتسمہ ۴۹۸/۴۹۹ س.ع. میں ہوا تھا۔کلووِس کی برگنڈی کی جنوبمشرقی بادشاہت پر قابض ہونے کی کوششیں ناکام رہیں۔ تاہم غربیگاتھ کے خلاف اُس کی مہم کامیاب رہی جب اُس نے ۵۰۷ س.ع. میں انہیں پوائٹرز کے قریب ویلیول میں شکست دیکر گال کے جنوبمغرب کے بیشتر حصے پر فتح حاصل کی۔ اس فتحیابی کی قدردانی میں مشرقی رومی سلطنت کے بادشاہ اناسٹاسیز نے کلووِس کو سفارت کے اعزاز سے نوازا۔ یوں اُسے تمام مغربی بادشاہوں سے بلند مرتبہ ملا اور اُسکی حکمرانی کو فرانسیسی رومی عوام کی نظروں میں قانونی حیثیت بھی حاصل ہوئی۔
مشرق میں دریائےرائن کے کنارے آباد فرینکی علاقے کو زیر کرکے کلووِس نے پیرس کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اُس نے اپنی بادشاہت کو مستحکم کرنے کیلئے ضابطۂقانون کے تحریری مجموعے لیکس سالیکا کو مرّوج کِیا اور اورلینز میں چرچ اور ریاست کے مابین تعلقات وضع کرنے والی ایک چرچ کونسل تشکیل دی۔ اُسکی وفات پر جو غالباً نومبر ۲۷، ۵۱۱ س.ع. میں ہوئی وہ گال کے تین چوتھائی علاقے کا واحد حکمران تھا۔
دی نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کلووِس کے کیتھولک مذہب قبول کرنے کو ”مغربی یورپ کی تاریخ میں ایک فیصلہکُن گھڑی“ قرار دیتا ہے۔ اس بُتپرست بادشاہ کی تبدیلیٔمذہب اسقدر اہمیت کی حامل کیوں تھی؟ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ کلووِس نے آریوسی عقیدے کی بجائے کیتھولک مذہب کا انتخاب کِیا تھا۔
آریوسی بدعت
تقریباً ۳۲۰ س.ع. میں سکندریہ، مصر کے پادری آریوس نے تثلیث کی بابت انقلابی نظریات کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ آریوس نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ بیٹا درحقیقت باپ کا وجودِحقیقی یا ہمپایہ ہے۔ بیٹا خدا یا باپ کے برابر نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ بیٹے کی ابتدا ہوئی تھی۔ (کلسیوں ) جہانتک روحالقدس کا تعلق ہے تو آریوس یہ یقین رکھتا تھا کہ یہ ایک شخص تو ہے لیکن یہ رُتبے میں باپ اور بیٹے سے کمتر ہے۔ یہ تعلیم جسے وسیع مقبولیت حاصل ہوئی، چرچ کے اندر شدید مخالفت پر منتج ہوئی۔ آریوس کو ۳۲۵ س.ع. میں نقایہ کی مجلس میں قید کر لیا گیا اور اُسکی تعلیمات کو قابلِمذمت قرار دیا گیا۔ ۱:۱۵ *
تاہم اس سے اختلافات ختم نہ ہوئے۔ عقائد پر مبنی یہ جھگڑا تقریباً ۶۰ سال تک جاری رہا اور آنے والے بادشاہ دونوں میں سے کسی ایک نظریے کی حمایت کرتے رہے۔ بالآخر ۳۹۲ س.ع. میں بادشاہ تھیوڈوسیئس نے تثلیث کے عقیدے سمیت آرتھوڈکس کیتھولک مذہب کو رومی سلطنت کا ریاستی مذہب قرار دے دیا۔ اسی دوران جرمن بشپ الفیلاس کی وجہ سے گاتھوں نے آریوسی مذہب قبول کر لیا تھا۔ دیگر جرمن قبائل نے بھی اس قسم کی ”مسیحیت“ کو اپنانے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ *
کلووِس کی حکومت کے دوران، گال کے کیتھولک چرچ کو بحران کا سامنا تھا۔ آریوس کے غربی گاتھ مرنے والے بشپوں کی جگہ نئے بشپوں کی تقرری کی اجازت نہ دینے سے کیتھولک مذہب کو دبانے کی کوشش کر رہے تھے۔ علاوہازیں، جب دو پوپ نااتفافی پر اتر آئے تو چرچ بٹ گیا اور روم میں مخالف گروہوں کے پادری ایک دوسرے کا قتلِعام کرنے لگے۔ اس ابتری میں اضافہ کرتے ہوئے بعض کیتھولک مصنفوں نے یہ نظریہ پیش کِیا کہ ۵۰۰ س.ع. تک دُنیا کا خاتمہ ہو جائیگا۔ پس فرینکی فاتح کے کیتھولک مذہب قبول کرنے کو ”مقدسین کی نئی ہزاری“ کا ایک خوشآئند واقعہ خیال کِیا گیا۔
لیکن کلووِس کے محرکات کیا تھے؟ اگرچہ مذہبی محرکات کو خارج نہیں کِیا جا سکتا، وہ یقیناً سیاسی مقاصد بھی رکھتا تھا۔ کیتھولک مذہب کا انتخاب کرنے سے کلووِس نے کلیسیا کے بارسُوخ اشخاص کی حمایت اور فرانسیسی رومی کیتھولکوں پر مشتمل اکثریت کی خوشنودی حاصل کر لی تھی۔ بِلاشُبہ اس سے اُسے اپنے سیاسی حریفوں پر فضیلت حاصل ہو گئی تھی۔ دی نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا بیان کرتا ہے کہ ”گال پر اُسکی فتح کو نفرتانگیز آریوسی بدعتیوں کے ظلم کے جوئے کے خلاف آزادی کی جنگ خیال کِیا گیا۔“
کلووِس کیسا شخص تھا؟
سن ۱۹۹۶ میں ریمز کے آرچبشپ زرار ڈیفاؤ نے کلووِس کی یادگار پر اپنے ابتدائی کلمات میں اُس کی تعریف کرتے ہوئے بیان کِیا کہ وہ ”باشعور اور اچھی بصیرت پر مبنی تبدیلیٔمذہب کی علامت“ تھا۔ تاہم فرانس
کے مؤرخ ارنسٹ لاوس کے مطابق: ”کلووِس کے تبدیلیٔمذہب سے اُس کے کردار میں کسی طرح کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی، انجیل کے باوقار اور امنپسند اخلاق نے اُس کے دل کو متاثر نہیں کِیا تھا۔“ ایک اَور مؤرخ نے بیان کِیا: ”وہ اوڈن [ناروی دیوتا] کی بجائے مسیح سے دُعا کرنے لگا لیکن اُس کی شخصیت وہی رہی۔“ کلووِس نے جس طرح اپنے تخت کے لئے خطرہ پیدا کرنے والے تمام حریفوں کو نیستونابود کرکے اپنی سلطنت کو مستحکم کِیا وہ قسطنطین کے برائےنام مسیحیت قبول کرنے کے بعد کے چالچلن کی یاد دلاتا ہے۔ اُس نے اپنے ”تمام دُور کے رشتہداروں کو بھی مٹا ڈالا تھا۔“کلووِس کی وفات کے بعد منگھڑت کہانیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کی بدولت ایک ظالم جنگجو شخص ایک مشہور سینٹ بن گیا۔ تقریباً ایک صدی بعد گریگری کی بابت ٹوئرز کے بیان کو ”مسیحیت“ قبول کرنے والے پہلے رومی شہنشاہ قسطنطین کے ساتھ کلووِس کی شناخت کرنے کی مستعد کوشش خیال کِیا جاتا ہے۔ نیز کلووِس کے بپتسمے کے وقت اُس کی عمر ۳۰ سال ہونے کی بابت گریگری کا دعویٰ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کلووِس اور مسیح کے درمیان مشابہت قائم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔—لوقا ۳:۲۳۔
نویں صدی میں ریمز کے بشپ انکمار نے بھی اس عمل کو جاری رکھا۔ زائرین کے واسطے گرجاگھروں میں مقابلہبازی کے دوران اپنے پیشرو ”سینٹ“ ریمیگیئس کی سوانححیات کا مقصد ممکنہ طور پر اپنے چرچ کی شہرت اور مالودولت کو بڑھانا تھا۔ اُسکے بیان میں کلووِس کے بپتسمہ پر ایک سفید کبوتر کا ایک بوتل میں تیل لانا واضح طور پر یسوع کے روحالقدس سے مسح کئے جانے کا اشارہ دیتا ہے۔ (متی ۳:۱۶) یوں انکمار نے کلووِس، ریمز اور حکومت کے درمیان ایک تعلق قائم کِیا اور اس خیال کو فروغ دیا کہ کلووِس درحقیقت خداوند کا ممسوح تھا۔ *
ایک اختلافی یادگار
فرانس کے سابقہ صدر چارلز ڈی گال نے ایک مرتبہ بیان کِیا: ”میری رائے میں فرانس کی تاریخ کلووِس کیساتھ شروع ہوتی ہے جسے فرانس کو اپنا نام دینے والے فرینکی قبیلے نے بادشاہ کے طور پر منتخب کِیا۔“ تاہم تمام لوگ یہ رائے نہیں رکھتے۔ کلووِس کے بپتسمے کی ۵۰۰،۱ یادگار اختلاف کی نظر ہو گئی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ۱۹۰۵ سے چرچ اور ریاست باضابطہ طور پر علیٰحدہ تھے، بہتیروں نے اس تقریب میں ریاست کی شمولیت پر تنقید کی جسے وہ مذہبی خیال کرتے تھے۔ جب ریمز کی شہری بلدیہ نے پوپ کے دورے کے دوران استعمال ہونے والے سٹیج کا خرچا برداشت کرنے کا اعلان کِیا تو ایک تنظیم نے عدالت میں اس فیصلے کو غیرقانونی قرار دیکر مسترد کرایا۔ دیگر نے محسوس کِیا کہ چرچ فرانس پر اپنے اخلاقی اور کشوری اختیار کو مسلّط کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ علاوہازیں کلووِس کی یادگار پر اُسے فرانس کی قومی مہم اور انتہاپسند کیتھولک گروہوں کا نمائندہ بنانے سے حالات اَور بھی پیچیدہ ہو گئے۔
دوسرے لوگوں نے اس یادگار پر تاریخی نقطۂنظر سے تنقید کی۔ اُن کا اعتراض تھا کہ کلووِس کے بپتسمے نے فرانس کو کیتھولک نہیں بنایا اسلئےکہ یہ مذہب پہلے ہی فرانسیسی رومی عوام میں پھیلا ہوا تھا۔ چنانچہ، اُنہوں نے دعویٰ کِیا کہ فرانس اُسکے بپتسمہ کی بدولت ایک ملک کے طور پر منظرِعام پر نہیں آیا۔ اُنکے خیال میں فرانس ۸۴۳ س.ع. میں شارلمین کی بادشاہت کی تقسیم کی وجہ سے وجود میں آیا تھا جو ثابت کرتا ہے کہ کلووِس کی بجائے چارلس دی بالڈ فرانس کا پہلا بادشاہ تھا۔
کیتھولک مذہب کے ۵۰۰،۱ سال
آجکل فرانس میں کیتھولک مذہب کو ”چرچ کے سب سے پُرانے مذہب“ کے طور پر کیا مقام حاصل ہے؟ سن ۱۹۳۸ تک فرانس میں بپتسمہیافتہ کیتھولک عوام کی تعداد دُنیا میں سب سے زیادہ تھی۔ اب فلپائن اور ریاستہائےمتحدہ جیسے ممالک کے بعد یہ چھٹے نمبر پر ہے۔ تاہم فرانس میں ۴۵ ملین کیتھولک آبادی کے باوجود صرف ۶ ملین عبادت کے لئے باقاعدہ جاتے ہیں۔ فرانس کی کیتھولک آبادی کی بابت ایک حالیہ سروے نے ظاہر کِیا کہ ۶۵ فیصد ”جنسی معاملات میں چرچ کی تعلیم کو نظرانداز کرتے ہیں،“ اور ۵ فیصد یسوع کو ”ایک معمولی شخص“ خیال کرتے ہیں۔ ایسے منفی رُجحانات نے پوپ کو ۱۹۸۰ میں فرانس کے دورے پر یہ کہنے کی تحریک دی: ”اَے فرانس کے لوگو! کیا تمہیں اپنے بپتسمے پر کئے گئے وعدے یاد ہیں؟“
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 12 دی واچٹاور، اگست ۱، ۱۹۸۴ کے شمارے کے صفحہ ۲۴ کا مطالعہ کریں۔
^ پیراگراف 13 دی واچٹاور، مئی ۱۵، ۱۹۹۴، صفحہ ۸، ۹ کا مطالعہ کریں۔
^ پیراگراف 19 لوئی نام کلووِس سے مشتق ہے اور فرانس کے ۱۹ بادشاہوں (لوئی ہفتم اور لوئی فلپ سمیت) کے نام اس پر رکھے گئے ہیں۔
[صفحہ ۲۷ پر نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
سیکسن
دریائےرائن
دریائےسوم
سوئسنس
ریمز
پیرس
گال
دریائےلوار
ویلیول
پوٹیئرز
پرینینر
غربیگاتھ
روم
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
چودھویں صدی کے ایک مخطوطے میں کلووِس کے بپتسمے کی تصویرکشی
[تصویر کا حوالہ]
Cliché Bibliothèque nationale de France, Paris ©
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
فرانس میں ریمز کیتھیڈرل کے باہر اپنے بپتسمے پر کلووِس (درمیان میں) کا مجسمہ
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
کلووِس کے بپتسمے کی یادگار پر جان پال دوم کا دورۂفرانس اختلاف کا باعث بنا