مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مسیح اپنی کلیسیا کی پیشوائی کرتا ہے

مسیح اپنی کلیسیا کی پیشوائی کرتا ہے

مسیح اپنی کلیسیا کی پیشوائی کرتا ہے

‏”‏دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔‏“‏ —‏متی ۲۸:‏۲۰‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ (‏ا)‏ قیامت‌یافتہ یسوع نے شاگرد بنانے کا حکم دیتے وقت اپنے شاگردوں کے ساتھ کیا وعدہ کِیا؟‏ (‏ب)‏ یسوع نے ابتدائی مسیحی کلیسیا کی پُرجوش راہنمائی کیسے کی؟‏

آسمان پر جانے سے پہلے ہمارے پیشوا،‏ قیامت‌یافتہ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں پر ظاہر ہو کر کہا:‏ ”‏آسمان اور زمین کا کُل اِختیار مجھے دیا گیا ہے۔‏ پس تم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح‌اُلقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔‏ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا مَیں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔‏“‏—‏متی ۲۳:‏۱۰؛‏ متی ۲۸:‏۱۸-‏۲۰‏۔‏

۲ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو شاگرد بنانے کا زندگی‌بخش کام سونپنے کے علاوہ اُن کیساتھ رہنے کا بھی وعدہ کِیا۔‏ بائبل کی کتاب اعمال میں درج ابتدائی مسیحیت کی تاریخ بِلاتذبذب یہ ظاہر کرتی ہے کہ مسیح نے اپنے خداداد اختیار کو قائم‌کردہ نئی کلیسیا کی پیشوائی کیلئے استعمال کِیا۔‏ اُس نے اپنے وعدے کے مطابق اپنے شاگردوں کو مضبوط کرنے اور اُنکی کوششوں کی راہنمائی کرنے کیلئے ”‏مددگار“‏—‏رُوح‌اُلقدس—‏بھیجا۔‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۷؛‏ اعمال ۲:‏۴،‏ ۳۳؛‏ ۱۳:‏۲-‏۴؛‏ ۱۶:‏۶-‏۱۰‏)‏ قیامت‌یافتہ یسوع نے اپنے شاگردوں کی مدد کیلئے اپنے زیرِاختیار فرشتوں کو استعمال کِیا۔‏ (‏اعمال ۵:‏۱۹؛‏ ۸:‏۲۶؛‏ ۱۰:‏۳-‏۸،‏ ۲۲؛‏ ۱۲:‏۷-‏۱۱؛‏ ۲۷:‏۲۳،‏ ۲۴؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۲۲‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ ہمارے پیشوا نے کلیسیا کو ہدایت فراہم کرنے کی خاطر لائق اشخاص کو گورننگ باڈی کے طور پر خدمت کرنے کے لئے مقرر کِیا۔‏—‏اعمال ۱:‏۲۰،‏ ۲۴-‏۲۶؛‏ ۶:‏۱-‏۶؛‏ ۸:‏۵،‏ ۱۴-‏۱۷‏۔‏

۳.‏ اس مضمون میں کونسے سوالات زیرِبحث آئینگے؟‏

۳ تاہم ہمارے زمانے،‏ ”‏دُنیا کے آخر“‏ کی بابت کیا ہے؟‏ یسوع مسیح آجکل مسیحی کلیسیا کی پیشوائی کیسے کر رہا ہے؟‏ نیز ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم اس پیشوائی کو قبول کرتے ہیں؟‏

مالک کا دیانتدار نوکر

۴.‏ (‏ا)‏ کون لوگ ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ جماعت کو تشکیل دیتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ مالک نے کونسی چیز نوکر کے سپرد کی ہے؟‏

۴ اپنی موجودگی کے نشان کی بابت پیشینگوئی کرتے ہوئے یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏وہ دیانتدار اور عقلمند نوکر کونسا ہے جسے مالک نے اپنے نوکر چاکروں پر مقرر کِیا تاکہ وقت پر اُن کو کھانا دے؟‏ مبارک ہے وہ نوکر جسے اُس کا مالک آکر اَیسا ہی کرتے پائے۔‏ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اُسے اپنے سارے مال کا مختار کر دے گا۔‏“‏ (‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏)‏ ”‏مالک“‏ ہمارا پیشوا یسوع مسیح ہے اور اُس نے تمام زمینی معاملات کو ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏—‏زمین پر ممسوح مسیحیوں کی جماعت—‏کے سپرد کِیا ہے۔‏

۵،‏ ۶.‏ (‏ا)‏ یوحنا کو بخشی گئی رویا میں ”‏سونے کے سات چراغدان“‏ اور ”‏سات ستاروں“‏ سے کس چیز کی تصویرکشی کی گئی ہے؟‏ (‏ب)‏ یسوع کے دہنے ہاتھ میں ”‏سات ستاروں“‏ کی حقیقت سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

۵ بائبل کی کتاب مکاشفہ ظاہر کرتی ہے کہ دیانتدار اور عقلمند نوکر براہِ‌راست یسوع مسیح کے زیرِاختیار ہیں۔‏ یوحنا رسول نے ”‏خداوند کے دن“‏ کی رویا میں ”‏سونے کے سات چراغدان دیکھے۔‏ اور اُن چراغدانوں کے بیچ میں آدمزاد سا ایک شخص دیکھا“‏ جس کے ”‏ہاتھ میں سات ستارے تھے۔‏“‏ یوحنا کو رویا کا مطلب سمجھاتے ہوئے یسوع نے کہا:‏ ”‏اُن سات ستاروں کا بھید جنہیں تُو نے میرے دہنے ہاتھ میں دیکھا تھا اور اُن سونے کے سات چراغدانوں کا۔‏ وہ سات ستارے تو سات کلیسیاؤں کے فرشتے ہیں اور وہ سات چراغدان کلیسیائیں ہیں۔‏“‏—‏مکاشفہ ۱:‏۱،‏ ۱۰-‏۲۰‏۔‏

۶ ‏”‏سونے کے سات چراغدان“‏ درحقیقت،‏ ”‏خداوند کے دن“‏ میں تشکیل پانے والی تمام سچی مسیحی کلیسیاؤں کی عکاسی کرتے ہیں جس کی شروعات ۱۹۱۴ میں ہوئی۔‏ تاہم ”‏سات ستاروں“‏ کی بابت کیا ہے؟‏ اوّل،‏ یہ پہلی صدی کی کلیسیاؤں کی دیکھ‌بھال کرنے والے تمام روح سے پیداشُدہ،‏ ممسوح نگہبانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔‏ * نگہبان یسوع کے دہنے ہاتھ—‏اُس کے زیرِاختیار اور راہنمائی کے تحت تھے۔‏ جی‌ہاں،‏ یسوع مسیح نے نوکر جماعت کے ان اشخاص کی ایک گروہ کے طور پر پیشوائی کی تھی۔‏ تاہم اس وقت ممسوح نگہبانوں کی تعداد کم ہو گئی ہے۔‏ مسیح دُنیابھر میں یہوواہ کے گواہوں کی ۰۰۰،‏۹۳ سے زائد کلیسیاؤں کی پیشوائی کیسے کرتا ہے؟‏

۷.‏ (‏ا)‏ یسوع دُنیابھر کی کلیسیاؤں میں پیشوائی کے کام کیلئے گورننگ باڈی کو کیسے استعمال کر رہا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ مسیحی نگہبانوں کو رُوح‌اُلقدس کے ذریعے مقرر کِیا جاتا ہے؟‏

۷ پہلی صدی کی طرح ممسوح نگہبانوں میں سے لائق اشخاص کا ایک چھوٹا گروہ گورننگ باڈی کے طور پر خدمت کرتے ہوئے عقلمند اور دیانتدار نوکر جماعت کی نمائندگی کرتا ہے۔‏ ہمارا پیشوا مقامی کلیسیاؤں میں ممسوح جماعت یا دوسری بھیڑوں میں سے بزرگ مقرر کرنے کیلئے اس گورننگ باڈی کو استعمال کرتا ہے۔‏ اس سلسلے میں رُوح‌اُلقدس کا کردار بنیادی ہے جسے استعمال کرنے کا اختیار یہوواہ نے یسوع کو بخشا ہے۔‏ (‏اعمال ۲:‏۳۲،‏ ۳۳‏)‏ سب سے پہلے ان نگہبانوں کو رُوح‌اُلقدس کے الہام سے تحریرکردہ خدا کے کلام میں درج تقاضوں پر پورا اُترنا چاہئے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۷؛‏ ططس ۱:‏۵-‏۹؛‏ ۲-‏پطرس ۱:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ انکی سفارشات اور تقرریاں دُعا اور رُوح‌اُلقدس کی راہنمائی میں کی جاتی ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ مقررکردہ اشخاص روح کے پھل پیدا کرنے کا ثبوت بھی دیتے ہیں۔‏ (‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏)‏ پس پولس کی نصیحت کا اطلاق ممسوح اور دیگر تمام بزرگوں پر یکساں ہوتا ہے:‏ ”‏اپنی اور اُس سارے گلّہ کی خبرداری کرو جسکا رُوح‌اُلقدس نے تمہیں نگہبان ٹھہرایا۔‏“‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۸‏)‏ یہ مقررہ اشخاص گورننگ باڈی کی طرف سے ہدایت حاصل کرتے اور خوشی سے کلیسیا کی گلّہ‌بانی کرتے ہیں۔‏ اسطرح مسیح اب ہمارے ساتھ رہ کر گرمجوشی سے کلیسیا کی پیشوائی کر رہا ہے۔‏

۸.‏ مسیح فرشتوں کے ذریعے اپنے شاگردوں کی راہنمائی کیسے کر رہا ہے؟‏

۸ آجکل یسوع اپنے شاگردوں کی راہنمائی کیلئے حقیقی فرشتوں کو بھی استعمال کرتا ہے۔‏ گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل کے مطابق،‏ کٹائی کا وقت ”‏دُنیا کے آخر“‏ پر شروع ہوگا۔‏ مالک اس کٹائی کے کام میں کسے استعمال کریگا؟‏ مسیح نے بیان کِیا:‏ ”‏کاٹنے والے فرشتے ہیں۔‏“‏ اُس نے مزید بیان کِیا:‏ ”‏ابنِ‌آدؔم اپنے فرشتوں کو بھیجیگا اور وہ سب ٹھوکر کھلانے والی چیزوں اور بدکاروں کو اُسکی بادشاہی میں سے جمع کرینگے۔‏“‏ (‏متی ۱۳:‏۳۷-‏۴۱‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ جسطرح ملکوتی راہنمائی کی مدد سے فلپس نے حبشی خوجہ کی تلاش کی،‏ اسی طرح آجکل بھی اس بات کی کافی شہادت ملتی ہے کہ مسیح خلوصدل اشخاص کی تلاش کرنے میں سچے مسیحیوں کے کام کی راہنمائی کیلئے اپنے فرشتوں کو استعمال کر رہا ہے۔‏—‏اعمال ۸:‏۲۶،‏ ۲۷؛‏ مکاشفہ ۱۴:‏۶‏۔‏

۹.‏ (‏ا)‏ آجکل مسیح کونسے ذریعے سے مسیحی کلیسیا کی پیشوائی کر رہا ہے؟‏ (‏ب)‏ مسیح کی پیشوائی سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہمیں کس بات کو مدِنظر رکھنا چاہئے؟‏

۹ یہ جاننا کسقدر ہمت‌افزا ہے کہ یسوع مسیح آجکل گورننگ باڈی،‏ رُوح‌اُلقدس اور فرشتوں کے ذریعے اپنے شاگردوں کو راہنمائی فراہم کرتا ہے!‏ اگر یہوواہ کے بعض پرستاروں کا اذیت یا دیگر وجوہات کی بِنا پر کچھ عرصے کیلئے گورننگ باڈی سے رابطہ منقطع بھی ہو جاتا ہے توبھی مسیح رُوح‌اُلقدس اور ملکوتی مدد سے اُنکی راہنمائی کرتا رہتا ہے۔‏ تاہم،‏ ہم اُسکی پیشوائی قبول کرنے سے ہی اُس سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔‏ چنانچہ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم مسیح کی پیشوائی قبول کرتے ہیں؟‏

‏”‏فرمانبردار اور تابع رہو“‏

۱۰.‏ ہم کلیسیا میں مقررکردہ بزرگوں کیلئے احترام کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۱۰ ہمارے پیشوا نے ”‏بعض کو مبشر اور بعض کو چرواہا اور اُستاد“‏ بنا کر کلیسیاؤں کو ”‏آدمیوں [‏کی صورت میں]‏ انعام“‏ کے طور پر دے دیا ہے۔‏ (‏افسیوں ۴:‏۸،‏ ۱۱،‏ ۱۲‏)‏ ان کیلئے ہمارے رُجحان اور کاموں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم مسیح کی پیشوائی کو کس طرح قبول کرتے ہیں۔‏ مسیح کی طرف سے مقرر کئے جانے والے روحانی طور پر لائق اشخاص کیلئے ’‏شکرگزاری‘‏ ظاہر کرنا موزوں ہے۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۵‏)‏ وہ ہمارے احترام کے لائق بھی ہیں۔‏ پولس رسول نے لکھا،‏ ”‏جو بزرگ اچھا انتظام کرتے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ دوچند عزت کے لائق سمجھے جائیں۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۵:‏۱۷‏)‏ ہم بزرگوں یا نگہبانوں کیلئے شکرگزاری اور عزت کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ پولس جواب دیتا ہے:‏ ”‏اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہو۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۱۷‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہمیں اُنکے فرمانبردار اور تابع رہنے نیز اُنکی اطاعت کرنے کی ضرورت ہے۔‏

۱۱.‏ بزرگوں کے بندوبست کیلئے احترام اپنے بپتسمے کی مطابقت میں عمل کرنے کا ایک پہلو کیوں ہے؟‏

۱۱ ہمارا پیشوا کامل ہے۔‏ تاہم،‏ انعام کی صورت میں دئے جانے والے اشخاص کامل نہیں ہیں۔‏ لہٰذا بعض‌اوقات اُن سے غلطی ہو سکتی ہے۔‏ تاہم،‏ مسیح کے اس بندوبست کے لئے وفادار رہنا نہایت ضروری ہے۔‏ درحقیقت اپنی مخصوصیت اور بپتسمے کی مطابقت میں عمل کرنے کا مطلب ہے کہ ہم کلیسیا کے اندر اختیار کی قدر کرتے اور خوشی سے اسکی اطاعت کرتے ہیں۔‏ ”‏رُوح‌اُلقدس کے نام سے“‏ اپنے بپتسمے کے ذریعے ہم اس بات کا علانیہ اقرار کرتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ رُوح‌اُلقدس کیا ہے اور یہوواہ کے مقاصد میں اسکا کِیا کردار ہے۔‏ (‏متی ۲۸:‏۱۹‏)‏ ایسا بپتسمہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم مسیح کے شاگردوں میں کارفرما روح کیساتھ تعاون کرتے ہوئے اسکی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے تمام کاموں سے گریز کرتے ہیں۔‏ جب رُوح‌اُلقدس بزرگوں کی سفارش اور تقرری میں اہم کردار ادا کرتی ہے تو پھر اگر ہم کلیسیا کے بزرگوں کیساتھ تعاون نہ کریں تو کیا ہم اپنی مخصوصیت کیلئے وفادار رہتے ہیں؟‏

۱۲.‏ یہوداہ اختیار کیلئے احترام کی کمی سے متعلق کونسی مثالوں کا حوالہ دیتا ہے اور اِن سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

۱۲ صحائف میں ایسی مثالیں موجود ہیں جو ہمیں فرمانبردار اور تابع رہنے کی اہمیت سکھاتی ہیں۔‏ کلیسیا میں مقررہ آدمیوں کے خلاف بڑبڑانے والوں کا حوالہ دیتے ہوئے شاگرد یہوداہ نے تین انتباہی مثالوں کو نمایاں کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏اِن پر افسوس!‏ کہ یہ قاؔئن کی راہ پر چلے اور مزدوری کے لئے بڑی حرص سے بلعاؔم کی سی گمراہی اختیار کی اور قورح کی طرح مخالفت کرکے ہلاک ہوئے۔‏“‏ (‏یہوداہ ۱۱‏)‏ قائن نے یہوواہ کی پُرمحبت نصیحت کو نظرانداز کرتے ہوئے نفرت کی روش اختیار کی اور نتیجتاً قتل کا مُرتکب ہوا۔‏ (‏پیدایش ۴:‏۴-‏۸‏)‏ بلعام نے بار بار الہٰی آگاہیاں حاصل کرنے کے باوجود،‏ مالی اجر کیلئے خدا کے لوگوں پر لعنت کرنے کی کوشش کی۔‏ (‏گنتی ۲۲:‏۵-‏۲۸،‏ ۳۲-‏۳۴؛‏ استثنا ۲۳:‏۵‏)‏ اسرائیل میں قورح کو ایک عمدہ ذمہ‌داری سونپی گئی تھی لیکن وہ اس سے مطمئن نہیں تھا۔‏ اُس نے خدا کے خادم اور زمین پر سب سے فروتن شخص،‏ موسیٰ کے خلاف بغاوت کو ہوا دی۔‏ (‏گنتی ۱۲:‏۳؛‏ ۱۶:‏۱-‏۳،‏ ۳۲،‏ ۳۳‏)‏ قائن،‏ بلعام اور قورح پر آفت آئی۔‏ یہ مثالیں واضح طور پر ہمیں ایسے لوگوں کی نصیحت پر دھیان دینے اور اُنکا احترام کرنے کی تعلیم دیتی ہیں جنہیں یہوواہ نے ذمہ‌داری کے عہدوں پر فائز کِیا ہے!‏

۱۳.‏ یسعیاہ نبی نے بزرگوں کے بندوبست کی اطاعت کرنے والوں کیلئے کن برکات کی پیشینگوئی کی؟‏

۱۳ مسیحی کلیسیا میں ہمارے پیشوا کی طرف سے قائم‌کردہ نگرانی کے اس عظیم بندوبست سے کون مستفید نہیں ہونا چاہیگا؟‏ یسعیاہ نبی نے ایسے بندوبست سے حاصل ہونے والی برکات کی پیشینگوئی کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏دیکھ ایک بادشاہ صداقت سے سلطنت کرے گا اور شاہزادے عدالت سے حکمرانی کریں گے۔‏ اور ایک شخص آندھی سے پناہ‌گاہ کی مانند ہوگا اور طوفان سے چھپنے کی جگہ اور خشک زمین میں پانی کی ندیوں کی مانند اور ماندگی کی زمین میں بڑی چٹان کے سایہ کی مانند ہوگا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۳۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ تمام بزرگ تحفظ اور پناہ کی ایسی ”‏جگہ“‏ ثابت ہوتے ہیں۔‏ اگرچہ اختیار کی اطاعت مشکل ہوتی ہے توبھی ہمیں دُعائیہ غوروفکر کے ساتھ کلیسیا کے اندر اختیار کے الہٰی بندوبست کے فرمانبردار اور تابع رہنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‏

بزرگ مسیح کی پیشوائی کی اطاعت کیسے کرتے ہیں

۱۴،‏ ۱۵.‏ کلیسیا میں پیشوائی کرنے والے مسیح کی قیادت کے لئے اطاعت کیسے ظاہر کرتے ہیں؟‏

۱۴ تمام مسیحیوں—‏بالخصوص بزرگوں—‏کو مسیح کی پیشوائی کی اطاعت کرنی چاہئے۔‏ نگہبان یا بزرگ کلیسیا میں کچھ اختیار رکھتے ہیں۔‏ لیکن وہ ساتھی ایمانداروں کی زندگیوں میں ’‏ایمان کے بارے میں اُن پر حکومت‘‏ نہیں جتاتے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۴‏)‏ بزرگ یسوع کے الفاظ پر دھیان دیتے ہیں:‏ ”‏تم جانتے ہو کہ غیرقوموں کے سردار اُن پر حکم چلاتے اور امیر اُن پر اختیار جتاتے ہیں۔‏ تم میں اَیسا نہ ہوگا۔‏“‏ (‏متی ۲۰:‏۲۵-‏۲۷‏)‏ بزرگ اپنی ذمہ‌داری پوری کرتے ہوئے خلوصدلی سے دوسروں کی خدمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏

۱۵ مسیحیوں کو نصیحت کی گئی ہے:‏ ”‏جو تمہارے پیشوا تھے .‏ .‏ .‏ اُنہیں یاد رکھو اور اُن کی زندگی کے انجام پر غور کرکے اُن جیسے ایماندار ہو جاؤ۔‏“‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۷‏)‏ بزرگوں کی پیشواؤں کے طور پر تقلید نہیں کی جاتی۔‏ یسوع نے بیان کِیا:‏ ”‏تمہارا ہادی ایک ہی ہے یعنی مسیح۔‏“‏ (‏متی ۲۳:‏۱۰‏)‏ بزرگوں کے ایمان کی نقل کی جانی چاہئے کیونکہ وہ ہمارے اصل پیشوا مسیح کے نمونہ پر چلتے ہیں۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۱‏)‏ بعض ایسے طریقوں پر غور کریں جن کے ذریعے بزرگ کلیسیا کے اندر اپنے تعلقات میں مسیح کی نقل کرتے ہیں۔‏

۱۶.‏ اپنے خداداد اختیار کے باوجود یسوع اپنے شاگردوں کیساتھ کیسے پیش آتا تھا؟‏

۱۶ یسوع ناکامل انسانوں سے افضل ہونے کی وجہ سے اپنے باپ کی طرف سے منفرد اختیار حاصل کرنے کے باوجود اپنے شاگردوں کیساتھ فروتنی سے پیش آتا تھا۔‏ اُس نے اپنے سننے والوں کو اپنے علم سے متاثر کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے اُن کیلئے ہمدردی اور رحم ظاہر کِیا۔‏ (‏متی ۱۵:‏۳۲؛‏ ۲۶:‏۴۰،‏ ۴۱؛‏ مرقس ۶:‏۳۱‏)‏ اُس نے اپنے شاگردوں سے اُنکی قابلیت سے زیادہ کی توقع نہیں کی اور نہ ہی اُنہیں کوئی ایسی ذمہ‌داری سونپی جو وہ پوری نہ کر سکیں۔‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۱۲‏)‏ یسوع ”‏حلیم .‏ .‏ .‏ اور دل کا فروتن“‏ تھا۔‏ پس،‏ کوئی عجب نہیں کہ بہتیرے اُسکی رفاقت سے تازگی پاتے تھے۔‏—‏متی ۱۱:‏۲۸-‏۳۰‏۔‏

۱۷.‏ بزرگوں کو کلیسیا میں دوسروں کیساتھ اپنے تعلقات میں مسیح جیسی فروتنی کیسے ظاہر کرنی چاہئے؟‏

۱۷ اگر ہمارا پیشوا مسیح فروتنی کا مظاہرہ کرتا تھا تو کلیسیا میں پیشوائی کرنے والوں کو اَور بھی زیادہ ایسا کرنا چاہئے!‏ جی‌ہاں،‏ وہ اپنے خداداد اختیار کا غلط استعمال کرنے کی بابت محتاط رہتے ہیں۔‏ چنانچہ وہ ”‏اعلیٰ درجے کی تقریر“‏ سے دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱،‏ ۲‏)‏ اس کے برعکس،‏ وہ صحیفائی سچائی کو سادگی اور خلوصدلی سے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ بزرگ دوسروں سے اپنی توقعات میں اعتدال‌پسندی کا مظاہرہ کرتے اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔‏ (‏فلپیوں ۴:‏۵‏)‏ وہ ہمیشہ پُرمحبت طریقے سے اپنے بھائیوں کے ساتھ اپنے رویے کے سلسلے میں یہ یاد رکھتے ہیں کہ تمام لوگوں میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۸‏)‏ نیز کیا فروتن اور حلیم بزرگ حقیقت میں تازگی کا باعث نہیں بنتے؟‏ وہ واقعی ایسے ہی ثابت ہوتے ہیں۔‏

۱۸.‏ بزرگ بچوں کیساتھ یسوع کے رویے سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۸ یسوع عام لوگوں کیلئے بھی قابلِ‌رسائی تھا۔‏ جب اُسکے شاگردوں نے ”‏بچوں کو اُسکے پاس“‏ لانے سے لوگوں کو منع کِیا تو اُسکے جوابی‌عمل پر غور کریں۔‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏بچوں کو میرے پاس آنے دو۔‏ اُنکو منع نہ کرو۔‏“‏ پھر ”‏اُس نے اُنہیں اپنی گود میں لیا اور اُن پر ہاتھ رکھ کر اُنکو برکت دی۔‏“‏ (‏مرقس ۱۰:‏۱۳-‏۱۶‏)‏ یسوع شفیق اور مہربان تھا اور دوسرے اُس کی طرف راغب ہوتے تھے۔‏ لوگ یسوع سے خوفزدہ نہیں تھے۔‏ بچے بھی اُسکی موجودگی میں خوش رہتے تھے۔‏ بزرگ بھی قابلِ‌رسائی ہوتے ہیں اور جب وہ محبت اور مہربانی ظاہر کرتے ہیں تو دوسرے—‏بچے بھی—‏اُنکی رفاقت سے خوشی محسوس کرتے ہیں۔‏

۱۹.‏ ”‏مسیح کی عقل“‏ حاصل کرنے میں کیا شامل ہے اور یہ کیسی کوشش کا تقاضا کرتا ہے؟‏

۱۹ بزرگ جس حد تک یسوع مسیح کی نقل کر سکتے ہیں اسکا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اُسے کتنی اچھی طرح جانتے ہیں۔‏ پولس نے استفسار کِیا،‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی عقل کو کس نے جانا کہ اُس کو تعلیم دے سکے؟‏“‏ وہ مزید بیان کرتا ہے:‏ ”‏مگر ہم میں مسیح کی عقل ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۶‏)‏ مسیح کی عقل میں اُس کے سوچنے کے انداز اور اُس کی شخصیت کے تمام پہلوؤں سے اس حد تک واقف ہونا شامل ہے کہ ہم جان سکیں کہ کسی خاص صورتحال میں اُس کا ردِعمل کیسا ہوگا۔‏ اپنے پیشوا کو اتنی اچھی طرح جاننے کی بابت تصور کریں!‏ جی‌ہاں،‏ اس کے لئے اناجیلی بیانات پر پوری توجہ دینے اور باقاعدگی سے اپنے ذہنوں کو یسوع کی زندگی اور نمونے کی سمجھ سے معمور کرنے کی ضرورت ہے۔‏ جب بزرگ اس حد تک مسیح کی پیشوائی کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کلیسیا کے ارکان اُن کے ایمان کی نقل کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔‏ اس طرح بزرگ دوسروں کو خوشی سے اپنے پیشوا کے نقشِ‌قدم پر چلتا دیکھ کر تسکین حاصل کرتے ہیں۔‏

مسیح کی پیشوائی کے ماتحت رہیں

۲۰،‏ ۲۱.‏ موعودہ نئی دُنیا کے منتظر رہتے ہوئے ہمارا عزم کیا ہونا چاہئے؟‏

۲۰ مسیح کی پیشوائی کی اطاعت میں رہنا سب کے لئے ضروری ہے۔‏ اس نظام‌اُلعمل کے اختتام کے قریب ہماری حالت ۱۴۷۳ ق.‏س.‏ع.‏ میں موآب کے میدانوں کے اسرئیلیوں جیسی ہے۔‏ وہ موعودہ ملک کی دہلیز پر تھے جب موسیٰ کی معرفت خدا نے اعلان کِیا:‏ ”‏تُو [‏یشوع]‏ اس قوم کے ساتھ اُس ملک میں جائے گا جس کو [‏یہوواہ]‏ نے اُن کے باپ دادا سے قسم کھا کر دینے کو کہا تھا۔‏“‏ (‏استثنا ۳۱:‏۷،‏ ۸‏)‏ یشوع مقررکردہ پیشوا تھا۔‏ ملکِ‌موعود میں داخل ہونے کے لئے اسرائیلیوں کو یشوع کی پیشوائی کی اطاعت کرنی تھی۔‏

۲۱ بائبل ہمیں بتاتی ہے:‏ ”‏تمہارا ہادی ایک ہی ہے یعنی مسیح۔‏“‏ صرف مسیح موعودہ نئی دُنیا میں ہماری راہنمائی کرے گا جہاں راستبازی بسی رہے گی۔‏ (‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏)‏ لہٰذا زندگی کے تمام حلقوں میں اُس کی اطاعت کے لئے پُرعزم رہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 6 یہاں ”‏ستارے“‏ حقیقی فرشتوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔‏ یقیناً یسوع روحانی مخلوقات کے سلسلے میں معلومات درج کرنے کے لئے کسی انسان کو استعمال نہیں کرے گا۔‏ پس ”‏ستارے“‏ کلیسیا میں انسانی نگہبانوں یا بزرگوں کی نمائندگی کرتے ہیں جنہیں یسوع کے پیامبر خیال کِیا جاتا ہے۔‏ اُن کی تعداد کے لئے سات کا عدد خداداد مکملیت کی عکاسی کرتا ہے۔‏

کیا آپکو یاد ہے؟‏

‏• مسیح نے ابتدائی کلیسیا کی پیشوائی کیسے کی؟‏

‏• آجکل مسیح اپنی کلیسیا کی پیشوائی کیسے کر رہا ہے؟‏

‏• ہمیں کلیسیا میں پیشوائی کرنے والوں کی اطاعت کیوں کرنی چاہئے؟‏

‏• بزرگ کن طریقوں سے مسیح کو اپنا پیشوا ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

مسیح اپنی کلیسیا کی پیشوائی کرتا اور نگہبانوں کو اپنے دہنے ہاتھ میں رکھتا ہے

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویریں]‏

‏”‏اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہو“‏

‏[‏صفحہ ۱۸ پر تصویر]‏

یسوع شفیق اور قابلِ‌رسائی تھا۔‏ مسیحی بزرگ اُسکی مانند بننے کی کوشش کرتے ہیں