مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آپ تنہائی پر غالب آ سکتے ہیں

آپ تنہائی پر غالب آ سکتے ہیں

آپ تنہائی پر غالب آ سکتے ہیں

کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اُس نے کبھی بھی تنہائی کے درد کا تجربہ نہیں کِیا؟‏ مختلف عنصر ہمیں تنہا محسوس کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔‏ بالخصوص غیرشادی‌شُدہ،‏ بیوہ یا مُطلّقہ عورتیں شدید تنہائی کا شکار ہو سکتی ہیں۔‏

مثال کے طور پر،‏ فران‌سیس نامی ایک نوجوان مسیحی خاتون بیان کرتی ہے:‏ ”‏جب مَیں ۲۳ سال کی عمر کو پہنچی تو مجھے یوں لگا کہ میری تمام سہیلیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور مَیں تنہا رہ گئی ہوں۔‏“‏ * بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ تنہائی کا احساس بھی بڑھ سکتا ہے اور شادی کے امکانات زیادہ محدود ہو سکتے ہیں۔‏ سینڈرا جو اب چالیس کے دہے میں ہے تسلیم کرتی ہے،‏ ”‏مَیں غیرشادی‌شُدہ نہیں رہنا چاہتی تھی اور اگر موقع ملا تو مَیں اب بھی شادی کرنا چاہونگی۔‏“‏ پچاس کے دہے میں پہنچنے والی اینجلا بیان کرتی ہے:‏ ”‏مَیں نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کِیا تھا لیکن حالات کو یہی منظور تھا۔‏ مجھے جس علاقے میں سپیشل پائنیر کی تفویض ملی وہاں غیرشادی‌شُدہ بھائیوں کی تعداد بہت کم تھی۔‏“‏

قابلِ‌تعریف بات ہے کہ کئی مسیحی خواتین ”‏صرف خداوند میں“‏ شادی کرنے کی بابت یہوواہ کی نصیحت پر وفاداری سے عمل کرتے ہوئے شادی نہ کرنے کا انتخاب کرتی ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۷:‏۳۹‏)‏ بعض خواتین غیرشادی‌شُدہ زندگی سے اچھی مطابقت پیدا کر لیتی ہیں لیکن دیگر کو وقت کیساتھ ساتھ شادی اور بچوں کی خواہش کی شدت کا احساس ہوتا ہے۔‏ سینڈرا تسلیم کرتی ہے:‏ ”‏بیاہتا ساتھی نہ ہونے کے باعث میرے اندر ہمیشہ ایک جذباتی خلا رہتا ہے۔‏“‏

عمررسیدہ والدین کی دیکھ‌بھال جیسے دیگر عناصر بھی تنہائی کے اس احساس میں اضافہ کر سکتے ہیں۔‏ سینڈرا بیان کرتی ہے،‏ ”‏چونکہ میری شادی نہیں ہوئی اسلئے میرا خاندان مجھ سے عمررسیدہ والدین کی دیکھ‌بھال کرنے کی توقع کرتا ہے۔‏ اگرچہ ہم چھ بہن‌بھائی ہیں تو بھی مَیں نے ۲۰ سال تک تنہا یہ ذمہ‌داری پوری کی ہے۔‏ میری حمایت کرنے والے شوہر کی موجودگی نے یقیناً میری زندگی کو آسان بنا دیا ہوتا۔‏“‏

فران‌سیس ایک اَور عنصر کا ذکر کرتی ہے جو اُسکی تنہائی میں اضافہ کرتا ہے۔‏ وہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏بعض‌اوقات لوگ مجھ سے براہِ‌راست سوال کرتے ہیں،‏ ’‏تم نے شادی کیوں نہیں کی؟‏‘‏ ایسا تبصرہ مجھے احساس دلاتا ہے کہ میری شادی نہ ہونا میری اپنی غلطی ہے۔‏ مَیں جس شادی کی تقریب پر حاضر ہوتی ہوں کوئی نہ کوئی مجھ سے یہ خوفناک سوال ضرور کرتا ہے،‏ ’‏آپ شادی کب کرینگی؟‏‘‏ اور مَیں سوچنے لگتی ہوں،‏ ’‏اگر روحانی سوچ رکھنے والے بھائی مجھ میں دلچسپی نہیں لیتے تو اسکا مطلب ہے کہ شاید مجھ میں مسیحی خوبیاں موجود نہیں یا پھر مَیں خوبصورت نہیں ہوں۔‏‘‏ “‏

تنہائی اور اکیلےپن کے احساسات پر کیسے غالب آیا جا سکتا ہے؟‏ کیا دوسرے اس سلسلے میں کوئی مدد کر سکتے ہیں؟‏

یہوواہ پر توکل رکھیں

زبور نویس نے گیت گایا:‏ ”‏اپنا بوجھ [‏یہوواہ]‏ پر ڈالدے۔‏ وہ تجھے سنبھایگا۔‏ وہ صادق کو کبھی جنبش نہ کھانے دیگا۔‏“‏ (‏زبور ۵۵:‏۲۲‏)‏ عبرانی متن میں لفظ ”‏بوجھ“‏ کے لغوی معنی ”‏حصہ“‏ ہیں اور یہ اُن فکروں اور پریشانیوں کا حوالہ دیتا ہے جو زندگی کے دوران ہمارے حصے میں آتی ہیں۔‏ یہوواہ کسی بھی انسان سے زیادہ اس بوجھ سے واقف ہے اور وہ ہمیں اس سے نپٹنے کیلئے درکار قوت عطا کرتا ہے۔‏ یہوواہ خدا پر توکل نے اینجلا کی تنہائی کے احساس سے نپٹنے میں مدد کی تھی۔‏ اپنی کُل‌وقتی خدمت کا حوالہ دیتے ہوئے وہ یاد کرتی ہے:‏ ”‏جب مَیں نے پائنیر خدمت شروع کی تو میری ساتھی اور مَیں قریبی کلیسیا سے کافی دُور رہتے تھے۔‏ ہم نے یہوواہ پر پورا توکل کرنا سیکھ لیا اور اس سہارے نے زندگی‌بھر میری مدد کی ہے۔‏ جب منفی خیالات کا سامنا ہوتا ہے تو مَیں یہوواہ سے بات‌چیت کرتی ہوں اور وہ میری مدد کرتا ہے۔‏ زبور ۲۳ نے ہمیشہ مجھے بڑی تسلی بخشی ہے اور مَیں اکثر اسے پڑھتی ہوں۔‏“‏

پولس رسول نے ایک قابلِ‌ذکر بوجھ برداشت کِیا تھا۔‏ اُس نے کم‌ازکم تین مواقع پر ’‏خداوند سے التماس کی کہ یہ کانٹا اُس سے دُور ہو جائے۔‏‘‏ پولس کی معجزانہ طور پر مدد نہیں کی گئی لیکن اُس سے وعدہ کِیا گیا کہ خدا کا فضل اُسے محفوظ رکھیگا۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۲:‏۷-‏۹‏)‏ پولس نے یہ بھی جان لیا کہ اطمینان کیسے حاصل کِیا جا سکتا ہے۔‏ بعدازاں اُس نے لکھا:‏ ”‏ہر ایک بات اور سب حالتوں میں مَیں نے سیر ہونا بھوکا رہنا اور بڑھنا گھٹنا سیکھا ہے۔‏ جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔‏“‏—‏فلپیوں ۴:‏۱۲،‏ ۱۳‏۔‏

جب ایک شخص حوصلہ‌شکنی یا تنہائی کا شکار ہوتا ہے تو وہ خدا سے طاقت کیسے حاصل کر سکتا ہے؟‏ پولس نے لکھا:‏ ”‏کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔‏ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھیگا۔‏“‏ (‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ سینڈرا اس نصیحت پر عمل کرتی ہے۔‏ وہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏غیرشادی‌شُدہ ہونے کے باعث مَیں اپنا بیشتر وقت تنہا گزارتی ہوں۔‏ اس سے مجھے یہوواہ سے دُعا کرنے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔‏ مَیں اُس کے بہت قریب محسوس کرتی ہوں اور اپنے مسائل اور خوشیوں کی بابت اُس سے بِلاجھجھک بات‌چیت کر سکتی ہوں۔‏“‏ فران‌سیس بیان کرتی ہے:‏ ”‏منفی خیالات کا تنہا مقابلہ کرنا ایک مستقل جدوجہد ہے۔‏ لیکن بِلاہچکچاہٹ یہوواہ کیساتھ اپنے احساسات کی بابت بات‌چیت کرنے سے میری بڑی مدد ہوتی ہے۔‏ مجھے یقین ہے کہ یہوواہ ہر اُس بات میں دلچسپی رکھتا ہے جو میری روحانی اور جذباتی فلاح کو متاثر کر سکتی ہے۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۵‏۔‏

‏”‏ایک دوسرے کا بار اُٹھاؤ“‏

مسیحی برادری کے اندر ضروری نہیں کہ اکیلے ہی بوجھ برداشت کِیا جائے۔‏ پولس نے نصیحت کی:‏ ”‏تم ایک دوسرے کا بار اُٹھاؤ اور یوں مسیح کی شریعت کو پورا کرو۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۲‏)‏ ساتھی مسیحیوں کے ساتھ رفاقت کے ذریعے ہم حوصلہ‌افزائی کی ”‏اچھی بات“‏ حاصل کرکے تنہائی کا بار ہلکا کر سکتے ہیں۔‏—‏امثال ۱۲:‏۲۵‏۔‏

اسرائیل کے قاضی افتاح کی بیٹی کی بابت صحیفائی بیان پر غور کریں۔‏ افتاح نے اپنے دُشمن بنی‌عمون کی فوجوں پر فتح حاصل کرنے سے پہلے اپنے استقبال کے لئے باہر آنے والے پہلے خاندانی فرد کو یہوواہ کے حضور دے دینے کا وعدہ کِیا۔‏ یہ اُسکی اپنی بیٹی ہی ثابت ہوئی تھی۔‏ (‏قضاۃ ۱۱:‏۳۰،‏ ۳۱،‏ ۳۴-‏۳۶‏)‏ اگرچہ اسکا مطلب کنواری رہنا اور خاندان بڑھانے کی اپنی قدرتی خواہش کو قربان کرنا تھا توبھی افتاح کی بیٹی اس وعدے کو پورا کرنے اور اپنی باقی زندگی سیلا کے مقدِس میں خدمت کرنے کے لئے تیار تھی۔‏ کیا اُسکی قربانی رائیگاں گئی؟‏ اسکے برعکس:‏ ”‏سال‌بسال اسرائیلی عورتیں جاکر برس میں چار دن تک افتاؔح جلعادی کی بیٹی کی یادگاری کرتی تھیں۔‏“‏ (‏قضاۃ ۱۱:‏۴۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ تعریف حوصلہ‌افزائی کا سبب بنتی ہے۔‏ لہٰذا ہمیں مستحق لوگوں کی تعریف کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں برتنی چاہئے۔‏

ہم یسوع کی مثال پر غور کرنے سے اچھا کرتے ہیں۔‏ یہودی دستور کے مطابق اگرچہ مرد عورتوں سے بات‌چیت نہیں کرتے تھے توبھی یسوع مریم اور مرتھا کیساتھ گفتگو کِیا کرتا تھا۔‏ وہ شاید بیوہ یا غیرشادی‌شُدہ تھیں۔‏ یسوع چاہتا تھا کہ وہ دونوں اُسکی رفاقت کے روحانی فوائد سے مستفید ہوں۔‏ (‏لوقا ۱۰:‏۳۸-‏۴۲‏)‏ یسوع کے نمونے کی نقل میں ہم بھی اپنی غیرشادی‌شُدہ روحانی بہنوں کو سماجی تقریبات میں شامل اور ان کیساتھ منادی میں شرکت کا بندوبست بنا سکتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۱۲:‏۱۳‏)‏ کیا وہ ایسی توجہ کی قدر کرتی ہیں؟‏ ایک بہن نے بیان کِیا:‏ ”‏مَیں جانتی ہوں کہ بھائی مجھ سے محبت کرتے اور مجھے عزیز جانتے ہیں لیکن جب وہ مجھ میں ذاتی دلچسپی لیتے ہیں تو مَیں نہایت شکرگزار ہوتی ہوں۔‏“‏

سینڈرا بیان کرتی ہے،‏ ”‏ہمارا کوئی خاندان نہیں لہٰذا ہم محبت دکھائے جانے اور روحانی بہن‌بھائیوں کے خاندان کا حصہ ہونے کی زیادہ ضرورت محسوس کرتے ہیں۔‏“‏ واضح طور پر،‏ یہوواہ ایسے لوگوں کیلئے فکر رکھتا ہے اور جب ہم اُن کیلئے محبت اور قدردانی ظاہر کرتے ہیں تو ہم دراصل یہوواہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۵:‏۶،‏ ۷‏)‏ ایسی فکرمندی ناقابلِ‌توجہ نہیں رہیگی اسلئےکہ ”‏جو مسکینوں پر رحم کرتا ہے [‏یہوواہ]‏ کو قرض دیتا ہے اور وہ [‏یہوواہ خدا سے]‏ اپنی نیکی کا بدلہ پائیگا۔‏“‏—‏امثال ۱۹:‏۱۷‏۔‏

‏”‏ہر شخص اپنا ہی بوجھ اُٹھائیگا“‏

اگرچہ دوسرے مدد دے سکتے ہیں اور اُن کی مدد حوصلہ‌افزائی کا باعث بھی بنتی ہے توبھی ”‏ہر شخص اپنا ہی بوجھ اُٹھائے گا۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۵‏)‏ تاہم تنہائی کا بوجھ اُٹھاتے وقت ہمیں بعض خطرات سے باخبر رہنا چاہئے۔‏ مثال کے طور پر،‏ اگر ہم دوسروں سے بات‌چیت کرنا بالکل بند کر دیتے ہیں تو تنہائی ہم پر غالب آ سکتی ہے۔‏ اس کے برعکس،‏ ہم محبت کے ذریعے تنہائی پر غلبہ پا سکتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۷،‏ ۸‏)‏ اپنے حالات سے قطع‌نظر فیاضی دکھانا اور دوسروں کے دُکھ‌درد میں شریک ہونا خوشی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۳۵‏)‏ ایک جفاکش پائنیر بہن کہتی ہے،‏ ”‏میرے پاس تنہائی کی بابت فکرمند رہنے کا کوئی وقت نہیں۔‏ جب مَیں خود کو مصروف اور یہوواہ کی خدمت کرنے کے لائق محسوس کرتی ہوں تو مَیں تنہا محسوس نہیں کرتی۔‏“‏

ہمیں اس بات کا بھی دھیان رکھنا چاہئے کہ تنہائی کے زیرِاثر ہم کوئی غیردانشمندانہ رشتہ نہ قائم کر لیں۔‏ مثال کے طور،‏ اگر ہم شادی کی خواہش سے مغلوب ہوکر کسی بےایمان کیساتھ شادی کرکے مختلف مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور بالخصوص ایسے جوئے سے گریز کرنے کی بابت صحیفائی مشورت کو نظرانداز کرتے ہیں تو یہ کتنے افسوس کی بات ہوگی!‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۴‏)‏ ایک مُطلّقہ مسیحی خاتون نے بیان کِیا:‏ ”‏کسی غلط شخص کیساتھ شادی ہو جانا غیرشادی‌شُدہ ہونے سے بھی بدتر ہے۔‏“‏

جو مسئلہ حل نہیں ہو سکتا اُسے کم‌ازکم کچھ وقت کے لئے برداشت تو کِیا جا سکتا ہے۔‏ خدا کی مدد سے تنہائی کے احساس کو برداشت کِیا جا سکتا ہے۔‏ دُعا ہے کہ ہم یہوواہ کی خدمت جاری رکھتے ہوئے پُراعتماد رہیں کہ ایک دن ہماری تمام ضروریات بہترین طریقے سے پوری کی جائینگی۔‏—‏زبور ۱۴۵:‏۱۶‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 متذکرہ خواتین کے نام بدل دئے گئے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویریں]‏

فیاضی اور دوسروں کے دُکھ‌درد میں شریک ہونے سے تنہائی پر غلبہ پایا جا سکتا ہے